اُردو کے سو پسندیدہ شعر۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ/قسط2

بھارتی سرکار نے 2013ء میں پانچ سو روپے کا ٹکٹ جاری کیا جس پہ شکیل بدایونی کی تصویر کندہ کی گئی تھی۔ نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دُھنوں پر سوا دو سو سے زائد شکیل بدایونی کے لکھے گیت محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں دلاری، دیدار، مدر انڈیا، چودہویں کا چاند، مغلِ اعظم، گنگا جمنا، صاحب بی بی اور غلام، میرے محبوب، دو بدن جیسی فلموں کے لیے گائے۔ شکیل بدایونی کا راقم کے رجسٹر رقم میں پسندیدہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

رائے بریلی ہندوستان کے مقبول شاعر ڈاکٹر زاہد حسین المعروف وسیم بریلوی کے دو اشعار بھی شاندار ہیں کہ:

آسماں اتنی پہ جو اِتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے

اور یہ شعر دیکھیے کہ:

شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ

کراچی کے مشہور و منفرد خیالات کے شاعر اجمل سراج کا یہ شعر واقعی قابل داد ہے کہ:

اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا

اردو تنقید کے بانی، عربی صرف و نحو اور منطق کے استاد، مرزا اسد اللہ خان غالب کے براہ راست شاگرد، انجمن پنجاب کے بانی اور مسدس حالی کے شاعر الطاف حسین حالی کا شعر دیکھیے کہ:

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

اردو میں ایک ایسا شاعر بھی گزرا ہے کہ جس کی تمام اولاد کے سر کاٹ کر انگریزوں نے اسے بطور تحفہ پیش کیے تھے، بہادر شاہ ظفر کا شعر دیکھیے کہ:

کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

شبیر حسین خان آفریدی جنہیں دنیائے ادب جوش ملیح آبادی کے نام سے یاد کرتی ہے، پدم وبھوشن اور ہلال امتیاز کے حامل ترقی پسند اور شعلہ بیان شاعر کا شعر میرا پسندیدہ ہے کہ:

ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے
ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے

جوش ملیح آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مروت میں ایک ملازمت کے لیے کئی لوگوں کی سفارش کردیتے تھے ایک دفعہ ایک شخص کے ہمراہ سفارش کے لیے گئے افسر نے کہا اس کے لیے تو آپ نے کسی اور کی سفارش کی ہے فرمایا کہ اس مردود کو رکھ لیجیے کیونکہ مجھے ساتھ لایا ہے۔ جوش کا یہ شعر بھی میرے رجسٹر میں پسندیدہ شعروں کی فہرست میں شامل ہے کہ:

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

ایک طالبعلم نے مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آیا۔ اس دوران وہ طالبعلم شاعری بھی کرتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتا تھا۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ قریبی دوست اس نوجوان کو کھینچ کھانچ کر حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں لے گئے۔ بڑے بڑے اساتذہ، شاگردوں کی ایک کثیر تعداد کے علاوہ سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ وہ چونکہ بالکل نیاشاعر تھا اسی لیے ان کا نام مبتدیوں میں پُکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے اور بے اختیار ہو کر داد دینے لگ۔ یہاں سے علامہ محمد اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ علامہ اقبال کا درج ذیل شعر داد سے بالاتر ہے کہ :

اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

ندا فاضلی کا ایک دوسرا شعر بھی اردو کے میرے پسندیدہ اشعار کے دفتر میں یوں رقم ہے کہ:

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا

محسن نقوی صاحب کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

مجھ  کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی

اور مرزا اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر تو بہت ہی عمدہ ہے کہ:

شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

غالب ہی کا ایک دوسرا شعر راقم کے پاس یوں رقم ہے کہ:

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا

ہریانہ سے تعلق رکھنے والے شاعر اور صحافی، ہفتہ وار اخبار ’پیغام‘ کے مدیر آتش بہاولپوری کا یہ شعر دیکھیے کہ:

مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے

پاکستان کے ممتاز شاعر عباس رضوی کو ملاحظہ کیجیے کہ

طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں

شکیب جلالی نے اپنے بچپن میں ہی اپنی والدہ کو ٹرین کے آگے کود کر ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا کیونکہ وہ ایک نفسیاتی مریضہ تھی، شکیب کی نفسیات پہ اس حادثے نے گہرا اثر مرتب کیا تھا۔ شکیب نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی، لیکن 32 سال کی عمر میں شکیب نے بھی ٹرین کے آگے کود کر جان گنوا دی۔ شکیب جلالی کا شعر ملاحظہ ہو کہ

ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ

اٹھارویں صدی کے اردو شاعر عارف الدین عاجز کا یہ شعر داد سے بالا تر ہے کہ

اگر کیف سخن میرا نہال تاک کو پہنچے
صراحی شاخ بن جاوے شراب انگور سے ٹپکے

مشہور ماہر عروض، ایک انتہائی ذہین انسان اور کمال لہجے کے شاعر آشفتہ چنگیزی کا 1996ء کے بعد کوئی علم نہیں، وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، کوئی نہیں جانتا، اُن کا شعر ہے کہ:

چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے عجب سرپھرے زمانے تھے

الہ آباد کے سیشن جج، اور اردو کے مشہور طنزیہ شاعر اکبر اللہ آبادی فرماتے ہیں کہ

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

فیض احمد فیض کا پیشِ ذیل بھی کیا ہی کمال شعر ہے کہ:

وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

ہندوستان کے مشاعروں کی مشہور شاعرہ انجم رہبر کا شعر دیکھیے کہ:

ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا

انجم رہبر صاحبہ کا ہی شعر میرے پسندیدہ اشعار کے دفتر میں درج ہے کہ:

تجھ کو دنیا کے ساتھ چلنا ہے
تو مرے ساتھ چل نہ پائے گا

اردو کے مشہور ہندوستانی شاعر اور اردو اکیڈمی کے چیئرمین ڈاکٹر بشیر بدر کا شعر پڑھیے کہ

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

لکھنو کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر، مرزا غالب کے ہم عصر امام بخش ناسخ نے کیا ہی خوب شعر کہا تھا کہ

زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

انور شعور اپنے یومیہ قطعے کی وجہ سے مشہور ہیں اور پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں شامل ہیں، اُن کا مشہور شعر بھی دیکھیے کہ:

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اُردو کے سو پسندیدہ شعر۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ/قسط1

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply