سمندر کا سکوت۔۔۔محمد اسد شاہ

گزشتہ جمعرات کو ریل میں آتشزدگی کے المناک حادثے نے سب کے دل دہلا دیئے ہیں ۔ 90 کے قریب جیتے جاگتے انسانوں کا جل جانا ایسا سانحہ ہے کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ اللّٰہ کریم ان سب کی مغفرت فرمائے اور ان کے جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ اس قسم کے سوانح مہذب معاشروں کے لیے سبق آموز اور عبرت انگیز ہوا کرتے ہیں ۔ جی ہاں ، صرف مہذب معاشروں کے لیے ۔ ورنہ ہمارے ہاں ایسے مواقع پر بھی سیاست اور یاوہ گوئی کی جاتی ہے ۔ جھوٹے اصول گھڑے جاتے ہیں جو صرف دوسروں پر تھوپنے کے لیے ایجاد کیے جاتے ہیں ۔ خود اپنی ذات پر ان بے اساس اصولوں کا اطلاق کرتے وقت بہانے اور ڈرامے شروع کرا دیئے جاتے ہیں ۔ ہاں ، یاد آیا خان صاحب اب وزیراعظم ہیں ۔

گزشتہ حکومت کے دور میں ریل کے ایک حادثے میں 5 افراد کے جاں بحق ہونے پر خان صاحب بہت رنجیدہ اور جذباتی ہو گئے تھے ۔ اس موقع پر انھوں نے ایک یادگار تقریر کی تھی ۔ ویسے تو ان کی ہر تقریر ہی یادگار ہوا کرتی ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ہر یادگار تقریر کچھ ہی عرصے کے بعد کچھ اور روپ دھار لیتی ہے ۔ اور پھر جب کبھی اس تقریر کا حوالہ دیا جائے تو خود خان صاحب اور ان کے سرپرست ہائے ، اور کارکنان بُرا منا جاتے ہیں ۔

خیر ہم بات کر رہے تھے کہ خان صاحب نے گزشتہ حکومت کے دور میں ریل کے ایک حادثے میں 5 قیمتی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ اور کرب کا اظہار کیا تھا ۔ اس موقع پر انھوں نے تب کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق صاحب کو سخت سست اور برا بھلا کہا ، ان کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کیا ۔ اس مطالبے کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ کسی بھی حادثے کی مکمل غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات اس وقت تک ممکن نہیں ہوا کرتیں جب تک متعلقہ وزیر کو برطرف نہ کیا جائے ۔ اسی موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ خواجہ صاحب کی توجہ اپنے محکمے کی طرف نہیں تھی ۔

بہر حال اب خان صاحب خود وزیراعظم ہیں اور ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ مکمل با اختیار وزیراعظم ہیں ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد ہیں ، جن کے ساتھ خان صاحب کو 2014 میں محبت ہوئی ۔ ان کے دور حکومت میں اب تک ریل کے چھوٹے بڑے 27 حادثات ہو چکے ہیں ۔ لیکن عوام خان صاحب کی وہ تقریر سننے کو ترس رہے ہیں جو انھوں نے سابقہ حکومت کے دور میں کی تھی ۔ یعنی متعلقہ وزیر کی برطرفی ، آزادانہ تحقیقات اور محکمے کی طرف توجہ وغیرہ وغیرہ ۔

2010 کے بعد خان صاحب اچانک جن سیاست دانوں کے مخالف ہوئے ان میں میاں محمد نواز شریف ، محترمہ مریم نواز ، رانا ثناء اللّٰہ خان ، شاہد خاقان عباسی ، شہباز شریف اور خواجہ برادران نمایاں ہیں ۔ 2017 میں ان میں مفتاح اسماعیل کا نام بھی شامل ہوا ۔ اتفاقاً ان سب کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے اور سب پابند سلاسل بھی ہیں ۔ میاں صاحب کو البتہ مشروط طبی ضمانت ملی ہے ۔ لیکن ایک سیاسی راہ نما اس جماعت سے باہر کے بھی ہیں جو تاحال جیل سے بھی باہر ہیں ۔ جی ہاں ، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب ! مولانا کے ساتھ خان صاحب کی مخالفت کب اور کس وجہ سے شروع ہوئی ، مجھے تو بالکل معلوم نہیں ۔ البتہ مجھے وہ رومان پرور ایام یاد ہیں جب 2002 میں خان صاحب نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کی طویل سیاسی خدمات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرنے پر تعریفوں کے پل باندھے اور پھر وزارت عظمیٰ کے لیے مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں ووٹ بھی کاسٹ کیا ۔

اب وہی مولانا فضل الرحمن ، موجودہ حکومت کے خلاف بعینہٖ اسی طرح سڑکوں پر ہیں جس خود خان صاحب 2014 میں تب کی منتخب حکومت کے خلاف آئے تھے ۔ خان صاحب احتجاج کرنے والوں کو کنٹینر اور کھانا فراہم کرنے کے اپنے اعلانات سے رجوع فرما چکے ہیں ۔ بل کہ کنٹینرز کے ذریعے بہت سی سڑکوں اور راستوں کو بند کروا دیا گیا ہے ۔
دوسری طرف بعینہٖ وہی صورت حالات ہے جو 2014 میں خود خان صاحب نے ایجاد کی تھی ۔ معاہدہ کیا ، توڑ دیا ، ریڈ زون میں داخل ہونے کو بھی عوام کا حق قرار دیا ۔ لیکن اب خان صاحب ، مولانا کے حامیوں کو معاہدے کی پاس داری کا درس دیتے اور یہ یاد دلاتے ہیں کہ ریڈ زون حساس علاقہ ہے جہاں داخل ہونا ملک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکافات عمل کہیں یا کچھ بھی کہیں ۔ حالات اس قدر پر سکون نہیں جتنے میڈیا پر دکھانے کی اجازت ہے ۔ میڈیا کو تب کچھ اور احکامات ملتے تھے اور اب کچھ اور ۔ میڈیا پر موجودہ احتجاج کی حقیقی کوریج کو ناممکن بنادیا گیا ہے ۔ لیکن باخبر لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا پر مسلسل پابندیاں لگا کر احتجاج کو سمندر کا سکوت بنا دیا گیا ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply