• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روسی انقلاب، ناہموار ترقی کا قانون اور ٹراٹسکی۔۔۔ شاداب مرتضی

روسی انقلاب، ناہموار ترقی کا قانون اور ٹراٹسکی۔۔۔ شاداب مرتضی

روسی انقلاب کے نظریہ دان لینن نے مارکسزم کے سائنسی خزانے میں جو اضافے کیے ان میں سے ایک شاندار اضافہ سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت میں “ناہموار اور مربوط ترقی کے قانون” کی دریافت تھی۔ اختصار کے لیے ہم اسے “ناہموار ترقی کا قانون” کہیں گے۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہونے والی ترقی بیک وقت غیرمساوی بھی ہوتی ہے اور مربوط بھی۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام پر استوار دنیا میں بعض ممالک زیادہ ترقی کر جاتے ہیں اور بعض ملک پسماندہ اور ترقی پزیر رہ جاتے ہیں حالانکہ تمام ملکوں کا نظام معیشت ایک جیسا یعنی سرمایہ دارانہ ہی ہوتا ہے۔ گویا، ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا کے وہ سارے ملک جن کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ ہے ان کی ترقی کی سطح یا رفتار کم و بیش ایک جیسی ہی ہونی چاہیے یا کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ تمام ملک ترقی کریں لیکن اس کے برعکس ہوتا یہ ہے کہ بعض ملک بہت زیادہ ترقی کر جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بعض ملک بہت پسماندہ اور ترقی پزیر رہ جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ملکوں کے درمیان موجود نابرابری کم ہو کر ختم ہوجانے کے بجائے ہمیشہ موجود رہتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے۔

چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ملک میں ترقی کی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی اس لیے اس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اور اسی لیے ہر ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے درکار حالات بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب کے حوالے سے جب یہ بحث چھڑی کہ آیا اکیلے روس میں انقلاب لانا چاہیے یا پھر روس میں انقلاب کے لیے اس بات کا انتظار کرنا چاہیے کہ دوسرے ملکوں میں، خصوصاً  ترقی یافتہ یورپی ملکوں میں بھی انقلاب کے حالات سازگار ہوں تو لینن نے بین الاقوامی یا عالمی سوشلسٹ انقلاب کے بغیر بھی روس میں انقلاب لانے پر زور دیا۔

اس بحث میں بالشویک انقلابیوں کے مخالف منشویک انقلابیوں کی رائے یہ تھی کہ اگر روس تن تنہا انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے ملکوں میں، یعنی عالمی یا بین الاقوامی سطح پر، انقلاب نہیں آتا تو روسی انقلاب بھی ناکام ہوجائے گا اس لیے روس میں تن تنہا انقلاب لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب دوسرے ملکوں میں، خصوصا ترقی یافتہ یورپی ملکوں میں بھی انقلاب کے لیے حالات سازگار ہو جائیں۔ اس کے برعکس بالشویک انقلابیوں کا خیال تھا کہ ناہموار معاشی ترقی کے قانون کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ تمام ملکوں میں یا تمام ترقی یافتہ ملکوں میں انقلاب کے لیے حالات اسی طرح سازگار ہو جائیں جس قدر یہ روس میں ہیں۔ اس لیے روس میں انقلاب کو اس وقت تک مؤخر کرنا درست نہیں جب تک دوسرے ملکوں میں یا یورپی ملکوں میں بھی انقلابی حالات پختہ نہیں ہوجاتے۔ اگر روس میں انقلاب کے لیے حالات تیار ہیں تو روس میں ضرور انقلاب لانا چاہیے اور پھر روسی انقلاب کی مدد سے دنیا کے دوسرے ملکوں میں انقلاب کو پھیلانا چاہیے۔

روسی انقلابی تحریک میں انقلاب کے حوالے سے ہونے والی اس بحث کو عالمی انقلاب بمقابلہ ایک ملک میں انقلاب کے عنوان کے تحت جانا جاتا ہے۔ منشویک انقلابیوں کی رائے تھی کہ چونکہ سرمایہ داری نظام عالمی نظام ہے اس لیے اس کے مخالف نظام یعنی سوشلسٹ نظام کو بھی عالمی ہونا چاہیے اور اس لیے سوشلسٹ انقلاب عالمی انقلاب ہونا چاہیے۔ اگر سوشلسٹ انقلاب شروع سے ہی عالمی یا کم از کم بین الاقوامی (یعنی بیک وقت ایک سے زیادہ اور کئی ملکوں میں) نہ ہوا بلکہ صرف ایک ملک میں ہوا تو یہ فورا اور لازما ناکام ہوجائے گا۔ بالشویک انقلابیوں کی رائے تھی کہ سوشلزم اپنے جوہر میں یقینا ًعالمی انقلاب کی تحریک ہے لیکن ناہموار ترقی کے قانون کے سبب یہ ناممکن ہے کہ سوشلسٹ انقلاب شروع سے ہی عالمی انقلاب ہو کیونکہ دنیا کے تمام ملکوں میں انقلابی حالات ایک جیسے نہیں ہیں اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے سوشلسٹ انقلاب لازمی طور پر کسی ایک ملک سے یا ایسے ملکوں سے ہی شروع ہوگا اور ہو سکتا ہے جہاں انقلاب کے لیے حالات سازگار ہوں۔ چنانچہ ایک ملک میں انقلاب کے نظریے کی حمایت کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کی عالمی حیثیت سے انکار کیا جا رہا ہے۔

لیون ٹراٹسکی منشویک نکتہ نظر کا حامی تھا اور اس کی رائے بھی یہی تھی کہ چونکہ سوشلزم عالمی انقلابی تحریک ہے اس لیے اگر سوشلسٹ انقلاب شروع سے ہی عالمی انقلاب نہ ہوا یا کم از کم ترقی یافتہ یورپی ملکوں میں یا جرمنی میں بھی سوشلسٹ انقلاب نہ ہوا تو روس کا سوشلسٹ انقلاب بھی ناکام ہوجائے گا۔ اس کا خیال تھا کہ خارجی طور پر یورپی سرمایہ دار طاقتیں اور اندرونی طور پر روسی کسان طبقہ روس میں اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کو بزور طاقت ناکام بنا دے گا۔ تاہم روس کے مزدور طبقے نے ایک ملک میں انقلاب کے لیننی نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے، عالمی، بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کا انتظار کیے بغیر روس میں جاگیرداریت اور سرمایہ دار طبقے کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا اور سوشلسٹ حکومت قائم کی۔ روس میں سوشلسٹ حکومت کے اقتدار اور استحکام کی کامیابی کے بعد بھی ٹراٹسکی کی رائے یہی رہی کہ روسی انقلاب کسی بھی وقت ناکام ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے پر اس کا کہنا یہ تھا کہ روس میں انقلاب کی کامیابی صرف یہ ظاہر کرتی تھی کہ روس کی سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے خلاف روس کے مزدور طبقے کی مزاحمت بہت طاقتور تھی لیکن جلد یا بدیر اگر دوسرے ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب نہ ہوا تو سرمایہ دار دنیا روسی انقلاب کو کچل دے گی۔

منشویک انقلابیوں اور لیون ٹراٹسکی کے دعووں کے برعکس روس کا سوشلسٹ انقلاب وقت کے ساتھ نہ صرف مزید طاقتور اور مستحکم ہوتا گیا بلکہ ان کے خیالات کے برعکس اور لیننی نظریے کے عین مطابق روسی انقلاب دنیا کے دوسرے ملکوں میں سوشلسٹ انقلابی تحریک اور سامراج مخالف تحریک کی زبردست تقویت کا باعٹ بنا۔ لینن کی وفات کے بعد اسٹالن کی قیادت میں روس کے سوشلسٹ انقلاب کی مدد سے دنیا کے کئی ملکوں میں سوشلسٹ حکومتیں قائم ہوئیں، کئی ملک سرمایہ دارانہ سامراجی استحصال سے آزاد ہوئے، کالونیل ازم کا خاتمہ ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء عالمی پیمانے پر سنگین خطرے سے دوچار ہوگئی۔

اس عالمی سوشلسٹ انقلابی تحریک کے دوران عالمی سوزلسٹ انقلاب کا دعویدار لیون ٹراٹسکی روسی انقلاب کے مخالف کی حیثیت سے مزید پستی میں مبتلا ہوگیا اور عالمی سوشلسٹ تحریک کے خلاف سامراجی ایجنٹ بن گیا۔ اس نے اسٹالن کی مخالفت کی آڑ میں سوویت یونین، کمیونسٹ انٹرنیشنل اور کمیونسٹ پارٹیوں کی سخت مخالفت کی۔ سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے بنائے گئے امریکی سامراج کے ڈیوی کمیشن کا گواہ بنا، امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے میکسیکو کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف کام کیا، مسولینی کے فاشسٹ اٹلی میں سرکاری مہمان رہا، نازی جرمن اور جاپانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے سوویت یونین میں حکومت کے خلاف خفیہ سازشی گروہ قائم کیے جنہوں نے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں اور اس کے حامی دانشوروں اور ادیبوں کے قتل سے لیکر صنعت اور خارجہ پالیسی کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے تک کے اقدامات کیے۔ عظیم سوویت رہنما سرگئی خیروف اور میکسم گورکی جیسے عظیم سوشلسٹ ادیب کے قتل میں بھی اس کا گروہ ملوث تھا۔

روس کے اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی تحریک، ناہموار ترقی کے قانون اور ایک ملک میں انقلاب کی بحث کے درست تعلق کو مسخ کرتے ہوئے ٹراٹسکی کے مقلد یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ ناہموار ترقی کا قانون ٹراٹسکی نے دریافت کیا تھا اور پھر روس کی انقلابی تحریک پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے روس میں سوشلسٹ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا! لیکن روسی انقلابی تحریک کی نظریاتی بحٹ کا جائزہ لینے کے بعد اگر کچھ منطقی سوالات کیے جائیں تو یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ٹراٹسکائی پروپیگنڈہ بھی جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔

ناہموار ترقی کا قانون یہ بتاتا ہے کہ تمام ملکوں میں انقلاب کے حالات یکساں طور پر سازگار نہیں ہو سکتے اور اسی وجہ سے سوشلسٹ انقلاب تمام ملکوں میں یا بہت سے ملکوں میں بیک وقت شروع نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ناہموار ترقی کے قانون کو ٹراٹسکی نے دریافت کیا تھا تو پھر اس نے روس میں سوشلسٹ انقلاب کے معاملے پر منشویکوں سے اتفاق کرتے ہوئے لینن اور بالشویکوں کی مخالفت کیوں کی اور کیوں مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا کہ روس میں انقلاب کے لیے کم از کم یورپ یا جرمنی میں انقلاب کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہاں سوشلسٹ انقلاب نہ ہوا تو روسی انقلاب بھی ناکام ہوجائے گا؟

کون نہیں جانتا کہ عظیم کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن کے خلاف ٹراٹسکی اور اس کے مقلدوں کی بے شرمانہ دشنام طرازی کا ایک اہم جز یہ الزام ہے کہ اسٹالن نے انقلاب کو ایک ملک میں، سوویت روس میں، قید کر کے سوشلزم اور لینن ازم سے غداری کی جن کا تقاضا تھا کہ انقلاب کو عالمی سطح پر پھیلایا جائے حالانکہ اسٹالن کی قیادت میں ہی سوشلزم روس سے نکل کر عالمی سطح پر پھیلا جبکہ ٹراٹسکی اور اس کے مقلد اسٹالن کی مخالفت کی آڑ میں عالمی سوشلسٹ تحریک کی، کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پالیسیوں کی اور سوشلسٹ ملکوں کی مخالفت کر کے سامراجی تحریک کی مدد کرتے رہے۔ اگر ٹراٹسکی اور اس کے مقلد ناہموار ترقی کے قانون کو درست سمجھتے تھے اور بین الاقوامی انقلاب کے حقیقی دعویدار تھے تو انہوں نے سوویت یونین اور عالمی سوشلسٹ تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے سامراج کی طرح ان کی مخالفت کیوں کی؟

روسی سوشلسٹ انقلاب میں ٹراٹسکی کے کردار کے حوالے سے ٹراٹسکائی مقلدوں کی ایک عمومی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر ٹراٹسکی سوشلسٹ انقلاب کا مخالف تھا تو وہ بالشویک پارٹی میں کیوں شامل ہوا اور فوجی وزیر کیوں بنا؟ کیوں اس نے بالشویک حکومت میں مختلف عہدوں پر اپنی خدمات سر انجام دیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ٹراٹسکی ایک موقع پرست انقلابی تھا۔ اس کے نظریات اور عمل ایک دوسرے سے متضاد تھے۔ اگر وہ روسںی سوشلسٹ انقلاب کا مخالف نہیں تھا تو نظریاتی طور پر وہ اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ اور اگر وہ نظریاتی طورپر روسی انقلاب کا مخالف تھا تو عملی طو پر وہ اس کی مدد نہیں کرتا۔ نظریاتی سطح پر اس نے شروع سے آخر تک لینن اور بالشویک پارٹی کے نکتہ نظر اور پالیسیوں کی مخالفت کی لیکن عملی طور پر ایک محدود عرصے تک وہ بالشویک پارٹی میں شامل ہو کر کام بھی کرتا رہا۔ یہ رویہ اس کے مڈل کلاس منافقانہ کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بالشویک پارٹی نے ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نظریے کو پیٹی بورژوا انقلابی نظریہ قرار دیا تھا۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ ٹراٹسکی ازم کی مقبولیت اکثر مڈل کلاس طبقے میں ہی پائی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

روسی کمیونسٹ پارٹی (بالشویک) نے “ایک ملک میں انقلاب یا عالمی انقلاب” کے موضوع پر ہونے والی بحث کو سمیٹتے ہوئے 1925 میں چودھویں کانفرنس کی قرارداد میں لکھا: “۔۔۔عمومی طورپر ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی (حتمی اورآخری کامیابی کے معنی میں نہیں) بلا شک وہ شبہ ممکن ہے۔۔۔۔دو بالکل مخالف سماجی نظاموں کی موجودگی سرمایہ دارانہ پابندیوں کی مستقل لعنت کو، اقتصادی دبائو کی دوسری قسموں کو، مسلح دراندازی کو، بحالی کوبڑھاوا دیتی ہے۔ چنانچہ، سوشلزم کی حمتی اورآخری فتح کی ضمانت، یعنی (سرمایہ دارانہ) بحالی کے خلاف ضمانت، بہت سے ملکوں میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب ہے۔۔۔۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روس جیسے پسماندہ ملک میں “ریاستی امداد” (جیسا کہ ٹراٹسکی کہتا ہے) کے بغیرمکمل سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنا ناممکن ہے۔ ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نظریے کا ایک بنیادی جز یہ یقین ہے کہ “روس میں سوشلسٹ معیشت کی حقیقی ترقی صرف بڑے یورپی ملکوں میں پرولتاریہ کی فتح کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی” – ایک ایسا یقین جو موجودہ دور میں سوویت یونین کے پرولتاریہ کومہلک بے عملی کی خاطرملامت کرتا ہے۔ ایسے “نظریوں” کی مخالفت میں کامریڈ لینن نے لکھا تھا: “یہ دلیل بے حد فرسودہ ہے جو انہوں نے مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی ترقی کے دوران رٹے لگا کرحفظ کی ہے، یعنی، ہم اب تک سوشلزم کے لئے تیارنہیں ہوئے ہیں، جو، جیسا کہ ان میں موجود کچھ مخصوص “عالم فاضل” شرفاء ظاہر کرتے ہیں، کہ ہمارے ملک میں سوشلزم کے لئے معروضی اقتصادی لوازمات موجود نہیں ہیں۔”

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply