درمیاں فہم محبت۔۔۔ماریہ خان خٹک/قسط4

تم اچھی لڑکی ہو اس چھمک چھلو کے ساتھ تمہاری دوستی بڑھتی جارہی ہے۔عدنان کے لفظوں میں طنز کے زہر کے ساتھ تضحیک نمایاں تھی جبری مسکان ہونٹوں پہ سجاتے ہوئے کہنے لگا ، پتہ نہیں سمجھتی کیا ہے خود کو، ایسے اِترا کر چلتی ہے جیسے کسی دودھ فروش بیوہ کی بیٹی نہ ہو،بلکہ  کسی سلطنت کی شہزادی ہو۔۔۔۔ میں نے لمحے بھر کے لئے عدنان کے متغیر چہرے کو دیکھا جو زبان سے نکلتے لفظوں سے الجھ رہا تھا۔ اس کے لفظ چہرے پہ تاثرات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ دیکھو عدنان اگر وہ سچ مچ کسی سلطنت کی شہزادی ہوتی ناں ۔۔۔ تو تمہارے سامنے اِترا کر گزرنے سے پہلے ہی شاہی نوکر تمہیں ہی راستے سے دور رہنے کا حکم کرتے سمجھے ناں ۔ میں نے توے پہ روٹی پلٹ کر عدنان کو دیکھا جو میرے تیز بولنے سے گھبرا سا گیا تھا۔ اور یہاں وہاں دیکھ کر فورا ً بولا ، بھابھی آہستہ کیوں میری عزت کا فالودہ بنارہی ہیں ۔ شاہ زین سنے گا تو دوستوں میں میرا مذاق اڑائے گا،کہ میں گوالوں کے گھر کی لڑکی کے بارے میں بات کررہا ہوں ۔ وہ ہڑبڑاتے ہوئے منمنا کر بولا تھا ،شاہ زین۔۔۔ جلدی کرو عدنان کو جلدی ہے جانے کی ۔میں نے اپنے دیور کو زور سے آواز دی جو تیار ہونے کیلئے اندر کمرے میں تھا۔دونوں کا کہیں جانے کا پروگرام تھا۔ تاہم موقع ملتے ہی عدنان مجھ سے عریزے کی سن گن لینے لگا تو مجھے اس کی یہ بات پسند نہیں آئی  ۔۔۔۔ کم ظرف انسان دوسروں کو اپنے ہاتھ آئے کھلونے کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے ۔سامنے والا اگر اس کے ہاتھوں کھلونا بننے سے انکاری ہو تو کم ظرف کا ظرف یہ بات کبھی گوارا ہی نہیں کرسکتا ۔۔۔ نتیجتاً اپنی استطاعت کے مطابق ہر لحاظ سے اسے خود سے کم تر کہنے میں دیر نہیں کرتا۔ اور اکثر یہ خدائی  اختیار میں موجود اوصاف کو ہی استعمال کرتا ہے ۔ مال دولت ،حسب نسب اور کسب کے ساتھ رنگ و نسل اور پھر کچھ بھی نہ سُوجھے تو کردار پہ وار کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ عادت اور کردار کا فرق کیا ہے ۔ کسی اچھے انسان کی ناپسندیدہ عادت جس کا بعض اوقات اسے علم بھی نہیں ہوتا اس چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بناکر کردار سازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس کی رال ٹپکتی ہی انہی اداؤں پہ ہے ۔ عدنان نے جیب سے اک ڈبیا نکالی جس میں دو کنگن تھے ۔ کہنے لگا آپ یہ عریزے کو دے دیجیے گا پلیز ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ڈبیا اس کے ہاتھ سے لی اور کنگن دیکھنے لگی ۔۔۔۔واہ تمہاری چوائس تو بہت اچھی ہے۔۔۔کتنے پیارے ہیں ناں؟ میں نے کنگن کی تعریف کی تو عدنان حیران سا مجھے دیکھنے لگا۔۔۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، وہ کیا ہے ناں کہ ۔۔۔۔ہیں تو بہت پیارے پر ہیں آرٹیفیشل ۔۔۔ ہفتہ دس دن بعد ہی خوبصورتی کھودینگے۔۔۔ تو کیا اس چھمک چھلو کے لئے اوریجنل گولڈ کے کنگن خریدوں؟۔عدنان نے پریشان ہوکر الجھے ہوئے استفہامیہ انداز میں مجھے دیکھا ۔۔ ہاں آں۔۔۔ہاں۔۔۔۔اس میں۔۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔۔۔کیا مشکل ہے ؟ میں نے لفظ لفظ پہ زور دیتے وضاحت چاہی۔ ارے نہیں بھابھی یہ تو ویسے ہی خرید لئے تھے۔کل دیکھا تھا اسے خریدنے لگی تھی پھر دام سن کر چھوڑ دیے ۔۔۔ سوچا اسے پسند ہیں تو خرید کر گفٹ کردیتا ہوں ۔۔۔ ورنہ یہ میری شان کے مطابق تحفہ تو نہیں ہے۔ گفٹ۔۔۔؟ آں ہاں کس حیثیت سے دینا چاہتے ہو اسے یہ گفٹ؟ میں نے انجان بنتے دوسرا سوال اٹھایا۔ ویسے ہی بس۔۔۔۔ اس نے جان چھڑانے والے انداز سے کہا۔ تم کہو تو تمہاری امی سے بات کردوں کہ تمہارے لئے عریزے کی ماں سے بات کرلے۔ عدنان مجھے ہونق ہوکر دیکھنے لگا۔ کیوں کیا ہوا کوئی  انہونی بات کردی میں نے ؟ بھابھی۔۔۔۔ی ی ی ۔۔۔۔۔۔ بھائی  جان نے نیا پرفیوم لایا تھا وہ کہاں ہے ؟ شاہ زین نے کمرے سے آواز دی ۔ میں نے چولہا بند کیا اور عدنان کو وہیں چھوڑ کر میں شاہ ذین کی پکار پہ اٹھ کر چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانزے ۔۔۔شانزے بھابھی وہ دروازے سے ہی زور زور سے پکارتی ہوئی  اندر آرہی تھی گاؤں میں شادی تھی ۔۔۔ دیگر لڑکیوں کی طرح عریزے نے بھی اپنا پسندیدہ سوٹ پہنا تھا اور آتے ہی کہنے لگی شانزے تمہارے پاس تو بہت سا میک اپ کا سامان ہے ناں اور تم شہر کی ہو تو میک اپ شیک اپ کا بھی تجربہ ہوگا ۔ مجھے تیار کردو اچھا سا ۔۔۔وہ معصومیت سے بولی۔ بالکل ہے بہت سا میک اپ ہے لیکن وہ صرف شادی کے موقع پر نارملی خریدا گیا ہے ورنہ تو کبھی دیکھا ہے کہ میں نے استعمال کیا ہو  ، اور تم تجربے کی بات کررہی ہو تو مجھے ہر گز کچھ نہیں معلوم ان چیزوں سے بہت دور رہتی آئی  ہوں میں ،مجھ سے زیادہ تو تم گاؤں میں رہتے بھی جان گئی  ہو۔۔۔میں نے بھی چھیڑتے ہوئے کہا ،آئندہ یہ گاؤں شہر کی بات مت کرنا اورہاں بڑا سا شیشہ بھی جس میں گاؤں کا بندہ خود کو دیکھے تو شہری لگتا ہے ہاہاہاہا ۔ لیکن تم تو پہلے ہی اتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔ مزید میک اپ تھوپ کر نظر لگواؤگی خود کو ۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر تعریفی اانداز میں کہا۔۔۔ عریزے میں تمہیں میک اپ سے نہیں منع کرتی ۔۔۔ لیکن چندا میک اپ کی ضرورت انہیں ہوتی ہے ۔ جن کو اللہ کی طرف سے حسن کم ملا ہو۔ ناراض مت ہونا لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم اپنے قدرتی خوبصورت چہرے کو میک اپ سے بگاڑو ۔ دیکھو خود کو کتنی پیاری لگ رہی ہو ۔ میں سمجھاتے ہوئے بولی ،تھوڑا سا تو کرنے دو ناں ویسے بھی تم خود تو لگاتی نہیں ہو پڑے پڑے خراب ہوجائے گا ۔۔۔وہ بڑے رسان  سے بولی، اس کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر میں نے کہا،آؤمیں تمہارے بال بنادوں زبردست سے ۔۔۔ میں نے برش سے اس کے بالوں کا پیارا سا سٹائل بنادیا جسے وہ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش تو ہوئی  لیکن ظاہر نہیں کیا ۔۔۔ تاکہ میں اسے مزید میک اپ کردوں۔۔ہلکے   شیڈ کی لپ اسٹک میں نے اسے پکڑائی  کہ صرف یہ لگادو بس دیکھو پری لگ رہی ہو پری۔۔۔ اس کی یہی بات اچھی تھی کہ وہ پیار سے ہر بات مان لیتی تھی کچھ دیر بحث کرکے یا ناراضگی ظاہر کرنے کے بعد خود ہی موڈ ٹھیک کرلیتی تھی ۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے جس کی برائی  صرف یہ ہے کہ وہ اچھی شکل رکھتی ہے ،باقی عادات و اطوار تو اس کی عمر کا تقاضا ہے ۔شوخ پن ، اکھڑمزاجی، فیشن کی طرف کھنچنا ،اس عمر کے لڑکے لڑکیوں کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے ۔ خوبصورت ہوتے ہوئے بھی مزید خوبصورت نظر آنے کی تمنا ۔۔۔ پھر تعریفی کلمات۔۔۔۔ اورچاہے جانے کی خواہش ۔۔۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہر انسان میں فطری طور پر پنپتی ہیں۔ تاہم ماحول کی مطابقت سے کچھ لوگ انہیں چھپا لیتے ہیں جبکہ کچھ چاہ کر بھی نہیں چھپا سکتے ۔۔۔ انہیں زندگی میں اک ساتھی چاہیے ہوتا ہے۔۔۔ اپنے جیسے جذبات والا ،محبت خوشی اور ہر جذبہ بانٹنے کیلئے ۔۔۔ لیکن افسوس ہم اس بات کو کبھی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیحد پیاری لگ رہی تھی۔ لگتی کیسے نا ،اللہ نے اسے تخلیق ہی ایسا کیا تھا کہ کوئی  بھی نظر اس پہ ٹھہر کر پلٹنا بھول جاتی تھی اپنے آپ کو شیشے میں دیکھ کر وہ سچ میں بہت خوش ہورہی تھی اور یہ خوشی اس کی آنکھوں کی چمک سے پھوٹ پھوٹ کر اس کا چہرہ روشن کررہی تھی ۔ وہ برآمدے سے نکل کر جانے لگی تھی کہ عدنان گھر میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر ٹھٹک سا گیا تھا ۔ آنکھ جھپکنا بھول گیا تھا اور بھول گیا کہ وہ یہاں کسی کام سے آیا ہے۔ بے اختیار اس کی زباں سے چشم بد دور کے الفاظ برآمد ہوئے۔ جسے سن کر عریزے اس طرف متوجہ ہوئی  ۔۔۔ جی۔۔۔؟ آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟ نن نن نہیں ۔۔۔۔میں کہہ رہا تھا کہ۔۔۔عدنان کو کچھ سمجھ نہ آئی  کہ کیا کہے عریزے نے دوپٹہ اپنے گرد سلیقے سے لپیٹا اور دروازے  کی طرف بڑھ گئی، لیکن عدنان کی نظریں اس کے تعاقب میں جیسے بند دروازے سے بھی اسے دیکھنے کی آرزو میں تھیں ۔۔۔۔ آؤ عدنان خیر سے آئے ہو؟ جی بھابھی خیریت ہے ۔ شاہ زین کی بائیک چاہیے تھی کہاں ہے وہ؟ کمرے میں ہے اوپر اور سنو ۔۔۔۔دو منٹ رکو ادھر میں جلدی سے کچن میں گئی  اور عقبی کیبنٹ کھول کر ڈونگے کے پیچھے سے وہ کنگن والی ڈبیا اٹھاکر لائی  اور اسے دیتے ہوئے کہا ، یہ لو اس دن جلدی میں تم کچن شیلف پہ ہی بھول گئے تھے۔ ۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر بات مختصر کی۔ بھابھی میرے کس کام کے، آپ عریزے کو نہیں دینا چاہتیں تو خود رکھ لیں بیشک پھینک دیں لیکن میں کیا کروں گا ان کنگنوں کا وہ پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا : بھابھی ۔۔۔! ویسے کتنی غضب لگ رہی تھی وہ آج ۔۔ اگر آپ اسے یہ دے دیتیں تو اسے پہن کر بہت خوش ہوتی۔ اس نے اپنی بات ختم کرکے سیڑھیاں چڑھنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی میں نے جاکر ڈبیا اسے تھما کر کہا :میرے گھر سے لے جاؤ آگے جہاں مرضی پھینک دینا خود ہی ۔۔۔ اور میں واپسی مڑ کر تیزی سے کچن میں آئی۔۔
جاری ہے

Facebook Comments

ماریہ خان خٹک
میرا نام ماریہ خان ہے خٹک برادری سے تعلق ہے ۔کراچی کی رہائشی ہوں ۔تعلیم ،بچپن اور دوستوں کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں دوڑتی رہی ہوں ۔ کتابوں کے عشق اور مطالعے کی راہداری کو عبور کرنے کی چاہ میں خود قلم اٹھانے کی لگن ہے ۔طالب دعا ہوں اللہ تعالی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply