شادی ایجنسی۔۔۔حاجی لق لق

تہذیب کی جدتوں میں ایک شادی ایجنسی بھی ہے جس کے منیجر یا مالک کو ’’ملاؤخان‘ کہنا ثواب کا کام ہےکیونکہ یہ بڑے ثواب کا کام کرتے ہیں۔ درست ہے کہ ایجنسی والے عورت اور مرد دونوں سے پیسے بٹور لیتے ہیں لیکن بیچاروں کا کام تو ہو جاتا ہے۔ نہ نائی بھیجنے کی ضرورت نہ میراثی، بس شادی ایجنسی میں گئے، فیس ادا کی، فارم بھرا اور بے فکر ہوگئے۔ اب ایجنسی کے منیجر صاحب ہیں کہ نائی اور میراثی دونوں کا کام سرانجام دے رہے ہیں اور ورکے لیے کینا اور کنیا کے لیے ور کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔

بعض ایجنسیاں تو نیک نیتی سے کام کرتی ہیں۔ لیکن بعض ایسی ہیں جو نری چار سو بیس۔ ایک دفعہ ریل میں میری گفتگو ایک دیہاتی سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ لاہور کس کام گئے تھے؟ دیہاتی بولا میاں جی کچھ نہ پوچھو۔ مجھے شادی کی ضرورت تھی اخبار میں ایک شادی ایجنسی کااشتہار پڑھ کر میں لاہور گیا اور ایجنسی کا دفتر تلاش کرکے وہاں پہنچا۔منیجر صاحب نے ایک فارم پر دستخط کرا لیے اور دس روپے نقد لے لیے۔ نیز یہ کہاکہ ایک ہفتہ کے بعد دو سو روپے لے کر آجانا۔ ایک رشہ ہماری نظر میں ہے ہم اس سے بات چیت کریں گے اور امید ہے کہ دوسوروپے میں کا م بن جائے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی خرچ نہ کرنا پڑے گا۔

میں یہ سن کر گاؤں چلا گیا۔ اور ایک ہفتہ کے بعد دوسوروپیہ لے کر پھر لاہور پہنچا۔ لیکن احتیاطاً (دومسافروں کی طرف اشارہ کرکے) ان کے دورشتہ داروں کو ساتھ لے آیاتاکہ کہیں لُٹ نہ جاؤں۔منیجر صاحب نے دیکھا کہ میرے ساتھ دوآدمی اور ہیں تو لگے ٹال مٹول کرنے۔ کہنے لگے رشتہ تو ہوجائے گا، عورت کے رشتہ دار دوسو روپے پر رضا مند ہوگئے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ عورت لکھنؤ کے پاس ایک گاؤں میں ہے۔ آپ کو مجھے ساتھ لے کر وہاں جانا ہوگا۔

میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ وہ اپنے میرے اور دوستوں کو لکھنؤ تک کے کرایہ سے ڈرا کر مجھے واپس گاؤں بھیجنا چاہتا تھا اور میرے پاس اتنے فالتو پیسے موجود بھی نہ تھے۔ اس لیے میں یہ کہہ کر آگیا ہوں کہ زیادہ روپے لے آؤں چنانچہ واپس گاؤں جارہا ہوں اور پھر اس کام کے لیے لاہور نہیں جاؤں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میرے دس روپے گئے۔

شادی کی ایجنسیاں ہمارے ملک میں ہی نہیں۔ بلکہ اور ملکوں میں بھی ہیں۔ جن دنوں بغداد میں تھا، وہاں ایک شادی ایجنسی نیوسٹریٹ میں موجود تھی جس کے منیجررفعت آفندی تھے اور میرے ایک رفیق کا رشوکت آفندی کے بھائی ہونے کے باعث میرے دوست تھے اور ان کے ہاں میرا آنا جانا تھا۔ ایک دن ان کے دفتر میں ایک شخص آیا جو ہائی کمشنر کے دفتر میں ہیڈ کلرک تھا۔ اس نے بیان کیاکہ آفندم !میں شادی شدہ ہوں لیکن میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ صرف اولاد کے لیے ایک اور شادی کرلوں۔

رفعت آفندی: بے شک ضرور کرنی چاہیے۔ بنجر زمین کا کیا فائدہ ہے دفع کروائیے۔

ہیڈ کلرک: ہاں لیکن بنجر زمین کو میں چھوڑ بھی تو نہیں سکتا۔

رفعت آفندی: دفع کرو سے میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے چھوڑ دیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ زرخیز زمین کا ٹکڑا بھی تو ہونا چاہیے۔ اور ہم آپ کو ایسی بچّہ خیز عورت تلاش کردیں گے کہ جب آپ بازار جائیں تو دوتین بچّے آپ کی بیوی نے اٹھائے ہوں او ر دوتین آپ کے کندھوں پر چڑھے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتو دام واپس کی شرط ہے۔

معاملہ طے ہوگیا۔ رفعت آفندی نے فارم نکالا۔ ہیڈ کلرک نے اس کی شرط پڑھیں۔ جیب سے ایک دینار نکالا اور فیس کے طور پر ادا کیا اورفارم پر دستخط کرکے چلاگیا۔ رفعت آفندی نے اسے ایک دینار کی رسید دے دی۔

رفعت آفندی نے اسی دن ’’اخبار استقلال‘‘ میں شادی کی ضرورت کے عنوان سے اشتہار بھیج دیا اور تیسرے دن ایک برقع پوش عورت رفعت آفندی کے دفتر میں آئی۔ اس نے آتے ہی چہرے سے برقع ہٹادیا اور کہاکہ میرا خاوند مرچکا ہے اور مجھے شادی کی ضرورت ہے۔ رفعت آفندی نے کہا کہ دیکھو بہن آپ جیسی حسین وجمیل عورت کے لئے تو بہت اچھا خوش مزاج خاوند مل سکتا ہے لیکن عورتوں کے معاملہ میں ہم بڑے محتاط ہوتے ہیں۔ آپ اپنے کسی رشتہ دار کو ساتھ لائیں جو آپ کے بیان کی تصدیق کرے۔

خاتون چلی گئی اور دوسرے دن ایک نوجوان کو ساتھ لے کر آئی اور بولی کہ یہ میرا بھائی ہے۔ اس سے بات چیت کرلیجئے۔ رفعت آفندی نے نوجوان سے کچھ محکمانہ سوالات کئے اورفارم نکال کر خاتون اور اس کے بھائی دونوں کے دستخط کرالئے۔ خاتون نے ایک دینار فیس ادا کردی۔

رفعت آفندی نے اس سے کہا کہ آپ مطمئن رہیے کام جلد ہوجائے گا۔ خاتون بولی، کہ میں اپنے ہونے والے خاوند کو شادی سے پہلے دیکھ لینا چاہتی ہوں۔ رفعت آفندی نے جواب دیا،کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ کل۵ بجے یہاں تشریف لائیں۔

خاتون چلی گئی اور رفعت آفندی نے ہائی کمشنر کے دفتر میں ٹلیفون کرکے ہیڈ کلرک کومژدہ سنایا کہ ایک پری چہرہ خاتون ہاتھ آگئی ہے، کل چار بجے دفتر سے فارغ ہوتے ہی میرے دفتر آئیے۔ آپ کو اس کی زیارت کرائی جائے گی۔

ہیڈ کلرک کی رات بیقراری میں گزری۔ پری چہرہ خاتون کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اگلے دن آپ بہترین سوٹ پہن کر دفتر گئے۔ لیکن دن دفتر میں اس طرح گذراگویا قیامت کا دن ہو۔ باربار گھڑی کو دیکھتے تھے لیکن سوئیوں کو خدا جانے کیا ہوگیا تھا کہ چار بجنے میں نہ آتے تھے۔

آخر خدا خدا کرکے چار بجے اور ہیڈ کلرک صاحب نے دفتر سے نکلتے ہی ایک عربانہ ’ٹانگہ‘ لیا او ر اس سے کہا،

’’نمبر۱۱۸ نیو سٹریٹ۔‘‘

ٹانگہ رفعت آفندی کے دفتر کے سامنے ٹھہرا اور ہیڈ کلرک صاحب ٹانگہ والے کو کھڑا رہنے کا حکم دے کر اوپر گئے۔

رفعت آفندی نے ان کا خیر مقدم کیااور کہا کہ آفندم آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔ ایسی خوبصورت خاتون آپ نے بہت کم دیکھی ہوگی اور پھر بہت کم عمر۔ اب یہ بتائیے کہ انعام کیا ملے گا۔

ہیڈ کلرک نے جواب دیاکہ جو آپ کہیں گے اطمینان رکھیے ،میں ہرطرح حاضر ہوں۔

یہ باتیں ہورہی تھیں کہ خاتون اندر آئی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے برقعہ کی جالی سے آفندی کو اچھی طرح دیکھ لیااور رفعت آفندی نے کہا، ’’کہو بہن یہ شوہر آپ کو پسند ہے؟‘‘

خاتون نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

رفعت آفندی نے کہاکہ یہ آفندی بھی آپ کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو اعتراض نہ ہوگا۔خاتون نے کہا، ’’ہرگز نہیں۔‘‘

یہ کہتے ہی اس نے برقع اٹھا دیا اور ہیڈ کلرک صاحب کا رنگ فق ہوگیا۔ یہ اس کی اپنی بیوی تھی۔

اس کے بعد خاتون نے اپنی گرگابی اتار کر اپنے شوہر کی جو ’’خدمت ‘‘اسی جگہ کردی وہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بیوی پر شوہر کا راز اس طرح فاش ہوا تھا کہ اس نے شوہر کی جیب میں رفعت آفندی کی دی ہوئی رسید دیکھ لی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply