محکمہ زراعت کا پھول اور نظریے کا پودا ۔۔۔ محمد منیب خان

موسم بدل رہا ہے اور موسم میں یہ بدلاؤ بہت تیزی سے رونما ہوا ہے۔ یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑوں سے سوچ منجمد ہو گئی ہے اور موسمکی اس شدت سے قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں۔ نہ ہی ماحول ساز گار ہے اور نہ نظارے فرحت بخش ہیں۔ اس ماحول میں بے چینی کابڑھنا فطری بات ہے۔ ایسے ہی بدلتے موسموں کی سختیوں کے باوجود ہمت و حوصلے سے سفر کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ زاد راہ باندھاجاتا ہے لیکن چلتے چلتے جب منزل نہیں آتی تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر بھی دائرے کا سفر نکلا۔ ہم پرکار میں لگی پنسل کا وہ سکہہیں جس کا نصیب گھومنا ہے۔ وہ سکہ چاہے اپنا نشان چھوڑتا ہے لیکن اس کا سفر ہمیشہ اسی دائرے کا سفر ہوتا ہے۔ دائروں کاسفر بے منزل ہوتا ہے۔ منزل تو مرکز ہوتی ہے اور مرکز پہ پہنچنے کے لیے دائرے سے نکلنا پڑتا ہے اپنی سمت متعین کرنا پڑتی ہے۔

گذشتہ تین سال میں پانامہ کے قضیے سے جو کچھ بھی بر آمد ہوا اس کو کم از کم کسی بھی مہذب معاشرے میں احتساب نہیں کہاجا سکتا ہے۔ نہ وہ واقعات دہرائے جانے کے قابل ہیں اور نہ ان واقعات میں شامل کردار اس قابل ہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے۔ لیکن وہسارے واقعات اور وہ سارے کردار مل کر ہمیں کس نہج پہ لے آئے ہیں اس کا اندازہ لگانا اور احساس کرنا بہت ضروری ہے۔ پانامہ پہعدالت لگی، اقامہ پہ معطلی ہوئی، ایوان فیلڈ میں سزا ہوئی جو بعد میں معطل ہوئی۔ العزیزیہ ریفرینس کیس میں پھر سزا ہوئی اورسزا دینے والا  جج اپنا مافی الضمیر بیان کر کے بارِ انصافپچھلوںپہ چھوڑ گیا ہے کہ وہ اب اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔اب نہ تو پانامہ کے اربوں ڈالر کا دکھ کسی کو باقی ہے اور نہ ہی ان باقی تین چار سو لوگوں بارے کسی کو تجسس ہے۔ ایک مشنتھا مکمل ہو چکا۔ تاریخ اس مشن کو ڈے لائٹ ریپ کے طور پہ یاد رکھے گی۔

اس تاریخی مشن کی مٹی سے نئے الیکشن اور تبدیلی کی کونپل کھلائی گئی۔ بیج ڈالنے، زمین ہموار کرنے، پانی دینے اور کونپل کےزمین سے سر نکالنے تک اس کی ہر طرح سے حفاظت کی گئی۔ کونپل نکلی، چند دن بعد رنگ پھیلا، پتیوں نے انگڑائی لی پھول کھلگیا۔ شادیانے بجائے گئے خوشی کے گیت گائے گئے۔ و تعز من تشا و تعزل من تشا کا ورد کیا گیا۔ دشمن کو ووٹ کی طاقت سے شکستدینے کا عزم دھرایا گیا۔ مبارکبادوں سے فراغت ملی تو سب کی توجہ پھول کی طرف ہو گئی تعریف تو سب نے بہت کر رکھی تھی لیکنسب کو ایک شکایت ہونے لگی کہ اتنا خوش رنگ اور خوش نما پھول ہے لیکن خوشبو نہیں دے رہا۔ بعض کو لگا کہ شاید ان کی قوتشامہ کمزور پڑ گئی ہے۔ بعض کو گمان گزرا کہ شاید ابھی پھول تازہ کھلا ہے چند دن بعد خوشبو دینے لگے گا۔ دن،ہفتوں میں اورہفتے مہینوں میں بدلے حتی کہ سال ہونا کو آیا موسم بہار بھی آ کر چلا گیا لیکن پھول سے خوشبو ندارد۔

دوسری طرف عزم عالی شان احتساب کا سلسلہ وار پروگرام شد و مد سے جاری رہا۔ بیٹی نے باپ کی بیماری کی دھائی دی تو مذاقاڑایا گیا۔ چند چہروں نے بیماری پہ طنز و مزاح کی رد عمل کے ذریعے بھر پور پذیرائی اور داد سمیٹی لیکن پھر وہ چہرے رفتہ رفتہمنظر سے پس منظر میں جاتے گئے۔ لوگ سمجھے کہ شاید یہ روزمرہ کی تبدیلیاں ہیں۔ لیکن وقت ثابت کر رہا ہے کہ نہیں یہ موسمیاتیتغیر نہیں۔ یہ آب و ہوا کی تبدیلی تھی۔ اس کے باوجود احتساب کا بے سرا راگ دن رات الاپا جاتا رہا کہ شاید اس کی موسیقیت سےلوگ محظوظ ہوتے رہیں۔ اسی دوران ایک ملاں نے اذان دی تو لوگ جوک در جوک جمع ہوگئے۔ ملاں نے جمع ہوئے لوگوں کو بار آورکروانا شروع کیا کہ احتساب کا سارا کھیل تو ایک طرف لیکن جس طرح اس احتساب کے کیچڑ میں گلاب کھلایا گیا وہ کسی طور قابلقبول نہیں۔ ایک تو سارا پروسس ہی قابل اعتبار نہیں اور دوسرا اس سے کوئی خوشبو نہیں آتی تو کیوں ایسے پھول کی حفاظت پہمحکمہ زراعت نے اتنی محنت کی؟ سیدھے سادھے لوگوں کو بات کچھ کچھ سمجھ آئی تو انہون نے اقتدار کے ایوانوں کی طرف رختسفر باندھا۔

اقتدار کے ایوانوں کی طرف سفر شروع ہونے کی دیر تھی کہ موسم میں وہ ٹھنڈک پیدا ہوئی جس نے سوچ کو منجمد کیا۔ ایسی جوہریتبدیلیاں رونما ہوئیں کہ لوگوں کی آنکھیں تابکاری کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکیں۔ یکدم احتساب کی نئی قسط کے دورانبیماری کا سچ تسلیم کیا گیا۔ بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ تسلیم کیا گیا۔ اب کی بار طنز و مزاح کرنے والے چہرے تو منظر سے ویسےہی غائب تھے باقی سب نے متانت کے ساتھ بیمار کا حال پوچھنا شروع کر دیا۔ بلکہ ہاتھ پاؤن جوڑ کر کہنا شروع کر دیا کہ جہاں سےچاہیں علاج کروایا جا سکتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ طبیبوں کو محسوس ہوا کہ بیماری کی تشخیص کے لیے درکار ٹیسٹ ارض وطن میںدستیاب نہیں۔ احتساب کرنے والے آنکھیں فرش راہ کیے مریض کو پہلے ہسپتال سے گھر چھوڑ آئے اور اگلے ہی روز ای سی ایل سےنام نکال دیا۔

کیا یہ سب ڈیل ہے؟ ڈیل ہے تو کیوں ہے؟ ایک شخص اور اس کا خاندان اگر درست احتساب کا نشانہ بن رہا تھا تو بننے دیتے رہتی دنیاتک مثال قائم ہو جاتی۔ لیکن اگر ایسا نہیں تھا اور احتساب محض ایک افسانہ تھا۔ تو لگتا ہے کہ محکمہ زراعت کے سب مالیوں کواپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ورنہ زنداں میں بیٹھا ایک شخص اپنی جان خلاصی کی ڈیل کیسے کر سکتا ہے؟ کیا وہ زنداں میںبھی اتنا طاقتور ہے یا پھر مالی کمزور ہو گیا ہے؟ یا پھر درحقیقت وہ پھول جس کی اتنی حفاظت کی جس کے لیے سیاہ کو سفید کیاوہ خوشبو سے ہی محروم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب دونوں گروہوں کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں ہے۔ بیمار کو دوا کی ضرورت تھی کئی ماہ سے یہ بتایا جا رہا تھا لیکن دوسرے گروہکو یقین نہیں تھا اب دوسرے گروہ کو بیماری کا کامل یقین ہے لیکن پہلا گروہ سوچتا ہے کیا واقعی؟؟؟ ہاں واقعی بیمار کو شک کا فائدہدیا جا سکتا ہے۔ گو کہ اس سے تحریک اور نظریے کو فی الوقت کچھ ضرب لگنےکا خدشہ ہے لیکن اس کا حل کیا ؟ کیا اس احتسابکی بھینٹ چڑھا جائے کہ جس وجہ سے بیٹی اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے آخری دن نہ گزار سکی اور سینتالیس سالہ رفاقت رکھنےوالا میاں جب پیرول پہ رہا ہوا تو وہ ایک شکست خورد شخص تھا۔ لیڈر اب اور کرے بھی تو کیا کرے؟ نظریے کی کونپل لگا دی ہیں بلکہاب تو چھوٹا سا پودا بھی کھل اٹھا ہے۔ کیا اب ہم اس پودے کی آبیاری نہیں کر سکتے ہیں؟ اور ہاں ویسے بھی ملاں نے ابھی تکسجدے سے سر نہیں اٹھایا۔ تو شوق عبادت میں دوسرے امام کے پیچھے نیت باندھ لیں۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply