نوری بمقابلہ ناری….عزیز خان

کُچھ دن پہلے ایک ویڈیو نظر سے گُزری جس میں کرپشن کے ملزم حمزہ شہباز نے ایک psp ایس پی کو اُنگلی دیکھائی اور وارنگ دی خبردار اور وہ Sp بھیگی بلی بن گیا دو دن پہلے حکمران خاندان کے فرزند علی گیلانی جو کہ سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا ہے اور جس کے ساتھ مسلحہ گن مین تھے نے Dpo مظفرگڑھ کو اُنگلی دیکھائی خبردار ہمارے راستے میں نہ آنا اور Dpo جس کے ساتھ کافی پولیس تھی بھیگی بلی بن گیا ؟ میں اس بات پہ حیران ہوں کہ یہ وہ نوری قوم ہے جو غریبوں اور ناری ماتحتوں کے لئیے ھلاکو خان سے کم نہیں ہوتے مگر ان سیاستدانوں کے سامنے کیسے بھیگی بلی بن جاتے ہیں

پولیس ٹرینگ میں ہمیں ہمارے پریڈ کے اُستاد دوڑاتے ہوئے سہالہ کالج کا تعارف کروا رہے ہوتے تھے اور ساتھ بتا رہے ہوتے تھے کہ یہ ہے کینٹین ، یہ ہے اصطبل ، یہ ہے اقبال ہوسٹل پھر ہمیں دور سے دیکھایا گیا کہ یہ ہے کمانڈنٹ اور ڈیپٹی کمانڈنٹ کا گھر یہ علاقہ ٹرینی کے لئیے (آوٹ آف باونڈ )ہے اور اس طرف جانے کی سزا ملازمت سے بر خواستگی ہے اور ہم تمام ٹرینی سوچ رہے تھے کہ یہاں کون سی نوری مخلوق رہتی ہو گی جہاں صرف جانے کی سزا نوکری سے برخواستگی ہوگی؟
آگے بڑھے تو اچانک ہمیں حُکم ہوا سب خاموش ہو جائیں ہم ڈر کے مارے خاموش ہو گئے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ (ساردا میس )ہے اور یہاں اے ایس پی صاحبان کی رہایش گاہ ہے اس طرف بھی آنا منع ہے(اُن دنوں نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں نہیں ہوتی تھی )

جب ہم پریڈ کر رہے ہوتے تھے اور ہمیں بے عزت کیا جا رہا ہوتا تھا تو پریڈ کے آخری لمحات میں ایک کوسٹر آ کر رُکتی تھی جس میں سے Asp صاحبان اترتے تھے ڈرل انسٹریکٹر اُنہں پہلے سلوٹ کرتا تھا بعد میں اُن سے باتیں کرتا نظر آتا تھا۔پریڈ کرتے ہوئے ایک کا ہاتھ دوسرے سے نہیں ملتا تھا مگر انسٹریکٹر واہ واہ کر رہا ہوتا تھا اُس کی جُرت نہ ہوتی تھی کہ اُنہیں کُچھ کہتا کہ آپ پریڈ درست نہیں کر رہے۔ان میں سے اکثر Asp’s کے قد بُہت چھوٹے تھے اور چھاتی بھی کم لگتی تھی حالانکہ ہمارے لئیے قد اور چھاتی کا معیار الگ تھا اور ان کے لیے الگ تھا اور یہ وہ نوری مخلوق تھی جن کی ہم ناریوں کو غلامی سیکھائی جا رہی تھی جو ہم نے پوری سروس کرنی تھی۔پولیس ٹرینگ میں ہم نے صرف غلامی سیکھی صاحب کے آگے نہیں جانا ،صاحب کے سامنے نہیں بولنا ،صاحب جو کہیں تعمیل حُکم کرنی ہے۔ضلع میں آکر بھی اسی طرح ڈرایا جاتا رہا صاحب کا اردل روم ہے ،صاحب کی پیشی ہے ، تعمیل حُکم کرنی ہے چاہے جائز ہو یا ناجائیز ہو اور پھر ہم نے وہی کرنا شروع کر دیا جو ہمیں حکم دیا جاتا تھا یعنی تعمیل حکم؟

مجھے آج بھی یاد ہے ٹرینگ کے بعد پولیس لائین بہاولپور میں بڑا کھانا تھا پولیس والے بڑا کھانے کا مطلب سمجھتے ہیں مگر جو دوست نہیں جانتے اُن کے لئیے بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ ہمارے بڑے نوری افسران جب ناریوں (ماتحتوں)پر خوش ہو جائیں تو سرکاری پیسوں سے کُچھ ملازمین کو کھانا کھلا دیتے ہیں اُس کھانا میں ہاشم بخاری ASI بھی تھے جب کھانے پر بلایا گیا تو اندر ایک میز الگ لگائی گئی تھی جس پر صرف نوری افسران نے کھانا تھا میز پر پڑا کھانا اُس کھانے سے بہت مختلف تھا جو باقی ماتحت ملازمین کے لئیے تھا میز پر منرل واٹر ، پیپسی سیون اپ کے کین صاف پلیٹیں چھری کانٹے چمچے صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی بڑے صاحب کا انتظار ہو رہا ہے
میں اور ہاشم بخاری بھی خود کو بڑا آفسر سمجھتے ہوئے اسی میز پر جا کر کھڑے ہو گئے ابھی میں نے پلیٹ نہیں اُٹھائی تھی کہ ایک انسپکٹر دوڑتا ہوا آیا اور بولا آپ یہاں کھانا نہیں کھائیں گے یہ میز صرف بڑے صاحبوں کے لئیے ہے ہاشم بخاری بولا ہم بھی آفسر ہیں تو مجھے انسپکٹر کی وہ طنزیہ مسکراہٹ آج بھی یاد ہے جیسے کہہ رہا ہو ” یہ مُنہ اور مسور کی دال” میں نے اپنی پلیٹ میز پر رکھی اور پنڈال سے باہر آگیا ہاشم بخاری بھی باہر آگیا ہم نے کھانا نہیں کھایا یہ وہ پہلی تذلیل تھی جو ضلع میں ہوئی اور یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ ہم ناری ہیں۔

ماہانہ کرائیم میٹنگ میں بھی یہی سلوک صاف نظر آتا تھا جب ڈی پی او اور اے ایس پی کے سامنے چائے باوری اردلی بڑے سلیقے سے رکھتا تھا منرل واٹر کی بوتل اور گلاس رکھا جاتا تھا جبکہ Dsp سمیت باقی ملازمین کے سامنے چائے عام سے کپوں میں رکھی جاتی تھی اسی طرح سٹیل والے جگ اور گلاسوں میں پانی پلایا جاتا تھا۔ڈی ایس پی بننے کے بعد یہ احساس اُس وقت شدید ہو گیا جب 2010 میں مجھے جڑانوالہ سے صرف اس لئیے تبدیل کر کے اے ایس پی کو لگا دیا گیا کہ وہ اچھا سرکل تھا۔ رہایش اچھی تھی، دفتر اچھا تھا۔ مجھ سے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا گیا نہ بتایا گیا کہ میرا قصور کیا ہے میرا تبادلہ کیوں کیا گیا کیونکہ میں ناری تھا؟(یہاں یہ بات ذہین میں رکھیں کہ Asp سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے کہاں پوسٹنگ کروانی ہے اسی طرح چند مخصوص سرکل ہیں جہاں Asp,s کو تعینات کیا جاتا ہے)

اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹے والے سکیل 17 کے ایک Asp کی تنخواہ 55000 ہے اور 18 سکیل کے Sp کی تقریباً 75000 ہے اگر یہ ایماندار ہیں تو ان کے بقیہ اخرجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں کروڑوں روپے کے فنڈز ان کے اختیار میں ہوتے ہیں ان کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا نہ کسی کی پوچھنے کی جرت ہے ؟پچھلے دنوں جب پولیس ریفارمز میں Dpo کو Dc کے ماتحت کرنے کی بات ہوئی تو یہ نوری psp کلاس استیفعیٰ دینے کو تیار ہو گئی تھی ان کے اجلاس ہوتے رہے اور حکومت نے بے بس ہو کر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے لیکن اگر یہی کام ناری ماتحت کرتے تو جوتے کھاتے اور نوکری سے بھی جاتے ؟

کرپشن کرنے کے باوجود ایک SHO یا Dsp ایک پوسٹنگ کے بعد اپنا گھر نہیں بنا سکتا مگر ایک Dpo ایک پوسٹنگ کے بعد ڈیفنس لاہور میں اپنا گھر ضرور بنا لیتا ہے اور ریٹائرمنٹ پر ان کے کراچی لاہور اسلام آباد میں بنگلے پیٹرول پمپ ہوتے ہیں ان کے بچے غیرمُلکی مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیںاگر مجھ پر یقین نہیں تو کسی بھی ضلع کے Dpo آفس کے اکاونٹنٹ کو پکڑ لیں تو سب بتا دے گا یہ اکاونٹنٹ ایک ہی ضلع میں ملازمت کرتے ہیں اور وہیں سے ریٹائیر ہو جاتے ہیں ان کی بھی کروڑوں کی جائیدادیں ہوتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی حال لاہور CPO کا ہے یہاں کا کلرک مافیا جو ان افسران کی کرپشن میں مدد گار ہے ان کا تبادلہ بھی کہیں نہیں ہوتا سالوں سے یہ مافیا Cpo پر قابض ہے اور یہ کماو پوت ان افسران کی آنکھوں کا تارا ہیں .ویسے تو اب ہر روز پولیس عوام اور سیاستدانوں سے جوتے کھاتی نظر آتی ہے مگر وہ ماتحت پولیس ملازمین ہوتے ہیں مگر جب خود کو نوری سمجھنے والے یہ افسران اس طرح اپنی نوکری بچانے کے لیے بُزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے اگر ماتحت ملازم کو بُزدلی کرنے پر سزا ملتی ہے تو اس نوری کلاس کو کیوں نہیں ؟
عزیز خان ایڈوکیٹ لاہور

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نوری بمقابلہ ناری….عزیز خان

  1. حمزہ شریف جیسی مخلوق کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی رہنے والی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی افسر شاہی سے متعلق بہت سی تلخ حقیقتوں کو برملا آشکار کرتی ہوٸ تحریر ۔۔۔

Leave a Reply to Noshi Gilani Cancel reply