معاشرے کا بیڈ روم میں جھانکنے کاشوق۔۔۔حِرا ایمن

ہر گھر میں مہمانوں کو بٹھانے کیلئے خوب سجے سنورے ڈرائنگ روم ہوتے ہیں، باقی گھر کی حالت کیسی بھی ہو، اس ایک کمرے میں بہترین پردے، شو پیس اور فرنیچر ہوتا ہے، پھر بھی کچھ بے تکلف رشتے دار آپکا نہایت ذاتی بیڈ روم دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری ذات کا بھی ہے ۔دنیا کو دکھانے کیلئے ہم سب نے حقیقی چہروں پر خوبصورت ماسک لگایا ہوتا ہے،جو کہ درست بھی ہے، آدمی اپنے غم کیوں عیاں کرے۔ مگر پھر بھی بنی نوع انسان کی فطرت میں تجسس کا عنصر موجود ہے جو اسکو پوشیدہ راز جاننے اور پھر گوسپ کرنے پر اکساتا ہے، بلاشبہ یہ بریچ آف پرائیویسی ہے اور یہ رویے، شہریوں کے حق میں جب ریاست اپنا لے تو نتائج اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں۔ ذاتی نوعیت کی ویڈیوز کا لیک ہونا اور عوام و خواص کا انکو دیکھنے کیلئے ٹوٹ پڑنا قبیح فعل ہے، جو لوگ مذہب اور اخلاقیات پر درس دیتے نہیں تھکتے، وہی ایسے سکینڈل جاننے میں پیش پیش ہوتے ہیں، پچھلے دنوں ایسے ہی لوگوں کی شکایت پر ایک بینکار کے گھر پر چھاپا مارا گیا، پولیس نے معمر بینکار کو گھر میں موجود خاتون کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہوئے پکڑا اور فوراً مقدمہ بنا کر پابند سلاسل کر دیا۔ مزید برآں،

“ملزم” کا فون قبضے میں لے کر بے حد ذاتی نوعیت کی عریاں ویڈیوز سوشل میڈیا پر لیک کر کے، عوام کی ٹھرک کا سامان مہیا کیا۔

قطع نظر، اس آدمی کا کردار کیسا ہے، اُسکے فون میں خواتین کے ساتھ ویڈیوز کیوں موجود تھیں، پہلا سوال ریاستی اداروں سے یہ ہے کہ وہ کس قانون کے تحت کسی کے گھر میں گھس کر سیدھا بیڈروم پہنچ سکتے ہیں؟

کون سی اخلاقیات کے تحت الزام ثابت کیے بغیر خود ساختہ مجرم کے فون کو قبضے میں لے کر ڈیٹا لیک کیا؟

ایک طرف سڑکوں پر واضع نیم پلیٹ لگی فورٹنر گاڑی دندناتی ہے اور کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، ایک ملٹی نیشنل ریسٹورانٹ کے باہر امراء کی اولاد رقص نیم برہنہ میں غرق دیکھی جاتی ہے اور ادارے خاموش رہتے ہیں، کیا ایسا محسوس نہیں ہو رہا کہ ریاست آپکے ڈرائنگ روم سے سیدھا بیڈروم میں در آئی ہے؟

تمام اسلامی قوانین کا اطلاق آپکے بیڈ رومز پر ہوتا ہے؟

کہیں یہ ذاتی معاملات کا چورن بیچ کر قومی امور سے توجہ ہٹانے کا حربہ تو نہیں؟

روز روز کی بیڈروم اسٹوریز تو اب بیسٹ سیلر اور سستی تفریح ہیں، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں، ہر چند کہ ذاتی سپیس اور سماجی دائرہ کار کی حدود ملک کے دانشور اور قانون بنانے والے ادارے میز پر بیٹھ کر متعین کر لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بن بلایا مہمان تو ویسے ہی وبال جان ہوتا ہے اور اس پر وہ سیدھا آپکے بیڈروم میں آنے پر بضد ہو۔، نہ صاحب ایسا نہیں چلے گا۔

Facebook Comments

Hira Ayman
بینک کار، نو آموز لکھاری اور شاعرہ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply