• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیرل المیڈا ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔۔۔سلمیٰ اعوان

سیرل المیڈا ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔۔۔سلمیٰ اعوان

اب تم نے پہلی بات تو یہی کرنی ہے کہ ذرا بتائیں تو سہی کہ کن کو میری ضرورت ہے؟سیرل ٹھہرو۔ دم لو۔ مجھے تمھاری جلد بازی پسند نہیں ۔ڈان کو چھوڑنے اور اتوار کو کالم نہ لکھنے کا کہہ کر میرے اتوار کو جس طرح تم نے بد مزہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کوئی اچھی بات ہے کیا ؟ اس بگڑے تگڑے ماحول میں جہا ں ہر طرف آپودھاپی ، افراتفری الزام تراشی، اور عدم برداشت جیسی قبیح عادتوں اور طور طریقوں کا چلن ہے۔ جہاں بادشاہ سلامت سب اچھا ہے، سب عمدہ ہے اور آپ جیسا توکوئی ہے ہی نہیں جیسے خوشامدی جملے سننے کے عادی ہوں۔ وہاں ایک ایسے بچے سے محروم ہونا کتنی بد قسمتی ہے جو کم از کم یہ تو کہنے کاحوصلہ رکھتا ہے بادشاہ سلامت آپ غلط ہیں۔ آپ ننگے ہیں۔

تمہیں لکھنا یا تم سے ملنے کو بھی جی چاہتا تھا اور دیکھو موقع بھی اللہ نے مہیا کردیا۔عاصمہ جہانگیر کی کانفرنس ہورہی تھی اس کے پہلے دن کے دوسرے سیشن میں تمہارے اور کرسٹینالیمب کے مقالے تھے۔ میں خوش تھی کہ چلو تم سے ملوں گی اور پوچھوں گی کہ اپنے ماتھے پر ورلڈ پریس فریڈیم ہیر و ایوارڈ سجا نے والے تم نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ عاصمہ جہانگیر بڑی اور عظیم عورت تھی۔ کانفرنس میں آنے والے مندوبین بھی اسی مرتبے کے حامل ملکی اور غیر ملکی لوگ تھے۔ شرکاءکی بھی بہت بڑی تعداد تھی ۔ چاروں صوبوں کی بھرپور نمائندگی بھی ہورہی تھی۔ مگر کانفرنس جس سنجیدگی کی مقتاضی تھی وہ نا پید تھی۔ میلے کا سا گمان پڑتا تھا۔ آنیاں اور جانیاں کے سلسلے سنجیدہ مقالوں کو توجہ سے سننے نہیں دے رہے تھے۔ اور مجھ احمق کو بھی دیکھو کہ پونے گیارہ بجے ہی وہاں جاکر بیٹھ گئی۔ اور یہ بھول گئی کہ اب میں جوان نہیں کہ مقالوں کے ایک طویل سیشن میں حاضری دے کر اگلے سیشن کے لیے تازہ دم رہوں۔ بہت چاہنے کے باجود اتنی تھکن  بدن پر طاری تھی کہ لم لیٹ ہونے کے لیے مری جارہی تھی اور یوں تم سے ملے بغیر بادل نخواستہ چلی آئی ۔

لو دیکھو تو ذرا میں بھی بس سٹھیاگئی ہوں۔ اپنے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ گئی اور یہ بھول گئی کہ تم نے مجھ سے کچھ پوچھاہے؟سیرل نجی سطح پر تو تم میری اور میرے بڑے بیٹے غضنفر عرف منُے کی شدید ضرورت ہو۔دوسرے قومی سطح پر سنجیدہ اور سمجھ دار لوگوں کی بھی جو تمہیں پڑھتے اور سراہتے ہیں۔غضنفر پہلے اردکاؤس جی کا سچا عاشق تھا اور اب تمہارا ہے۔تمہیں بتاؤں اردکاؤس جی دنیا سے گئے تو وہ کتنا اُداس تھا۔بار بار ہاتھوں کو یوں مسلتا جیسے کاؤس جی پرندہ ہی تو تھے جو اُس کے ہاتھوں سے نکل گئے ہوںمیں  نے دلجوئی کرتے ہوئے کہا۔ ”پھوٹ“۔ارے ہاںسیرل یہ ہم پنجابیوں کا بڑا خاص لفظ ہے اپنے کسی پیارے کو لعن طعن کرنے کے لیے۔جو آیا ہے اُس نے جانا تو ہے۔ یہی دُنیا کا چلن ہے۔

ہم کھوتے کی طرح کام کرنے والے لوگ ہیں۔ اتوار ہمارے لیے  بڑا اہم دن ہوتاہے۔ ڈان تو یوں بھی اتوار کے اتوار آتا ہے۔ اتوار کو دیر تک سونے کے بعد جب وہ اٹھتا تو تمہیں سب سے پہلے پڑھتا اور پھر میرے کمرے میں آتا۔ میں اس وقتBooks & Authorsکھولے کبھی انتظارحسین کبھی آصف فرخی اور کبھی کاملہ شمسی وغیرہ کو پڑھ رہی ہوتی۔وہ میگزین میرے منہ سے ہٹاکر پوچھتا ”آپ نے سیرل المیڈا کا کالم پڑھا۔کیا کالم لکھا ہے؟ ساتھ ہی وہ اخبار کے ادارتی صفحے کو کھول کر کالم میری ناک میں گھساتے ہوئے کہتا۔ اسے پڑھیے۔ میں ناشتہ کرکے آتا ہوں پھربات ہوگی ۔

سیرل میں نہیں جانتی تمھاری اپنی ماں کے ساتھ کتنی قربت ہے؟اور اگر ہے تو باتوں کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ آج کے اس مصروف دورمیں بچوں کو والدین کے پاس بیٹھنے کا وقت کتنا کم ملتا ہے جبکہ وہ خود بچوں والے ہوں۔ مگر تم اور تمھار اکالم ہم دونو ں کے درمیان وہ ٹائی تھی جس نے ہمیں باندھا ہوا تھا۔

گفتگو کا آغاز اکثر و بیشتر تمھارے کالم سے شروع ہوتا۔وہ میرے پاس میرے بیڈ پر بیٹھ جاتااور تاسف بھرے لہجے میں کہنے لگتا۔ہمارے ملک کو کیا ہوتا جا رہاہے۔ہر انسان کو اپنے نظریے اپنی رائے کے اظہار میں تو کم از کم آزاد ہونا چاہیے یہ کیسا سفر ہے کہ 72 سال بعد بھی ہم میں اتنا ظرف اور وسعت پیدا نہیں ہوئی کہ ہم کوئی مخالف نظریہ یا خیالات برداشت کرسکیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی اس خوف کے جنگل میں بھٹک رہے ہیں اور اس گڑھے میں گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔پیارے سیرل کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی تو ایک لمبی فہرست ہے جنہیں پڑھنااس کا معمول ہے۔میں تو بس چیدہ چیدہ کی ہی قاری ہوں تاہم بقول اس کے تم اس ملک کے وہ واحد انگریزی تجزیہ نگار ہو۔ جسے صحیح معنوں میں اس مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے ۔تم اپنے کالموں کو بارہ مسالوں کی چاٹ بنانے یا اندر کی خبروں سے کالم کا پیٹ بھرنے کی بجائے صحیح معنوں میں تجزیے کی سیخ پر چڑھاتے ہو۔ اور تجزیہ بھی ایسا جاندار کہ جو واقعی زمینی حقائق پر مبنی ہو۔ نہ کہ میری اور آپ کی خواہشوں کا آئینہ دار۔ اب اس قحط الرجال کے عالم میں ایک ایسے تجزیہ نگار کا ریٹائرمنٹ لینے پر توصرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔ہم بیچارے افسوس کرنے کے سوا اور کربھی کیاسکتے ہیں اب ہمارے جذبات کچھ بھی ہوں یہ بہر حال ایک تشویش ناک بات ہے۔ ہم اس وقت جس بحران میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں شدید ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو حالات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرسکتے ہوں۔ ہم نے اپنی تاریخ کو تروپے لگالگاکراس کا  ستیاناس تو کرہی لیا ہے اب اگر اس مچھلی منڈی میں کوئی ڈھنگ کی آوازیں رہ گئی ہیں تو ہم ان کا بھی گلا گھوٹ دینا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیسا ستم ہے یہ۔ علامہ نے خوب کہا ہے۔ ۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔کچھ بھی کہا جائے دلائل کے ڈھیر لگائے جائیں ایک چیزتو طے ہے کہ اختلاف رائے پر شخصی آزادیوں پر اور آزاد سوچ پر پابندی لگاکر آج تک نہ توکسی   ملک نے ترقی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن نظر آتا ہے۔ معاشرے میں سوچ گھٹن کا شکار ہوجائے وہ معاشرے اندر سے گلنا اور سڑانڈ مارنا شروع کردیتے ہیں۔اپنے ملک کوہی دیکھ لیجیے۔ابھی تک ضیائی باقیات بھگت رہے ہیں ۔اللہ جانے آگے نیا کیا کچھ بھگتنا باقی ہے۔
اللہ ہم پہ اپنا رحم کرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply