ہمارے چاچا جی۔۔۔عائشہ یاسین

“امی پتہ ہے آج میں نے اسکول میں چاچاجی کی کہی ہوئی بات ٹیچر کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئی۔”
میں نے امی کو بتایا۔
“اچھا کیا بات بتائی؟” امی نے پوچھا۔
“یہی کہ ہمیں ہمیشہ سب کو سلام میں پہل کرنا چاہیے۔۔۔”
میں نے جوش میں کہا۔
“آپ کے کون سے چاچا نے یہ بات بتائی ہے؟”
“وہی جو صبح صبح ٹی وی میں آتے ہیں۔ سات  بجے۔۔۔۔”
میری امی ہنسی اور کہا،
“وہ صرف آپ کے نہیں سب کے چاچاجی ہیں۔”
“کیا مطلب امی کیا سب کے ،پورے پاکستان کے؟”
“جی پورے پاکستان کے۔”

یہ 1988 کی بات ہے۔ جب میری عمر آٹھ سال تھی اور حکیم محمد سعید کے بعد اب میرے اس لاشعوری دور میں مستنصر حسین تارڑ صاحب جن کو ہم چاچاجی کے نام سے جانتے تھے متعارف ہوئے ۔ آپ ایسی ہستی ہیں جن سے غائبانہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب ذہن نا پختہ تھا۔ تارڑ صاحب کو ہم چاچاجی کے نام سے جانتے تھے اور یہ ایسے چاچاجی تھے جن سے تعلق روحانی طور پر قائم تھا۔

جی ہاں میں 1988 میں شروع ہونے والی ‘ صبح بخیر’ ٹرانسمیشن کا ذکر کرنے لگی ہوں۔ یہ عمر کا وہ حصہ تھا جب ہمارے شعور کی نشونما زور و شور سے جاری تھی اور ہماری خوش بختی یہ تھی کہ ہمارے کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر میں تارڑ صاحب ہر صبح فہم و آگاہی کی  ایک اینٹ رکھا کرتے تھے۔ جب ہم اسکول جانے کے لئے تیار ہورہے ہوتے تو کان میں تارڑ صاحب کی نصیحت بھری آواز رس گھول رہی ہوتی تھی۔ ہم سارے بہن بھائیوں  کا معمول تھا کہ ٹھیک 7:00 بجے ٹی وی آن کرتےتھے۔ پی ٹی وی پر 7:00 بجے تلاوت قرآن پاک اور نعت کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور 7:20 تک ناشتہ لے کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ وہ پانچ سے چھ منٹ کا کارٹون ہمارے لیے واحد تفریح کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ تارڑ صاحب کے ساتھ قراۃ لعین صاحبہ بھی ہوا کرتی تھیں۔ دونوں اپنے شفیق لب و لہجے میں ہم سے ایسے مخاطب ہوتے کہ جیسے ہمارے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود ہوں۔

وہ ہمیں دعا دیتے اور نصیحت کرتے ہوئے اسکول کے لیے اللہ حافظ کہتے۔ ہمیں آپ کی آواز کی اس قدر عادت ہوگئی تھی کہ آپ کے بغیر ہماری صبح نہ ہوتی۔ آپ نے چھوٹی عمر کی زرخیر زمین میں پیار اور خلوص کا بیچ بویا۔ ایک انجان وابستگی کو ایک رشتہ دیا اور ایک روحانی رشتہ قائم کیا۔ آپ کا انداز، لب و لہجہ اس قدر شیریں ہوا کرتا تھا کہ آپ کی کی ہوئی نصیحت پر میں من و عن عمل کیا کرتی تھی۔ وہ تو میرے لیے چاچاجی ہی رہتے اگر دور جوانی میں علم نہ ہوا ہوتا کہ تارڑ صاحب ہمارے ملک کے مایاناز ناول نگار، ڈرامہ نگار، اداکار اور ادیب ہیں۔ ان کی تحریر کو پڑھنا ایک عادت سی بن گئی اور بلوغت کے زمانے میں فصاحت کے دریچے کھولتے چلے گئے اورادب سے تعلق قائم ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی  کسی سفر نامے  کا مطالعہ کرتی ان کی آواز کانوں میں رس گھولتی اور منظر آنکھوں کے سامنے رقص کرتے۔ جب پہلی دفعہ میں نے لاہور جانے کے لیے ٹرین سے سفر کیا تو تمام راستے ٹرین کی کھڑکی سے لگ کے بیٹھی رہی۔ ٹرین کے باہر رونما ہونے والے تمام مناظر اشفاق احمد صاحب اور تارڑ صاحب کے الفاظ کی آمیزش تھے۔ میری نظر میری نہیں تھی بلکہ ان کے لفظوں کی چاشنی میری  نگاہوں کے سامنے رقصاں تھی۔ وہی خوشبو، وہی رنگ اور وہی حرارت چاروں اور محسوس ہوئی۔ یہ ہی حال شمالی علاقاجات میں ہوا۔ دیوسائی، کالاش، رتی گلی جیسے سفر ناموں اور ناول میں جو قصے، کہانی اور کردار تھے سب مجھ سے باتیں کررہے تھے اور میں تارڑ صاحب کے الفاظ کو چنتی پھر رہی تھی کیونکہ کانوں میں کوئی آواز مسلسل آرہی تھی وہی جو پچپن میں صبح کا آغاز کرتی تھی۔ یہ اقتباس جو کہ رتی گلی سفر نامے سے ماخوذ ہے تارڑ صاحب کی زبانی چاروں اور گونج رہی تھی۔

“ہم پانیوں سے اوپر ایک ایسی ڈھلان پر آ گئے جس نے ہمارے بجھے ہوئے دل کو باغ باغ کر دیا کہ وہ جگہ ایک باغ ارم کی مانند تھی۔۔۔۔سرد پانیوں کے سفید مرغولے بلندی سے نیچے آ رہے تھے،کہیں چشمے ابلتے گیت گاتے تھے اور ان کے گرد پھول ہی پھول ہجوم کرتے تھے۔۔بس ہم ایک ایسے ہی خوش نظر منظر میں چلنے کے لیے ہی تو یہاں آئے تھے۔۔۔۔
اگرچہ ہمارا سانس چلتے ہوئے بہت بری طرح پھولتا تھا – ہم اسے ٹھہر ٹھہر کر کچھ بحال کرتے تھے تو وہ صرف چند لمحوں کے لیے ہی بحال ہوتا اور پھر پہلے جیسا پھول جاتا تھا-
لیکن یہاں ہمارے آس پاس اتنے پھول تھے کہ ہم سانس کے پھول۔۔۔نے۔۔کو بھول گئے.”
اور بس کھو کر رہ گئے۔

( مستنصر حسین تارڑ ۔ سفر نامے “رتی گلی” سے اقتباس )

Advertisements
julia rana solicitors

تارڑ صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا میری استطاعت میں نہیں۔ آرزو تو ہمیشہ سے رہی کہ شاگردی نصیب ہو اور آپ کو براہ راست سُن سکوں۔ آپ کی بیشتر کتابیں پڑھی  ہیں اور آپ کے ہمراہ ملکوں ملکوں سیر کی ہے۔ آپ کی اکثر نشستیں مجھے آج بھی یاد ہیں جو پی ٹی وی پر نشر ہوتی تھیں۔ آپ ان استادوں میں سے ہیں  جنھوں نے ہمارے سوچ کے زاویے کو مثبت پہلو عطا کیا۔ اپنے قلم سے ہماری رہنمائی کی۔ آپ علم کا دریچہ ہیں جہاں سے ہر عمر کا انسان مستفید ہوتا ہے۔ چاہے زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ،محبت، حب اوطنی، اخلاقیات، روایات یا محض دنیا کو چانچنے کی آرزو، سب آپ کی تحریروں میں ملتا  ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply