باکردار ویڈیو۔۔۔سلیم مرزا

عموما دکانداروں کی تعلیمی قابلیت کم ہوتی ہے ان کی صلاحیت اور استعداد ان کے اپنے کاروبار کی حد تک بہترین ہوتی ہے ۔ان کی اکثریت اپنے موروثی کاروبار پہ عموماًآٹھ دس جماعتیں پڑھ کر بیٹھ جاتی ہے، چھوٹی عمر میں شادی، خوبصورت بیوی اور آٹومیٹک کاریں ۔ جس وقت ایک پڑھا لکھا ایم بی اے کرکےفارغ ہوتا ہے اس وقت ان دکانداروں کے بچے دکان پہ دوپہر کو روٹی دینے آرہے ہوتے ہیں،ایسے لوگ آپ کو عموماً چھٹی والے دن قصائی کی دکان پہ آدھا بکرا تلواتے ہوئے ملیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بھی ایک ایسا ہی دکاندار تھا، سلامت نام کا ۔۔
کامونکی میں ویڈیو سنٹرز کی ایک پوری مارکیٹ تھی وہ وہاں ہماری دکان سے جمعرات منانے کیلئے ویڈیو سنٹر سے ایک عاجزانہ اور فقیرانہ فلم تین گنا کرائے پہ لے گیا ۔کوئی ایک گھنٹہ بعد واپس آیا اور کہنے لگا کہ وی سی آر فلم لوڈ نہیں کر رہا۔۔
“ماڈل کون سا ہے ” ؟ ککو ڈار نے پوچھا
“نیشنل جی ٹین ۔تین دن پہلے خریدا ہے ”
ڈار نے اسے کیسٹ بدل دی ۔کوئی آدھے  گھنٹے کے بعد سلامت پھر آموجود ہوا۔۔
“یہ بھی نہیں لوڈ ہورہی ”
اب ککو نے کیسٹ پکڑی ۔دکان پہ چلتے وی سی آر میں ڈالی، وہ چلنے لگی ۔
“میرے ویڈیو میں بھی ساری فلمیں چل رہی ہیں ۔بس اسی کو لوڈ ہی نہیں کر رہا “سلامت نے کہا تو ککو کہنے لگا
“یار وکی، رش ٹائم ہے، تو اس کے ساتھ جاکر دیکھ کیا مسئلہ ہے “؟
میں سلامت کے ساتھ تین گلیاں چھوڑ کر اس کے گھر گیا۔۔
بیڈروم میں وی سی آر، ٹی وی خوبصورت نئی ٹرالی پہ سجے ہوئے تھے۔اور لتا کشور کے رومانٹک گانے چل رہے تھے۔
میں نے وہ کیسٹ نکالی، اور فرنٹ لوڈنگ وی سی آر میں اپنے والی کیسٹ ڈالی، اس نے اسے لیا نہیں۔ہر طرح کی انڈین فلمز، گانے، انگلش موویز ہرکیسٹ وہ آرام سے لوڈ کر لیتا، مگر بلیو فلم وہ پکڑ ہی نہیں رہا تھا۔
تھک ہار کر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی میں نے سلامت سے پوچھا
“آپ کے گھر چار منہ والا پیچ کس ہے “؟
“نہیں “اس نے جواب دیا
“چلو تیکھے منہ والی چھری ہی لے آؤ”
میں نے متبادل بتایا تو جھٹ سے کچن سے ایک چھوٹا چاقو لے آیا، میں نے وی سی آر آف کرکے اس کا “ٹاپہ “کھولا اور کیسٹ اس کے گیٹ میں پھنسا کر لوڈنگ والی موٹر کو ہاتھ سے گھمایا، کیسٹ دھیرے دھیرے اندر جانے لگی، اور آخرکار اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھ گئی، میں نے پلے کا سوئچ دبایا وہ نہیں چلا۔
پیچھے سے آف تھا، میں نے جھک کر گیٹ کے اندر جھانکا اور سلامت سے کہا
“سوئچ آن کرنا”
اس سے پہلے کہ میں منہ پرے کر پاتا ۔وی سی آر نے پوری قوت سے کیسٹ میرے منہ پہ دے ماری۔۔
درد اور حیرانی ایک ساتھ تھی، میرا ناک ہلا دیا تھا اس نے ۔
میں نے وی سی آر کا کور واپس لگایا، وی سی آر بغل میں لیا،سلامت کو ساتھ لیا اور ویڈیو سنٹرزمارکیٹ میں آگیا، اسے ایک وی سی آر اپنی دکان سے دیکر رخصت کیا ۔تاکہ اس کا نامہ اعمال خالی نہ رہ جائے،
اب وہ وی سی آر تھا اور پوری ویڈیو مارکیٹ ۔
ہر ایک نے، ہر طرح کوشش کی،
وی سی آر نے بلیو فلم لوڈ کی ہی نہیں،
کئی برس تک سلامت کا تذکرہ ہوتا تو لوگ کہتے
“اچھا اچھا وہ سلامت، جس کا وی سی آر نیک تھا”
شکر ہے اب ایسا نہیں ہے ۔رابی پیرزادہ کی ویڈیوز کو لوگوں نے ایک شغل اور حماقت سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔اور نہ ہی اسے جرم وار سمجھا ۔
اب لوگ غلطیوں کی بجائے انسانوں کو اہمیت دیتے ہیں اگر کسی نے سمجھا تو اس کو جس نے اس کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ۔یہی رویہ اگر ہم ایک دوسرے کیلئے عام زندگی میں رکھیں ، جو سوشل میڈیا پہ اس معاملے میں دیکھنے میں آیا ہے تو یقین کریں ہم بہترین قوم ہیں ۔رابی پیرزادہ کے واقعہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اچھے لوگ ہیں ۔
ورنہ بندہ وی سی آر کے اچھے کردار پہ بھی رسوا ہوسکتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply