تلاش۔۔مختار پارس

یہ صحیح ہے کہ وقت بھاگا چلا جارہا ہے،مگر ہم وقت سے زیادہ بھاگنے کی کیفیت میں ہیں،جانا تو سب کو ایک ہی جگہ ہے،پھر ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش چہ معنی دارد؟۔۔
اندازہ ہے  کہ کچھ غلط ہوگیا ہے،جس نے انسان کی تفہیم و تشکیل کو متزلزل کرڈالا ہے،ارتقائے حیات کے پیچھے تو فلسفہ تلاش کا تھا مگر کسی کوتلاش کرلینا جلدی ممکن نہیں،جو دستیاب ہوجائے وہ تلاش کے قابل بھی نہیں۔
ایک بے چینی ہے جوروحوں میں سرائیت کرچکی ہے،بہت کچھ ایسا کرنا ہے جس کا بالکل کوئی فائدہ نہیں،ہم محلات کو تعمیر کرتے ہیں اور پھر اُنہیں گرا کر پھر سے تعمیر کرتے ہیں،ان میں رہتے بھی نہیں،اور انہیں اپنا بھی ضرور کہتے ہیں،سکون نہ کہیں رہنے میں ہے اور نہ اپنا کہنے میں۔۔کوئی کسی کا ہے ہی نہیں تو کوئی کہیں بھی رہے،یہ عالم ِ اضطراب تو ہے تلاشِ سکون کے لیے اور سکون نہ اس چشمِ پریشان کومل سکتا ہے جس میں کوتا ہ بینی خیمہ زن ہو اور نہ اس خاطرِ ویران کو میسر ہے جو حقیقت سے ماورا خیالوں کی تاب پر دھڑکتا ہو،جب پریشانی کے تیور مخمل و کمخواب میں اُلجھے ہوں تو سانسیں کیسے بحال رہ سکتی ہیں،چکا چوند شرارے آسمان کی نیلاہٹ کو کہاں دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں،
تن اور من کا سُکھ سچ میں ہے،اور سچ میں آپ اور میں،ہم سب۔۔جواس تکون سے نکل کر صحرا میں کھو گیا۔
ریت کا سفر چاروں طرف درپیش ہو تو ٹیلے پر سے سراب نظر آئے،ہر گھاٹی میں بگٹٹ مسافر کتنا ہی تیز بھاگ لے،جا تو کہیں نہیں سکتا، رستے میں کوئی گلستان مل بھی جائے تو کتنی سانسیں اور جی لے گا،اس کا نصیب یہی ہے کہ اس نے ریت میں بھاگنا ہے،وہ سمجھتا ہے کہ یہ بھاگنا زندگی ہے،مگر ایسا نہ تھا اورنہ ہے۔
خواہشوں کا گلا گھونٹنا بھی جائز نہیں،اور ان کے حصول کے لیے کوشش میں بھی کوئی عار نہیں،مگر احتیاط لازم ہے کہ خواہش کو ہوس بننے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی،سچ پوچھیں، تو انسان کی حیثیت ایک روزہ دار کی سی ہے،حکم ہے کہ اتنا کچھ حلق سے نیچے اتر سکتا اور سب میسر ہونے کے باوجود تناول کی اجازت نہیں۔دن بھر کی فاقہ کشی بھی بھوک میں باولا نہیں کرتی۔وقتِ افطار ہوتا ہے توکچھ بھی کھایا نہیں جاتا،خواہشیں اور جبلتیں تواس دوران سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتیں۔کام و دہن سے زیادہ سحر خیزی اور شب بیداری لطف دیتی ہے،سب سے محبوب عمل سخت جھلستے ہوئے دنوں میں روزہ رکھنا قرار پایا ہے۔انسان کی زندگی تو اس امتحان کے لیے ترتیب دی گئی ہے،سکون ملتا ہے جبلتوں کے منہ زور گھوڑوں کو لگام دے کر اور اس آتش ِ شوق کے بجھنے کا انتظام ہی نہ ہو توپھر کہاں کا سُکھ اور کہاں کا سکون۔
سادگی بالکل آشفتہ سری نہیں،اپنے جوتے گانٹھنے اور اپنے کپڑوں کے پیوند لگانے میں سعادت ہے،حکمران اگر درخت سے ٹیک لگا کربیٹھ جائے تو پھر کیا ہے۔راہ چلتے بچوں کو مسکراکر دیکھنا اور ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا عبادت ہے۔فتح کے وقت سرنِگوں کرنے میں ایک حکمت ہے۔تنہائی میں تنہا کو ڈھونڈنے میں کیا برائی ہے،خس و خاک پر سوجانے میں بھی بڑائی ہے،جو مل جائے اس پر قناعت بزرگی ہے،معاف کردینے میں تو آپ کا خدا پر حق جتانے کا حق ہوجاتا ہے،اور ان میں کوئی بھی کام ایسا نہیں جو دکھ کا موجب بنتا ہو،آسودگی کے متلاشی تو راہِ ہدایت پر بالکل اسی طرح چلتے ہیں اورا نہیں کبھی مایوسی نہیں ہوتی۔
پیار کی خوشبو جو کچے گھروں سے آتی ہے،سنگِ مرمر کا اس باس سے کوئی تعلق نہیں،میگھا برسے تومٹی مہک اٹھتی ہے،اور پتھروں پر چلنے والے پھسلتے رہتے ہیں،نسیم صبح رخسار پر جس طرح سے لپٹتی ہے،وہ ادا شہروں میں سے گھومنے والی بادِ صَر صَر کے بس میں نہیں۔گل و گلزارکا کسی ریگزار سے کیا موازنہ،ہمیں کیا معلوم کہ درخت کے نیچے بیٹھا درویش کیا سوچتا رہا،کیا اس نے کسی کو بتایا کہ اس نے سُکھ کو کیسے پایا؟۔۔اس کو لفظوں کی ضرورت ہی نہ پڑی،قربِ فطرت نے اس کو بیگانہ جو کردیا تھا،کوئی سمجھ جائے تواس کی مرضی،کوئی بھاگتا رہے تو اس کا نصیب۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply