کوٹ لکھ پت کا قیدی ۔۔۔ محمد اشتیاق

وہ کئی مہینوں سے کوٹ لکھپت جیل کی کوٹھڑی میں تھا۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا تھا۔ حکومت اسے عبرت کا نشان بنانا چاہتی تھی اور یہ سب کچھ وہ عدالت کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر کرنا چاہتی تھی۔ وہ بھی اپنی جگہ ڈٹا ہوا تھا ۔ مسلسل جیل کی صعوبتیں کاٹنے کے باوجود اس کے پایہ استقلال میں لغزش نام کو نہ تھی۔ نہ ہی جبر کی کسی گھڑی میں اس کے ایمان نے کمزوری دکھائی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ آزادی کا سوتہ اگر پھوٹے گا جو اس کی قوم کے لئے ایک نئی آزادی کی نوید لائے گا تو وہ اس کی باہمت قید یا بے خوف موت سے ہی پھوٹے گا۔ اس کا یہی استقلال ان کا دل جلانے کا سبب بن رہا تھا۔

وہ یہاں آنے سے پہلے اپنے تمام پیارے رشتوں کی قبر اپنے دل میں بنا کے آیا تھا۔ وہ روز ان قبروں پہ انہیں یاد کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ان پیاروں کی جدائی کے غم میں بے قرار ہو کے بار بار اس کے صبر کے بند کو توڑ کے ٹھاٹھیں مارتے جاری ہو جاتے تھے۔ وہ ان آنسووں کی لڑیاں پرو کے اس کو اپنی طاقت بناتا تھا۔ ماں کی یاد، ہمسفر کی جدائی، اپنوں کی محبتیں اور سب سے بڑھ کے اپنی دھرتی کی محبت، اس پہ بسنے والے لوگوں کی چاہت، جن کی آزادی کی جنگ وہ کوٹ لکھپت جیل کی اس کوٹھڑی سے بیٹھ کر لڑ رہا تھا۔ پوری زندگی فلم کی ریل کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلتی اور ہر ریل کے کلائمکس پہ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا ہوکے اپنی انگلی کے اشارے کر کے کہتا “میں نہیں جھکوں گا، میں جان دے دوں گا لیکن جھکوں گا نہیں”۔

وہ تو اسے کبھی گرفتار بھی نہ کر پاتے۔ وہ چاہتا تو ساری زندگی آزادی سے گزار سکتا تھا لیکن اس نے کروڑوں ہم وطنوں کے لئے اپنی مرضی سے گرفتاری پیش کی تھی۔ اس نے سول ایوانوں میں آگ لگا دی، اس نے وردی والوں کی مطلق العنانیت کو چیلنج کیا۔ وہ لوگ جو نقارچیوں کے ذریعے اس کی بزدلی کے اشتہار لگاتے تھے، اسے بھگوڑا کہتے تھے، اس نے ان کی انا پہ چوٹ لگائی۔ اس نے اپنے ہر دشمن کے ہر پروپیگنڈے کا جواب اپنے عمل سے دیا۔ اس نے ساری دنیا کے سامنے اپنے آپ کو استبدادی قوتوں کے حوالے کر دیا۔ ساری دنیا نے اس کی بہادری کا یہ عملی مظاہرہ دیکھا۔ وقت کا میڈیا ششدر تھا کہ ان کے ذہنوں میں تو اس کی جو تصویر کشی کی گئی تھی وہ ایک بزدل بھگوڑے کی تھی مگر ایک بزدل بھگوڑا خود سے مقتل پہ کیسے کھڑا ہو سکتا تھا؟ اس کے ہم وطن جو مسلسل پروپیگنڈہ کی وجہ سے اس سے برگشتہ ہو رہے تھے، ان کی کج راہی کو لگام پڑ گئی۔ ان کو یقین آگیا کہ استبدادی قوتوں کے خلاف وہ ڈٹ کے کھڑا ہے اور وہ ان کی آزادی کے لئے اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہیں کررہا۔

اس کے حامی جن کو اس کے نظریے پہ کامل یقین نہیں تھا اس کے اس عمل نے ان کے یکسو کر دیا۔ جو نادان دوست یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ سامراجی قوتوں سے صلح کر لے، ان کی شرائط مان لے وہ بھی آہستہ آہستہ اس کی ثابت قدمی کے باعث اس کے پیچھے چلنے پہ مجبور ہو گئے۔ طاقتور حکومت کو یقین تھا کہ اس کے حوصلوں کو توڑ کر وہ آزادی کی جدوجہد کی کمر توڑ سکتے ہیں۔ اصل آزادی جو آج تک اس کی قوم کو نصیب نہ ہوپائی تھی، وہ اب صرف خواب نہیں رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھس بیٹھیوں کا یقین کمزور پڑتا گیا اور وہ نہتا پابند سلاسل انسان اتنا طاقتور ہو گیا کہ پورے ملک سے اس ضمیر کے قیدی کے لئے آوازیں بلند ہو نے لگیں۔ مضبوط اقتدارمیں سالوں کے بعد ایک قیدی نے دراڑیں ڈال دی تھیں۔ اس کے نام کے نعرے ہر گھر سے اٹھ رہی تھی۔ وہ ایک آواز جو ان کے کانوں پہ گراں تھی، اب ہر گھر، محلے، سڑک، گلی سے اٹھ رہی تھی۔ ایک آواز کو دبانے کے لئے انہوں نے کتنی آوازوں کا راستہ کھول دیا تھا۔ اس کی بازگشت ان کی نازک طبع سماعتوں پہ خراشیں ڈال رہی تھی۔ یہ آواز ان کا خون دلا رہی تھی۔

اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ یہ قیدی ان کے حلق میں پھنس گیا تھا۔ آزادی کے متوالوں کے لئے وہ استعارہ بن گیا تھا۔ لوگ اس کے بیانیے پہ ایمان لانے لگے تھے۔ یہی سچ حکمرانوں کی نیندیں اڑا رہا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ اس ذی نفس کا زیادہ عرصے ذی شعور رہنا ان کے ناجائز اقتدار کے اختتام کا باعث بن سکتا کے۔ وقت ان کے ہاتھ سے پھسلتا جا رہا تھا۔ ریاست پر جبری قبضے کی طوالت کے خواب دم توڑتے جا رہے تھے۔ حکومت کے بزرجمہروں نے خوب سر جوڑنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اب اس سے جان چھڑا لینی چاہئے۔ فیصلہ ہوا کہ عدالت سے سزا دلوا کے اس قضئیے سے جان چھڑائی جائے۔ ان کو امید تھی کہ اس سے جان چھڑانے کے بعد ان کے اقتدار کو کچھ طوالت نصیب ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور پھر۔۔۔ آخر کار کوٹ لکھپت جیل کے اس قیدی کو اس کی قید سے آزادی دے دی گئی۔ 23 مارچ 1931 کو اسے پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔ اپنی موت کے بعد سے آزادی کے پروانوں کے لئے بھگت سنگھ ایک مثال بن گیا۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply