پہلے پولا کرو، پھر کھاؤ۔۔۔سہیل وڑائچ

برصغیر کی سیاست اور طعام کا گہرا تعلق ہے، سیاست ہو یا طعام‘ دونوں کے اپنے آداب و انداز اور روایات ہیں۔ سیاست کرنے والے مذہبی علماء جہاں سیاسی گُر لڑا کر مزہ لیتے ہیں، وہیں وہ کھانے بھی مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ ماسوائے چند مستثنیات کے، مذہبی رہنما نہ صرف مزیدار کھانوں کے شوقین ہیں بلکہ ان میں سے اکثر بسیار خور ہیں۔

آزادی مارچ کے دُلہا، مولانا فضل الرحمٰن سیاست اور طعام دونوں کا مزہ لیتے ہیں، ان کی پسندیدہ ڈش روٹی اور گوشت سے بنی ہوئی کڑاہی ’’صحبت‘‘ ہے۔ صحبت کا پکوان ہو اور دوستوں کی صحبت ہو تو وہ کھلے کھلے رہتے ہیں، لطائف جملوں اور طنز و مزاح سے محفل کو کشتِ زعفران بنائے رکھتے ہیں۔

وہ مولانا ضرور ہیں مگر مزاح اور طنز میں ان کا ذوق عام سیاستدانوں سے کہیں بلند ہے۔

آزادی مارچ کا طعام کے آداب سے بہت گہرا تعلق ہے، اس کا مقصد حکومت کو نرم یا پولا کرنا ہے، کھانے کا پہلا مرحلہ پولا کرنا ہوتا ہے اور دوسرا مرحلہ کھانا اور ہڑپ کرنا۔

ماضی کے لانگ مارچ ہوں یا دھرنے‘ ان سب کا مقصد بھی حکومتوں کو پولا کرنا ہوتا تھا تاکہ ان کو کھانے یا گرانے میں مشکل نہ رہے۔ حکومتوں کو محاصروں اور خروج سے ’’پولا‘‘ کرنے کی پالیسی 1979سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے، اصولاً دارالحکومت کا چند ہزار افراد کے ذریعے محاصرہ کرکے کروڑوں افراد کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت کو بلیک میل کرنا سراسر غلط ہے۔

جماعت اسلامی کے محاصرے ہوں یا مارچ، نواز شریف کا عدلیہ مارچ ہو یا پیپلز پارٹی کا مجوزہ مارچ یا پھر خان صاحب کا دھرنا، سب کے سب غلط تھے، اس سے جمہوریت اور منتخب حکومتیں کمزور ہوتی رہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ، ماضی کے انہی کرتوتوں کو آئینہ دکھانے کے لئے ہے، اس بار بھی مارچ جمہوریت اور حکومت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

آزادی مارچ ایسے ہی نہیں ہوا، تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کو خود اس قدر اشتعال دلایا، لیڈر شپ کو جیلوں میں بند کر دیا، اے سی بند، ملاقاتیں بند اور ہر روز چور ڈاکو کے طعنے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو مسلسل ڈیزل کہہ کر پکارنا۔ اس کا کچھ نتیجہ تو نکلنا تھا، تحریک انصاف Asked for march، حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت سے الیکشن نہیں جیتی بلکہ بمشکل اتحادیوں کے ذریعے وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔

ابھی تک پارلیمان قانون سازی نہیں کر سکی، سارا کام آرڈیننس کے ذریعے چلایا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود حکومتی اکڑ، غرور اور تکبر انتہا پر پہنچا ہوا ہے۔

آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ایک سال سے مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاجی تحریک نہ چلانے کا پیغام دے رہے تھے مگر نواز شریف کو اس حد تک مجبور اور ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ بھی پھٹ پڑے۔

آصف علی زرداری نے کئی بار حکومت کی طرف زیتون کی شاخ لہرائی مگر کبھی مثبت جواب نہ ملا۔ نواز شریف قید و بند میں زندگی کی آخری حدوں کو چھو کر واپس آئے۔

انہیں تکالیف دیتے وقت یہ نہیں سوچا گیا کہ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوگا، بھٹو کی پھانسی کے بعد ریاست کو پیپلز پارٹی کو 30سال حکومت دینا پڑی، اس کے باوجود سندھ کا احساسِ محرومی اور احساسِ بیگانگی برقرار ہے۔ نواز شریف پنجاب کے پہلے بڑے مزاحمتی سیاستدان ہیں جن کی عوام میں جڑیں ہیں، انہیں کچھ ہوگیا تو ریاست کو نون لیگ کا مداوا کرتے دہائیاں گزر جائیں گی۔

تھل کے اندھوں نے بیمار آصف زرداری کو جیل میں بند کرکے اسے ہیرو بنا دیا ہے، کل کو اسے کچھ ہوا تو وہ گڑھی خدا بخش میں شہیدوں کے قبرستان میں دفن ہوگا۔ صدر رہنے کے باوجود اس کو مظلوم شہید قرار دیا جائے گا۔

مولانا تو بیٹھ چکے، ہزاروں افراد بھی ہمراہ ہیں، اب ہوگا کیا؟ مولانا نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔ اس شرط سے ہٹے تو مولانا اپنے حامیوں کو کیا جواب دیں گے۔

دوسری طرف حکومت کیوں چند ہزار کے کہنے پر مستعفی ہو جبکہ ادارے اسے منتخب حکومت تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی اطاعت کا دم بھی بھرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ فی الحال درمیانی راستہ نظر نہیں آرہا۔ بحران اور تعطل پیدا ہوگا، حکومت پر دبائو آئے گا، مولانا فضل الرحمٰن طعام اور قیام کے مزے لیں گے، ہر روز تقریر کیا کریں گے اور اگر ان کے حاضرین کی تعداد کم پڑی تو مدرسوں سے تازہ دم طالبعلم آکر رونق بڑھاتے رہیں گے، کوئی کچھ بھی کہے مولانا کو اسلام آباد آنے کی اجازت دے کر سیاسی حماقت کی گئی ہے، اب اس کا کچھ نہ کچھ تاوان تو ادا کرنا پڑے گا۔

حکومت کا گرنا اور گرانا تو غلط ہوگا البتہ الیکشن اور اداروں کے سیاست میں ملوث نہ ہونے کے مطالبات پر مذاکرات اور پیش رفت کرنا پڑے گی۔ سیاسی قیدیوں کو ریلیف ملے گا حکومت بیک فٹ پر جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ خان جارحانہ مزاج رکھتا ہے، وہ نہیں مانے گا مگر میری رائے میں خان میں یوٹرن لینے کی جرأت موجود ہے، دباؤ پڑنے پر پالیسی تبدیل ہو سکتی ہے، تحریک انصاف کے اندر سے بھی یہ دبائو ہے کہ پارلیمان کو چلنے دینا چاہئے، قانون سازی کرنے کے لئے افہام و تفہیم ضروری ہے۔

اسد قیصر، پرویز خٹک اور جہانگیر تر ین سمیت سب یہی کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان کو چلانا ضروری ہے، اس مقصد کے لئے خان کو یوٹرن لینا ہوگا۔ امید یہی ہے کہ آزادی مارچ کم از کم اس یوٹرن کو تو یقینی بنادے گا۔

غلطی کرکے انہیں اسلام آباد لا کر بٹھادیا گیا ہے۔ اب انہیں اٹھائے کون اور کیسے؟ لازماً ان کی اس قدر اشک شوئی تو کرنا پڑے گی کہ وہ بھی خوشی خوشی گھر جائیں اور حکومت کو بھی سکون کا سانس لینا نصیب ہو۔

بظاہر کوئی درمیانی راستہ نظر نہیں آرہا لیکن ملک کے بالغ نظر سیاستدانوں سے توقع یہی ہے کہ وہ درمیانی راستہ نکالیں۔ محاذ آرائی، جھڑپیں یا خون خرابہ ملک کے مفادمیں نہیں۔

مولانا اپنے آزادی مارچ کو بہت عجلت میں لے کر اسلام آباد پہنچے ہیں، وہ چاہتے تو پنجاب میں کئی دن لگا سکتے تھے، ان کی تیز رفتاری کی وجہ اب سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کا ٹارگٹ ہر صورت اور جلد از جلد دارالحکومت پہنچ کر مورچہ سنبھالنا تھا۔

اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقت اور قوت سے ڈائیلاگ کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ وہ یہی چاہتے تھے، حکومت نے اپنی کج فہمی سے انہیں یہ موقع دے دیا۔

دلیل، عقل اور فہم یہ کہتا ہے کہ اس طرح کے دبائو میں وزیراعظم کی قربانی ریاست کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی اس لئے ایسا ہونا ممکن نہیں، دوسری طرف اس بڑے مجمع کو کچھ دیے بغیر گھر بھیجنا بھی ناممکن نظر آتا ہے، اہل دیوبند کے سالار اور اپوزیشن کے نئے ستارے مولانا فضل الرحمٰن بے نیل و مرام گھر واپس گئے تو ان کی سیاست کو دھچکا لگے گا۔

حکومت دانش کا مظاہرہ کرے تو انہیں عزت و احترام، دلاسے اور کچھ نہ کچھ وعدے کرکے رخصت کرے۔ یہ مارچ حکومت کو پولا کرے گا، اگلا دھکا اسے رخصت کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply