سوہنی دھرتی کے سونے جیسے صوفی۔۔ملک احمد نادر

طلوعِ اسلام کے بعد دین کی تبلیغ و اشاعت میں اہلِ تصوف کا خصوصی کردار رہا ہے اور یہ کہنا ہر گز مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ برِصغیر میں اسلام کے تعارف وتبلیغ کا زینہ تقریباً مکمل طور پر صوفیوں کے سر سجتا ہے۔ داتا علی ہجویری اور نظام  الدین اولیاؑ رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر مہر علی شاہ رحماللہ علیہ تک صوفیاء کرام نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں کی زندگیوں کونورِ اسلام سے منور کیا اور خانقاہی نظام کے ذریعے ایک ایسی تربیت گاہ تشکیل دے ڈالی جس سے درسِ انسانیت کولافانیت بخشی گئی۔ ملکِ پاکستان کی دھرتی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کا ”گیٹ وے‘‘ ہونے کے ناطے ہمیشہ سے صوفیوں کے لیے خصوصی حیثیت و اہمیت کی حامل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ برِصغیر کے تقریباً تمام بڑے دربار و مزارات اسی دھرتی پر پائے جاتے ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہلِ تصوف نے یہ خوبصورت رشتہ جو اِس زمین سے جوڑا ہے اس رشتے کو ہم کس حد تک نبھا پائے؟ وہ عظیم درس جو اِن ہستیوں نے ہماری وراثت کے طور پر چھوڑااُس کی لاج ہم کس حد تک رکھ پائے؟ ہم نے اس ورثے کا کیا حشر کیا؟ کیا وہ بندگانِ خدا اور اُن کا پیغام اِسی سلوک کا حقدار تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس ورثے میں سے کیاچھوڑ کر جا رہے ہیں؟

اِن سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک اور سوال پوچھنا پڑے گا اور وہ یہ کہ صوفی ہوتا کون ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا سادہ مگر گہرا ہے۔ صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ کی مخلوق سے بھرپور خلوص کے ساتھ محبت کرتا ہے اور اُن کےؒلیے آسانیاں پیدا کرنے کو اپنا مقصدوطریقہ بنا لیتا ہے، یہاں تک کہ یہ طریقہ طریقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ صوفی بننے کے لیے نہ تو بڑے بڑے علوم کی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی خاص حلیہ اختیار کرنے کی ضرورت، بلکہ کوئی بھی شخص خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو، اِس طریقے کو اختیار کر کے طریقت کے راز پا سکتا ہے۔ اب صوفی کی اِسی تعریف کو ذہن میں رکھ کر ذرا پل کو سوچیے کہ اگر ہم تصوف کے حقیقی وارث بن جا ئیں تو کیا یہ ملک جنت نظیرنہ بن جائے؟ ڈاکٹر حضرات اپنے ہسپتالوں اور کلینک میں پیسہ کمانے کے بجائے مریضوں کی خدمت اور آسانی کو اپنا شعار بنا لیں، وکلاء بھائی سائلین کی کھال اُتارنے کے بجائے اُن کو انصاف دلانے پر توجہ مرکوز کرلیں اور تاجراپنے گاہکوں کو ایمانداری اور آسانی تقسیم کریں تو ہمارے تمام مسئلے حل نہ ہو جائیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل دراصل ہمارے اپنے رویے، ہماری اخلاقیات اور ترجیحات کی ایجاد ہیں مگر منِ حیث القوم ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی ناکامیوں کا بوجھ امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے ذمے ڈال کر دل کو تسلی دینا چاہتے ہیں۔ اصل کہانی یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرنے کا سوچا ہی نہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دل حسد، بغض اور نفرت جیسی بیماریوں سے بھرے پڑے ہیں، کسی نے خوب کہا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو ایک خاص مقولے پر زندگی گزار رہے ہیں اور وہ یہ کہ جہاں کوئی اپنے سے کم تر نظر آئے اُس پر چڑھ جاؤ، جب کوئی اپنے سے زیادہ طاقتور نظر آئے اُس کے آگے سر جھکا لو اور جہاں کوئی اپنے برابر نظر آئے تو ٹانگیں کھینچو۔ کیا ہمارے صوفی بزرگ ہمیں یہی سکھا کر گئے؟

Advertisements
julia rana solicitors

صوفیوں کی طریقت کے ساتھ جو مذاق کیا گیا صرف اُسی کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو دل دہل کر رہ جاتا ہے، آج ملک بھر میں سالانہ بنیاد پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں عرس ضرور منائے جاتے ہیں جن سے طریقت کے نام پر خالصتاً بازاری اور کاروباری ذہنیت کی بدبو آتی ہے۔آج اگر بابا بلھے شاہ زندہ ہو جائیں تو یقیناً  دورِ حاضر کے گدی نشینوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اپنی قابلیت کا اظہار صوفیانہ حکمت سے معمور کلام لکھ کر کیا جاتا ہے نہ کہ سڑکوں پر بڑے بڑے بورڈ کرائے پر حاصل کر کے اشتہار لگانے سے، اگر آج داتا علی ہجویری دوبارہ ہمارے درمیان آ سکیں تو یقینا ہمیں بتائیں گے کہ کشف المحجوب جیسے صوفیانہ شاہکار کے ذریعے انسانیت کی خدمت اور اپنے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ رات گئے تک ڈھول پیٹنے والے ڈھولیوں پر لاکھوں روپے زرِنذانہ اُڑا کر اور اگر آج پیر مہر علی شاہ ایک بار پھر دربارِ گولڑہ شریف میں جلوہ افروز ہوں تو ہمیں سمجھائیں کہ لاہور کی دھرتی پر کفرِقادیان کا مقابلہ کرنے سے عزتیں حاصل ہوتی ہیں نہ کہ فرقہ واریت جیسی لعنت سے اَٹی تقریریں کرنے سے۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر یہ بزرگ ہستیاں دوبارہ یہاں آ بھی جائیں تو ان کے ساتھ جو سلوک  کیا جائے گا،اُس کے بارے میں سوچ کر ہی دل ڈر   جاتا ہے،کیونکہ ہمیں یہ ہستیاں صرف کتابوں میں قبول ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو اپنائیں اور اپنے ساتھ ساتھ اوروں کی زندگیوں کو گلزار بنائیں ورنہ ہمارے لیے وہی ہے جو ایک صوفی بزرگ لکھ گئے۔
”سرخ گلُاباں دے موسم وچ پُھلاں دے رنگ کالے “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply