اسلام اور انسانی حقوق۔۔۔۔محمد اشفاق

اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی فلاں، فلاں اور ڈھمکاں کو جو حقوق عطا فرما دیے تھے، وہ سر آنکھوں پر، وہ ہمارے مذہبی عقائد کا حصہ ہیں مگر انسانی تمدن چودہ سو برس میں بہت آگے نکل آیا ہے۔

آج آپ پسماندہ و محروم طبقے یا پسماندہ و محروم ممالک سے پندرہ بیس خواتین خرید کر انہیں وہ سب حقوق مہیا کرنے پر تل جائیں جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے لونڈیوں کو عطا فرما رکھے تو آپ کا خاندان، آپ کی برادری، آپ کا معاشرہ اور آپ کی ریاست نہ صرف یہ کہ آپ پر لعنت بھیجے گی بلکہ آپ کو اپنی ذات کیلئے وہ سب حقوق مانگنے پڑ جائیں گے جو اسلام نے چودہ سو سال قبل قیدیوں کو عطا فرمائے تھے۔ وجہ یہی ہے کہ انسانی تہذیب کا اجتماعی شعور غلامی کو مسترد کر چکا ہے-

تقریباً پندرہویں صدی سے دنیا اس ڈگر پہ چل نکلی جس میں ہمیں ہر سو دو سو سال میں اپنے کسی نہ کسی مذہبی عقیدے یا نظریے کو جدید دنیا کے تمدن کے مطابق ڈھالنا پڑا یا جدید دریافتوں اور نئے علوم سے ان عقائد و نظریات کے حق میں تاویلیں ڈھونڈنا پڑیں۔ انیسویں صدی کے اواخر سے انسانی تہذیب کے ارتقاء کی رفتار اتنی  بڑھ چکی ہے کہ جو عمل پہلے ہمیں سو دو سو سال میں ایک آدھ بار دہرانا پڑتا تھا اب تقریباً ہر دہائی میں وہ ہمارے لئے ایک نیا چیلنج لا کھڑا کرتا ہے- دین اور دنیا میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کا عمل اختیاری نہیں جبری ہے مگر بہرحال اس میں شر سے زیادہ خیر پوشیدہ ہے۔

سترہویں صدی میں غلاموں کے حقوق کی بات سے جو سلسلہ شروع ہوا، بیسویں صدی میں کالوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، غریبوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، ٹرانس جینڈرز کے حقوق، ہم جنس پرستوں کے حقوق سے ہوتا ہوا اکیسویں صدی میں اس مقام پر آن پہنچا ہے جہاں اگلی چند دہائیوں میں شاید انسانوں کو روبوٹس اور سائی بورگز کے حقوق بھی وضع کرنا پڑیں۔

جب ہم کسی مخصوص کمیونٹی کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت یہ اعتراف ہوتا ہے کہ اس کمیونٹی کو سماج اب تک اس کے جائز حقوق دینے میں ناکام رہا ہے۔ سعودیہ میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنا دنیا کیلئے ایک بڑی خبر اس لئے تھی کہ یہ واحد ملک تھا جہاں گاڑی چلانے پہ بھی مردوں کی اجارہ داری تھی۔ آج تک مردوں کے حقوق کی کوئی عالمگیر تحریک برپا نہیں ہوئی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہزاروں برس سے مرد بالادست ہیں۔ جن معاشروں میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں وہاں سماجی مباحث میں یہ موضوع اٹھایا ہی نہیں جاتا۔

جب کسی مخصوص کمیونٹی کے انسانی حقوق کا تحفظ، انتظامی حکم ناموں اور قانون سازی کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ اب تک معاشرہ اس طبقے کو جو کچھ دینے سے انکار کرتا رہا، وہ اسے آئندہ ملتا رہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کمیونٹی کے حقوق اب صرف وہی ہیں جو اس انتظامی حکم نامے یا قانون میں درج کر دیے گئے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام کے عطا کردہ حقوق کی تشریح، وکالت اور ان پہ اصرار کرنے والے مغالطے کا شکار ہوتے ہیں۔

مثلاً مسلم ممالک میں خواتین کے ساتھ غیر منصفانہ یا غیر مساوی برتاؤ اس لئے عام ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے کے نیم وحشی، نیم خانہ بدوش قبائلی معاشرے میں خواتین کے لئے چند ایک بنیادی سطح کے حقوق الہامی حکم کے تحت یقینی بنائے۔ ہم نے ان احکامات کا دائرہ کھینچ کر خواتین کو اس کے اندر قید کر دیا جبکہ غالباً اللہ اور اس کے رسول کی منشاء یہ نہ تھی۔

یہی رویہ ہمارا اقلیتوں اور دیگر محروم طبقات کی جانب بھی ہے- یعنی قرآن و سنت میں ہمیں ان کے حقوق کا جو ذکر ملا اسے ہم نے ان کے حتمی حقوق سمجھ لیا جبکہ یہ ان کے بالکل ابتدائی سطح کے حقوق تھے۔ یہ minimum تھا جسے ہمارا اصرار ہے کہ ساری دنیا maximum سمجھ لے۔

اللہ اور اس کے رسول کی منشاء ہم پر خطبہ حجتہ الوداع میں بہترین طریقے سے واضح کی گئی ہے۔ تمام انسان برابر ہیں اور برتری کا معیار محض تقوی ہے جس کا فیصلہ کوئی انسان نہیں کر سکتا، تقوی کی بنیاد پر کس کو کس پر فوقیت دینی ہے یہ فیصلہ کرنا اللہ کا حق ہے-

جب سب انسان برابر ہیں تو سب کے حقوق بھی یکساں ہیں۔ آپ کسی طبقے یا گروہ کے حقوق کو ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی سطح پر منجمند نہیں کر سکتے کیونکہ اس عمل میں آپ درحقیقت اپنے دین کو ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی سطح پر منجمند کر رہے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک ہم اس مغالطے سے نہیں نکلیں گے، ہم خدا کے نام پر خدا کے بندوں پر ستم ڈھاتے رہیں گے یہاں تک کہ اکثریت ہمارے جبر کی مزاحمت کرتے کرتے خدا ہی سے بغاوت کر بیٹھے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply