دام ہم رنگِ زمیں ۔۔۔اطہر شہزاد

2018 کے الیکشن میں جمع تقسیم کی کچھ غلطیاں ہوگئی تھیں، بیلنس جس کی وجہ سے خراب نظر آتا تھا، اور اسی غلطی کوup to date کرنے، مزیدزیادہ اور باہر رہ جانے والی کچھ سیاسی قوتوں کو قافلہء بے نام کے ہم رکاب کرنے، اور مقامی اور عالمی سودے بازیوں میں لڑکھڑاتے قدم جمانے کے لئے یہ سارا منظر نامہ تشکیل دیا گیا ہے۔

لیکن ایک بات ہے ، کہ آزادی مارچ کے شرکاء عوام نے اہل پاکستان کو ششدر کردیا ہے ، سر فخر سے بلند ہوا جاتا ہےکہ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں، تقریباً اکثر مذہبی سیاسی جماعتیں کمال کی منظم ہیں ۔۔ ایک جم غفیر، تیز بارش اور آندھی میں بھی جو ثابت قدم رہے،نہ ہلڑ بازی، نہ  گانا بجانا۔۔نہ  خواتین کے ساتھ بدتمیزی، نہ  باہمی لڑائی جھگڑے۔ سچی بات ہے کہ اہل مذہب نے دین کے لئے کام کرنے والوں کو سرخرو  کردیا۔
لیکن ہم گزشتہ دھرنے کے شرکاء کا بھی اتنا ہی مکمل احترام کرتے ہیں، مقاصد انکے بھی بُرے نہیں تھے ، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ” تبدیلی ” کا نعرہ کسے پسند نہیں آئے گا ؟ شدید مہنگائی ، کرپشن، اور سماجی بے انصافی کےخلاف ، مدینہ جیسی ریاست کا خواب۔۔۔۔ سبھی کا دل للچا گیا، سیاسی کارکن جب اجتماعی مقاصد کے لئے جدوجہد اور مصیبتیں جھلینے کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو وہ گلے سڑے خود غرض معاشرے کی پیشانی کا جھومر بن جاتا ہے۔

لیکن یہ آزادی مارچ ؟ کم ازکم شرکاء کے مقاصد جس کے 100 فیصد نیک ہیں ؟ ہم پھر اسے دام ہم رنگ زمین کا نام کیوں دیتے ہیں؟
بھائی اس کی ٹائمنگ غلط ہے ۔اس نے کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والےمظالم کو کیموفلاج کردیا ہے ۔ توجہ ڈائیورٹ ہوگئی ہے، انڈیا کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنائے جارہا ہے، اور ہم یہاں چوہدری شجاعت فیم مذاکرات کی میز سجائے بیٹھے ہیں ۔ اس وقت قوم اور فوج کو ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا، وہ کنٹینر پر چڑھ کر فوج کے کردار پر سوالات کھڑے کررہے ہیں۔
اس طرح نہیں ہوتا، اس طرح نہیں چلتا، یہ فیصلہ کی گھڑی ہے، جس مین آپ نے بے وقت کی راگنی الاپنی شروع کردی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی سیاسی سرگرمی ایسی ہے، جو اہل کشمیر کے زخموں پر نمک پاشی کا باعت ہے، جو کشمیر ایشو کو پسِ  پشت ڈالنے کا باعث ہے، توایسی سیاسی سرگرمی کو دام ہم رنگ زمین کا نام دیا جانا چاہیے، جو غاصب و ظالم انڈیا کے مکمل لاجسٹک مفاد میں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply