• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غریب قیدیوں کے غم میں مرے جا رہے ہمارے وزیر اور لیڈران۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

غریب قیدیوں کے غم میں مرے جا رہے ہمارے وزیر اور لیڈران۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

نیتوں کا حال تو صرف قدرت جانتی ہے مگر جب کوئی صرف اپنے آپ کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا قرار دینے لگےتو اسے نرم سے نرم الفاظ میں خود پسند کہا جا سکتا ہے۔ خود پسند انسان میں تکبر آ جاتا ہے اور وہ جھوٹ بھی خوب بولتا ہے۔ جھوٹے انسان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے اور کثرت کے ساتھ وعدے کرتا ہے۔ ایفائے عہد مومن کی پہچان ہے۔ سچا انسان زیادہ وعدے نہیں کرتا کیونکہ وعدوں کی کثرت انسان کی عظمت ختم کر دیتی ہے۔ پرندوں کو پکڑنے کے لئے بہت سے لوگوں نے جال بچھا رکھا ہوتا ہے مگر پرندہ اس بات کو سمجھتا نہیں اور پھنس جاتا ہے۔ شکاری دام میں آئے اس پرندے کو پکڑ کر قید کرلیتا ہے, قفس میں ڈال دیتا ہے اور تھوڑے سے پیسے یاکسی اورلالچ کے عوض بیچ دیتا ہے- پرندہ اس دانہ ڈالنے والے کو ہمدرد سمجھا تھا اور یہ ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی یعنی ان چند دانوں کی قیمت اس کی زندگی تھی-

پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ بہت کم حکمران ایسے دکھائی دیتے ہیں جن کے دماغ ملک و قوم کی بہتری کے لئے استعمال ہوئے۔ اکثریت ایسے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے صرف اپنی بہتری کی- یہ جو سینکڑوں غریب, لاچار, مقروض لوگ خودکشیاں کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں, زندگی جن کے نزدیک موت سے بدتر ہے, جو سمجھتے ہیں موت ان کے درد کی دوا ہے, کیا پاکستانی حکمرانوں اور حکمران نما اپوزیشن لیڈروں کو دکھائی نہیں دیتے؟- یہ حکمران یہ دولت مند‘ یہ امیر کبیر اپنے کتوں کو واقعی بھوکا نہیں سونے دیتے اور عوام فاقوں سے مرتے رہیں۔

مصنف:غیور شاہ ترمذی

ان کی صحت پر کوئی اثر ہی نہیں پڑتا۔ ان کی موٹی موٹی گردنیں دیکھیں۔ ان کے سرخ و سفید چہرے دیکھیں۔ ان کی مسکراہٹیں, ان کے قہقہے دیکھیں, ان کے لباس ان کی گاڑیاں دیکھیں۔ سینکڑوں ایکڑز پر مشتمل ان کے محلات, ان کے باغات, ان کے فارم ہاؤسز دیکھیں اور پھر ان کے برعکس ان کے میڈیا میں بیانات دیکھیں , یوں محسوس ہو گا کہ یہ غریبوں کے بہت بڑے ہمدرد ہیں۔ کہاں ہے وہ کل کا ایک اپوزیشن لیڈر اور آج کا حکمران جو ٹیلی ویژن شوز میں بیٹھ کر بیان داغا کرتا تھا کہ ”دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا سویا تو اس کا حساب ہو گا“- میڈیا کے سامنے دکھ, تکلیف یا کسی حادثہ پر فرط جذبات سے نڈھال دکھائی دینے کی کوششیں کرنا حکمرانوں اور حکمران نما سیاستدانوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ایسے ”ڈرامے“ کرکے وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیں گے۔ پر کیا کریں میڈیا نے عوام کو بڑا ہی چالاک بنا دیا ہے۔ وہ اب کسی کے جھانسے میں نہیں آتے۔ ہمارے ان ڈرامہ باز لیڈروں کو سوچنا تو چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ جو ہمارے موجودہ دور کے حکمران ہیں جب حکمران نہیں رہتے تو ان سے ملنا تو درکنار, کوئی ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لئے کہ جب یہ حکمران ہوتے ہیں تو خود کسی کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے-

میڈیا کے سامنے ناٹک رچاتے انہی لیڈران کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود بھی جان کے خطرے سے دوچار کر دینے والی بیماری کی وجہ سے میاں نواز شریف کی ضمانت پر عبوری رہائی اور اتنے ہی بیمار سابق صدر آصف زرداری کے کیس میں کچھ نہ نکل سکنے کی ہزیمت کی وجہ سے ضمانت پر ممکنہ رہائی کی خبروں کے بعد ریگولر اور سوشل میڈیا میں غریب قیدیوں کے ایسے ہی جعلی ہمدردوں کا ’’قانون کا سب کے لئے یکساں‘‘ نہ ہونے کا ماتم شروع ہوچکا ہے۔کرپشن کے جانی دشمن پارسا حکمرانوں اور اٹارنی جنرل انور منصور کو وہ ’’غریب‘‘ قیدی یاد  آنا شروع ہوگئے ہیں جن کی سنگین بیماریوں کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ یہ دہائی صرف میاں نواز شریف کی اندھی نفرت میں مچائی جارہی ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی قوم میں کوئی اس حقیقت کو زیرغور لانے کو تیار ہی نہیں کہ غریب قیدیوں کی محبت اور دکھ میں پریشان یہ لیڈران ہی تو حکومت ہیں- یہ وہی تو ہیں جنہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کا تحفظ کرنا ہے- اگر اس عمل کے لئے کسی قانون کو بنانے کی ضرورت ہے تو وہ خود انہیں ہی پوری کرنی ہے, کوئی آرڈی نینس لانا ہے تو خود انہیں ہی لانا ہے-

کرپشن کے خلاف دہائی دینے والے ان پارسا حکمرانوں اور بیوروکریٹوں کے اس میڈیائی ڈھونگ سے بہرحال قوم کو آگاہ کرنے کے فرض سے پہلو تہی نہیں کی  جا سکتی- ملتان سے راقم کے دیرینہ دوست اور ممتاز ماہر قانون ساجد رضا تھیم غریبوں کے درد میں مبتلا ان کے شدید ہمدردوں سے پوچھتے ہیں کہ:-

1):- کیا آج تک کبھی کسی غریب کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی طرح 109 ت پ میں پھانسی کی سزا ہوئی ہے؟-

2):- چلیں اس کا جواب نہیں ہے تو یہ ہی بتا دیں کہ کیا کوئی غریب انڈر ٹرائل ملزم آصف زارداری کی طرح 11 سال بغیر ضمانت جیل میں رہا ہو؟-

3):- اچھا, پرانی باتیں چھوڑ دیں, تو پھر یہ بتا دیں کہ کبھی کسی غریب سندھی کا کیس مقامی وڈیرے کے پولیس اور عدالت پر اثر انداز ہونے کے خوف سے آصف زارداری کے کیس کی طرح اسلام آباد سماعت کے لئے ٹرانسفر گیا ہو؟-

4):- اگر اس کا بھی جواب نہیں ہے تو یہ ہی بتا دیں کہ کبھی کسی غریب کا ٹرائل میاں نواز شریف اور آصف زارداری کی طرح براہ راست سپریم کورٹ میں ہوا ہو؟-

5):- اٹارنی جنرل صاحب یہ ہی بتا دیں کہ کبھی کسی غریب کے ٹرائل کی نگرانی کے لئے میاں نواز شریف کے کیس کی طرح ماتحت عدالت پر سپریم کورٹ کے 2 مانیٹرنگ جج مقرر کئے گئے ہوں؟-

6):- اٹارنی جنرل صاحب اپنا ریکارڈ چیک کر کے بتائیں کہ میاں نواز شریف کے کیس کی طرح کبھی کسی غریب ملزم کے کیس کا فیصلہ 6 مہینے   کی ریکارڈ مدت میں سنایا گیا ہو؟-

7):- چلیں جی, نواز شریف اور زارداری کو چھوڑیں, یہ ہی بتا دیں کہ حنیف عباسی کی طرح کبھی کسی غریب کو رات 12 بجے عدالت لگا کر سزا سنائی گئی ہو وغیرہ وغیرہ-

8):- لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ غریبوں کے لئے آپ کا یہ سیزنل درد صرف کچھ خاص مواقع پر ہی کیوں جاگتا ہے؟-

Advertisements
julia rana solicitors

ان سوالات کے جواب چونکہ اٹارنی جنرل سمیت کسی بھی حکومتی ترجمان کے پاس نہیں ہیں اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ڈیل اور غریبوں سے جعلی ہمدردی بھرے بیانات صرف اور صرف Post-Truth ہیجان ہے۔عقل (Reason), حقیقت پسندی (Rationalism) رخصت پر جاچکی ہے اور جذبات (Passion) کا جنون ہے- یہ جنون پنجابی محاورے والی ہاتھ سے لگائی گرہیں ہیں۔جنہیں کھولنے کے لئے اب ’’دانتوں‘‘ کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہا- اب قدرت ہی ہے جو پاکستان اور پاکستانیوں پر رحم کھائے اور غریب قیدیوں کے لئے قوانین بنانے, ان کا نفاذ کرنے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی بجائے میڈیا پر آ کر جعلی ٹسوے بہانے والے ان لیڈروں سے عوام, سیاست, جمہوریت, اداروں اور اس پورے نظام کی جان چھڑوائے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”غریب قیدیوں کے غم میں مرے جا رہے ہمارے وزیر اور لیڈران۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

  1. ۔ یہ دہائی جنرل پرویز مشرف کی اندھی نفرت میں بھی مچائی گئی تھی، تب بغض فوج میں سب ہی اندھے تھے، ٹھیک کہا میڈیا نے سب کو چلاک بنا دیا ہے، تب کے ویڈیو کلپس بھی میرے پاس موجود ہیں جب ان کو فوج کے بغض میں غریب قیدی بھی یاد آئے تھے، بات کرتے ہیں فلاح و بہبود کی تو 30 سال حکومت کی اتنا مال پانی بنایا تو کچھ کام کرنا تو بنتا تھا ان کمینوں پر

  2. سوال یہ ہے کہ جنرل مشرف کیا عوامی نمائندے تھے جن کی حمایت کی جاتی- جنرل صاحب ایک آمر تھے جنہوں نے زبردستی اقتدار پر قبضہ جمایا تھا-
    بہترین آمریت کے مقابلہ میں بھی بدترین جمہوریت بہتر ہوتی ہے مگر جنرل مشرف جیسی بدترین آمریتوں میں سے نمایاں مقام رکھنے والی آمریت کو تسلیم کرنا جمہوریت, سیاست اور تہذیب کی نفی ہے-
    فوج سے کون بغض رکھ سکتا ہے جب فوج ہو ہی اپنی- اس میں ہمارے ہی بھائی, بھتیجے, بھانجے اور بیٹے بیٹیاں ہیں- ان رشتوں سے پیار کیا جاتا ہے, ان سے بغض نہیں رکھا جاتا- البتہ جہاں فوج سے پیار ہے وہیں ان سے توقع ہے کہ وہ صرف اور صرف ملکی سرحدوں کا دفاع کرے, سول سپریمیسی کو تسلیم کرے اور کبھی بھی سیاست, جمہوریت, حکومت اور عدلیہ میں مداخلت نہ کرے- یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کے ترقی و کامیابی کی منزل مل سکتی ہے- ورنہ 72 سالوں سے 70 سال ہو چکے, دنیا میں بےعزت ہوتے, مزید ہوتے رہیں گے-

Leave a Reply