مولانا سید مودودیؒ کی مکتوب نگاری۔۔۔ڈاکٹر محمد جاوید اصغر

دوستوں اور عزیزوں کے خطوط بالعموم مکتوب الیہ کے لئے خوشی اور مسرت کے پیامبر بن کر آتے ہیں چنانچہ خط یا مکتوب نثری ادب میں سب سے زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ خط اصلاًنجی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنے اندر آفاقیت اور اجتماعیت کا عنصر رکھتے ہیں۔ خط کا حسن اس کے اختصار میں پوشیدہ ہوتاہے اور اس کا اوّلین مقصد ابلاغ کامل ہے۔ وہ خطوط بہتر سمجھے جاتے ہیں جن میں بے ساختگی، سادگی، سلاست، بے تکلفی، قطعیت، لطافت اوربول چال کا انداز ہو۔ بظاہر آسان نظر آنے والا یہ فن اس لیے مشکل ہے کہ ہر مختصر، سادہ اور بے تکلف تحریر خط نہیں کہلائی جا سکتی۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے الفاظ میں: ’’اعلیٰ خط تہذیب نفس اور حسن کلام کا غیر معمولی آمیزہ ہوتا ہے‘‘۔ ۱؎ گویا خط وہ تحریر ہے جس میں تہذیب، شائستگی، ایجاز، دلچسپی، شرافت، ٹھہراؤ، رچاؤ سبھی کچھ ہوتا ہے اور اچھا مکتوب نگاراپنے اسلوب کی جدت سے اس میں رنگ بھر دیتا ہے۔

خط انسانی جذبات و احسات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اور انسانی شخصیت کا وہ ساتواں دَر ہوتے ہیںجن تک پہنچے اور داخل ہوئے بغیر فطرت کے اسرار و رموز کو نہیں سمجھاجا سکتا۔ ۲؎

انسانی تہذیب نے مکاتبت و مراسلت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اس شخص کو شائستہ اور مہذب سمجھا جاتاتھا جو خط لکھنے کے فن میں طاق ہو۔ ڈاکٹر سید شاہ علی لکھتے ہیں: ’’عرب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا اور ائمہّ کے خطوط کو مذہبی نقطہء نظر سے اہم سمجھا گیا‘‘۔۳؎ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے سفارتی معاملات اور دعوت اسلام کے لیے ایک مستقل محکمہ انشا کی بنا ڈالی۔ ۴؎

ویسے تو خط نجی ہونے کے باوجود دلچسپی کے ساتھ پڑھاجاتا ہے لیکن وہ خطوط زیادہ کامیاب اور موثر سمجھے جاتے ہیں جن میں انسانی یا سوشل اپیل موجود ہو ۔ مشاہیر کے خطوط اپنے موضوعات کے تنوع، ادبی خوبیوں، معلومات اور شخصی رنگوں کے سبب ہمیشہ قاری کے زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ اردو نثر میں غالب کے خطوط کو جدت ادا اور جدت فکر کے سبب اوّلیت حاصل ہے۔ سر سید کے خطوط میں ملکی، سیاسی اور تہذیبی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ حالی کے خطوط سادگی اور شبلی کے خط ایجاز، نکتہ آفرینی اور طنز یہ جملہ بازی کے اعتبار سے اردو خطوط کے اسالیب میں دلکش اضافہ ہیں۔ لیکن اقبال کے خطوط، زیب النساء کے مطابق: ’’اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں، یہ نہ بے رنگ ہیں اور نہ خشک‘‘ ۔۵؎ ابو الکلام آزاد کی کتاب غبار خاطر علمی و ادبی خطوط کی مثال ہیں، جس میں جدت اسلوب، جدت خیال،ظرافت، بذلہ سنجی سبھی کچھ ہے۔

یہ اردو زبان کی ثروت مندی اور ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہے کہ اس کے سرمایہ مکاتیب میں موضوع اور اسلوب کے سارے رنگ جمع ہو گئے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’جو خطوط مکاتیبی ادب کو فکر و فن دونوں کے اعتبار سے ایک قیمتی سرمایہ بناتے ہیں و ہ ہیں ،جن میں سوز دل اور غم جاناں کے ساتھ مسائل حیات اور غم روزگار سے بھر پور تعرض کیا گیا ہو‘‘۔۶؎

مولاناسید ابوالا علیٰ مودودی بیسوی صدی کے ایک بڑے اور مقبول نثر نگار تھے ۔اردو کتب کی تعداد اشاعت کے لحاظ سے کوئی اردو نثر نویس ان کا ہم پلّہ نہیں۔ ان کی قلمی کاوشوں کا بنیادی موضوع “اسلام بطور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے “اس ضمن میں ان کے نثری ترکے میں خطوط کا ایک بڑا ذخیرہ ملتاہے۔

سید مودودی کا سب سے پہلا اور قدیم دستیاب خط وہ ہے جوانھوں نے ۱۰ دسمبر ۱۹۱۸ء کو مولانا عبد الباری فرنگی محل کے نام لکھا تھا اور آخری خط سید حسین فاروق مودودی کے نام ہے جو ۱۶؍ جون ۱۹۷۹ء کو انھوں نے لکھا تھا۔۷؎

سید مودودی اگرچہ ضرورت کے مطابق ہی خط لکھتے تھے اور آپ کی قلمی گفتگو اہل خانہ، قریبی دوست احباب، تحریکی ساتھیوں ،سیاسی ناقدین، مشاہیر علم و ادب اور گم نام سائلین سے ہی رہتی۔ اس کے باوجود یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’ان مکتوبات کی تعداد پچاس ساٹھ ہزار کے درمیان ہو گی‘‘۔۸؎ اتنی بڑی تعداد میں خط لکھنے کا بڑا سبب یہ تھا کہ آپ نے کبھی کسی خط سے تغافل نہیں برتا اور اپنے نام آنے والے کسی خط کو غیر اہم قرار دے کر جواب لکھنے سے پہلو تہی نہیں کی۔ مصروفیت کے باعث خط کا جواب تاخیر سے تو آ سکتا تھا لیکن یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ سید مودودی کو خط لکھا جائے اور جواب نہ آئے۔ لالہ صحرائی کہتے ہیں: ’’یہ التزام سید مودودی کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘ ۹؎

سید مودودی کے مکتوبات کی اشاعت ان کی زندگی میں شروع ہو گئی تھی۔ان کے خطوط کے حسب ذیل مجموعے اب تک کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں:

خ مکاتیبِ زنداں، مرتب: حکیم محمد شریف امرتسری (۱۹۵۲ء)

۴ ؍ اکتوبر۱۹۴۷ء کو پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جب سید مودودی اور ان کے رفقا مولانا امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کو پابند سلاسل کر دیا گیا تو انھوں نے ’زنداں‘ سے اپنے احباب اور اہلِ خانہ کو جو خطوط لکھے انھیں حکیم محمد شریف امرتسری نے مکاتیب زنداں کے نام سے مرتب کیا۔ اس مجموعے میں سید مودودی کے ۳۴ مکتوبات شامل ہیں۔ جب کہ امین احسن اصلاحی کے ۲۰ اورمیاں طفیل محمد کے ۳۰ خطوط بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں۔ ان خطوط کے لب و لہجے، انداز تحریر، اور مضمون سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ یہ ایک قیدی کے خطوط ہیں لیکن ایسے قیدی کے جو مایوس نہیں، اور نہ دست ظلم کے سامنے جھکنے والا ہے:

’’غیبت کے متعلق آیندہ کسی خط میں لکھوں گا۔ ایک قیدی جتنا کچھ لکھ سکتا ہے اس کی حد یہاں پہنچ کر ختم ہو گئی ہے‘‘۔۱۰؎

’’آیندہ کبھی آئیں تو اپنے ساتھ دونوں بڑے بچوں کو بھی لے آئیں۔ پہلے میں اس لیے بچوں کو لانے سے منع کر رہا تھا کہ بچوں کے ذہن پر یہاں کے ماحول کا بُرا اثر پڑنے کا اندیشہ تھا‘‘۔۱۱؎

’’میں نے پہلے اڑتی سی خبر سنی تھی کہ آپ کو بھی نظر بندی کی سعادت حاصل ہو چکی ہے۔ اب آپ کے خط سے اس کی تصدیق ہوئی۔ اس سعادت کے معاملہ میں کسب کو تو کچھ دخل نہیں، یہ تو ایک وہبی چیز ہے‘‘۔ ۱۲؎

’’گرفتاری کے روز تم لوگوں کے سامنے گھر سے جو پان کھا کر چلا تھا اسے راستے میں تھوک کر کلی کی اور ایک لمحہ کے اندر اٹھارہ برس کی تمباکو خوری کی عادت کو اس طرح چھوڑ دیا کہ مجھے پان اور زردے کا خیال کبھی نہیں آیا۔‘‘ ۱۳؎

خ تلاش راہ حق: مرتب: سید اسعد گیلانی (۱۹۵۷ء)

یہ خطوط چودھری علی احمد خاں کے ان استفسارات اور معتدد علما کے جوابات کا مجموعہ ہے جو چودھری صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر شرح صدر کے لیے سید مودودی اور دیگر احباب اور علما سے کیے جو جماعت اسلامی سے اختلاف نظر رکھتے تھے۔ یہ مجموعہ سید اسعد گیلانی نے مرتب کیا ہے اس میں سید مودودی کے ۲۲ مکتوبات شامل ہیں ، جبکہ باقی خطوط، سید سلیمان ندوی ، مناظر احسن گیلانی ،علی احمد خان ، محمد منظور نعمانی اور اشرف علی کے خطوط شامل ہیں۔

خ (۱۹۶۹ء)Correspondence Between Maulana Maududi and Maryam Jameela

سید مودودی اور نو مسلم مریم جمیلہ کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی وہ اس انگریزی مجموعے میں شامل ہے جسے مریم جمیلہ نے خود مرتب کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ پروفیسر عبدالغنی فاروق نے کیا ہے- اس مجموعے میں مریم جمیلہ کے گیارہ اور سید موصوف کے بارہ خطوط شامل ہیں۔سید مودودی اردو زبان میں خط لکھتے تھے اور آپ کے رفیق کار اس کا انگریزی ترجمہ مریم جمیلہ کے لیے تیار کرتے تھے، اس لیے ان خطوں میں سفیر اختر کے مطابق: ’’سید مودودی کی منطقیت، انداز استدلال و تخاطب تو موجود ہے، لیکن زبان ان کی نہیں۔‘‘ ۱۴؎

خ مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی ، اوّل، دوم، مرتب: عاصم نعمانی (۱۹۷۲ء ، ۱۹۷۵ء)

سید مودودی کے یہ دونوں مجموعے بالترتیب ۱۶۴ اور ۲۶۶ خطوط پر مشتمل ہیں۔ ان دونوں مجموعوں کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ سید مودودی نے ان خطوط پر نظر ثانی کر کے اصلاح بھی کی ہے۔ عاصم نعمانی لکھتے ہیں: ’’مجموعے میں شامل خطوط کی حیثیت اگرچہ اصطلاحی معنوں میں نجی مراسلت کی نہیں ہے، تاہم ان میں بے تکلفی سادگی و پرکاری کا وہ رنگ نمایاں ہے جو نجی مراسلت کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے‘‘۔ ۱۶؎

خ خطوط مودودی اوّل ، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد (۱۹۸۳ء)

یہ پچاس خطوط پر مشتمل مجموعہ ہے اور یہ تمام خطوط مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ہیں۔ مرتبین نے ان خطوط کے آغاز میں مکتوب نگار اور آخر میں مکتوب الیہ کا مفصّل تعارف دیا ہے۔ سفیر اختر کے الفاظ میں: ’’یہ مکتوبات جماعت اسلامی کے قیام اور تاسیس کے فوراً بعد کی سوچوں اور الجھنوں کو سمجھنے کیلئے بڑے مفید ہیں‘‘۔ ۱۶؎ خطوط مودودی اوّل ،کا دوسراایڈیشن اب شائع ہوچکا ہے اور اس میں چھے خطوط کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں شائع شدہ خطوط کے عکس بھی شامل اشاعت ہیں۔

خمکتوبات مودودی، مرتب: اشرف بخاری (۱۹۸۳ء)

۹۳ خطوط پر مبنی اس مجموعے میں وہ خطوط شامل ہیں جو صوبہ سرحد کے احباب اور نیاز مندوں کو لکھے گئے تھے۔ ان میں سے ۶۴ خطوط سید مودودی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ باقی خطوط عبدالعزیز مظاہری ، حکیم محمد اسحاق ، محمد سلطان ، مولانا گوہر رحمان ، اشرف بخاری اور غلام علی کے نام ہیں۔یہ خطوط پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق عصری تناظر میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات اور سید مودودی کے افکار و سوانح سے متعلق بعض نوادر کو سامنے لاتے ہیں۔ ۱۷؎

خیادوں کے خطوط، مرتب: محمد یونس (۱۹۸۳ء)

اس مجموعے کے زیادہ تر خطوط حیدرآباد دکن کے احباب کے نام ہیں۔ ان کی تعداد۴ ۹ ہے۔ اس مجموعے میں میاں طفیل محمد، ابوالخیر مودودی اور چودھری نیاز علی کے ۱۵ خطوط بھی شامل ہیں۔

خمکتوبات مودودی بنام مولانا محمد چراغ، مرتب: عبد الغنی عثمان (۱۹۸۴ء)

مکتوبات کا یہ مجموعہ ۳۶ خطوط پر مشتمل ہے جس میں مفتی سیاح الدین کاکا خیل کا مقدمہ اور تفہیم القرآن پر مولانا محمد چراغ کی تقریر بھی شامل ہے۔ اس مجموعے میں مختصر حواشی بھی شامل ہیں۔

خمکتوبات سید ابو الاعلیٰ مودودی ،مرتب: حکیم محمد شریف مسلم (۱۹۸۶ء)

اس مجموعہ میں سید مودودی کے ۱۰۹ خطوط شامل ہیں۔بعض دیگر احباب کے نام ۶ خطوط شامل ہیں۔ اس کا پیش لفظ پروفیسر اسرار احمد سہاوری نے لکھا ہے، جس میں سید مودودی کے اسلوب پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس مجموعے کے خطوط میں موضوعاتی تنوع موجود ہے۔

خخطوط مودودی حصہ دوم، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد (۱۹۹۵ء)

۱۹۲۰ء سے ۱۹۷۹ء کے عرصے میں لکھے گئے ہیں ان خطوط میں سید مودودی کے ذاتی تعلق، گھریلو حالات اور قلبی کیفیات کا ذکر ملتا ہے۔ زندگی کے ہمہ جہت مسائل، مصائب، کش مکش اور بہت سے دوسرے پہلو ان خطوط کے آئینے میں صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ بقول خرم مراد: ’’ان خطوط کے بغیر سید مودودی کے سوانح اور کردار نگاری کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔‘‘ ۱۸؎

خمکاتب سید مودودی ، مرتب: پروفیسر نورور جان (۲۰۱۱ء)

۲۵۹ خطوط پر مشتمل اس مجموعے میں قدیم ترین خط مولانا نجم الدین اصلاحی کے نام اکتوبر ۱۹۳۸ء کا ہے، جبکہ آخری خط محررہ ۲۶ مئی ۱۹۷۹ء منیجر روزنامہ جسارت کے نام ہے ۔ یہ مکاتب مختلف علمی، ادبی،دینی ، صحافتی اور تحریکی افراد کے نام ہیں۔ حواشی اور تعلیقات میں اہم نکات کی وضاحت کر دی گئی ہے اس مجموعے میں اشاریہ بھی شامل ہے۔

وحید الدین سلیم رقم طراز ہیں: اقبال اور مودودی کے تعلقات کی جھلک پروفیسر نذیر نیازی اور مولانا مودودی کے درمیان مراسلت میں دیکھی جا سکتی ہے‘‘۔ ۱۹؎

سید مودودی کے متعددخطوط ان کے سوانح نگاروں نے اپنی اپنی تصانیف میں شامل کیے ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

سید مودودی: دعوت و تحریک از اسعد گیلانی (۱۹۸۰ئ) میں ۱۴ خطوط سید مودودی پر عزم زندگی گمنام گوشے از محمد حسین شمیم (۱۹۹۱ئ) میںبارہ خطوط اور سید ابو الاعلیٰ مودودی از علی سفیان آفاقی (۱۹۹۱ء) میںبارہ خطوط شامل ہیں۔ مختلف رسائل، جنھوں نے اشاعت خاص کے لیے سید مودودی کی فکر سے خوش چینی کی اور سید مودودی یا تحریک اسلامی پر خاص نمبر شائع کیے،ان میں بھی ان کے خطوط شامل اشاعت ہیں۔مثلاً چراغِ راہ تحریک اسلامی نمبر (۱۹۶۳ء) میں ۳۶ خطوط اورماہنامہ سیارہ سید مودودی نمبر (۱۹۸۰ئ) میں سات خطوط وغیرہ ۔

ترجمان القرآن میںبعض ۲۰؎ سائلین کی طرف سے سید مودودی کے نام جو خطوط آتے تھے اور جن میں مختلف علمی، فقہی، دینی، تحریکی، سیاسی اور نجی معاملات پر سوالات پوچھے جاتے تھے اب وہ رسائل و مسائل کے نام سے الگ تصنیف کے طور پر پڑھے جا رہے ہیں، اس لیے انھیں خطوط کے زمرے میں شامل کرنا مناسب نہیں۔ ۲۱؎

سید مودودی نے اوائل میں بیشتر خطوط اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں، کبھی کبھی املا بھی کرواتے تھے، لیکن بعد کے زمانے میں وہ خط پر ہی اپنے قلم سے جواب لکھ دیتے، جسے ان کے معاون (ملک غلام علی ، مولانا محمد سلطان ) ٹایپ کراکے بھیج دیتے تھے ۔ سید مودودی کے ہاں خطوط بہت زیادہ تعداد میں آتے تھے اور ہر مزاج اور افتاد کے لوگ خط لکھنے والوں میں شامل ہوتے، اس کے باوجود ہر خط کا جواب دینا مولانا نے گویا اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ اس کے لیے آپ کے احباب ۲۲؎ آپ کی معاونت کرتے تھے۔

سید مودودی خط کا آغاز اللہ تعالیٰ کے مبارک نام سے کرتے اور بالعموم ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھتے۔ بعض اوقات تسمیہ کے اختصار سے خط شروع ہوتا۔ خط عموماً دفتری لیٹر پیڈ پر لکھتے۔ جیل سے آنے والے خطوط جیل انتظامیہ کی طرف سے مہیا کردہ کاغذ پر لکھے ہوتے۔ خط کی پیشانی پردائیں جانب مقام اشاعت تحریر کرتے۔ خطوط کے دائیں جانب:پٹھان کوٹ، اچھرہ لاہوریا نئی سنٹرل جیل ملتان یامبارک پارک، پونچھ روڈ لاہوریا دہلی کے الفاظ ملتے ہیں، یعنی سید مودودی جہاں مقیم ہوتے، وہیں کا پتا لکھتے۔ دائیں جانب مقام اشاعت کے نیچے تاریخ لکھتے۔ ابتدائی دور کے خطوط میںقمری تاریخ درج ہے، بعض خطوط میںقمری اور شمسی دونوں تاریخیں درج ہیں۔ سنہ کبھی پورا نہیں لکھتے تھے۔ بعض خطوط میں مکمل سنہ بھی لکھا نظر آتا ہے۔ مثلاً: ۴؍ رجب ۶۴ ، ۱۵ ؍جون ۱۹۴۵ء ،۲۹؍ جون ۵۱ئ، ۲۰ ؍جون ۶۲ء ۔

سید مودودی مکتوب الیہ کو اس کے مقام و مرتبے، عمر اور جنس کے مطابق مخاطب کرتے ۔ القاب وآداب عموماً سادہ، مختصر اور بلحاظ تعلق و مرتبہ لکھتے تھے۔ آپ عموماً “مکرمی و محترمی “اور خواتین کے لیے” محترمہ”، محترم بہن” عزیزہ “اور بعض شخصیات کے لیے” مخدومی و محترمی”،” گرامی قدر ” سادہ القاب لاتے۔ قریبی احباب کے لیے اپنائیت سے بھر پور القاب لاتے، جیسے: قریشی صاحب، مشرقی صاحب، شورش صاحب، چھوٹوں کے لیے” عزیز گرامی”یا ” عزیز” وغیرہ۔ آداب میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ لکھا جاتا۔ خط کا ابتدائی جملہ عموماً ’’آپ کا عنایت ملا‘‘ ہوتا ، کبھی کبھی یہ جملہ بدل بھی جاتا۔ خط کے اختتام پر ’’خاکسار ابو الاعلیٰ‘‘ درج ہوتا اور پتے میں بخدمت شریف لکھنا سید مودودی کی عادت تھی۔ سید مودودی جوابات اسی ترتیب سے لکھواتے جس ترتیب سے مکتوب الیہ نے سوالات بھیجے ہوتے۔ کبھی کبھی خط لکھنے والے کی نفسیات کو سمجھ کر جواب کی ترتیب بدل دیتے اور آغاز میںتمہیدی طور پر چند سطور لکھواتے‘‘۔ ۲۳؎

سید مودودی کو ملنے والے خطوط مودبانہ بھی ہوتے اور بے باکانہ بھی، بلکہ کھردرے لہجے میں بھی سوالات پوچھے جاتے یا اعتراض کئے جاتے۔ اس طرح بچکانہ باتیں بھی ہوتیں یعنی لکھنے والے کیا کیا کچھ نہیں لکھ دیتے تھے۔ حکیم خواجہ اقبال احمد ندوی رقم طراز ہیں: ’’سید مودودی کے نام ایسے خطوط بھی آتے رہتے جنھیں پڑھتے ہوئے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جائے اور ایسے بھی جنھیں پڑھ کر طبیعت جھلا اُٹھے، لیکن مولانا کے ہونٹوں پر نہ کبھی مسکراہٹ دیکھی ،نہ چہرے پر غصے کا کوئی اثر دکھائی دیا‘‘۔۲۴؎ ان الٹے سیدھے سوالات کے جوابات میں سید مودودی نے خط میں کبھی کسی کی تکفیر کی، نہ طنز وتعریض کا انداز اختیار کیا، بلکہ مکتوب الیہ کی عزت نفس کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔

خط صرف دل چسپی کے ساتھ پڑھی جانے والی صنف نہیں، بلکہ یہ تو مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں اور سید مودودی جو اخفائے ذات کے بالکل قائل نہیں تھے، کیونکہ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، اس کے باوجود ان کے احساسات، جذبات، میلانات اور افکار سمیت جتنے شخصی رنگ خطوط میں حسین نظر آتے ہیں، کہیں اور نہیں ملتے:

’’اگرچہ مجھے زبان میں سند ہونے کا دعویٰ نہیں، لیکن اردو بولتے لکھتے سنتے اور پڑھتے تقریباً پچاس برس گزر چکے ہیں اور میں صحت زبان کے معاملہ میں ہمیشہ متشدد رہا ہوں‘‘ ۲۵؎

’’آپ کی تحریر میں نے رات ہی کو دیکھی ،اس کے بعد سونا چاہا، مگر سو نہ سکا، اس لیے رات ہی کو لکھنے بیٹھ گیا‘‘ ۲۶؎

’’آپ کے گاؤں کے دو آدمی ملے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ آپ کو سلام کہلا بھیجا تھا۔ معلوم نہیں وہ انھوں نے پہنچایا یا جیب ہی میں رکھ لیا۔‘‘ ۲۷؎

سید مودودی کی شخصیت جہاں ان خطوط میں اپنی صداقت، نفاست، اخلاص اور اجلے پن کے ساتھ نظر آتی ہے۔ وہاں موضوعات کا تنوع خطوط میں تازگی، دلچسپی اور مقصدیت پیدا کرتا ہے۔ زندگی کے ہمہ جہت مسائل، راہ حق کی عزیمت کے نشان، علم و ادب، قرآن فہمی، سفر کی رو داد، جیل کے حالات، صحت کا بیان، تحریک اسلامی کے احباب کا تذکرہ، دوسرے کے دکھ سکھ کی کہانی سبھی کچھ ان خطوط میں موجود ہے۔ سید مودودی کو اگر سب سے زیادہ خطوط لکھنے والے مکتوب نگار کا اعزاز حاصل ہے تو خطوط کے موضوعات کی جدت، وسعت اور تنوع میں بھی آپ ہی کو اولیت ملے گی۔ کتنی اہم باتیں کتنے سادہ، دھیمے اور بے ساختہ انداز میں چھوٹے چھوٹے جملوں کی ترتیب کے ساتھ ان خطوط میں جا بجا بکھری نظرآتی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’ان خطوط میں وہ جواہر پارے ہیں جو کئی کئی کتابوں پر بھاری ہیں‘‘۔۲۸؎ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے‘‘۔ ۲۹؎

’’میرا مدعا یہ نہیں کہ طہارت، غسل، وضو وغیرہ کے مسائل نصاب میں شامل نہ ہوں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ دین کی بنیاد یہ مسائل نہیں، بلکہ اسلامی عقائد ہیں‘‘۔ ۳۰؎

’’عرب رہنماؤں کو بار بار توجہ دے چکا ہوں کہ اسلحہ سازی کی صنعت کے لیے وسائل مجتمع کریں اور پاکستان ٹرکی ایران وغیرہ کے ساتھ مل کر کارخانے قائم کریں، لیکن ان لوگوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی‘‘۔ ۳۱؎

’’میرا عمر بھر کا مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا میںوہ طا قتیں کبھی زندہ نہیں رہ سکی ہیں جنھوں نے قلعوں میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ ۳۲؎

’’میرے دل میں مسلمانوں کے جن لیڈروں کا احترام سب سے زیادہ تھا ان میںایک قائداعظم مرحوم بھی تھے۔ میں نے ہمیشہ ان کو ایک با اصول، راست باز اور مضبوط سیرت و کردار کا مالک انسان سمجھا۔ قائداعظم کے متعلق مجھے کبھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے معاملے میں مخلص نہ تھے‘‘ ۳۳؎

اقبال کی یہ نظم، ابلیس کی مجلس شوریٰ جس طرح مسلمانوں کو ایک انوکھے انداز میں ان کی غفلتوں اور گمراہیوں پر متنبہ کرتی ہے، اس طرح عام انسانوں کو بھی بتاتی ہے کہ جن فتنوں کو وہ اپنے لیے خیر سمجھ رہے ہیں ان میں ہر ایک کی تہہ میں انسانیت کی بربادی کا سامان چھپا ہوا ہے‘‘۔ ۳۴؎

’’ترجمہ لفظ بہ لفظ ہونے کی بجائے اگر فری ہوتا اور صرف مفہوم کو سمجھ کر انگریزی زبان میں اس کو ادا کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا‘‘۔ ۳۵؎

’’افسانے کے عیوب میں سے یہ ایک بڑا عیب یہ ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو جائے کہ افسانہ نگار ان کے اندر کیا نقش بٹھانا چاہتا ہے‘‘ ۳۶؎

’’مذہبی مراسم ان عبادات کو کہتے ہیں جو کسی مذہب میں رائج ہوں اور مذہبی رسوم ان رسموں کو کہتے ہیں جنھیں کسی معاشرے میں مذہب کارنگ دے دیا گیا ہو‘‘۔ ۳۷؎

’’تفہیم القرآن میں آپ نے جس فرد گذاشت کی نشان دہی کی ہے وہ فرو گذاشت نہیں ہے، بلکہ اردو زبان کے حسن کی خاطر صرف تقدیم و تاخیر کی گئی ہے‘‘۔ ۳۸؎

سید مودودی کے موضوعات میں تنوع، رنگارنگی اور قوس قزح کے باوجود بنیادی حوالہ ذات کی نسبت جماعت اور تحریک کا ہی غالب ہے اور انفرادی اور شخصی امور کی بجائے زیادہ تر اجتماعی مسائل ہی زیر بحث آتے ہیں۔ ان کے خطوط ان کی نثر نگاری کا بھی خوبصورت مرقع ہیں۔ ان کے اسلوب کے سارے رنگ ان کے خطوط میں جمع ہو گئے ہیں۔ مقصدیت، استدلال، بے ساختگی، بے تکلفی، اخلاص، سوز وگداز، تازگی، شگفتگی، ندرت خیال، شوخی،مزاح، طنز، کیا کچھ نہیں ہے ان خطو ط میں:

بے ساختگی، بے تکلفی اور اپنائیت کا انداز دیکھیے:

’’آپ کے دو عنایت نامے آ چکے ہیں ۔سخت شرمندہ ہوں کہ بروقت جواب عرض نہ کر سکا۔ اس سے زیادہ شرمندگی اس بات سے ہوئی کہ پہلے عنایت نامے کا جواب نہ پا کر آپ نے دوسرے عنایت نامے کے ساتھ لفافہ رکھ کر بھیج دیا‘‘۔ ۳۹؎

’’آپ کو خواہ مخواہ انتظار جواب کی تلخی برداشت کرنا پڑی، لیکن بہرحال ایک قیدی سے مراسلت کرنے والے کو کم ازکم اتنی تلخی تو برداشت کرنی ہی پڑے گی‘‘۔ ۴۰؎

اگر حق میرے پیش نظر نہ ہوتا تو میرے لیے بہت آسان تھا کہ خود اپنے خاندان کی گدی سنبھال کر بیٹھ جاتا اورمشیخت کا رنگ جما کر ہاتھ پاؤں چومنے والے اور نذریں گزارنے والے بہت سے افراد اپنے گرد جمع کر لیتا‘‘۔۴۱؎

برجستگی، شوخی اور ندرت خیال کا یہ انداز اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتا ہے:

’’یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ آپ کی ڈاک بھی ’کارکنان قضا و قدر‘ کے زیر تصرف آ چکی ہے‘‘۔ ۴۲؎

’’پروف ایسے لوگ دیکھ رہے ہیں جو نہ خود زبان سے واقف ہیں نہ کسی شک و شبہ کی جگہ مجھ سے پوچھتے ہیں بلکہ وہ میری زبان میں اصلاح کر کے اِسے اپنی زبان کے مطابق بناتے جا رہے ہیں‘‘۔ ۴۳؎

’’میرے لیے یہ خبر نہایت مسرت کی موجب ہے کہ آپ اپنی زندگی کا آخری حصہ میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں مگر اس میں دیر کیوں؟ کیا آپ کو اپنی تاریخ وفات معلوم ہو چکی ہے، جس کے لحاظ سے آپ نے تعین کر لیا ہے کہ آخری حصہ عمر فی الواقع کون سا ہے؟‘‘ ۔ ۴۴؎

سید مودودی کے ہاں تعزیت نامے میں حقیقت نگاری، سوزوگداز، اخلاص، اپنائیت کا کتنا خوب صورت اظہار اس خط میں ہوا ہے:

’’آپ کو اپنی اہلیہ مرحومہ کی وفات کے سبب سے جو اضطراب لاحق ہے اور جس ذہنی کیفیت سے آج کل آپ گزر رہے ہیں اس میں صبر کی تلقین کرنا گویا فطرت سے لڑنے کا مشورہ دینا ہے‘‘۔ ۴۵؎

سید مودودی کے بعض خطوط علمی شان سے آراستہ ہیں۔ خصوصاً لفظی تحقیقات، اردو زبان اور تذکیر و تانیث کے دلچسپ مباحث نے ان خطوط کو عام قاری کے لیے بھی جاذب نظر بنا دیا ہے:

’’میں نے اپیل کو مذکر اور فیڈریشن کو مونث بھی سنا اور پڑھا ہے۔ ’نہ ہی‘ کے استعمال کو میں ادبی گناہ سمجھتا ہوں‘‘۔ اسی طرح تہمت کو تہمد لکھنا تکلف ہے‘‘۔ ۴۶؎

سید مودودی کی شخصیت میں جو اعتدال کا عنصر ہے وہ ان کے خطوط میں بھی نمایاں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں نہ تو مصنوعی ادبیت نظر آتی ہے اور نہ بے جا بے تکلفی۔ سید مودودی اپنے خطوط میں بے سبب گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور جہاں یہ رنگ ابھرتا ہے اس کو دبانے کی کوشش بھی نہیں کرتے:

’’میرے ساتھ آپ نے جس محبت اور عقیدت کا اظہار فرمایا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے‘‘۔۴۷؎

مولانا کے خطوط ہر قسم کے تکلف و تصنع سے پاک مدعا نگاری تک محدود ہیں۔ ان میں کہیں عبارت آرائی، ادبی زیبائش اور مطالب کو دقیق انداز میں ادا کرنے کی خواہش نظر نہیں آتی۔ ان کے خطوط قطع و برید، فقروں کی بے جا طوالت، منطق کی خشکی اور مصنوعی علمیت کے نقائص سے بھی پاک ہیں۔ خطوط کی طوالت اور اختصار بھی ضرورت کے تحت ہے۔ بعض خط بہت مختصر ہیں۔ مدعا و مقصد کے ابلاغ کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سید مودودی خط ختم کر دیتے ہیں۔ ان کا ایک طویل خط بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو انھوں نے پوپ جان پال ششم کے جواب میں لکھا تھا۔ ۴۸؎

سید مودودی کے ایک خط میں خاکہ نگاری کا رنگ بھی بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ خط انھوں نے اپنی والدہ کے بارے میں لکھا تھا:

’’فیاضی کا یہ عالم کہ پیسہ گویا ان کو کاٹتا تھا۔ جوکچھ بھی ان کے پاس ہوتا حاجتمندوں کی مدد اور مہمانوں کی تواضع پر خرچ کر کے خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔ زندگی بالکل فقیرانہ تھی۔ موٹا جھوٹا اور پیوند لگا ہوا لباس رغبت سے پہنتی تھیں۔ اور جو نیا لباس ان کیلئے بنایا جاتا اسے کسی نہ کسی کو عطا کر دیتی تھیں‘‘۔ ۴۹؎

سید مودودی کے خطوط کا مطالعہ قاری پر یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ ان خطوط میں موضوعات کا تنوع، اسالیب کے مختلف رنگ، لطافت، ادبیت، علمیت، مقصدیت، قطعیت، سلاست اور نفاست موجود ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں: ’’خطوط میں مولانا کا اسلوب تحریر ان کی نثر نگاری کا مجموعی رنگ لیے ہوئے ہے‘‘ ۔ ۵۰ ؎

ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید مودودی کے خطوط اردو ادب کے مکتوباتی سرمایہ میں اس لیے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ غالب کے خطوط کی دنیا محدود ہے، جب کہ سید مودودی کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ سر سید کے استدلال میں قواعد کی بے اعتنائی کھٹکتی ہے، لیکن سید مودودی کا استدلال اور ان کا مدلل انداز ابلاغ میں معاونت کرتا ہے ۔حالی کے خطوط سپاٹ سادگی کی مثال ہیں لیکن سید مودودی کے ہاں سادگی اور لطافت خطوط کو دلچسپ بناتی ہیں۔ شبلی کی شوخی ان کی متانت کو کم کرتی ہے لیکن سید مودودی کی شوخی متانت کے ساتھ مل کر شگفتگی کی ایسی فضا کو جنم دیتی ہے کہ قاری لطف لینے لگتا ہے۔مولانا آزاد کا خطیبانہ آہنگ خطوط کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یوں سید مودودی کے خطوط انفرادی شان رکھتے ہیں ۔ ان کے خطوط اردو زبان میں مقصدی مکتوب نگاری کی ایک روشن مثال ہیں ۔

حوالے اور حواشی

Advertisements
julia rana solicitors

۱۔ وجہی سے عبد الحق تک ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ،۱۹۹۶ء ص ۲۶۹(۲) ڈاکٹر تحسین فراقی: عبدالماجد دریا بادی احوال و آثار،ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہو،۲۰۰۶ ء ص ۳۳۶ (۳)اردو میں سوانح نگاری،گلڈ پبلیشنگ ہائوس کراچی،۱۹۶۰ ص ۲۱(۴)شمس الرحمن: اردو خطوط، کتابی دینا لمٹیڈدہلی،۱۹۴۷ء ص ۱۹(۵)زیب النساء : اقبال کی اردو نثر، ایک مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۷ء ص ۲۵۷(۶)ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۶ئ، ص ۴۲ (۷)خطوط مودودی، دوم، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالددوم،منشورات لاہور،۱۹۹۵ء ص ۱۸(۸)پروفیسر خورشید احمد: ترجمان القران، مئی ۱۹۹۶ئ، ص ۴۳(۹) نور مینارہ، ادارہ معارف اسلامی لاہور، ۱۹۹۱ء ص ۳۱(۱۰) مکاتیب زنداں ، (مرتب:حکیم محمد شریف مسلم)۔ چراغ راہ ،کراچی ، ۱۹۵۲ء ص ۷۰(۱۱)ایضاً، ص ۷۵(۱۲)ایضاً، ص ۱۱۰(۱۳)ایضاً، ص ۹۴(۱۴) بیاد سید مودودی، دارالمعارف واہ کینٹ،۲۰۰۴ء ص ۸۸ (۱۵)عاصم نعمانی (مرتب): مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی، اوّل،ایوان ادب لاہور، ۱۹۷۰ء ص ۵(۱۶) بیادِ سید مودودی، ۸۹(۱۷)طفیل محمد: (دیباچہ) مکتوبات مودودی،الانصاری پبلشرز فیصل آباد ،ستمبر ۱۹۸۴ء ص ۲(۱۸) خطوط مودودی، دوم، مرتبین: (رفیع الدین ہاشمی ، سلیم منصور خالد )البدر پبلی کیشنز لاہور،۱۹۸۲ء ص ۱۶(۱۹) اقبالیات، جولائی ۲۰۰۴ئ، ص ۴۲۔۴۳(۲۰)سارے گم نام نہیں ہوتے تھے ، بیشتر نام، پتے کے ساتھ ہوتے تھے۔(۲۱) خطوط مودودی۔اوّل، ص۳۵(۲۲)ان احباب میں نعیم صدیقی، میاں طفیل محمد، مراد علی شاہ، ملک غلام علی، محمد اقبال حسین، شیخ فقیر حسین، محمد یحییٰ، مولانا محمد سلطان اور عاصم نعمانی کے نام شامل ہیں۔ (۲۳)علی سفیان آفاقی: سید ابو الاعلیٰ مودودی، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء ص۸۶ (۲۴)تذکرہ سید مودودی۔ ۳، مرتبین:( جمیل احمد رانا ، سلیم منصور خالد)ادارہ معارف اسلامی لاہور،۱۹۹۸ء ص ۸۳۷(۲۵)مکاتیب مودودی مرتب عاصم نعمانی، اوّل، ایوان ادب لاہور ، ۱۹۷۰ء ص ۲۰۴(۲۶)خطوط مودودی، اوّل، ص ۲۴۱(۲۷)عاصم نعمانی: مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی، دوم،اسلامی پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۱ء ص ۳۶(۲۸)ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۹۶ء، ص ۵۱(۲۹)عاصم نعمانی: مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی، اوّل، ص ۲۴۴(۳۰)ایضاً، ص ۱۸۵(۳۱)عاصم نعمانی: مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی، دوم، ص ۳۳۳(۳۲)مکاتیب زنداں، ص ۷۶(۳۳)خطوط مودودی، دوم، ص ۴۴۳(۳۴)ایضاً، ص ۳۰۲(۳۵)ایضاً، ص ۵۵(۳۶)ایضاً، ص ۲۸۹(۳۷) مکاتیب سید ابو الاعلیٰ مودودی، اوّل، ص ۲۰۳ (۳۸) تذکرہ سید مودودی: اوّل،ادارہ معارف اسلامی لاہور،۱۹۸۶ء ص ۷۴۸(۳۹) خطوط مودودی۔ دوم ، ص ۱۰(۴۰) مکاتیب زنداں، ص ۹۲(۴۱) چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر، ص ۳۹۳(۴۲)تذکرہ سید مودودی، اوّل، ص ۷۷۳(۴۳)مکاتیب سید ابو اعلیٰ مودودی دوم، ص ۳۲۲(۴۴)خطوط مودودی۔دوم، ص ۳۴۔۳۵(۴۵)مکاتیب سید ابو اعلیٰ مودودی، اوّل، ص ۱۷۹(۴۶)ایضاً، ص ۱۹۱۔۱۹۴(۴۷)مکاتیب سید ابو اعلیٰ مودودی دوم، ص ۱۵۰ (۴۸)خلیل احمد حامدی: (مرتب) امت مسلمہ کے مسائل،ادارہ معارف اسلامی لاہور، دسمبر ۱۹۹۲ء ص ۲۷۴۔ ۲۸۴(۴۹)خطوط مودودی۔ دوم، ۵۱۵۔ ۵۱۶(۵۰)ایضاً،ص۳۱

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply