• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مولانا کا احتجاج: متوقع امکانات و نتائج۔۔۔طاہر علی خان

مولانا کا احتجاج: متوقع امکانات و نتائج۔۔۔طاہر علی خان

مولانا فضل الرحمٰن ایک بڑے جلوس کے ساتھ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے مارچ کے شرکاء کی تعداد لاکھوں میں ہوجائےگی۔

سوال یہ ہے کہ  مولانا کے مارچ اور متوقع دھرنے کا انجام کیا ہوگا اور کس کو زیادہ فائدہ ملے گا۔

1۔ حکومت اور حزب اختلاف مارچ کے حوالے سے کیے گئے تحریری معاہدے پر عمل کرلیتے ہیں اور احتجاج مقررہ جگہ پر ہوتا اور پُرامن طور پر ختم ہو جاتا ہے تاہم اس کے ساتھ حکومت اور حزب اختلاف سابقہ دھرنے کی طرح دھاندلی کی تحقیقات کےلیے عدالتی یا پارلیمانی کمیشن بنانے پر متفق ہوجاتے ہیں اور تحقیقات شروع ہوجاتی ہیں۔ تحقیقات میں اگر پی ٹی آئی کے حق میں منظم دھاندلی ثابت ہوجائے تو وزیراعظم مستعفی ہوجائے اور قومی اسمبلی تحلیل کرکے درکار انتخابی اصلاحات کے بعد نئے انتخابات منعقد کیے جائیں۔ دوسری صورت میں احتجاج کرنے والے قوم سے معافی مانگیں اور تحریک ختم کردیں۔

دھاندلی ثابت ہو تو یہ پی ٹی آئی  کےلیے بہت بڑا سیاسی نقصان اور حزب اختلاف کےلیے بڑی اخلاقی فتح ہوگی۔ دوسری صورت میں پی ٹی آئی  خوش مگر حزب اختلاف بدنام ہوگی۔ یہ ایک بہترین امکانی صورتحال ہے جس میں حکومت، حزب اختلاف اور ملک وقوم سب کا بھلا ہے۔
اس مشروط معاہدہ سے حکومت اور مولانا دونوں کو فیس سیونگ مل جائے گی۔ حکومت فوری استعفی سے بچ جائے گی جبکہ مولانا بھی فخر سے کہہ سکیں گے کہ حکومت کا مستقبل دھاندلی کمیشن کی تحقیقات سے منسلک/مشروط ہوگیا ہے۔
2۔ مارچ پرامن طور پر اسلام آباد پہنچ جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مارچ کی راہ میں کوئی  رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ مولانا اور دیگر قائدین تقاریر کرلیتے ہیں، حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھ لیتے اور انہیں حل کرنے کےلیے مناسب وقت دے دیتے ہیں اور پُرامن طور پر منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس امکانی صورت حال میں بھی حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو باالترتیب مسائل حل کرنے اور مزید تیاری کےلیے وقت مل جائے گا۔ مولانا اس امکانی صورت حال میں بھی سب سے زیادہ فائدے میں رہیں گے۔

3۔ مولانا لاکھوں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں مگر وہاں سے رخصت ہونے کے بجائے دھرنا دینے کا اعلان کردیتے ہیں تاکہ حکومت کو اپنے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کرسکیں۔ فرض کریں وہ خان صاحب کے مشہور دھرنے کی طرح ریڈ زون آجاتے ہیں اور یہ سلسلہ طویل ہوجاتا ہے تو پھر عدلیہ، حکومت اور سکیورٹی اداروں کا طرزعمل کیا ہوگا؟ اور اگر وہ مقررہ جگہ پر دھرنا دیتے ہیں تو پھر ان کا رویہ کیا ہوگا؟ ان حالات میں وزیراعظم صاحب کیا ان سے خود بات کرنے کےلیے تیار ہوں گے؟ اس امکانی حالت میں بھی مولانا سیاست اور میڈیا پر چھائے رہیں گے جبکہ حکومت مولانا کے اگلے پلان پر مسلسل دباو میں رہے گی۔ مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ مولانا سردی اور متوقع مشکلات و خطرات کے پیش نظر سرے سے دھرنا یا لمبی مدت والے دھرنے سے اجتناب ہی کریں گے۔

4۔ وزیراعظم یقیناً کسی دھرنے یا جلوس کے باعث استعفٰی دے تو یہ غیر آئینی، غیر قانونی اور انتہائی  خطرناک نتائج والا عمل ہوگا جس کے بعد کسی بھی حکومت کےلیے اپنی آئینی مدت پوری کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے نہ تب نواز شریف نے فوری استعفیٰ دیا تھا اور نہ اب خان صاحب کو دینا چاہیے۔

5۔ مارچ ان سطور کی اشاعت تک پرامن طور پر جاری ہی تاہم باالفرض مارچ کےلیے آنے والے قافلوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں یا احتجاج کسی بھی فریق کی وعدہ خلافی، غلطی، غلط فہمی، غفلت، کوتاہی اور سازش یا کسی دہشت گرد حملے سے پرتشدد بن جاتا، مالی و جانی نقصان ہوتا اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہےتوحکومت اور حزب اختلاف کے مابین سڑکوں اور چوراہوں پر جو “مقابلے” ہوں گے، ان سےجمہوریت کو نقصان پہنچے گا اور عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوگی جبکہ راستوں کی بندش سے لوگوں کو شدید مشکلات پیش آئیں گی اور مہنگائ کا سیلاب آئے گا جن سے حکومت بدنام ہوگی۔

سوال یہ ہے نفرت، اناپرستی اور انتقام کے اُس ماحول میں فریقین کو میز پر کون بٹھائے گا؟ ہیئت مقتدرہ کا ردعمل کیاہوگا؟ کیا وہ غیر جانبدار رہے گی، مذاکرات کروائے گی یا حکومت کے حکم پر احتجاج کرنے والوں سے نمٹے گی؟ کیا ایک دفعہ پھر فوجی حکومت قائم ہو جائے گی یا عدلیہ اس کے راستے میں رکاوٹ بنے گی؟ ہنگاموں، ہرتالوں، ، نفرت، انتشار، طاقت کے ممکنہ استعمال اور نتیجتاً مالی و جانی نقصان سے عبارت یہ ایک خوفناک امکانی نتیجہ اور صورت حال ہوگی جو ملک اور قومی معیشت کےلیے تباہ کن ہوگی۔

کیا اس امکانی صورت حال سے بچنے، اشیاء ضرورت کی قلت اور مہنگائی  کو روکنے اور تجارت و معیشت کو درپیش ممکنہ نقصان سے بچانے کےلیے حکومت نے کوئی  تیاری کی ہے؟

6۔اگر دھرنے کے کسی موقع پر  نوازشریف بیماری میں افاقے کی صورت میں خود  آجاتے ہیں یا سٹریچر   پر لائے  جاتے ہیں تو اس وقت دھرنے کے شرکاء کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی اور دھرنا حکومت کےلیے کنٹرول کرنا مشکل۔ دیکھتے ہیں اعصاب کی اس جنگ میں کون جیتتا ہے۔

7۔ مولانا ءحکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو ممکن ہے اس کے بعد وسیع البنیاد حکومت قائم ہوجائے جس کی زیرنگرانی کچھ عرصہ بعد انتخابات ہوجائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر حکومت ختم نہ ہو سکی تو بھی مولانا ملکی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کرچکے۔ آئندہ  انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہوگا۔

Facebook Comments

طاہرعلی خان
طاہرعلی خان ایک ماہرتعلیم اورکالم نگار ہیں جو رواداری، احترام انسانیت، اعتدال اورامن کو عزیز رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مولانا کا احتجاج: متوقع امکانات و نتائج۔۔۔طاہر علی خان

  1. جناب پرنسپل صاحب
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے. آپکے تحریر دل کو لگتی ہے. اللہ ھمارے حا ل پر رحم کریں اور اللہ وہ کریں جس سے امت مسلمہ کی خیر ھو. جاوید

Leave a Reply