• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہ رگ کا کھیل, راہداریوں کا جال اور پاکستان کی امن ڈاکٹرائن!!!….بلال شوکت آزاد

شہ رگ کا کھیل, راہداریوں کا جال اور پاکستان کی امن ڈاکٹرائن!!!….بلال شوکت آزاد

کرتارپور راہداری بالآخر دس ماہ کی قلیل مدت میں تکمیل کو پہنچی اور کل سکھوں کے روحانی پیشوا اور سکھ مذہب کے بانی و جد امجد بابا گورو نانک کے 550 یوم پیدائش پر اس کو حکومت پاکستان بلخصوص عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک فقید المثال تقریب منعقد کرکے کھول دیا گیا۔اس راہداری کو لیکر طرح طرح کی چہ مگوئیاں دونوں ممالک میں بدستور اس کی سافٹ اوپننگ اور تعمیر کے آغاز سے جاری تھیں اور اب کل سے ان میں اور تیزی دیکھنے کو ملی بلخصوص وہ طبقات طرفین میں اس راہداری پر سیاسی و مذہبی سطح پر زیادہ تنقید کررہے اور نفرت کی نظر سے دیکھ رہے جن کا اپنے اپنے ملک اور مذاہب میں کردار دراصل فتنہ پروری اور تنقید برائے تنقید سے لیکر تخریب تک ہی محدود ہے۔

اس بات کو سمجھ لیں بلکہ جتنا جلدی سمجھ لیں گے اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ریاست اور حکومت کے معاملات بظاہر عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں چلائے جاتے اور نہ ہی ریاست اور حکومت ہر فیصلے کے لیئے من وعن عوام کی عدالت میں پیش ہونے اور پیش کرنے کے لیئے عوام کی مکلف ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ریاست اور حکومت کو مکمل استثنی حاصل ہے پر جزوی طور پر اور قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں کچھ بھی بہتر اور بہترین کرنے کے لیئے ریاست اور حکومت کو استثنی میسر ہے جو کہ کوئی حکومتی و آئینی فیصلہ یا حق نہیں بلکہ ریاستی حق اور فطرت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔خیر مدعا یہ ہے کہ کرتار پور راہداری سے سکھوں کو بطور خاص بھارتی پنجاب کے سکھوں کو تو فائدہ ہے پر اس کا ہمیں کیا فائدہ ہے اور نقصان کیا ہے؟سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جس طرح کشمیر ہماری شہ رگ ہے جس پر بھارت قابض ہے اسی طرح پنجاب بھارت کی شہ رگ نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔

بھارت تو دھوکے سے قابض ہوا تھا اور ابتک دھوکہ دھڑی کے بل پر وہ اپنا قبضہ کشمیر پر جمائے بیٹھا ہے لیکن ہم موجودہ مہذب اور منظم دنیا میں رہتے اور عالمی قوانین کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسا کوئی عسکری اور جبری قدم نہیں اٹھا سکتے جو کسی بھی فورم پر چیلنج کیا جاسکے اور ہماری پوزیشن منٹوں میں خراب ہوجائے۔پھر ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟کیا ہم کشمیر کو ہاتھ سے جانے دیں؟
نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہی ہم ایسا ہونے دیں گے کیونکہ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے لہذا پہلے ہم نے وہاں انویسٹمنٹ کی جہاں مسئلہ تھا لیکن ہم بجائے مسئلہ جڑ سے ختم کرپاتے ہم اور ہی مسائل کا شکار ہوتے گئے اور اتنا ان مسائل کی دلدل میں دھنس گئے کہ اب جان بچانی مشکل ہوچکی ہے۔تو اب کونسا تیر مار رہے ہم؟جی اب ہم کوئی تیر نہیں مار رہے اور نہ ہی اب سے ہم کوئی تیر تلوار کی بات کریں گے بلکہ ہم ایسے نشتر تیار کررہے اور بھارت کو چبھو رہے ہیں جو زہر میں سِنے ہوئے ہیں۔کیا مطلب؟مطلب یہ کہ ہم اب کوٹیلہ چانکیہ اور منوجی سمرتی کے پاٹھ پڑھ کر انہی کی نسلوں پر ان کا استعمال کریں گے اور کررہے ہیں۔

خالصتان کا نام باقاعدہ شدت کے ساتھ صدر ضیاء کے دور میں گونجا تھا اور بیشک یہ ایک متبادل سٹرٹیجی تھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے پیش نظر کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے اور آزاد کروانے کی لیکن حالات و واقعات کا تسلسل بگڑا اور کرتا دھرتا موت کی وادی کے مسافر بنے تو یہ سٹریٹجی پس پشت چلی گئی اور سلو موشن میں چلتی رہی۔آگے بڑھنے سے پہلے بھارتی پنجاب کا محل وقوع اور سکھوں کی دیگر جزئیات کو سمجھ لیں تاکہ آپ کو خالصتان تحریک, کرتار پور راہداری اور پاکستان کی امن ڈاکٹرائن کو سمجھنے میں دقت کا سامنا نہ ہو۔سکھوں کی دنیا بھر میں آبادی 14 کروڑ ہے اور یہ بہت مالدار کمیونٹی ہے, انڈیا کے بعد کینیڈا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سکھوں کا بے پناہ اثر رسوخ ہے بلکہ اس طاقت اور اثر و رسوخ کو یہاں سے سمجھ لیں کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ اور پریزیڈنشل کیبنٹ میں سکھ وزارتوں اور اعلی عہدوں پر براجمان ہیں۔سکھ انڈیا کی کل آبادی کا دو سے تین فیصد ہیں اور پنجاب بھارت کا 1.53% علاقہ ہے مکمل جغرافیائی ایریا میں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انڈیا کی کل ملکی پیداور میں سکھوں کا حصہ 26 فیصد ہے؟؟انڈین پنجاب کی 58% فیصد آبادی سکھ ہے بقول وکی پیڈیا لیکن حقیقتا یہ آبادی 70% سے زیادہ ہے پر بھارتی سرکار ان اعدادو شمار کو درست طریقے سے بتانے سے گریزاں ہے اور یہ کہ انڈین پنجاب پورے انڈیا کی معاشی شہ رگ ہے۔

صرف اس سے اندازہ لگائیں کہ انڈین پنجاب پورے انڈیا کی کل ضرورت کا 74 فیصد گندم اور 48 فیصد چاول پیدا کرتا ہے, یوں انڈیا کی سوا ارب آبادی کی خوراک کا انحصار انڈین پنجاب پر ہے۔
اسی انڈین پنجاب سے انڈیا کو کشمیر جانے کا راستہ ملتا ہے, اور اسی انڈین پنجاب میں اس وقت خالصتان کی تحریک زوروں پر ہے جس کی وجہ سے بھارت کی اس وقت وہ حالت ہے جو ہماری ستر سال سے ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور وہ بھارت کے قبضے میں ہے جسکی بدولت ہمارا ہر دن انگاروں پر لوٹتے ہوئے گزرتا ہے لہذا اب جب وہاں خالصتان کا شوروغوغا ہے, انتہا پسند ہندو جماعت حکومت میں ہے, شدت پسند اور متعصب حکمران سر پر ہے اور ہمسائیہ ان کی معاشی و زرعی حب کے باسیوں کے دلوں پر قبضے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو ہم بھارتی پنجاب کو پوری ذمہ داری سے بھارت کی شہ رگ قرار دے سکتے ہیں۔اب کھیل بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے, بھارتی پنحاب بھارت کے ہاتھوں سے جب اسے نکلتا نظر آئے گا تو اس کو وہی تکلیف اور زحمت ہوگی جو اس وقت ہمیں ہورہی ہے۔

آپ اس کو شہ رگ کا کھیل سمجھ لیں جس میں راہداریوں کے جال بن کر پاکستان بھارت کو اپنی من مرضی کی جگہ پر لاکر گھیرے گا پر ہمیں اپنی حکومت اور ریاست پر اعتماد کرنا ہوگا کہ ہر جنگ تیر اور تلوار سے لڑ کر نہیں جیتی جاتی بلکہ جنگ سے پہلے ذہنوں پر لڑی ہوئی جنگ کا نتیجہ آخری اور عسکری جنگ کا فیصلہ کرتا ہے اور کل کرتار پور راہداری کے کھلنے سے بھارتی پنجاب اور دنیا بھر کے سکھوں کے دل ہم نے فتح کرلیئے ہیں بس اب ان کے دماغوں کو فتح کرنا باقی ہے جس کے بعد ہم بھارت کو وہاں سے ماریں گے جہاں اس کی سوچ بھی نہیں ہوگی۔ہر وہ بندہ جو تھوڑا سا بھی سٹریجک سٹڈیز اور جیو پالیٹکس کا علم رکھتا ہے وہ کل والی پاکستانی چال کو بھارت کے لیئے شہ مات قرار دے رہا کہ پاکستان کشمیر پر تو فقط تقاریر اور تحاریر سے مہم چلا کر اس کو دنیا کے اذہان پر سوار کررہا ہے پر اصل کام وہ خالصتان پر کررہا ہے لیکن بھارت کی طرح نہیں جو وہ بلوچستان اور فاٹا میں پاکستان کے خلاف کررہا ہے بلکہ پاکستان امن و آشتی اور پیار محبت کی پینگیں بڑھا کر بھارت واسیوں بلخصوص سکھ کمیونٹی کو جیت رہا ہے اور سکھ چنگاری ہماری شہ پر نہیں بلکہ بھارتی حکومت کے نارورا سلوک اور نفرت سے بنیں گے جو بھارت کو ایک دن جلا کر راکھ کریگی۔کل ہم نے خالصتان کا نام کب لیا؟اور کیوں نہیں لیا؟ارے بھئی ہم خالصتان کا نام کیوں لیں اور کس لیئے لیں؟ کیا خالصتان ہماری خواہش اور ضرورت ہے (حقیقتاً ہے پر ہم کیوں ڈھنڈورا پیٹیں سرکاری سطح پر) کہ ہم شور مچا کر دنیا کے سامنے تماشہ بنیں کہ بھارت روئے پیٹے کہ یہ دیکھو پاکستان ہمارے گھر میں مداخلت کررہا ہے۔خالصتان کا نام نہ ہم نے پہلے لیا ہے اور نہ ہی اب لیں گے البتہ جب خالصتان بن جائے گا تب ہم اقوام متحدہ میں سب سے پہلے اس کو تسلیم کرنے کے لیئے خالصتان کا نام بھی لیں گے اور ان کو ہر ممکن کھلی مدد بھی دیں گے تاکہ ہمارا کشمیر پھر جلد از جلد ہمارے ساتھ مل سکے۔

خالصتان کا نام فی الحال وہ لیں گے اور لے رہے ہیں جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے اور جو اس کو سمجھ کر ایک دن اس کو حاصل کرسکیں گے البتہ ہمارا کام یہ ہے کہ وہ خالصتان کا نام لیتے رہیں اور اس تحریک کو وہاں تک لیکر جائیں جہاں یہ ان کی منزل بنے لہذا اس امر کو یقینی بنانے کے لیئے کرتار پور راہداری جیسے منصوبے اور سکھوں کو رعاتیں دینا ضروری اور اہم ہیں۔امن امن کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ امن امن کرتے وقت آپ کو پوری طرح “پر امن” اور نہتا ہونا پڑتا ہے اور اتنا میٹھا ہونا اور بولنا پڑتا ہے کہ آپ کو خود یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ اتنا میٹھا کہیں ذیابطیس کا شکار نہ کردے پر یقین کریں امن امن کرنا ایک ایسی گھاتک اور خطرناک جنگی چال ہے جو آپ کے دشمنوں اور دشمن کے دوستوں کو ہر میدان میں بے بس کردیتی ہے کہ وہ تو منہ سے گولیاں فائر کریں اور آپ پھول ہی جھڑیں تو وہ دنیا میں شدید حزمیت کا شکار ہوتے ہیں۔کشمیر اور اس پر بھارتی ایکشنز جو ہوچکے اور جو ہونے والے ہیں اب کوئی معنی نہیں رکھتے کہ اس کو اب اپنے پنجاب کی پڑ گئی ہے جہاں پاکستانی جھنڈے جالندھر جیسے شہر میں خود سکھوں نے لہرا دیئے اور بھارت کی بوکھلاہٹ اور جبری ریاستی اقدامات سکھوں کو بھارت سے اور متنفر کررہے ہیں۔2020 موومنٹ کا وقت بھی قریب ہے اور ایسے کڑے وقت میں پاکستان کا سکھ کمیونٹی کو کرتارپور راہداری جیسا تحفہ دینا گرم لوہے پر لوہار والی چوٹ کے مصداق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان نے بیک وقت دنیا اور بھارت کو شہ رگ کے شاطر کھیل, راہداریوں (سی پیک سمیت) کے جال اور امن ڈاکٹرائن میں اتنا الجھا دیا ہے کہ دنیا اب پاکستان کے متعلق کوئی حتمی رائے نہیں قائم کرسکتی کہ اب پاکستان کیا کرے گا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اب مکمل “سرپرائز سٹیٹ” بن چکا ہے بھارت اور دنیا کے لیئے کیونکہ جب آپ کو آپ کے دشمن کی اگلی چال کی خبر ہی نہیں تو آپ کیا تدراک کریں گے یا تدراک کا بندوبست کریں گے؟کھیل اب بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا, اب بھارت کیا جوابی چال چلتا ہے یا اپنے گھر میں بوکھلا کر خود ہی آگ لگالیتا ہے یہ ہم وقت پر چھوڑتے ہیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply