طائرانہ خیال۔۔۔بنت الہدیٰ

پہلے میں ایک کبوتر تھی
آنکھیں بند کر کے سوچتی
کہ اب کوئی خطرہ نہیں۔۔

مگر آنکھیں بند کرلینے سے
آوازیں تو خاموش نہیں ہوتیں
سماعتوں سے ٹکراتی
ان چاہی آواز کی لہروں نے
میرا یہ وہم توڑ دی۔۔

اور میں اڑتی ہوئی
ابابیلوں کے ایک جھنڈ میں شامل ہو گئی.

“ابابیل”

وہ چھوٹی چڑیاں  جو ‘اوّلین مدافع حرم’ ٹھہریں۔

مگر میرے دور کی ابابیل ان مقدس ابابیلوں جیسی نہیں۔۔
ان کا ہر جھنڈ ایک بڑے سر والے پرندے کے خودساختہ نظریات کے
نادیدہ قفس میں قید   ہے.

یہ ابابیلیں خدا کے بنائے اونچے آسمان میں نہیں..
بڑے سر والے پرندوں کے بُنے عقائد کی ڈور سے بندھی نیچی اور محدود اڑان بھرتی ہیں۔

اور اپنے ہی جیسی مختلف رنگوں کی ڈور سے بندھی ابابیلوں پر کنكریاں پھینکتی ہیں۔۔

گرچہ کنکریوں کا ہدف ابرہہ کو ہونا تھا!
مگر ان کے نازک پنجوں سے لپٹی یہ رنگین ڈوریاں
انہیں آپس میں ہی الجھائے رکھتی ہیں۔

اور وہاں ابرہہ بےباکی سے
ہاتھیوں کا لشکر لئے
فلسطین، شام، عراق، یمن اور کشمیر میں
اپنے مورچے گاڑھ رہا ہے۔۔

مجھے نہیں معلوم میں کب شاہین بنوں گی۔۔۔
اور ابابیل کے جھنڈ سے نکل کر
بڑے سر والے پرندوں کے
بِنا پَیر کے نظریات کے  رَد میں لکھنے کی جسارت کروں گی۔۔

گرچہ اب میں ابابیل بھی نہیں رہی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے لگتا ہے میں بہت جلد ایک بلبل بن جاؤں گی
جس کے سخن کا ہر جانب چرچا ہوگا
کہ اب میں نادیدہ قفس میں مقید ابابیلوں کے لئے
رنگ برنگے  دھاگوں سے رہائی کے
ترانے گنگنانا سیکھ گئی ہوں۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”طائرانہ خیال۔۔۔بنت الہدیٰ

Leave a Reply