درزی۔۔۔عنبر عابر

تاریک کمرے پر سکوت طاری تھا اور جھاڑ جھنکار بالوں والا وہ ادھیڑ عمر شخص مسلسل اپنے کام میں مگن تھا۔گاہے گاہے وہ کھڑکی سے باہر نظر دوڑاتا جہاں شام کا ملگجا چھایا ہوا تھا اور تابڑ توڑ برسنے والی بارش، ٹوٹے اور فریب کھائے دلوں کو اَن دیکھے اندیشوں سے ڈرا رہی تھی۔قریب ہی ٹیپ ریکارڈر دھرا تھا، جس سے ہلکی ہلکی موسیقی ابھر رہی تھی اور مستقل مزاج بارش کی  ٹپ ٹپ سے مل کر اندھیرے کمرے کی دنیا کو   ایک نئے دُھن سے متعارف کروا رہی تھی۔

وہ ایک عجیب لیکن مشاق درزی تھا۔وہ دل سیتا تھا اور جذبے پروتا تھا۔بڑی مہارت سے اپنی رنگین انگلیوں میں سرمستی و کیف کے دھاگے پکڑتا اور انتہائی تجربہ کاری سے شفق رنگ سوچوں کو ان دلوں کے نہاں خانوں کی راہ دکھاتا۔اس کے پاس کئی طرح کے نازک آلات تھے۔مترنم خیالات اور طلسماتی میٹھے بولوں سے بنے۔یہ اتنے نازک تھے کہ پھونک مارنے سے بھی ٹوٹ جاتے تھے۔وہ انتہائی چابکدستی سے ان آلات کا استعمال کرتا۔

جتنے بھی ٹوٹے دل اس کے پاس آتے، وہ ایک نظر ان کی کرچیوں پر ڈالتا اور جان جاتا کہ نازک آبگینوں میں یہ دراڑیں کیونکر آئی ہیں۔وہ ہر دل کو انتہائی احتیاط سے شیشے کے شوکیس میں رکھتا،اس پر لگی میل صاف کرتا اور اپنا چشمہ درست کرکے انہیں سینے میں مگن ہوجاتا۔تب اسے کسی شئے  کا ہوش نہیں رہتا۔وہ ہواؤں میں اڑتا جہاں رنگین تتلیاں اس کی ہمسفر ہوتیں اور شوخ پرندوں کے میٹھے بول اس کے کانوں میں رس گھولتے۔

اس نے ایک بار کھڑکی کے باہر نظر ڈالی۔بارش ٹپ ٹپ برس رہی تھی اور بارش کے ہر قطرے کے ساتھ ایک تروتازہ دل آسمان سے اتر رہا تھا۔وہ ان دلوں کو ترحم بھری نگاہ سے دیکھنے لگا۔وہ سوچ رہا تھا۔
“کس قدر سرخوشی سے یہ عرش سے اترے ہیں اور کس قدر جلدی یہ اس کے پاس پہنچیں گے“
اسے ان دلوں کے نصیب پر افسوس ہورہا تھا۔

خاموش کمرے میں موسیقی گونج رہی تھی اور شوکیسوں میں رکھے دل سسکیاں بھر رہے تھے۔یہ بڑی ستم ظریف صورتحال تھی۔یکدم وہ سوگوار ہوگیا۔اس پر اداسی چھانے لگی۔اس نے موسیقی بند کردی۔شاید وہ اکتا گیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ انسان مہذب ہونے لگا ہے اس لئے اب اس کا کام بڑھ گیا ہے۔اب ٹوٹے دل سینے کی ذمہ داری صرف اس کی نہیں ہونی چاہیے،باقی لوگوں کو بھی اس کی مدد کرنی چاہیے۔اس نے بیزاری سے آدھا پرویا ہوا دل نزدیکی میز پر رکھا اور اکتا کر کھڑا ہوگیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور اس کے ہاتھوں میں پہلی سی چستی نہیں رہی، اب اسے یہ پیشہ ترک کر دینا چاہیے۔

وہ کمرے میں چہل قدمی کر رہا تھا اور وقفے وقفے سے کھڑکی میں سے دلوں کی برسات ملاحظہ کر رہا تھا۔تب اس کی نظر کمرے کے کونے میں رکھے ایک الگ شوکیس پر پڑی۔وہاں ایک ادھیڑ عمر، اَدھ سِیا دل رکھا ہوا تھا۔خوں اُگلتا،شکستہ،زرد رُو اور وحشتوں کا مارا۔

یہ تکلیف دہ منظر دیکھ کر اس کا حلق خشک ہونے لگا۔نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔کتنی ہی مدت سے اس نے اس دل کو رفو کرنے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ہاں یہ واحد دل تھا جس کا زخم وہ بھر نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ناکام درزی تھا۔اسے غصہ آنے لگا تھا۔وہ شوکیس کے قریب گیا اور اس خاموش دل کو بانہوں میں سمیٹ لیا۔وہ بڑی آہستگی سے اس پر اُنگلیاں پھیر رہا تھا،اسے تسلی دے رہا تھا۔اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے تھے۔یہ واقعی کوئی مظلوم دل تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تب اسے احساس ہوا کہ اس کا غصہ بے جا ہے وہ اس چیر شدہ دل کو سوئی دھاگے کے بجائے دوسرے طریقے سے بھی رفو کر سکتا ہے۔
اس نے ایک طویل سانس لیا اور سوچا کہ وہ کبھی اس پیشے کو ترک نہیں کرسکتا۔اس نے موسیقی کی دُھن بدلی اور دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر نئے جذبے سے ٹوٹے ہوئے دلوں کو سینے لگا۔
الگ تھلگ شوکیس میں تنہا رکھے، اس کے زخم خوردہ دل کا یہی واحد علاج تھا!در

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply