زیر اشاعت کہانی مشہور و موقر ادبی جریدے سویرا کے حالیہ شمارے نمبر99 میں شائع ہوئی۔
ہمارے دیوان صاحب ایک طویل عرصے تک کراچی کی انتظامی عدلیہ سے منسلک رہے۔بشری زیدی کے حادثے کے دن سے کراچی کے بگاڑ کے عینی گواہ، ایک طویل عرصے تک مجسٹریٹ اور ایک مختصر عرصے تک جیل خانہ جات کے آئی جی اور سندھ حکومت کے کئی محکموں کے سیکرٹری کے علاوہ سندھ سول سروسز اکیڈیمی کے بانی ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔کراچی پولیس اور عدالتی نظام اور ہوم ڈیپارٹمنٹ سے سن اسی سے براہ راست وابستگی کے تجربات اور مشاہدے سے کشید کی گئی یہ کہانی کا عرصہ کارزار سن 1980-90 کی دہائی پر محیط ہے۔۔۔۔۔ایڈیٹر ان چیف۔۔۔انعام رانا


”من کہ مسمیّ اے ایس آئی منیر نسیم متعینہ تھانہ جوہر آباد امشب بحکم ایس ایچ او بہادر جعفر نقوی، علاقہ گشت پہ تھا کہ مخبر خاص،جہانگیر بھورے کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ تھانے کے قرب و جوار میں واقع ایک غیر قانونی طور پر قائم شدہ ٹال پر لکڑی کے بے ترتیب ڈھیر کے عقب میں ایک نوجوان جوڑا دنیا و مافیا سے بے خبر والہانہ انداز میں باہم بوس و کنار ہے۔ان کا یہ فعلِ قبیحہ، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 294 کی اور قابل دست اندازی پولیس کی زد میں آتا ہے۔



اطلاع موصول ہوتے ہی افسر ہذا ہمراہ گواہاں جہانگیر بھورے اور توقیر پکھیرو کے موقع پر پہنچا۔ فعل قبیحہء کا ارتکاب اپنی گنہ گار آنکھوں سے دیکھا۔ سعی گرفتاری میں جذوی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ مرد ملزم جو شکل سے عیار،مہاجر اور علاقہ مکیں دکھائی پڑتا تھا، مانند چھلاوے کے تاریکی کا فائدہ اٹھا کر قریبی گلی کے راستے غائب ہوگیا۔ ملزمہ خوش شکل، بدن بدرجہ مائل بہ فربہی،زبان و حلیے سے افغانی اور اردو سے پریشان کُن حد تک ناواقف دکھائی دی اسے ہمراہ ملازمان گرفتار کیا۔
خوبرو ملزمہ ا پنا نام بمشکل زر تاج اور والد کا نام حضرت گل بتاتی ہے۔اس کی گرفتاری کا اہتمام کرکے روزنامچے میں اندراج اور بحکم ایس ایچ او بہادر مزید قانونی کاروائی کا آغاز کیا۔مفرور ملزم تاحال دست اندازی پولیس سے محفوظ ہے، ہر چند کہ تلاش مسلسل جاری ہے۔ داخلہ چالان مسل(فائل) مقدمہ و بیانات گواہان اور بہ ہمراہی ملزمہ بغرض کاروائی عدالت پیش خدمت ہے۔“
ارے یہ کیا؟ ہمارے اردو کے شاعر ایس پی صاحب (جن کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ وہ علاقے بھر سے جوئے، شراب اور منشیات کے دھندے سے ایک روپیہ رشوت کا نہیں لیتے،البتہ زمین اور ہر طرح کی عورت کا قبضہ وہ خواب میں بھی نہیں چھوڑتے) انہوں نے میری ایف۔ آئی۔ آر کی ڈپٹی کمشنر صاحب سے کیا تعریف کی کہ اب میراقلم لاشعوری طور پر ہر تحریر کا آغاز بالکل ویسے ہی کرتا ہے جیسا میں نے اس ایف آئی آر کا کیا تھا۔
ہمارے رامپور والے ڈی ایس پی خواجہ دلدار نظامی صاحب کا ادبی ذوق بہت شستہ تھا۔ ان کے لیے کالے کتے والی شراب کی بوتل اور میرٹھ کباب والوں کے ہاں سے چھ سیخ کباب اور دو مغز بھنے کا شبینہ من جانب تھانہء ہذا، ایک ماہ میں دو مرتبہ پہنچانا میرے ذمے تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھئی منیر نسیم ،سندھ پولیس کی ایف آئی آروں میں واللہ کوئی غالب کا شعر تلاش کرنا چاہے تو تمہاری ایف آئی آر پڑھ لے۔ان کی تعریف سے خوش ہوکر میں نے پانچ سو روپے اس پانچ ہزار روپے کی رقم سے جو ایس ایچ او صاحب نے ہفتہ واری بھجوائی تھی پوچھ کر رکھ لیے۔
چلو جی ایف آئی آر پر تو مٹی پاؤ۔ اس کے تو ملزمان بھی بری ہوگئے۔ ملزمہ زر تاج،آغا مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب کو زیادہ ہی اچھی لگی تھی۔کسی فروٹ چاٹ میں قتلہ قتلہ ہوکر مل جانے کو بے تاب آڑو جیسی۔
زر تاج کی فحش حرکات کے مقدمے سے بریت کا معاوضہ ہم چار آدمیوں نے وصول کیا۔ عدالت کا پیش کار ظفیر، اکرم سپاہی،وکیل غوری اور بعد میں مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی نے، پانچواں کورٹ کا چپڑاسی لیاقت بھی شامل ہونے کو تیار تھا مگر عین وقت پر اس کے سالے کا موٹر سائیکل کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ زرتاج کو ظفیر کے فلیٹ پر اکرم کورٹ محرر لایا تھا۔بیوی بچے ملتان گئے تھے۔ اس کی بیوی ملتان کی انصاری ہے۔
ہر تھانے کی طرف سے ایک بدمعاش پڑھا لکھا سپاہی ہر تین چار عدالتوں کے ساتھ تعینات ہوتا ہے۔عدالت میں ملزم کو پیش کرنے سے عدالت کے جاری کردہ احکامات تھانے تک پہنچانا،مجسٹریٹ اور جج صاحب کے موڈ، مزاج اور پسند ناپسندسے متعلقہ افسرباخبر رکھنا اس کے فرائض میں داخل ہوتا ہے۔




سچ پوچھیں تو زر تاج تھانے سے ضمانت کے بعد وہ ساجد اعوان ٹھیکیدار کے پاس رہتی تھی۔ اکرم نے ہی اس کو وہاں سے عدالت میں پیش کرنے کے بہانے ساتھ لایاتھا۔اس نے اعوان کو ڈرایا تھا کہ ویسے ہی اس کے خلاف نیا ایس ایچ او گرم ہے اگر زر تاج صبح عدالت میں پیش نہیں ہوئی تو ممکن ہے مجسٹریٹ شاہانی سندھی ایس ڈی ایم کو کہہ کر اس کے نقص امن کی دفعہ سولہ کے تحت دو ماہ کے لیے جیل بھیج دے۔زر تاج کو اکرم ظفیر کے ٹھکانے پر لے آیا۔غوری صاحب کی شراب اکرم کو لڑگئی دونوں الٹیاں کرتے پڑے رہے۔اب سچ پوچھیں تو زر تاج بستر میں ظفیر اکیلے کے حصے میں آئی تو اسے لگا بستر میں روس کا کوئی فوجی کمانڈو گھس گیا ہے۔ وہ بارہ بنکی یوپی کا شریف دبلا پتلا مہاجر۔ اتنی دھینگا مستی، تکا فضیحتی اس کے بس میں کہاں،بتا رہا تھا کاٹتی بھی بہت زور سے ہے،ایک دفعہ کمر پکڑ لے تو سلپ ڈسک کا خطرہ ہوجاتا ہے وہ دے مار ساڑھے چار کا عادی نہ تھا۔فرض فریضوں سے جان چھڑا کر بھاگ لیا۔
اگلی صبح بھری عدالت میں گواہوں کی عدم دستیابی اور غوری وکیل کی جھوٹی موٹی نمونے بازی پر مجسٹریٹ نے اسے بری کردیا مگر ساتھ ہی تا برخواست عدالت پابند کیا کہ وہ ان کے چیمبر میں شریف عورت کی طرح بیٹھی رہے گی۔شاہانی صاحب ویسے تو کسی کو مفت بری کرنا انصاف کی توہین سمجھتے تھے ظفیر نے سمجھایا کہ جب تک اگلے مہینے کی بیس تاریخ تک آپ کا بیٹا ماسکو سے واپس نہیں آتا یہ آپ کے پاس رہے گی۔ مقدمے میں بری کرنے کے دو ہزار ملتے۔رز تاج جیسی لڑکی پندرہ سو روپے رات میں نہیں ملتی۔سپر ہائی جیسا بدن، گھر کا کھانا بھی پکائے گی، یتیم ہے، کسی کے گھر کی عزت ہے۔خالی رقم سے رات پندرہ سو والی گما گرم جلیبی ٹھونس لو ،بیٹے کے آنے میں پورے چالیس دن ہیں، ساٹھ ہزار کا مال وہ بھی صرف ایک دستخط کی چڑیا فائل پر بٹھانے کے، غوری وکیل ورنہ فیصلے کے خلاف سیدھا اپیل میں چلا جائے گا اور ایڈیشن سیشن جج صاحب تو دیکھتے ہی اس سے نکاح کرلیں گے۔



عدالت کا وقت ختم ہوا تووہ اسے اپنے ساتھ رکشے میں بٹھا کر اسٹیل ٹاؤن (گلشن حدید)لے گئے۔ ظفیر پیش کار ان کا راز داں اور خزانچی تھا۔سائلان و وکلاء صاحبان سے مال کی وصولی اور مجسٹریٹ صاحب تک محفوظ ترسیل کا ذمہ اسی ناہنجار کا تھا۔ انہوں نے تابعداری کا لابھ لیتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ وہ ملزمہ کو رکشہ دلانے کے بہانے سول ہسپتال کے کونے تک لے جائے۔وہ خود وہاں تک غوثیہ مرغ چھولے والے کے سامنے والے پچھلے دروازے سے نکل کر پیدل آجائیں گے وہ ہسپتال کے کونے پر رکشہ روک کر انتظار کرے۔
ظفیر پیش کار جس کا نام وہ ہمیشہ سے مظفرلیتے تھے، وہ لیاقت چپڑاسی کے ساتھ چل پڑا۔پیچھے پیچھے چادر کی بکل مار کر شریف عورت کی طرح چلی آتی تھی۔لیاقت کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ زر تاج کے پیچھے چل کر اس پر نظر رکھے۔ زر تاج اب چونکہ عدالت سے بری ہوچکی ہے لہذا اس کا اندیشہ ہے کہ انصاف کا دامن مکمل چھڑا کر کراچی کی بھیڑ میں گم نہ ہوجائے۔ویسے سادہ مزاج تھی۔چپ چاپ مجسٹریٹ صاحب کا ہاتھ پکٹر کر رکشے میں بیٹھ گئی۔
رکشہ والے کو منہ مانگے دام پیشگی ادا کرکے جب وہ دونوں عدالت کی جانب واپس آرہے تھے پیش کار ظفیر کہنے لگا ،ہوگا کچھ نہیں ،دیکھنا وہ جیسے ہی تیار ہوگی یہ غسل خانے کی اندر سے کنڈی لگالیں گے۔۔مگر مجسٹریٹ صاحب نے ہمیں سڑک پر بھڑوا بنادیا۔ ہم سے چھوکری یہاں منگوائی،رکشے والا کیا سوچ رہا ہوگا۔ہم دلال ہیں۔۔
سن84-1983 میں اندرون سندھ سے مال اور سفارش کے عوض ترقی پاکر دیہاتی مختار کار سے مجسٹریٹ درجہ سوئم بنے یہ افسر کراچی آن کر بولائے بولائے پھرتے تھے۔ آوک جاوک کے لیے پیشکار کے فراہم کردہ رکشوں کا استعمال کرتے تھے۔۔اسٹیل مل ان دنوں خوب چلتی تھی۔بیٹا وہاں بطور اسٹنٹ انجینئر ملازم تھا۔ وہ تربیت کے لیے اُن دنوں روس گیا ہوا تھا۔ گھر خالی تھا۔
مجسٹریٹ صاحب نے زر تاج کو اسی سرکاری رہائش گاہ میں شرف میزبانی سے سرفراز کیا۔ وہ کہاں ٹک کر رہنے والی تھی۔ہفتے بعد وہاں سے بھی سٹک گئی۔مجھے پتہ چلا کہ تھانہ ملیر کے ہیڈ کانسٹبل عبدالمنان کے ساتھ دوڑ گئی ہے۔ وہ بھی سرگودھا میں ہمارے علاقے یعنی ہمارے بھلوال ہی کا تھا ۔ میں اور ہیڈ کانسٹبل عبدالمنان کبھی اسکول میں ساتھ تھے۔ بعد میں ابا جی کی علاقہ مٹھا ٹوانہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تعیناتی ہوگئی تو ہم نے وہیں مستقل ڈیرہ ڈال لیا اور بھلوال مُڑکے نہیں آئے۔ مٹھا ٹوانہ میں ہی میرے جگری دوست علی اشرف کا ننھیال تھا۔وہیں ہماری دوستی ہوئی۔دہلی کے مہاجر اسے دانت کاٹے کی دوستی کہتے ہیں۔ علی اشرف قوم کا راجپوت اور گاؤں علاقہ سدوال، ضلع چکوال تھا۔گھر میں مذہبی رواداری بہت تھی۔بیٹا بیٹی سنی تو مگر بیوی بہو اور داماد شیعہ تھے۔


خاکسار نے ہی اپنے پیٹی بند بھائی اور سابقہ گرائیں عبدالمنان کو بتایا تھا کہ زر تاج کو مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب لے گئے ہیں۔ چالاک آدمی تھا۔ ہر دفعہ عدالت میں موجودگی کی تصدیق کرلیتا کہ مجسٹریٹ بہادر اپنی عدالت عالیہ میں انصاف کے صفحات پر عدل کا نور بکھیر رہے ہیں تو یہ شہوتوں کا ستایا،عوام کے جان و مال کا محافظ سپاہی،مجسٹریٹ صاحب کے فرزند کے سرکاری گھر پر پہنچ جاتا۔ بھلوال کے اس چیتے چالباز نے سرکاری کوارٹر کے دو چکر لگائے۔ تیسرے چکر میں زر تاج آغا کو منہ میں دبوچ کر لےاُڑا۔ وہ جاتے جاتے چھوٹا موٹا مال بھی سرقہ کرگئی تھی۔ اللہ ڈینو صاحب بیچارے ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ مال کے اس سرقے کو جان اور نوکری کا صدقہ سمجھ کر چپ سادھ لی۔ ایسے معاملہ فہم عدالتی افسران اب کہاں؟
مجسٹریٹ صاحب اکثر مجھ سے پوچھتے تھے کہ ”منیر نسیم جو روح کو تڑپا دے اور قلب کو گرما دے۔اس قسم کی کوئی ایف آئی آر اب کیوں نہیں لکھتے؟ “۔میں بھی سر جھکا کر بہت مودبانہ لہجے میں جواب دیتا کہ”صاحب ایسی ایف آئی آر کو سرکاری کوارٹر میں سنبھال کر رکھنا آسان نہیں ہوتا، خشک سیروں تنِ افسر کا لہو ہوتا ہے“۔وہ بھی معاملہ فہم آدمی تھے۔ کہتے تھے”تم سچ کہتے ہو ،افغانستان کی جنگ کی وجہ سے بہت تباہی آئی ہے۔فوجی بھی بہت پریشان ہیں۔بڑی میٹنگوں میں ہم سے پوچھتے ہیں کہ”افغانستان سے آنے والی بے سہارا عورتوں اور روز مرہ کی دہشت گردی کا کیسے مقابلہ کریں۔ یہ چک 94کے کپتان۔میجر قسم کے افسر ہم پرانے سندھی افسروں کے تجربے کو بہت قدر اوردھیان سے دیکھتے ہیں۔ مارشل لاء ہے۔بس ان کو رقم کا اشارہ مل جائے تو خوش ہوتے ہیں ورنہ ہر بات کاہریسہ بنادیتے ہیں۔ میرے کو ریڈز پر لے جاتے ہیں تو میں ان کے کاغذ پر آنکھ بندکرکے سائن ٹھوک دیتا ہوں۔۔یہ گولیمار میں بولیں کہ ہم نے محمد بن قاسم کا قاتل اپنی سرسید گرلز کالج کی گرل فرینڈ سمیت پکڑلیا ہے تو میں لکھوں گا، بی فور می ایڈمیٹیڈ کریکٹ اور دستخط،مہر سمیت“ Before me Admitted Correct Signed and Sealed“ میرے کو ان فوجیوں سے بہت ڈر لگتا ہے انہوں نے ہمارا ایک سندھی وزیر اعظم لٹکا دیا مگر وہ بھی شریف آدمی نہیں تھا۔چلو مٹی پاؤ۔ہمیں اس آوارہ حسینہ زر تاج اور سابقہ مختار کار حالیہ مجسٹریٹ درجہ اول اللہ ڈینو شاہانی صاحب سے کیا لینا۔ یوں بھی یہ بات پانچ سات سال پرانی ہے۔
اس سے پہلے کہ میری داستان حسرت کچھ آگے بڑھے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ خاکسار کا پورا نام منیر نسیم ٹُلّا ہے ۔ والد کا نام نسیم جمال، ہماری ذات ۔ ٹُلّا ہے۔ٹُلّا، جٹوں کا ایک چھوٹا سا قبیلہ ہے، قد چھ فٹ، چوڑی چھاتی،ماتھا کشادہ، مزاج مائل بہ اُداسی، شناختی علامت چہرے پر کان کے نیچے پیدائشی داغ،دور سے دیکھیں تو وہ اٹلی کا نقشہ لگتا ہے۔ ہمارے چکوال کی پینڈو جٹیاں مذاق میں اسے جوتے کا علامتی نشان کہتی تھیں۔ہمارے بارہ بنکی یوپی والے ڈی ایس پی خواجہ دلدار نظامی صاحب اکثر ماتحتوں سے کہتے رہتے تھے کہ جاہل عورتوں کا مذاق بھی جاہلانہ ہوتا ہے۔
ہم ٹلے ، چھج دو آبہ جٹ ہیں، پہلے ہم خانہ بدوش ہوتے تھے۔ جہاں پانی گھاس دیکھی، مال مویشیوں سمیت ڈیرے ڈال لیے۔ممکن تھا کہ میں یہاں کراچی میں تعیناتی کے بعد بھی خود کو منیر نسیم ٹُلّا ہی کہلوانا پسند کرتا مگر وہ ہمارے فیض آباد لکھنو کے مہاجر ایس ایچ او جعفر نقوی صاحب کراچی کے مزاج سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے سمجھایا کہ کراچی کے چھچھورے مہاجر لڑکے پولیس والوں کو تمسخر اور تضحیک سے ٹُّلا پکارتے ہیں۔
وہی مزید بتارہے تھے کہ کبھی کبھار مقدمے میں جب کوئی قانونی شق سمجھ نہ آرہی ہو تو ہم قانون کے رکھوالے، صرف ٹلا کی آواز مارنے کو کار سرکار میں مداخلت اور دھمکی کا درجہ دے کر ان لفنگے پرندوں پر مقدمہ ٹھونک دیتے ہیں۔اب اگر تم نے ٹُّلا اپنے نام ہی کا حصہ بنالیا تو یہ ٹپوری تمہارا مذاق بھی اڑائیں گے اور تم کچھ کر بھی نہ پاؤگے۔ نقوی صاحب اپنے نیشنل اسٹڈیم جتنے کولہوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے اس بے چارگی کو ہم اہل لکھنو کولہے کی چوٹ کہتے ہیں یعنی وہ زخم جسے پتلون یا گھاگرا نیچا کرکے دوسروں کو دکھاتے ہوئے خود بھی شرمندگی محسوس ہو۔ بات تو سچ تھی گو بات تھی رسوائی کی۔دل کو لگی اسی لیے جی جان سے مان لی۔






خادم نے بی اے الحمد للہ سرگودھا سے کیا۔ جنرل ضیا الحق صاحب اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ،انہوں نے اسی وقت مارشل لاء لگایا تھا۔میرے بڑے بہنوئی کرنل صاحب مارشل ڈیوٹی پر تعینات ہوکر ملتان پہنچے تو خاکسار کا تقرر پنجاب پولیس میں بلا کسی دشواری کے بطور اے۔ ایس۔ آئی ہوگیا۔لاہور کے کسی بھی تھانے میں تعیناتی میں سب سے مشکل مسئلہ یہ تھا کہ ہر نو بھرتی شدہ ہر ایس۔ اے۔ آئی کا کوئی نہ کوئی عزیز مارشل لا کے دامن بے کراں سے جُڑا تھا۔ یوں مال بناؤ تھانوں میں پوسٹنگ پکڑنا محال ہوچلا تھا۔ سفارشوں کی چمپینز ٹرافی میں بڑے عہدے چھوٹے عہدوں پر غالب آگئے۔جرنیل بریگیڈئیر پر چھا گیا، کرنل،میجر پر حاوی ہوگیا۔ہمارے پنجاب میں رینک کا بہت احترام ہے۔
اسی وجہ سے ہمارے پولیس کے بڑے افسران نے تربیت کے خاتمے پر ان کم بختوں نے میرے کرنل بہنوئی کو تسلے میں چاند دکھایا (جھوٹی تسلی)۔انہیں بہلا پھسلا کر مجھ غریب کے بال کو اسپیشل برانچ میں دے مارا۔اللہ جانے ان کے پاس میری علمیت ، وجاہت، طبیعت میں فطری لٹک اور لبھاؤ، فنون لطیفہ سے لگاؤ،دھیمی گفتگو،معاملہ فہمی،قسم کے درست کوائف کہاں سے پہنچے تھے۔ ان افسران بالا نے مجھے پنجاب یونی ورسٹی میں طالب علموں کی جاسوسی پر لگادیا۔میرے ابا جی حاجی نسیم جمال ٹلا صاحب کہا کرتے تھے کہ چینی حکماء کا قول ہے کہ ذہین آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اس کو اگر سمندر میں دھکا دیا جائے تو وہ مچھلی سمیت باہر نکلے۔
خاکسار نے خفیہ پولیس کے ایس۔ پی۔ صاحب کو باور کرایا کہ ہم اسپیشل والوں کا جاسوسی کے لیے اب برآمدے میں کرسی ڈال کر سر پر جناح کیپ اور بیروں والی واسکٹ پہن کر بیٹھنا طریقء متروک ہے۔بہتر ہوگا اگر خاکسار کو ایم۔اے اردو میں داخلے کے لیے فیس،ہاسٹل کا معاوضہ اور ایک عدد اسکوٹر دیا جائے تو فرائض منصبی کی بجا آوری بہتر انداز میں کی جاسکے گی۔ایس پی صاحب بھی گھاگ تھے۔انہوں نے سوچا کہ کم از کم ایم۔ اے کی ڈگری کے حصول تک تو یہ ناہنجار علم کے اس کھونٹے سے بندھا رہے گا۔
خاکسار کی طالب علموں کے بارے میں جاسوسی کی غرض سے فراہم کردہ اطلاعات کے بارے میں اسپیشل برانچ میں یہ بات عام ہوگئی کہ یہ گھوڑے کے منہ سے کھینچ کر لائی گئی کسی گھاگ ڈینٹسٹ کی اطلاعات ہیں۔خاکسار ہی وہ گہنہ گار ہے جس نے الحمرا ہال میں Nude Paintings کی نمائش پر سرکار کے ایماء پر ایک مذہبی طالب علم جماعت کے غنڈوں کی مدد سے دھاوا بولا تھا اور مسز حسین اور کولن ڈیوڈ کا ایک ایک نیوڈ شہ پارا بھی چرایا تھا۔ تبادلے کے بعد کراچی میں ایک گجراتی سیٹھ کو یہ شہ پارے بیچنے کی وجہ خاکسار کو ایک معقول رقم ملی تھی۔یہ جنرل ضیاالحق کا دور زرین تھا۔
یونی ورسٹی میں کوئی اور قابل ذکر بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ مجھے وہاں شعبہء اردو میں قصبہ ہڈالی۔ ضلع خوشاب، جو بہت رنگ برنگی ہستی مشہور صحافی خوشونت سنگھ کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا، وہاں کی یاسمین بشرہ مل گئی۔حسین تو نہ تھی مگر سیکسی بہت تھی۔ قریب بیٹھی ہو تو دودھ، لسی، دیسی گھی، گڑدھانی کے ذائقہ یاد آجاتے تھے۔کلاس میں ہوتی تو سب لڑکوں کے دماغ بیڈ روم بن جاتے تھے۔ راجہ سہیل کا تعلق پنڈدادن خان سے تھا ۔ وہ شعبہء انگریزی میں ہم سے ایک سال سینئر تھا۔ میرے اس سے مراسم بھی اچھے تھے۔یاسمین بشرہ میرے آنے سے دو ہفتے قبل ہی اس کی دلدل الفت میں گوڈے گٹے دھنس چکی تھی۔
یاسمین بشرہ اور راجہ سہیل کے تعلقات کے بارے میں لڑکے طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ دونوں سی ایس ایس کی یعنی مقابلے کے امتحان کی تیاری کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ ان کے بہت کچھ کرنے کا مجھے پختہ یقین تھا۔ راجہ مجھ سے ڈیٹ مارنے کے لیے پرائیوٹ نمبر پلیٹ والی سرکاری اسکوٹر مانگ کر لے جاتا۔یاسمین بشرہ تاحد نظر تک تو سیٹ پر پیچھے بیٹھی دکھائی دیتی تھی مگر جب ڈیٹ کے اختتام پر اسکوٹر مجھے واپس کی جاتی تو اس کی سیٹ کابیلنس بھی آؤٹ ہوتا۔ یاسمین بشرہ کو اسکوٹر کی سیٹ پر بیٹھتے وقت پیچھے سے دامن اٹھا کر بیٹھنے کی عادت تھی ۔اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس کا شمار بھی مارلن منرو کی طرح ان دوشیزاؤں میں ہوتا تھا جن کے کولہوں میں بھی چین اور تائیوان والی پیہم مخاصمت اور لڑائی چلتی رہتی تھی۔بعض دفعہ دوران نشست و خرام ایسا لگتا تھا ان خواتین کے کولہے ایک دوسرے سے منہ بسور ایک واضح خط تقسیم یا واگہ اٹاری کی سرحدی چوکی بن کر بیٹھے ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ دوران فلم بندی مارلن منرو کو اگر پتلا جھل مل کرتا چسپاں چسپاں سا گاؤن پہننا ہوتا،جیسا اس نے صدر کینیڈی کی سالگرہ پر پہنا تھا تو وہ کولہوں کے درمیان سوکھی ڈبل روٹی کا ٹکڑا ٹشو میں لپیٹ کر رکھ لیتی تھی۔معاملہ ان تازہ بے وطن،شہیدان وفا، تنکوں کا تھاجو واپسی کے سفر میں میانی سے چپکے ہوتے۔ واپسی کے سفر میں ریشہ ریشہ پولیسٹر ملے حاسد سیٹ کور نے جو مہلت اور قربت اسے ملی ہوتی وہ ان میں سے کچھ تنکے ثبوت کے طور پر خود سے چپکالیا کرتاتھا۔
اس جوڑے کی واپسی پر چونکہ عشا کی نماز کا وقت ہوتا اور یاسمین بشرہ کو غسل کی جلدی ہوتی لہذا وہ یہ سیٹ کور صاف کیے بغیر ہی ہاسٹل دوڑ جاتی تھی۔ان کی ناراضگی کی وجہ یہ بنی کہ کسی نے راجہ سہیل کے نام سے ایک شعر یاسمین بشرہ کی دوست کو سنادیا۔ شعر یہ تھا ع
اے یاسمین بشرہ، میری دلنشین بشرہ
تیرے عشق میں ہوگیا میں آدمی سے کھسرہ
یونی ورسٹی کی زبان میں یہ لائن پیٹنے کی مذموم حرکت تھی۔ گوندلوں کی یاسمین بشرہ شعر سن کر ہتھے سے اکھڑگئی۔ یونی ورسٹی میں اس طرح کے ترک تعلقات پر معاملہ یوں ہوتا تھا کہ رویا نہ تُو، نہ میں۔۔
راجہ سہیل امتحان کے بعد غائب ہوگیا۔یاسمین بشرہ نے اپنی عصمت کا بلیدان دے کر بہت سنہرے سپنے دیکھے تھے۔ اس شاعرانہ تضحیک سے ایسی ٹوٹی کہ ہڈیالی میں پہلے توسرکاری اسکول میں
اردو کی استانی لگی اور پھر رفتہ رفتہ نائب صدر مدرس بن گئی۔راجہ سہیل البتہ سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی میں لینڈ کرگیا اور اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہوکر بہت مال پیٹا۔
ایم اے میں ابھی ایک سال باقی تھا ،یاسمین بشرہ میری سیٹ کی خانہ ویرانی دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتی۔ایک دن میں نے سمجھایا کہ ہڈالی اور مٹھا ٹوانہ کے گاؤں جیسے بانہہ بیلی، سنگی ساتھی ہیں ہمیں بھی مل جل کر جب تک یہاں ہیں دن گزارنے چاہیئں۔وہ مان گئی چونکہ میری اسکوٹر کی پچھلی سیٹ سے خصوصی لگاؤ ہوچلا تھا لہذا مجھ سے پنجاب یونیورسٹی کے دور دراز قطعہ ء ہائے اراضی میں سبزہ نورستہ پرلیٹ کر سبزہ نورستہ کو پامال کرنے والا کوئی بہتر محفوظ ساتھ نہ مل پایا۔ایم اے کے نتیجے تک ہم دونوں ایک دوسرے سے جڑے رہے۔
میرے بہنوئی کے بریگیڈیئر صاحب کی مارشل ڈیوٹی میں سندھ میں تعیناتی ہوئی تو کرنل بہنوئی صاحب بھی وہاں سدھار گئے ،خاکسار کو چند دنوں بعدلاء اینڈ آرڈر کی ایک میٹنگ میں بھی جب بہنوئی نے ہوم سیکرٹری میرمنور صاحب جو ہمارے اپنے ہی پنجاب کے تھے سندھ پولیس میں بلا کرکراچی تعینات کرنے کی سفارش کی تو وہ جھٹ سے مان گئے۔وہ سندھ پولیس میں پنجابی افسران کی بھرمار دیکھنا چاہتے تھے تاکہ وہاں پنجاب میں نئی ملازمتیں نکلیں۔ایسی ہر درخواست پر Purely on Humanitarian Grounds انہوں نے پہلا کام دفتر جاکر یہ کیا کہ ایک خط حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری کو لکھ دیا۔
خط میں درج تھا کہ اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں سیاسی ریشہ دوانیوں اور کراس بارڈر مداخلت کے اسرار و موز پر من کہ مسمی منیر نسیم پنجاب بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔یہی سبب ہے کہ خاکسار کی سندھ پولیس میں آمد وہی اہمیت رکھتی ہے جو اسلام کے حوالے سے محمد بن قاسم کی آمداہمیت رکھتی تھی۔ ان کا محکمے کا ایک افسر بھارتی قیدیوں کے واہگہ بارڈر کے راستے روانگی کے انتظامات کا جائزہ لینے جارہا تھا۔ اسے یہ خط دستی پہنچانے کو کہا اور فون پر پنجاب میں اپنے ہم پلہ ڈی ایم جی سیکرٹری سے گفتگو بھی کرلی۔ورنہ آپ تو جانتے ہیں ایسی سینکڑوں درخواستیں سرکار میں ردی کے بھاؤ بکنے اور پنجاب کےدفاتر میں سردی میں باہر کے عملے کے رات کو آگ تاپنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ایک ماہ کے اندر خاکسار نہ صرف کراچی آن پہنچا بلکہ پے در پے تعیناتیاں بھی بہنوئی کی مداخلت کی وجہ سے ایک سے بڑھ کر ایک ہوئیں۔یوں نوکری اچھی چلی۔مال بھی بنتا رہا،ایک آدھ پلاٹ بھی ،کے ڈی اے کے ڈی۔ جی۔ صاحب کو عید پر سلامی کرنے پہنچا تو تحفہ میں مل گیا۔
آپ کا خادم من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی، ان دنوں معطل ہے۔ معاملہ کچھ خاص نہیں تھا مگر ہم پنجابی ملازمین ، سندھی میں کہتے ہیں ”شل نہ“ جس کا مطلب ہوتا ہے ’اللہ نہ کرے‘ ان کم بخت ڈی ایم جی افسران کے ہتھے چڑھ جائیں۔ میری معطلی کے احکامات خاص طور پر سیکر ٹری محکمہء داخلہ سے موصول ہوئے تھے۔ ہم پولیس والوں سے تو یوں بھی یہ زکوٹے جن، اینٹ کتے کی دشمنی رکھتے ہیں ۔


کرنی یہ ہوئی کہ ہمارے جوہر آباد کے تھانے کے علاقے میں بھنگوریہ گوٹھ میں ایک ناجائز گارمنٹ فیکٹری تھی۔وہاں بھتہ مانگنے کچھ لڑکے پہنچ گئے۔مالک امپورٹ کے آرڈرز لینے ملائشیا گیا تھا۔ فیکٹری پر صرف بیگم صاحبہ موجود تھیں۔اب ان عورتوں کو بھلا بھتے اور ٹیکس کا کیا پتہ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ فیکٹری بنی ہی قبضے کی بستی میں رہائشی علاقے کی ناجائز زمین پر تھی۔ وہ اس امر سے بے خبر تھیں کہ یہ لڑکے اگر اپنی پر اتر آئیں تو بلدیہ عظمی کراچی تو ویسے بھی ان کی جوتی کی نوک پر ناچتی ہے۔ان کے ساتھی اس بلدیہ میں بھرے پڑے ہیں۔ یہ بھتہ خور لڑکے ایک جھوٹی درخواست دیں گے ،یونٹ والوں کو کہیں گے تو سارا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔ایک منٹ نہیں لگے گا فیکٹری جل کر بھسم ہوجائے گی۔
یہ لفنگے گلی کے کتورے وہاں بھتہ مانگنے پہنچے تو انہوں نے یعنی بیگم صاحبہ نے اٹھا کر تھانے فون کردیا۔وائرلیس پر میسج چلا۔خاکسار موبائیل ڈیوٹی پر تھا۔لڑکے واقف کار تو نہ تھے،موقع پر
پہنچا۔موبائیل سے اترتا دیکھا تو تھوڑے ہول گئے۔پنجابی افسر کی علاقے میں دھاک ہوتی ہے۔سندھی افسر ہو تو مٹروے سمجھتے ہیں کہ ساری پیپلز پارٹی ان کے پیچھے اور میرے جیسا کڑیل پنجابی افسر ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ساری فوج ہماری پشت پر ہے۔اس کے باوجود میں نے بھی دھیما مصلحتانہ لہجہ اپنایا، مان گئے۔۔
میں نے سمجھایا کہ ” ابے باجی کے لاڈلے،بھتہ مردوں سے مانگتے ہیں۔سسری کا خصم آجائے تو وس سے ڈبل بھتہ پھڑکا لیؤ۔ زنانیوں سے کون بھتہ مانگے۔تس پر وہ مان گئے، باہر نکل کر کہنے لگے ”یہ دیکھو سرگودھا کا ڈھگا ہمارے علاقے میں آن کر امراؤ جان کا ماموں بن گیا ہے۔ہم کو بھاشن دیتا ہے۔اپنے ایس ایچ او سے پوچھ کر بتا کہ رنڈی اور مولوی کے سو روپے کے نوٹ میں کیا فرق ہوتا ہے۔سالے خود تو مردہ واپس کرنے کے بھی پیسے مانگتے ہیں اور ہمیں پاکیزہ بناسپتی سے نہلاتے ہو۔ سن لے بے سرگودھے کے سانڈ، گولی کی بات کرے گا تو ہمارے پاس تیرے سے زیادہ گولیاں ہیں۔ہمارے بھائی لوگ نے گلی کے آوارہ کتوں کے سر کے ایسے تاک تاک کے نشانے لے رکھے ہیں کہ گولی ادھر اُدھر نہیں ہوتی۔تیرا کام تو چھ فٹ کے فریم پر آدھی گولی میں ہی ہوجائے گا۔بوریاں البتہ دو لینی پڑیں گی۔مٹھا ٹوانہ بس پر بھیج دیں گے“۔مہاجر لڑکا زیادہ ہی چر چر کررہا تھا۔پنجاب بہت یاد آیا کہ وہاں اتنی زبان چلاتا تو اس جھینگر کے جنازے کو لشکر جھنگوی یا تحریک پنجابی طالبان والوں کے ساتھ پویس مقابلے میں ،میں نے کب کا ٹپکا دیا ہوتا۔



وہ واپس چلے گئے تو خاکسار اوپر گیا اور بیگم صاحبہ کوجن کی نگاہوں میں مجھے وہی سلگتی سیکسی طلب دکھائی دی تھی جو راجہ سہیل سے ٹوٹنے کے بعد یاسمین بشرہ کی آنکھوں میں میری سکوٹر کی سیٹ دیکھ کر دکھائی دیا کرتی تھی۔ وہی دریائے شہوت و لطافت میں ڈوب جانے کی ہوس جسے خاکسار نے پینلٹی سٹروک جان کر محبت کا گول کیا تھا۔
میں آپ کو بتادوں یہ فیکٹری فیاسکو(افراتفری) کے وقت خاکسار نے یونی فارم نہیں پہنی تھی۔ موسم سرما کی وردیاں ابھی تھانوں پر پہنچی نہیں تھیں۔گرما کی وردی نومبر کی رات میں ناکافی ہوتی تھی۔اس لیے من کہ مسمی منیر نسیم زینب مارکیٹ(کراچی میں سستے مغربی کپڑوں کی مارکیٹ) سے خریدی ہوئی جیکٹ،چیک کی شرٹ اور لنڈا سے خریدی ہوئی لیوائے کی پانچ سو نمبر والی سیریز کی جینز پہن رکھی تھی۔تھانے کے ساتھ ہی ایک جم تھا۔جہاں خاکسار باقاعدگی سے ورزش بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے دور سے اس پر ہالی ووڈ کے اداکار Daniel Craig کا شبہ ہوتا جس نے جیمز بانڈ کا
کردار بھی ادا کیا ہے۔بیگم صاحبہ میری آمد سے لے کر رخصتی تک ایک انداز تغافل جس میں تغافل کی آڑ میں گھات زیادہ تھی، مجھے دیکھتی رہیں۔



بھتہ خور لڑکے چلے گئے تو میں نے عملے سے ان کے کوائف جمع کیے۔ بتایا گیا کہ سیٹھ کا نام ناصر ہمدانی ہے اور بیگم صاحبہ کا نام علیزے ہے۔ شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں۔دوسری بیگم ہیں۔اولاد کوئی نہیں۔میں انہیں خاطر جمع (دل کی تسلی)کرانے اور ان کی گھات کا مزید جائزہ لینے اوپر دفتر میں ان کے کمرے میں پہنچا۔ اپنا سیل فون نمبردیا اور یہ بھی یقین دلایا کہ وہ مجھے اپنا محافظ خصوصی سمجھیں۔ پورے کراچی میں ہمارے سرگودھا اور پنجاب کے پولیس کے کئی دوست ہیں۔تھانے،ٹریفک،جہاں کہیں گی مجھے اپنا معاون و ہمدرد پائیں گی۔یوں بھی ہمارا نعرہ ہے کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔
اسی دوران میں نے بیگم صاحبہ کو پہلی دفعہ غور سے دیکھا۔ ہائے وہ ایک ایساحسنِ ناآسودہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں۔ایک وجود ِ بے اعتناء۔ بیلجئم کے قیمتی آئینے کی مانند بے داغ ہموار اور اجلی جلد، جس طرح بچے کبھی کبھار آئینے اور شیشے سے اپنا گال لگا کر خوش ہوتے ہیں میرا بھی دل چاہا کہ ان کے گال سے گال ملا ؤں۔۔۔ نشست سے کھڑی ہوئیں تو مجھے کراچی کی دیگر خواتین کی نسبت دراز قد لگیں۔ایسالگا کہ یہ وفور جذبات سے کبھی خاکسار کے کاندھے پر سر رکھیں گی تو مجھے ان کے ہونٹوں تک پہنچنے کے لیے صرف اپنی گردن کو خم دے کر ان کی سانسوں کو اپنے ہونٹوں کے پیالے میں بھرنا ہوگا۔دوپٹہ گو بہت احتیاط سے سمیٹا گیا تھامگر پیشانی کو وسعت دینے کے لیے سیاہ بالوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک ایس سنہری سٹریک کھینچی گئی تھی جس کی وجہ سے پیشانی کی تنگی کشادگی میں بدل گئی تھی۔اس نقشہ بندی میں بالوں اور پیشانی کا ملاپ ایسا دل فریب ہوگیا تھا جیسے ریت کے نم ساحل اور آتی جاتی دھمی دھمی لہروں کا ہوتا ہے۔ نصیر ترابی نے اسے یوں بیان تھا کہ دھوپ چھاؤں کا عالم تھا پر جدائی نہ تھی۔سیاہ آنکھیں جن میں ایک مقناطیسیت تھی۔کراچی میں اکثر خواتین کے چہرے پر کرختگی اور نگاہوں میں بے اعتبار سی بے لطفی ہوتی ہے۔ان آنکھوں کو دیکھو تو لگتا تھا کہ اپنے پسندیدہ سپنے کے انتظار میں وہ کئی رت جگوں کے ہاتھوں لُٹ چکی ہیں۔ معلوم ہوا کہ میڈم علیزے کی آنکھوں کے ساتھ سپنوں اور نیند کے کھلواڑ کا راز زندگی میں آسودگیوں کی بھرمار تھی ۔ہونٹ پر البتہ لپ اسٹک میں بہتے پہاڑی چشموں کے پانی کی روانی تھی۔یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ ہونٹوں کا رنگ کہاں ختم ہوتا ہے اور لپ اسٹک اپنی رنگیلی جسارت کا آغاز کہاں سے کرتی ہے۔



دوپٹے نے سر اور چہرے سے نیچے کے مناظر کو ڈھانپ رکھا تھا لہذا میرا بیان حلفی سر ِدست صرف اتنا ہے کہ خد و خال کا مزید اظہار محض میرے تخیل کی جولانی ہوگی۔ایک ذمہ دار پولیس افسر ہونے کے ناطے خاکسار صرف اتنا ہی بیان کرے گا جو موقع معائنہ پر دکھائی دیا۔مزید حقائق تفتیش جوں جوں آگے بڑھے گی یوں یوں داخلِ مسل (فائل) ہوں گے۔پاکستان کے ضابطہ فوج داری میں جسے کریمنل پروسیجر کوڈ کہتے ہیں اس کی دفعہ 173 کے تحت عدالت میں داخل چارج شیٹ میں نئے شواہد دستیاب ہونے پر فرد جرم میں اضافہ یا تخفیف کی جاسکتی ہے۔
میاں واپس آئے تو یہ کم بخت لڑکے بھتہ مانگنے پھر پہنچ گئے۔مجھے کل ہی معلوم ہوا تھا کہ ان تین میں سے صرف ایک لڑکا ہی تھوڑا بہت پارٹی سے جڑا ہواہے مگر باقی دو میں سے ایک پاک کالونی کا
مکرانی ہے اور دوسرا بھنگوریہ گوٹھ کا کوئی ڈشکرا اعوان۔
مجھے علیزے کا فون آیا تو میں اپنے کسی دوست سے ملنے اختر کالونی آیا ہوا تھا۔وہ بتارہی تھی کہ سیٹھ سے بھتہ مانگنے یہ لڑکے پھر پہنچ گئے ہیں۔ اسلحہ بھی لہرایا ہے۔کل تک لاکھ روپے کا بندوبست کرنے کا کہا ہے۔ ناصرسیٹھ تو ڈر کے مارے فیکٹری چھوڑ کرگھر کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔گھر قریب ہی ڈیفنس کے علاقے فیز ون میں واقع تھا ۔میں پتہ پوچھ کر پہنچا تو ملازم نے پولیس کے حاضر سروس افسر کو اپنے گھر میں دیکھا تو بوکھلا گیا ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ بتانے لگاکہ میڈم ورزش آٗوٹ کرتی ہیں۔اس نے ورک کی جگہ ورزش شامل کرکے آؤٹ کو اپنی جگہ رکھا۔میں یہ سن کر کھڑا ہوگیا او ر مین دروازے کی طرف بڑھا تو وہ گھبراگیا اور کہنے لگا ’ایک منٹ دیں میں جاکر بتادوں۔میری عجلت نے خوب اثر دکھایا۔علیزے تقریباً دوڑتی ہوئی آگئی۔گلے میں چھوٹا سا جامنی جم ٹاول، ویسے ہی رنگ کا ہالٹر جس سے عریاں شانے اور بازو پسینے کے جھلملاتے قطروں سے چمکتے تھے اور سیاہ چست دو رنگی ایکسرسائز پتلون جو گندھی ہوئی ڈوری سے بندھی تھی۔ ہالٹر چونکہ ناف سے بہت پہلے اوپر آن کر رک گیا تھا لہذا سنہرے بالوں کی ایک پتلی سی لکیر ناف کے دھرنا دینے اورراستہ روکنے پر احتجاج کرتی ہوئی ڈوریوں کے نیچے لاسٹک سے سرکش دریاؤں کی طرح راستہ بناتی ہوئی غائب ہوجاتی تھی۔
علیزے نے میری ناف۔ تاڑ کاروائی کو بھانپ لیا اور اپنا جم ٹاول ایک جانب سے کھینچ کر یوں گرایا کہ میں اس گردابِ خوش جمال کے درشن سے بہت حد تک محروم ہوگیا۔اس دوران میں یاسمین بشرہ اور علیزے کی ناف کا موازنہ انیس و دبیر کرچکا تھا۔یاسمین بشرہ پینڈو پنجابن کی ناف ایک اندھی کھوئی(کنواں) لگتی تھی۔ اس کے پنڈ ہڈالی کا ایک ہنگامہ پرور کنواں۔ جب کہ علیزے کی ناف ناران کی جھیل سیف الملوک پریوں کا غسل خانہ۔ دیکھ دیکھ دل نہ بھرے۔ بال پونی ٹیل کی صورت میں بندھے تھے۔مجھے کہنے لگی کہ میں ایک Fitness Freak ہوں۔مجھے لگتا ہے تم کو بھی ورک آؤٹ کا بہت کریز ہے۔تم اس دن دیگر پولیس والوں کی نسبت بہت مجھے بہت مختلف لگے تھے۔بالکلDaniel Craig جیسے۔اینٹی ہیرو۔میں نے بھی جواب میں کہہ دیا وہ بھی مجھے کرینہ کپورجیسی لگتی ہیں۔




انہوں نے کہا ان کے ورک آؤٹ سیشن کے ختم ہونے میں دس منٹ باقی ہیں۔تم بیٹھو ناصر آتے ہی ہوں گے۔میں نے ترپ کا پتہ پھینکا کہ اجازت ہو تو میں بھی ان کا جم دیکھ لوں۔وہ مان گئیں اس شرط پر کہ گھنٹی بجے تو میں بھاگ کر ڈرائینگ روم میں آجاؤں۔ناصر کو اچھا نہیں لگتا کہ کوئی مجھے اس حلیے میں دیکھے۔اچھا ہے تم ہو تو میں چھت میں لگے Suspension Trainer کا لیول اونچا کرکے ورک آؤٹ کروں گی۔چھت میں لٹکتے ہوئے بیلٹس اور رنگز کا لیول دو فٹ اوپر ہوا تو علیزے جمپ لگا کر بھی خود کو اونچا نہ کرپائی۔میں نے جسارت کی اوربہت آہستگی سے اسے پیچھے سے تھام کر اوپراٹھادیا اور وہ رنگ پکڑ کر جھلارے لینے لگی،میرے لیے اب دید و درشن کے نئے مناظر بے رکاوٹ سامنے تھے۔چند منٹ بعد جب وہ تھک گئی تو اتارنے کا مرحلہ آیا۔نیچے میں نے تھام کر اتارا تو مان لو کہ کرسٹل کے قیمتی جام میں Vintage-Wine سماگئی ہو۔خاکسار کی نیت تو چومنے کی تھی مگر وہ کم چالاک نہ تھی جوں ہی میرے لب قریب پہنچے اس نے ایک سرعت سے منہ پھیرلیا،بس ہونٹوں کو ہونٹوں سے رسمی علیک سلیک کا موقع ہی ملا۔کہنے لگی چھی۔I smell like a pig.Some other time some other place.Mr. James Bond.۔اتنے میں گھنٹی بجی تو خاکسار لپک کر ڈرائینگ روم میں اچھا بچہ بن کر بیٹھ گیا۔
ناصر صاحب کو دیکھ کر مجھے بھی اتنی ہی مایوسی ہوئی جتنی شاید علیزے کو روز مرہ کی بنیاد پر ہوتی ہوگی۔بدن مائل بہ فربہی،رنگت، سکے ہوئے توس جیسی، چشمے کے پیچھے سے جھانکتی شاطر آنکھیں۔ چاکلیٹی رنگ کا شلوار سوٹ، جیسے توے پر چاکلیٹ پڑی ہو۔تعارف کے مراحل ابھی ادھورے ہی تھے کہ ان کی بیگم بھی آگئیں۔
علیزے کا شاور بہت عجلت کا ہوگا مگر بہت دھلی دھلی اورشگفتہ لگ رہی تھی۔ شمپو اور پرفیوم کی گیلی گیلی خوشبو بغیر دوپٹے کا جلد کی رنگت کا پتلا سا لان کا کُرتا، نیچے پھولدار کاٹن کی برا،سفید سیدھا پاجامہ۔میاں کے ساتھ پیش آنے والی واردات کا تذکرہ اسی نے چھیڑا۔بتانے لگیں کہ ان لڑکوں نے بہت بدتمیزی کی۔میرے میاں تو ویسے بھی اودے پورراجھستان کے مہاجر ہیں۔میری امی پٹھان اور ابو سندھ کے ہیں۔ہمارا سیاست سے کیا لینا دینا۔سمپل بزنس مین فیملی ہے ہماری۔میں سمجھ گیا کہ وہ اس بدمعاشی سے میرے ذریعے نجات چاہتی ہے۔
رات کو اس سہ فریقی گینگ کے دو لڑکوں سلیم اعوان اور کالا شاہ مکرانی کو تو میں نے خود اٹھا کر بڑی کٹ لگائی سالوں کے چوتڑ میں نے اور اکرم محرر نے چھتر مار مار کر چاکلیٹ کے کپ کیک بنادیے۔اس چر چر کرنے والے مٹروے کی شکایت سردار بھائی کو کی۔سردار بھائی پیلی کوٹھی کے انچارج تھے۔یہ ہندو کا چھوڑا ہوا ایک پرانا بڑا سا گھر تھا۔اس کو انہوں نے پیلا گیٹ لگا کر بند کردیا تھا
لڑکے سامان(اسلحہ) یہیں سے لیتے اور جمع کراتے تھے۔باقی کام بھی یہاں ہوتے تھے۔سرکش لڑکوں کو یہاں پر ہی لٹکا کر مارتے تھے۔سانپ بھی پال رکھے تھے جو زہریلے نہیں تھے۔ زاہد بھائی نے انہیں برما اور تھائی لینڈ سے دو تین اژدہے اور سانپ منگوا کر بھتے میں دے دیے تھے۔ان کا جانوروں کی امپورٹ کا کام تھا۔لڑکوں کی پینٹ پاجامے گیلے کرنے کے لیے ان کی آنکھو ں پر پٹی باندھ کر سانپ چھوڑ دیتے تھے۔اب ان جاہل مٹروؤں کو کون سمجھائے کہ یہ سانپ زہریلے نہیں۔میں جب سردار بھائی کے پاس دارو لگانے جاتا تو وہ میری گود میں کبھی لڑکی اور کبھی سانپ ڈال دیتے تھے۔ میری شکایت پر بھائی تابش جو اب وہاں جونیئر درجے کے کارکن سمجھے جاتے تھے، ان کا سردار بھائی نے مار مار کر حشر کردیا۔ سانپ بھی چھوڑے ۔بحالی تو ہوگئی مگر تابش دو ماہ تک ایسے چلتا تھا کہ جیسے دن میں بڑی بہن کا حمل خود جھیل رہا ہو۔اس ماردھاڑ کے تین ماہ تک مجال ہے جو کسی لڑکے نے ان کی فیکٹری کا رخ کیاہو۔علیزے سے میری قربت رہی مگر رسائی کے جو سپنے میں نے دیکھے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔اس میں کچھ قصور تو اس کے میاں کی ملک میں موجودگی اور کچھ اس کی شہری احتیاط کا تھا۔






پنڈ اور چھوٹے شہروں کی لڑکیاں دھوپ میں رکھی برف ہوتی ہیں جلد پگھل جاتی ہیں۔انہیں یہ بنیادی شعور ہوتا ہے کہ آنے والے مرد کو بہن بھابھی کی نہیں جنس کی بھوک مٹانے کی حاجت ہے۔سو کیا کھیت کیا کھلیان۔ان دیہاتی عورتوں پر باہر کی قدغن بہت ہوتی ہے۔سارا پنڈ محلہ دوربین لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ گاؤں کے کتے بھی سوائے ان کے سوروں اور یاروں پر بھونکنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے۔اس کے برعکس شہر کی عورت فریزر کی برف جیسی ہوتی ہے۔کچھ دیر بعد درجہء حرارت کی تبدیلیء سے اس کا بندھن کمزور پڑتا ہے تب cubes زور لگانے پر ٹرے سے باہر آتے ہیں۔اس کی ساری پابندی اندر سے ہوتی ہے۔غیرت اور عصمت کے کوئی جھوٹے بت اس کے دماغ کے مندر میں پالتی مارے نہیں بیٹھے ہوتے۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ کراچی کے مالدار لوگ پولیس والوں سے تعلقات کو بلا وجہ کا بوجھ سمجھتے ہیں۔ خواتین بالخصوص یہ بھی سوچتی ہیں کہ ان تعلقات کو اگر بڑھنے دیا اور مال اور ساکھ دونوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔پولیس والوں میں Animalism (حیوانیت) بہت ہے۔
میری جانب سے علیزے کی اس جسمانی ٹال مٹول کے باوجود خلوص میں کوئی کمی نہیں آئی ۔دن میں چھوٹی ہی سہی مگر مختصر سی فون پر بات بھی ہوجاتی تھی۔یہ گرے بلیو نوکیا 3310 سیل فون کا زمانہ تھا۔وائبر فیس بک واٹس ایپ کا کسی نے سوچا تک نہ تھا۔جس طرح صالحین مسجد سے اللہ اکبر کی پہلی صدا پر لپک کر مسجد کا راستہ لیتے ہیں من کہ مسمی منیر نسیم بھی علیزے کی ایک کال پر دوڑا دوڑا اس کی خدمت میں بلا معاوضہ حاضر ہوجاتا تھا۔ایک سوال کا جواب جو شاید آپ کے لیے ان دو میاں بیوی کے حوالے سے دل چسپی کا ہو ،میں نے ایک رات علیزے سے پوچھ لیا کہ وہ سیٹھ ناصر کے ساتھ رہ کر بھی جسمانی حوالے سے ان سے کیسے لاتعلق رہتی ہے۔
یہ وہ رات تھی جب وہ مہندی میں جوہر آباد تھانے سے کچھ دور نارتھ ناظم آباد تنہا ہمارے علاقے میں کسی تقریب میں آئی تھی ۔ساری سڑک ان دنوں شاہراہ مناکحت بنی رہتی تھی۔ شادی ہال ہی ہال۔ علیزے کا ڈرائیور قریب ہی کے علاقے اورنگی کا تھا۔ وہ ہفتے کی شام چلا جاتا تھا۔ اسے وہ تقریب میں ہال پر چھوڑ، چابیاں دے کر چلا گیا۔ میری ڈیوٹی لگی کہ واپسی پر میں اسے گھر چھوڑ کر آؤں۔رات جب وہاں مہندی کی تقریب سے اس کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو مجھے فون پر وہاں شادی والے بنگلے پر پہنچنے کا اذن ملا۔
خاکسار نے اپنے معمول کو سرکاری مصروفیت کا رنگ دینے کے لیے تھانے کے روز نامچے میں کسی مفرور مجرم کی ڈیفنس کراچی کے ایک مجرے میں موجودگی کی اطلاع ڈالی ۔ہیڈ محرر صاحب کو سمجھایا کہ مجھے نارتھ ناظم آباد کی فلانی جگہ پر اتار دیا جائے میں وہاں سے مخبر خاص کے ساتھ جائے مطلوبہ پر موٹر سائیکل پرجاؤں گا۔ ملزم اگر موقع پر پایا گیا تو بغرض گرفتاری ڈیفنس تھانے سے نفری منگوالیں گے۔
تقریب ابھی جاری تھی مگر علیزے کے دل میں شاید خیال آیا ہو کہ کچھ وقت میرے ساتھ گزار لے ۔شادی والے بڑے سے ایک بنگلے سے نکل کر آئی تو خاکسار دیکھتا رہ گیا۔قیمتی جارجٹ کی سمندر جیسے ہرے رنگ کی ساڑھی جس کا بلاؤز بقول غالبؔ ہے بس کہ ہر اک اس کے اشارے میں نشاں اور لگتا تھا۔گیٹ پر رخصت کی غرض سے آنے والی ایک میزبان خاتون نے گفتگو کرتے وقت شہر کے حالات اور اس کے لباس کی بے باکی کی جانب اشارہ کیا توعلیزے نے فی الفور مجھے حکم دیا کہ ڈرائیور جاؤ یہ چابی لو اور میری چادر کار کی پچھلی سیٹ سے لے آؤ۔سبز ساڑھی پرچادر ڈالنے کا معاملہ ایسا ہی تھا جیسے کسی نے پستہ آئس کریم پر قورمے کے دو چمچے انڈیل دیے ہوں۔علیزے نے اتنی کمینگی ضرور کی کہ مجھے اپنے میزبانوں کے سامنے ڈرائیور کہہ کر پکارا۔
اس بے باک ڈرائیور یعنی آپ کے خادم منیر نسیم ٹلے نے کسی صاحب کی کار کے آگے لائن توڑ کر جب میں نے اسے بٹھانے کے لیے اپنی کار پارک کی تو علیزے نے سب کے سامنے اس جسارت پر مجھے جھوٹ موٹ ڈانٹا بھی مگر گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہی کہنے لگی کہ اچھا کیا لائن توڑی۔وہ کتیا جانے کتنے دیر مجھے فرحت ہاشمی کی طرح تپاتی۔پوچھنے لگی کہ میرا تعلق کس قوم سے ہے۔میرے علم میں یہ بات تھی کہ اس کا وہ لوزر میاں راجھستان کا اور اس کے خودکی امی پٹھان اور ابو سندھ کے ہیں۔
اس لحاظ سے میں نے بات نبھانے کے لیے جتایا کہ ہم دور کے کزن ہیں میری امی بھی پٹھان اور ابو سندھ کے پنجابی ہیں۔ مگر ہم پیچھے سے دوآبے کے جٹ ہیں۔میرے جد امجد محمد بن قاسم کے وزیر زراعت ہوتے تھے مگر عرب واپس دمشق جانے لگے تو یہ سندھ دھرتی کو ماں سمجھ کر لپٹ گئے اور محمد بن قاسم کے واپسی کے مطالبے پر چیخ چیخ کر کہنے لگے۔۔مرسوں، مرسوں۔ سندھ نہ،ڈیسوں۔ دمشق نہ کھپے (مرجائیں گے مگر سندھ نہیں چھوڑیں گے)۔بہت ہنسی۔کہنے لگی کاش ہمدانی بھی آپ کی طرح Witty ہوتے۔میں نے کہا Wit اور محبت میری ،گھر اور نکاح نامہ نا صر ہمدانی صاحب کا۔یوں میرے سلیقے سے نبھ گئی، میری محبت میں والا حساب ہوگا۔اس نے کہا How poetic



میں نے پیچھے دیکھنے والے شیشے سے جائزہ لیا۔ایک عجب سی وحشت آنکھ میں تیرتی تھی۔ناآسودگی،طلب اور خود آگاہی جو اس رات کی سجاوٹ نے حسن کی رام لیلا رچائی تھی۔ میرے پولیسئے دماغ نے جتایا کہ بس اک آنچ کی کسر ہے اور علیزے ٹوٹ کے چکنا چور ہوجائے گی۔دور سے حیدری مارکیٹ کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے بھی کچھ دور چل کر جب کہا اصل میں جان کے لالے تو دلہن کو پڑے ہوں گے کہ مہندی میری اور لوٹ علیزے بیگم نے لی۔ تو اس نے فوراً کہا گاڑی روکو۔ میں ہڑبڑاگیا کہ یا اللہ ایسی کیا کوتاہی، کون سی خطا ہوئی کہ وہ برہم ہوگئی۔گاڑی روکتے ہی اگلی سیٹ پر آگئی۔حیدری مارکیٹ کراس کر کے میں نے اس کا سر کاندھے پر ٹکا یا تو ڈھیلی پڑگئی۔۔۔
ہم نے ڈیفنس تک آتے آتے نیم روشن،خوابیدہ گلیوں میں ایک دوسرے کو رج کر پیار کیا۔۔یہ مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ کراچی کی خواتین آئس برگ ہوتی ہیں۔جتنی اندر ہوتی ہیں اس سے زیادہ زیر آب ہوتی ہیں بالکل برگد کی جڑوں کی طرح۔ جب اس نے گھرقریب آنے پربتایا کہ ناصر کسی تجارتی مصروفیت کی بنیاد پر فیصل آباد گئے ہیں تو میر ی امید بندھ چلی کہ وصل و وحشت کے باقی مراحل اس کی اپنی خواب گاہ میں طے ہوں گے ۔ وہ کہنے لگی چوکیدار ملازم میرے آئے تک جاگ رہے ہوں گے۔وہ مجھے گھر نہیں لے جاسکتی۔
میں نے بھی اپنے دماغ میں ایک برق رفتار فیصلہ کیا ۔ پولیس کو ویسے کون اچھا سمجھتا ہے کہ اب میں امیج بہتر کرنے کا کہوں۔ سارا دن تو سندھی میں ہم پر تھک بھجا(تھوکنا لعنت بھیجنا) ہوتا رہتا ہے۔یوں بھی یہ کام ہمارے آئی جی صاحب کا ہے نہ کہ ہم چھوٹے درجے کے افسران کا ۔صرف آدھے گھنٹے کے لیے اسے درخواست کی کہ چلو سی ویو کا ایک چکرلگا تے ہیں۔ درخواست لب و لہجے میں سرایئکی اور لکھنو کی مجموعی شیرینی سمیٹ کر ڈالی۔وہ مان گئی۔بس اتنا کہا کوئی زیادتی تو نہیں کروگے نا۔میں ناصر کی امانت ہوں۔اب یہ عورتوں کو چوم چام لو جہاں تہاں ہاتھ پھیر لو تو اس کے بعد کون سی زیادتی رہ جاتی ہے۔ان پگلوٹ حسیناؤں کو کون سمجھائے کہ مرد کی الفت و شہوت سمندر جیسی ہوتی ہے۔ کیا قطرہ، کیا موج، جیسا ایک کنارہ ویسا دوسرا کنارہ۔بہتا پانی اور بہتی لگاؤٹ کو کیسے علیحدہ کیا جاسکتا ہے



اس وقت سی ویو سے آگے دو دریا وغیرہ کا علاقہ ایسا آباد نہ تھا۔ ایک سنسان گوشے میں کوئی عمارت زیر تعمیر ادھوری چھوڑ دی گئی۔پاس پڑوس میں چوکیدار ہوں تو بھی میرے کار کی بتیاں بجھانے پر دیکھنے سے قاصر رہے ہوں گے۔
اجاڑ کمپاؤنڈ میں کار روکی تو گھبراگئی ،وہ کہاں کی بات ماننے والی تھی ۔ شور مچانے پر راز معشوق رسواہونے کا خدشہ تھا۔من کہ مسمی منیر نسیم نے موقع غنیمت جان کر جب پستول کی نالی اس کی ناف پر رکھی تو وہ مجبور ہوگئی۔ میں نے وہ سب کچھ کیا جسے ہندی میں بلدکار کہتے ہیں۔ وہ کہتی رہی کہ زندگی بھر میری شکل نہیں دیکھے گی۔سچ پوچھے تو یہ دھمکی ہی تھی جس کے بعد مجھے لگا وہ سب کچھ کرنے میں برابر کی رضامند تھی۔ بوس و کنار سپردگی میں ایک عیارانہ سپردگی کا اہتمام تھا۔
دور کہیں جب افق پر پو پھٹنے کے آثار نمایاں ہونے لگے تو۔ ۔اس کے لہجے میں تھکن غالب آچکی تھی۔کہنے لگی سپیدی نمایاں ہورہی ہے اب تو چھوڑ دو۔دل تو نہ مانتا تھا کہ اس کٹائی کو مجھ جیسا کسان یوں چھوڑ دے ۔اُسے گھر پر چھوڑا۔ر استہ بھر وہ چپ چپ تھی۔دروازے پر اتارا تو اللہ حافظ تک نہ کہا۔ چوکیدار کو کار کی چابی لے لینے کا کہا۔
خاکسار نے کورنگی روڈ پر آن کر پہلے تو ایک سکوٹر والے سے لفٹ لی۔ تھانے تک کا باقی سفر بھی ایک کار والے سے لفٹ لے کر پورا کیا۔روز نامچے میں واپسی کی انٹری یہ لکھ کر ڈالی کہ مخبر خاص کے پاس مصدقہ اطلاع ہونے کے باوجود مطلوبہ ملزم مجرے کی محفل میں شریک نہ ہوا۔مزید تفصیلات ان دونوں کی باہمی ملاقات کے بعد ہی پتہ چل پائیں گی۔کیس کی تفتیش سابقہ تندہی سے جاری رہے گی۔
علاقے میں واقع میں نے اپنے فلیٹ پر آن کر پہلا کام یہ کیا کہ اپنی شکل آئینے میں دیکھی۔ وہ ایسی کچھ بری نہ لگی مگر اب اس کا کیا جائے کہ کوئی اسے دیکھنا ہی نہ چاہے۔آپ کو علیزے سے میرا کیا جانے والا سوال تو یاد ہوگا کہ وہ سیٹھ ناصر کے ساتھ رہ کر بھی جسمانی حوالے سے ان سے کیسے لاتعلق رہتی ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے اس کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا یکسر چھوڑ دیا۔
اس شب ِبے باک کے بعد میں نے کوئی تین مرتبہ علیزے کو کال کیا مگر مجھے لگا کہ اس نے میرا نمبر اپنے فون پر بلاک کردیا۔راجہ سہیل کہا کرتا تھا کہ عورت اور بندوق کو مت چھیڑو کیا پتہ بھری ہوئی ہو۔ سو خاکسار نے اس حوالے سے کوئی مزید جسارت نہ کی۔
الیکشن ہونے والے تھے۔پولنگ کے انتظامات کے سلسلے میں میری ڈیوٹی ایک ایڈیشنل سیشن جج صاحب کے ہاں لگ گئی ،وہ ہمارے ضلع کے ریٹرننگ افسر تھے۔دوران انتظامات وہ لڑکا جس کی فیکٹری فیاسکو میں پارٹی کے بڑوں نے لترول کی تھی۔وہ پارٹی کی جانب سے ضلع وسطی میں انتخابات کا نگران تھا۔اس کا نام تابش صدیقی تھا۔الیکشن ہوئے تو ناصر ہمدانی کے فیکٹری مینیجر کا بھائی علاقے کا ایم پی اے بن گیا۔ایک ماہ میں ان کی فیکٹری بھی محکمہء کچی آبادی کی جانب سے لیز ہوکر باقاعدہ طریقے سےRegularize ہو گئی۔اس دوران علیزے کبھی فیکٹری پر آتی جاتی دکھائی نہیں دی۔
ویسے اب وہاں بہت سکون تھا۔پارٹی کی جانب سے کوئی بھتہ مانگنے وہاں نہ آتا تھا۔کاروبار بھی بہتر ہوگیا۔پولیس والے بھی چوروں کی طرح ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے۔پانچ مہینے پورے ہونے پر وہاں میڈم کے دفتر میں کام کرنے والی ایک رشتہ دار لڑکی کی زبانی ہمارے ایک پولیس والے کو علم ہوا کہ مالکن حاملہ ہیں اور بچے کی پیدائش کی غرض سے امریکہ اپنی بہن کے پاس گئی ہیں۔یقین مانیے کہ من کہ مسمی منیر نسیم بچے کا باپ بننے کی اس اطلاع پر اُداس بھی ہوا اور خوش بھی۔میں نے آپ کو بتادیا تھاکہ علیزے سیٹھ ناصر کی دوسری بیوی تھی اور ان کی شادی کو چھ برس سے زائد ہوچلے تھے اور بچہ بھی نہ تھا۔
میرے علیزے کے بچے کا باپ بننے کی خوشی اس وقت ہرن ہوگئی جب میں عبدالمنان جو ان دنوں تھانہ گلبرگ میں اور دیگر دو ساتھی جاوید نہاری والے کے ہاں سے ناشتہ کرکے آرہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی بتایا گیا کہ تھانے پر میری معطلی اور اس دن موبائیل میں شامل نفری کے تبادلے کے احکامات موصول ہوچکے ہیں۔آپ کو تو یاد ہوگا کہ میں ہمراہان چار ملازمان بزریعہ وائرلیس پیغام موصول ہونے پر بھتہ خوری کی کاروائی روکنے تھانے پہنچ گیا تھا۔ نئے سیاسی حالات کے پس منظر میں مجھے یا کسی اور ملازم کو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ یہ سب کیوں ہوا ہے، اس لیے کہ ہماری جگہ ڈیوٹی رپورٹ کرنے مختلف مقامات سے دیگر ملازمین ہمارے چارج چھوڑنے سے پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔
اپنے اسی ساتھی کی مدد سے پتہ چلا کہ امریکہ میں علیزے کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔مجھے معطل ہوئے پانچ ماہ ہوچلے تھے۔تین عدد ایس ایچ او صاحبان سے بحالی کی بات چیت چلی مگر
بے سود رہی۔ وہ جن سیاست دانوں اور سیکٹر والوں سے ڈیل کے ذریعے بحال کرانے کاحوالہ دیتے ہیں ان کے لیے لاکھوں کا نذرانہ مانگتے ہیں۔وہ میں کہاں سے لاؤں۔خاکسار میر و غالب،فراق و فیض پڑھ کر بھی اگر ہوس دنیا میں مبتلا رہے تو یہ تو اردو ادب اور خاکسار کا جس کا پورا نام منیر نسیم ٹُلّا ہے ۔ والد کا نام نسیم جمال، جس کی ذات ٹُلّا ہے، یہ ہماری سب کی توہین ہے۔
معطلی کو جب چھٹا مہینہ لگا تو من کہ مسمی منیر نسیم ایس آئی بے قرار ہوگیا،پڑے پڑے لوہا بھی زنگ پکڑ لیتا ہے،پتھر بھی گھس جاتا ہے۔ہماری تو اپنی افتاد طبع کا فتور ہے کہ جس کی روشنی سے ہمیں دہر میں پناہ نہیں ملتی، مزاج بھی خیر سے بے نیازی سے رجا ہوا ہے،کچھ سرگودھا کے افسران بھی سندھ پولیس میں بہت کم کم ہیں۔ جھولی کے چھید کی وجہ سے اسے پھیلانا کبھی اچھا نہیں لگا سو جیب اور کیرئیر کی خانہ ویرانی نہیں جاتی۔۔مجھ کم ترین،افسری کے ادنیٰ ترین درجے پر فائز افسر کا کیا پوچھتے ہو کہ شب و روز کس بے لطفی میں گزرتے ہیں۔اسی تگ و دو میں خاکسار نے کراچی کے کس کس مزار پر گریہ زاری نہ کی۔من کی مراد کہیں سے پوری نہ ہوئی تو ایک دن اچانک کھارادر میں درگاہ کے متولی موسی سے کچھ راہ و رسم نکالی۔اس کی درگاہ پر ملک کی ایک اہم ہستی رات کے پچھلے پہر جب وہ اسلام آباد سے کراچی آتی ہے تو چپکے سے جبین نیاز جھکانے آجاتی ہے۔ وہ اس بارگاہ ملکوت سے دنیا لینے آ جاتی ہے اور متولی موسیٰ ان کے دامن سے لپٹی دنیا کی دھول کچھ اپنے لیے بھی جھاڑ لیتا ہے۔میری ملاقات موسی سے ہوگئی۔ وہ ایک مزار کا مجاور تھا ۔خود کو اس مقام پر مدفون اعلیٰ مرتبت ہستی کے خانوادے کاچشم و چراغ ظاہر کرتا ہے۔کم بخت تھوڑا زیادہ ہی دنیا دار ہے۔ میمن ہونے کے باوجود اپنے نام میں سید پہلے اور بعد میں ہاشمی بھی لگاتا ہے۔ یہ سراسر دھوکا دہی ہے۔سب ہی جانتے ہیں کہ میمن تو بہت آخر میں اپنی دنیا مکمل طور پر سینت سنبھالنے کے بعد مسلمان ہوئے۔یہ سب پہلے ہندو تھے۔
ا ن کے لیے ذات پات بہت بڑا چیلنج تھی، خود کو گردیزی، سید، کرمانی، علوی، نقوی، جعفری بے چاے کہلواتے تو بڑی تھو تھو ہوتی۔ سو ان ذہین لوگوں نے ذات پات کے لیے اپنے علاقوں (رنگون،برما، کلکتہ،افریقہ والا) اور پیشوں کو (مانڈوی (مونگ پھلی)تیلی،موتی والا، کانچ والا) کہلانے پر اکتفا کیا اور دیر سے بچھڑے ہوئے کعبے میں آنے کا ازالہ خوف خدا اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے کیا۔کہاں کراچی کے ضلع وسطی سے راندہء درگا ہ ہوا من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی اور کہاں یہ مرقد اکرام اور متولی موسی۔مجھے یہاں وہ سدوال ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والادوست علی اشرف راجپوت لے کر آیا تھا۔میری نوکری سے معطلی کے معاملے کو سردست ایک طرف رکھتے ہیں۔ورنہ کہانی میں علی اشرف راجپوت کی شمولیت میں تاخیر ذرا اڑچن پیدا کرے گی۔
علی اشرف راجپوت کا تعلق چکوال سے ہے۔اسے پنجاب میں لانس نائیکوں کا ضلع کہتے ہیں۔فوج کو یہاں انگریزوں کے زمانے سے گبرو کڑیل جوان بہتات سے ملا کرتے تھے۔ علی اشرف کہتا
ہے کہ چکوال کا ضلع ایک عجب مجموعہء تضاد ہے۔یہاں کے لانس نائیک خود کو جرنیل اور دنیا یہاں کے جرنیلوں کو لانس نائیک سمجھتی ہے۔
یہاں کے مرد کڑیل، عورتیں حسین، گھوڑے اور بیل ناچنے کے شوقین ہوتے ہیں۔یہ سب کے سب نہ تو اپنا کام ٹھیک سے کرتے ہیں نہ ہی مل جل کر علم و عقل، دولت اور نرم مزاجی سے کوئی معمولی سا شرم دلانے والا ہی تعلق رکھتے ہیں۔ شدید روایت پسند لوگ ہیں۔بالخصوص وہاں کے راجپوت تو ابھی تک رسم و رواج کی چتا میں جل رہے ہیں۔قتل کا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔اس میں بھی ایک شان رکھ رکھاؤ ہے۔بیٹی گھر میں کنواری بیٹھی ہے تو بدلہ موقوف رہے گا۔بیٹی سب کی سانجھی ہے۔ اس بے چاری کو اپنے گھر کی ہولینے دو۔بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتادشمن کی بیٹی رخصت ہوکر جائے گی تو اسے رخصت کرنے گاؤں کی سرحد تک دیگر گھروالوں کے ساتھ آئیں گے۔شادی موت پر مہمان بھی ساجھے ہوں گے۔رخصت ہوکر گاؤں کی سرحد سے نکل جائے گی تو ایک نائی،جولاہا یا میراثی آن کر کہے گا مغرب کی نماز پر اپنا بندوبست رکھیں۔اول تو لڑکی کسی لڑکے سے سیٹ نہیں ہوگی اور اگر سیٹ ہوجائے تو درمیان میں رکنے کا نام نہیں لے گی۔
ڈیٹ پر آئے ہوئے محبوب کے حفاظت پر معمور دوست کا بھی دل خوش کردے گی۔ معاملہ خراب ہونے کی صورت میں گھر کی سیانیاں جڑی بوٹیوں کی مدد سے اسقاط حمل میں مدد کریں گی۔



علی اشرف کو میں نے ہی درخواست کی تھی کہ قادر آباد اڈہ۔بس اسٹاپ خوشاب میں ایک بس کھڑی ہے۔ اس بس کا مالک ہمارا ٹرانسپورٹر دوست، امیر اعوان ہے۔اس کی اپنے علاقے میں دشمنی چل رہی۔دشمن ان دونوں سے زور آور ہیں۔ تھانے کچہری سب پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ خود نہیں آپارہا۔ اس بس کا ڈرائیور کسی جرم میں بند ہوگیا ہے۔اسی وجہ سے علی اشرف سواریاں لے کر آجائے۔ سواریوں کی ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی، راستے کا خرچہ نکال کر اس کی ہوگی۔ کام سونپے جانے کی صورت میں علی اشرف کو پہلی فکر یہ ہوتی تھی کہ کوئی بیلوں کی دوڑیا گھوڑوں کے ناچ یا نیزہ بازی کا مقابلہ تو اس ہفتے منعقد نہیں ہورہا۔




گھوڑے کا ناچ،بیلوں کی دوڑ،نیزہ بازی اور عورتیں علی اشرف کے بس چارہی شوق تھے۔امریکہ اگر احمد آباد پر ہائیڈروجن بم گرادے تو بھی علی اشرف کی جان پر اس کا ککھ اثر نہیں ہونا تھا۔ان چار ابواب سے جان چھوٹتی تو وہ لوگوں کے پھڈے سلجھاتا تھا۔اسے فرمائش کرکے جرگوں میں لے جایاجاتا۔
دیکھنے میں وجیہہ تھا اور خوش پوش تھا،طبیعت میں دلداری اور دوستانہ بہت تھا۔لڑائی میں کئی مخالفین پر بھاری پڑتا تھا۔گفتگو کااندازمبلغین کا سا تھا،سمجھا سمجھا کر، رانوں اور سر پر ہاتھ مار مار کر رقت طاری کرنے والا۔ ٹی وی پر اگر اس کو کھانا پکانے کے پروگرام میں ڈال دیا جاتا تو یقین مانیں پیاز کاٹنے کی وجہ سے اس کی پیروکار خواتین کو اتنا رونا نہ آتا جتنا اس کی زعفرانی کھیر اور کشمیری پلاؤ کی ڈش کی ترکیب سن کر آتا۔داستان اور ڈرامائی سسپنس سے بھرپور۔ہلاکو نے بغداد آتے ہوئے اگر کسی خاتون کو 1257. عیسوی کے کرماں شاہ۔ ایران میں ریپ کیا ہوتا تو اس کا ذکر اس قدر رقت آمیز انداز میں چھیڑتا تھا کہ آپ گھر کے نزدیکی تھانے میں واقعے کی رپورٹ درج کرانے چل پڑتے۔الفاظ کا چناؤ دھیما اور دل خوش کن ہوتا تھا۔کسی بھی ایسے خیال کو جو وہ کسی دوسرے سے منوانا چاہتا تھا اس خیال کے لیے وہ مخاطب کے ذہن میں ایک تفاخر بھرا احساس ملکیت پیدا کرتا تھا۔اس نے یہ ہنر برطانیہ کی ایک سابق اور بہت ہی فولادی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سے سیکھا تھا۔ برطانیہ میں قیام پذیر کوئی طالب علم مسافر اسے بس میں آتے جاتے مل گیا تھا۔وہ بتارہا تھا کہ مارگریٹ تھیچر سے کسی نے پوچھا تھاکہ وہ اپنی سرکش کابینہ سے اپنی بات اتنی آسانی سے کیسے منوالیتی ہیں جب کہ برطانیہ میں اپنے مخالفین کو پولیس ہی کی مدد سے خودکش دھماکوں سے اڑانے،بوریوں میں بند کرنے یا ٹارگیٹ کلنگ کی سہولت بھی نہیں وہاں تو راؤ انوار ،عزیر بلوچ اور حماد صدیقی بھی نہیں دستیاب۔۔وہ کہنے لگیں یہ فن تو ہر سمجھدار عورت جانتی ہے۔وہ جب بچے کی ماں بننے والی ہوتی ہے تو سج دھج کرشرما کر میاں کو کہتی ہے”آپ میرے بچے کے باپ بننے والے ہیں۔ وہ یہ ہرگز نہیں کہتی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔“یہ بات علی اشرف نے پلے باندھ لی۔۔۔

کسی کے دل میں جگہ بنانے والی اس سے اچھی Ownership بتائیے ،پیدا کرنے کا اور کون سا بھلا طریقہ ہوگا۔ دنیا بھر میں اشہارات کی انڈسٹری اسی Concept Ownership پر چلتی ہے۔ہر مزہ آپ کے لیے ہے، کپڑے آپ کے اجلے ہوں گے،رنگ آپ کا گورا ہوگا۔بچہ آپ کا صحت مند رہے گا،دانت آپ کے سفید ہوں گے۔ان حرکتوں کو کرتے وقت آپ وسیم اکرم،ایشوریا رائے اور شاہ رخ خان کی ٹکر کے ہو جائیں گے۔یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ اس پروڈکٹ کی خریداری سے آپ کی جیب میں اتنے سوراخ ہوں گے کہ آپ بھول جائیں گے کہ آواز کہاں سے نکالیں اور رقم کہاں چھپائیں۔
علی اشرف بس لے کر چلا تو اسے کوٹ عیسی شاہ کی بستی کے قریب سے کچھ لوگ سڑک پر دیوانہ وار ہاتھ ہلاتے دکھائی دیے۔بس روکی تو تین سواریاں بس میں سوار ہونے کی منتظرایک حسین نوجوان لڑکی،ایک بڑی بی اور ایک ملازم بسم اللہ بول کر سوار ہوگئے۔ ایک سوزوکی میں کچھ لوگ انہیں رخصت کرنے آئے تھے۔سواریاں دیکھ کر علی اشرف کو حیرت ہوئی۔یہ معمول کے مسافر نہ تھے۔ بس ڈرائیور کا اتا پتہ پوچھ کر مطمئن ہوگئے، کرایہ ادا کیا اور سوار ہوتے وقت علی اشرف کو بتایا گیا تھا کہ انہیں لینے تاج کمپلیکس کے پاس لاری اڈے پر لوگ آجائیں گے۔ ڈرائیور کے پیچھے ایک نشست خالی تھی۔نوجوان لڑکی عین ڈرائیور علی اشرف کے پیچھے بیٹھ گئی ۔سب سے آخیرلی سیٹ پر کونے میں بڑی بی نے ڈیرہ جمالیا ۔بچہ بھی اس کے قریب دروازے کی سیڑھی پر رکھے اسٹول پر براجمان ہوگیا۔
تقریباً سبھی مسافر کراچی کے تھے۔۔علی اشرف بتارہا تھا کہ نگاہوں ہی نگاہوں میں ڈرائیور سیٹ کے سامنے اوپر لگے آئینے میں بے گانگی کے کئی پردے ہر نئے موڑ پر چاک ہوتے رہے۔ سیاہ رنگ کی باریک سوتی چادر پر رنگ برنگے دھاگوں کی کشیدہ کاری ،بڑی آنکھوں میں تیرتا دل کے مندر میں چراغ جلاتا کاجل،ہرے رنگ کے ریشمی سوٹ میں علی اشرف کو لگا کہ کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔ کوٹ عیسیٰ شاہ کا درزی نالائق تھا پنے ہنر کی جان لیوا کوتاہی سے کرتے کا گلہ کھینچ کر ذرا زیادہ ہی نیچے لے گیا تھا۔چادر گردن سے ادھر اُدھر ہوتی تو سبزکرتی کے گلے سے باہر موتیے کے دودھیا جام چھلکنے لگتے تھے۔
علی اشرف کو چونکہ کسی قسم کا کلینر وغیرہ چابی کے ساتھ لاری اڈے والوں نے نہیں دیا تھا۔ اسی لیے اس نے کرایہ بھی خود وصول کیا۔ ایک مسافر کے جس کے پاس ٹکٹ کی رقم نہ تھی اس کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ خدمت مسافران کراچی کا فریضہ سر انجام دے گا۔ کچھ دور جاکر آئس بکس میں سے اس نے دل پذیر مسافر حسینہ کو ڈبہ پیک فروٹ جوس دیا توانسیت کی ایک نئی بنیاد پڑی۔راستے بھر کھانے پینے اور سستانے کے دیگر مراحل میں علی اشرف نے ان کی میزبانی کا فریضہ اپنے پر لاد لیا۔
ہم سفر بڑی بی،لڑکی کی بیوہ پھوپھی تھی۔لڑکی کا نام نوراں تھا۔ کوٹ عیسیٰ شاہ میں وہ چاچا کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ اب چچا نے دوسری شادی کرلی تھی۔ خاندان نے بہتر سمجھا کہ اس حسینہ کے ہاتھ پیلے کردیں۔اس کا اپنا باپ وہاں کراچی میں پورٹ ٹرسٹ پر مزدوروں کا ٹھیکیدار تھا۔اس نے نوراں کی والدہ کی گاؤں میں وفات کے بعد کسی سندھی گھرانے کراچی میں شادی کرلی تھی اور اب کیماڑی کے کسی محلے میں رہتا تھا۔نوراں جس کی ساری عمر کوٹ عیسیٰ شاہ میں گزری تھی ،اسے کراچی جاکر اجنبی قوم کے سوتیلے عزیزوں میں شادی کے خیال سے کچھ خاص لگاؤ نہ تھا۔علی اشرف کو لگا کہ اس کی حالت اس پھول کی سی ہے جسے گلشن میں اپنی شاخ سے کٹ جانے کے بعد اس بات سے کوئی دل چسپی نہ ہو کہ وہ ناز عروساں کا حقدار ٹھہرتا ہے کہ کسی کی ارتھی کے ساتھ جلادیا جاتا ہے۔ پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہوگئے کا سا معاملہ تھا۔
نوراں کو پھوپھی کی رفاقت میں باپ نے ہی کراچی بلوایا تھا۔ اس کے سسرالی عزیزوں میں اس کی خوشحالی کے باعث کئی نوجوان اس کا داماد بننے کے لیے کلپ رہے تھے۔رات کے کھانے کے لیے وہ سڑک کے کنارے ایک بڑے سے ڈھابے پر رکے توجب پھوپھی ملازم لڑکے کو ساتھ لے کر باتھ روم گئی تھی تو علی اشرف نے لڑکی کو سمجھادیا کہ اس کے غائب ہونے کا کیا طریقہ ہوگا۔
وہ کراچی صبح چھ بجے کے قریب پہنچیں گے۔اس کے غائب ہونے کامرحلہ کراچی میں سپر ہائی وے پر آئے گا۔ یہ صبح چار بجے کا ویلا ہوگا۔ اگر وہ سوبھی گئی ہوگی تو وہ اسے مقام واردات سے کچھ دیر پہلے پانی کی بوتل دے گا۔یہ ہشیار باش کا سگنل ہے۔ مقام مقصود پر اس کا یار عزیز منیر نسیم کراچی پولیس کا حاضر سروس اے ایس آئی کسی ملزم کی تلاش میں علاقے کی موبائیل کے ہمراہ وہاں کھڑا ہوگا۔۔بس کے پاس ہی ایک سماجی مذہبی تنظیم ایمبولنس بھی پاس ہی کھڑی ہوگی۔
اس کا کام صرف اتنا تھا کہ جیسے ہی من کہ مسمی منیر نسیم بس کو ٹارچ دکھاکر روکے گا۔ علی اشرف بس کی لائٹیں بند کردے گا۔ دوران تلاشی نوراں ڈرائیور والی سائیڈ سے خاموشی سے اتر جائے اور چپکے سے جاکر ایمبولنس میں کفن اوڑھ کر لیٹ جائے۔ایمبولنس خاموشی سے نکل لے گی۔ ایمبولنس کے اس استعمال پر باخبر نوراں کچھ فکرمند ہوئی لیکن علی اشرف کو میں نے عرصہ پہلے بتادیا تھا کہ کراچی میں جرائم کے کامیاب ارتکاب کے لیے ایمبولینس اور پولیس موبائیل سے محفوظ، قابل بھروسہ اور بہتر کوئی اور ذریعہ آمد و رفت نہیں۔ کراچی میں جیسے ہی فسادات یا گڑ بڑ شروع ہوتی ہے۔ملک دشمن عناصر ایمبولنس میں اسلحہ،کارکنان اور جاسوسی کے مختلف آلات کی ترسیل کا کام سنبھال لیتے ہیں۔ نوراں مطمئن ہوگئی۔
پھوپھی ،جو ملازم کی رفاقت میں باتھ روم گئی تھی اس کی واپسی سے قبل علی اشرف نوراں کو کچن کے پیچھے جہاں چاندنی کے علاوہ کوئی اور روشنی نہ تھی ایک اوٹ میں لے گیا۔اسے دیر تک چومتا اور قول قرار کرتا رہا۔ شادی،بچے،گھر یہ سارے سماجی اور انسانی بندھن بوس کنار کی مستند سیل سے تصدیق ہوتے رہے۔نوراں نے صرف ماں کی قسم دے کر ایک قول مانگا کہ دل بھر جائے تو ماردینا مگر دھندے کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی اور مرد کو مت سونپنا اگر ایسی ہوا تو وہ خود کو اللہ کو گواہ بناکر خودکشی کرلے گی اور قتل کا مقدمہ قیامت کے دن علی اشرف پر دائر ہوگا۔


اس کی تلاش میں سرگرداں ملازم لڑکے کے نام پکارنے پر نوراں الگ ہوکر دوسری جانب نکل گئی۔علی اشرف خاموشی سے کچن میں چلا گیا۔ باہر نکل کر اس نے نوراں کو اپنی نشست پر براجمان
ہونے تک لڑکے کا شک مٹانے کے لیے اسے دو منٹ روک لیا۔جب علی اشرف بس کاانجن اسٹارٹ کررہا تھا اور بس کی بتیاں روشن ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ بے احتیاطی سے ڈھلکی سیاہ چادر کے درمیاں نواراں کے گریبان سے کچھ اوپر اس کی انگلیوں کے نشان بہت واضح تھے۔بس چلی تو تھوڑی ہی دیر بعد بوسوں کی ایسی پھوار (جسے مشہور انگریزی مصنفہ Jane Austen نے mizzle کہہ کر پکارا ہے یہ ایسی برسات ہوتی ہے جو ایک نم آلود خوابیدہ سی دھند کی کیفیت ہوتی ہے ) جھما جھم نہائی اور ہم آغوشی کے نرم و گرم لحاف کو یاد کرتے کرتے نوراں نیند کی وادیوں میں کچھ دنوں پہلے سنے شنکر لال حسین کے نغمے آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے، دل میں قدموں کی آواز آتی رہی۔ سنتے سنتے سوگئی ۔اس کی سوتیلی امی کو بھی کوٹ عیسی شاہ میں ہندوستانی نغمے سننے کا بہت شوق تھا۔وہاں اب سی ڈیاں عام تھیں۔
چار بج کر دس منٹ پر علی اشرف کی بس کو سپر ہائی وے پر کراچی سے کچھ دور رکنے کا اشارہ ہوا۔ موبائیل سے کولہے جوڑے ایک ایمبولنس خاموشی سے پہلے ہی اسٹارٹ تھی ۔بتیاں بجھ گئیں تو نوراں اپنی سیٹ سے چپ چاپ سٹک گئی۔اس کے روانہ ہوتے ہی سہراب گوٹھ کی چوکی پر موجود میراپیٹی بند بھائی اور سابقہ گرائیں گلبرگ تھانے کا ہیڈکانسٹبل عبدالمنان جو بہ لباس سادہ چوکی کے ساتھ ہی کھڑا تھا وہ نوراں کو ایمبولنس سے اتار کر ایک رکشے میں بٹھا کر اپنے علاقے بھلوال کے ایک امام صاحب کے گھر علاقہ سرجانی لے گیا۔ارے یہ عبدالمنان وہی ہے جس نے زر تاج کو مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب کے گھر سے بھگایا تھا۔
من کہ مسمی منیر نسیم نے بس میں داخل ہوتے ہی فوجی اعلان کیا کہ بس سے کسی کو اترنے کی اجازت نہیں۔ ہر فرد اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا رہے۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔موبائیل فون کا استعمال ہرگز نہ کریں ۔ پنجاب سے آنے والے ایک دہشت گرد کی تلاش ہے۔ دوران تلاشی بس کی بتیاں بجھادی جائیں (جو کہ پہلے ہی بجھادی گئیں)۔ ڈرائیور گاڑی بند کرکے نیچے گیٹ کے پاس کھڑا ہوجائے۔من کہ مسمی منیر نسیم نے سسپنس پیدا کرنے کے لیے اندھیاری بس میں ٹارچ کا استعمال کھل کر کیا۔ عقبی نشستوں سے جاری تلاشی کا عمل جب ڈرائیور کی سیٹ تک دراز ہوا اور خالی سیٹ پر سپاٹ لائٹ پڑی تومن کہ مسمی منیر نسیم نے بہت تحکمانہ لہجے میں پوچھا ”ایتھے کون بیٹھا ہے؟“ علی اشرف نے ممیاتے ہوئے جواب دیا کہ” اک کڑی سی“۔ خاکسار نے بچپن کے دوست علی اشرف کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ”کڑی سی کہ کڑی دے لباس وچ کوئی دہشت گرد۔ “
اب اس کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ کوئی کہہ رہا تھا شاید رات میں جہاں کھانا کھارہے تھے وہاں پیچھے رہ گئی ہو ۔اسے جھٹلانے کے لیے ایک خبر خلیدی قسم کی ادھیڑ عمر کی عورت کہنے لگی کہ ڈرائیور صاحب نے کچھ دیر پہلے ہی اسے پانی دیا تھا میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جو عمر کے کسی حصے میں بھی سونے کی کوشش کریں ایک آنکھ ضرور کھلی رکھتی ہیں۔ جب ہی تو سسر ی “خود اپنی آنکھوں سے “کی بجائے ” خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے” کہہ رہی تھی۔علی اشرف ڈرا کہ کہیں اب یہ اعلان نہ کردے کہ اس نے اپنی دوسری آنکھ سے اسے ایک مذہبی سیاسی جماعت کی ایمبولینس میں کفن اوڑھے خود جاتے دیکھا ہے۔مجھے ایسی چاچی خواہ مخواہ قسم کی عورتیں زہر لگتی ہیں۔خود کے تو سری پائے درست نہیں ہوں گے مگر ہر موت میت شادی بیاہ کی تقریب پر سب سے زیادہ زنانے مردانے،پردے، لڑکے لڑکیوں کے میل جول پر یہی بھوتنیاں اودھم مچاتی دکھائی دیں گی۔اسی ہڑا ہڑی میں من کہ مسمی منیر نسیم نے ایک دھماکہ کیا اور اعلان کیا وہ ایمبولینس کو بھی ڈھونڈ لو۔کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی ایمبولینس میں بیٹھ کر بھاگ گئی ہے۔
کچھ دیر بعد اس ہنگامے میں کمی آئی تو میں نے پھوپھی جان کو پیشکش کی ،آپ لڑکی کے والد کے ساتھ جوہر آباد تھانے آجائیں خاکسار آپ کی ہر ممکن مدد کرے گا۔آپ چاہیں تو ڈرائیور کو بھی آپ
کے ساتھ آنے کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ جس پر علی اشرف نے شور مچایا کہ وہ صرف مسافروں کو بخیریت منزل پر پہنچانے کا پابند ہے ،وہ کس کے ساتھ آتے جاتے ہیں یہ اس کی ذمہ داری نہیں۔ میں نے تو پہلے بھی انہیں بیچ سڑک پر بس میں بغیر اسٹاپ کے کوٹ عیسی شاہ سے بٹھایا۔اچھی نیکی کی ،میرے گلے پڑرہی ہے۔میرے ایجنٹ کے پاس دوبئی میں ڈرائیور کا ویزہ پڑا ہے۔ میری ڈیوٹی آئی ہوئی ہے۔ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔میں اپنے کام کروں گا کہ سواریاں ڈھونڈنے میں پولیس کے ساتھ خواری کروں گا۔اس دوران خاکسار نے وائرلیس پر ایک ایمبولینس کی تلاشی کا پیغام جاری کیا۔
یہ نشریہ بے چاری پھوپھی جان کی جانب سے کچھ یوں تھا ”مسمات کریمہ بی بی سکنہ کوٹ عیسی شاہ ضلع سرگودھا نے بس رکواکر خصوصی طور پر درخواست کی ہے کہ اس کی بھتیجی مسمات نوراں عمری سترہ برس،رنگت اجلی شہابی،سروقد، خوش اندام رات آٹھ بجے آخری مرتبہ دیگر مسافروں کے ساتھ نواب شاہ کے ایک ڈھابے پر دیکھی گئی تھی۔پنجابی زبان روانی سے اور اردو قدرے سوچ سمجھ کر بولتی ہے۔اطلاع برائے گمشدگی برحوالہ روزنامچہ اندراج تھانہ جوہر آباد مشتہر کی جاتی ہے۔سہراب گوٹھ چوکی سے درخواست ہے کہ۔۔۔۔۔ٹرسٹ کی ایمبولینس کی جانچ پڑتال بھی بصد احترام و احتیاط مسمات کریمہ بی بی کے اظہار شک پر کی جائے۔دوران پڑتال ہر مستعد ناکے سے درخواست ہے کہ ایمبولینس میں سوار افراد کی سہولت کا خصوصی خیال رکھا جائے“۔من کہ مسمی منیر نسیم نے چالاکی یہ کی کہ اس نشریے میں سیاسی تنظیم کی ایمبولنس کی بجائے خالصتاً ایک نئی سماجی تنظیم چھیپا ٹرسٹ کی ایمبولینس کا نام ڈال دیا۔جس کے روح رواں پہلے رنگ ریز تھے،امید تو نہ تھی سندھ پولیس کا کوئی افسر ساڑھے چار بجے صبح وائرلیس پر میرا اعلامیہ سنتا ہوگا مگر بھلا ہو ہمارے نئے ڈی ایس پی صاحب جو تہجد کی نماز بھی محلے کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ کچھ دیرپہلے ہی موبائیل میں گھر سے نکلے تھے کہ مسجد ان کے علاقے فیز فائیو ڈیفنس کراچی میں کچھ فاصلے پر تھی ،انہوں نے وائرلیس پر اطلاع سن کر فرمایا۔اے ایس آئی صاحب کی زبان دانی، شائستگی اور فرض شناسی کی داد دیتے ہوئے بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی ایمبولینس کو نہیں روکا جائے گا۔یوں خاکسار ہر قسم کے خدشے سے بے غم ہوگیا۔
نوراں اب میرے یار علی اشرف کی تھی۔
چلو علی اشرف کا یہ قصہ یہ کہہ کر لپیٹ دیتے ہیں کہ پہلے بچے کی پیدائش پر نوراں کی اپنے والدسے معافی کے لیے نوراں کی ملاقات میری اورعلی اشرف کی رفاقت میں ہوئی۔ عرصہ تین سال سے اوپر ہوچکا تھا۔ نوراں کا باپ خود نئی سندھی بیگم اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بال بچوں کے نئے سیٹ اپ کے ساتھ اپنے گھر میں خوش تھا۔ایک نظر علی اشرف اور نوراں پر ڈالی۔غیرت کا پرانا تھیلا وہ گاؤں ہی میں چھوڑ آیا تھا۔اس نے خود بھی کیماڑی کی ایک سندھن سے شادی کی جسارت اپنے علاقے میں کی ہوتی تو مار دھاڑ کا خدشہ تھا۔یوں بھی غیرت، ڈومیسائل کا مسئلہ ہے۔حمیت اور عزت کے معیار اور پیمانے کراچی اور دوسرے بڑے شہر وں میں آن کر بدل جاتے ہیں۔میرے سامنے کوئی ایسی بحث کرتا اور اپنے علاقے کی ثقافت کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے اور اپنے غیرت اور حمیت کے سستے پھریرے(جھنڈے) لہراتا تو میں ان سے کہتا تھا کہ کراچی قاہرہ، کوالالمپور، ڈھاکہ، استنبول اور بوسنیا کے لوگ بھی باعصمت و باکردار ہیں۔وہاں تو غیر برادری اور غیر زبان میں شادی ہونے پر قتل نہیں ہوتے۔یہ تمہارا مسئلہ جہالت اور جھوٹ، تکبر اور دین اسلام سے لاتعلقی کا ہے،عزت،خودداری اور پاکیزگی کا نہیں۔اپنی زنگ زدہ جہالت پر تقدیس اور دین کے سونے کا پانی مت چڑھاؤ۔
پولیس کی ملازمت میں خاکسار نے مشاہدہ کیا کہ اپنے علاقوں میں کسی نامحرم بیل یا اونٹ کے بھی اپنی خواتین کودیکھنے پر کارو کاری( بالائی سندھ میں سیاہ مرد اور عورت جسے قتل کردیتے ہیں) اور قتل
و غارت گری پر اتر آتے ہیں وہ کراچی میں اس کراس کنکشن اور عشق و شادی کو غم روزگار سے جڑا مسئلہ جان کر برداشت کرلیتے ہیں۔ نوراں تیسرے بچے کی پیدائش پرپنجاب واپس ایسی گئی کہ مڑ کر نہیں آئی۔سدوال کی کچھ زمین بیچ کر علی اشرف نے کوٹ عیسی شاہ میں آدھا مربع خرید لیا تھا۔




نوراں کو علی اشرف نے گھڑسواری بھی سکھا دی اور گھوڑی نچانا اور ڈھول بجانا بھی۔گو اس کا مظاہرہ وہ علاقے کی خواتین کی محافل میں بمشکل اور بے حد اصرار پر کرتی تھی۔اس کی نئی چچی بھی انتقال کرچکی تھی۔ وہ واپس آئی تو بیوہ پھوپھی اسے واپس پاکر بہت خوش ہوئی۔ چچا کا بیٹا کامل حسین بھی وہاں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ موجود تھا۔ ان سب کا مل جل کر زمیندارا تھا۔مزید مدد علی اشرف کے رشتہ دار کردیتے تھے۔ وہ سدوال اور کوٹ عیسی شاہ میں نوراں بیگم کے پاس میں سال چھ مہینے کے بعد چکر لگا کر آجاتا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے رشتہ زمینوں کی آمدنی میں ڈنڈی مارتے تھے۔تین بچوں کی ماں نوراں اور علی اشرف کو کوئی اعتراض نہ تھا۔علی اشرف نے لیاری کے علاقے میں اپنا گھر، ڈیرہ اور کاروباد آباد کرلیا۔
اس علاقے میں اور اس سے ملحقہ آبادیوں میں جہاں انسان ٹھونس ٹھونس کر آباد ہوگئے تھے۔یہاں ہر طرح کے زبان بولنے والے موجود تھے۔ایک آدھ گلی ادھر ادھر ہوجاؤ تو آگرے کی اردو اور ثقافت سے یکایک بوری خیل نیازیوں کی ملکی سرائیکی یا ہندکو سننے کو مل جاتی تھی۔دو تین گلیاں ادھر ادھر ہوں تو کوئٹہ کے پٹھان،کراچی کے پرانے سندھی، بلوچ، مکرانی،ہر طرح کے لوگ آبادتھے،جادو ٹونے کے متوالے اور صلوۃ سے بے نیاز ذکری آباد تھے۔چونکہ علی اشرف کا دستر خوان وسیع اور رویہ ہمدردانہ ہوتا تھا۔سب کی خوشی،غمی میں بھی وہ جی جان سے شریک ہوتا تھا لہذا گھروں سے آوک جاوک اور خواتین سے راہ و رسم بھی تھی۔اس راہ و رسم کے حساب سے وہ جنسی طور پر بہت آسودہ تھا۔
یہاں آباد کچھ بیبیوں کو دیکھ کر یقین نہ آتا تھا کہ ان کے جنسی رویے اداکارہ میرا اور کم کردیشیاں جیسی آ زاد اور دلدار ی سے لدے پھندے ہوں گے۔ علی اشرف کے یہ مراسم خالہ بھانجیوں،بھابی نند، اور ہم زبان سہیلیوں تک دراز تھے۔کسی کو جوڑا لینا ہوتا کسی کو موبائیل فون میں بیلنس ڈلوانا ہوتا تھا تو کسی کو بچے کے علاج یا میکے کا دورہ کرنا ہوتا تو علی اشرف ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بن جاتا جسے رقم نکالنے کے لیے جز وقتی جنسی رفاقت کا کارڈ ڈال کر بآسانی وقت و مقام استعمال کیا جاسکتا تھا۔۔

علی اشرف کا لوہے کے کباڑ کا خاصا عمدہ کاروبارتھا۔ اس کے عزیز و اقارب مشرق وسطی سے پرانے لوہے کے ڈھیر، حادثات میں برباد گاڑیوں کے پارٹس بھجواتے تھے۔یہ ان کا منافع پیشگی ادا کرکے ایک طرف رکھ کر دیتا تھا۔لیاری میں میوہ شاہ قبرستان کے قرب و جوار میں ایسے کئی گودام تھے۔ اس نے بھی تین گودام وہاں کرائے پر لے رکھے تھے جہاں ہر ایک میں اس کا اپنا عیش کدہ بھی موجود ہوتا۔زندگی کے سب سے بے باک مزے موت کے دامن میں ملتے تھے۔ وہاں اس کی جاننے والی خواتین اپنے لوزر (نکھٹو) قسم کے رشتہ داروں کو ملازم رکھوادیتی تھیں، کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی،کسی کا بہنوئی وہاں کباڑ سے دھاتیں اور مختلف اشیا علیحدہ کرتے تھے۔ وہ ان کی نوکری پکی کرنے اور علی اشرف سے ملنے کے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہنچ جاتی تھیں اس کا بہانہ ان کے پاس مزار پر فاتحہ پڑھنے اور منت مانگنے کا ہوتا تھا۔زیادہ دلیر بیبیاں وہاں ڈیرے یا گھر پر آجاتی تھیں۔
خواتین کے اس حرم میں اس کی پسندیدہ زرینہ تھی۔سرو قد،مضبوط بدن،دھیما لہجہ، نیلے سرمئی شیشے کے چراغ جیسی روشن بڑی خوابیدہ آنکھیں۔زرینہ کا تعلق افغانستان کے علاقے توتا خیل سے تھا جہاں سے اس کا گھرانہ پہلے تو کے۔ پی۔کے۔ میں کرم ایجنسی کے علاقے شبلان آیا اور پھر ذرا قدم جم گئے تو سہراب گوٹھ کراچی میں آباد ہوگیا۔12 دسمبر سن 1986 میں جب گورنر جنرل
جہاں داد اور چیف منسٹر غوث علی شاہ نے یہاں آباد پختون آبادی کو بے دخل کیا تو یہ گھرانہ اٹھ کر لیاری میں آباد ہوگیا۔یہ گھرانہ علی اشرف کا پڑوسی تھا۔ان کی مہمان داری بہت تھی۔اس کا پہلا میاں شادی کے ایک ماہ بعد فساد میں مرگیا تو علی اشرف نے اس کے نئے میاں طور خان کو جو اس کے پاس ڈرائیور تھا شادی کے لیے زرینہ کے والد کو پچاس ہزار روپے زرینہ کی ایما پر دیے تھے وہ اس کے پرانے علاقے توتا خیل۔ افغانستان سے تعلق رکھتا تھا۔عمر میں اس سے پورے پچیس سال بڑے شوہرکو علی اشرف نے جو ایک سوزوکی لے رکھی تھی اس پر ڈرائیور رکھ لیا۔ اس نے یہ سوزوکی سپر ہائی وے اور بھینس کالونی سے پولٹری اور گوشت کی سپلائی کا کام کرنے پر لگارکھی تھی۔


بمشکل انیس برس کی زرینہ کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ میاں کا جنسی دھیان عورتوں کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔باپ کا انتقال ہوگیا تو شبلان سے اس کا بھائی سلیمان اس کے ساتھ رہنے آگیا۔اس کو کام دھندے سے پر لگانے کے لیے علی اشرف نے ایک اور سوزوکی کرائے پر لے لی جو اس کے مزدوروں کے ٹھیکیدار سسر کے لیے پورٹ کے مزدوروں اور بعد میں پولٹری سے انڈے لے کر ایمپریس مارکیٹ میں سپلائی کرتی تھی۔یہ دونوں سالا بہنوئی طور خان اور سلیمان صبح چار بجے گھر سے نکل جاتے تھے۔دونوں کو ہدایت تھی کہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ کر یہ وہاں متعلقہ افراد سے علی اشرف کی بات کرائیں گے۔اس کال سے یہ تصدیق ہوجاتی کہ زرینہ کے یہ دونوں رکھوالے مقام واردات سے بہت دور موجود ہیں اورمطلع بالکل صاف ہے۔ اس کے بعد ہی علی اشرف اور زرینہ عشق کی سیڑھیاں ٹاپ و ٹاپ چڑھتے تھے۔علی اشرف کی ایک سوزوکی تو لیاری میں ہی ماما مجید کے گیرج میں رات کو پارک ہوتی تھی۔اسے زرینہ کا میاں طور خان چلاتا تھا۔ دوسری سوزوکی جسے زرینہ کا بھائی سلیمان چلاتا تھا۔وہ بھی لیاری میں میانوالی کے خاور زمان خان کے گھر کے اندر کھڑی رہتی تھی۔
صبح سویرے خاور خان کی بیٹی رفیقہ اسے چابی دیتی تو وہ یہ سوزوکی لے کر کام پر چلاجاتا۔
چابی کے اس لین دین میں سلیمان کا رفیقہ سے کچھ معاملہ سیٹ ہوگیا۔دونوں ہی بے حد خوب صورت تھے۔سلیمان خان تو بالکل بھارتی اداکار رنبیر کپور لگتا تھا اور آپ رفیقہ کو بھی اس کی کزن کرینہ کپور ہی سمجھ لیں۔
علی اشرف کو اس افئیر کا علم مسجد میں ہوا۔میانوالی کے کئی لوگ وہاں مسجد میں آتے تھے۔رفیقہ کے چچا نے اسے بتایا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔اس کا ملازم یعنی زرینہ کا بھائی سلیمان اس کی بھتیجی پر ڈورے ڈال رہا ہے۔علی اشرف نے پہلو بچایا کہ وہ اس کا ملازم ضرور ہے مگر اس سے زیادہ اس کے معاملات میں وہ کوئی مداخلت کرنے سے قاصر ہے۔ پھر بھی وہ موقع دیکھ کر سلیمان کو ضرور سمجھائے گا۔ خاور خان اگر ناخوش ہے تو وہ سوزوکی کہیں اور کھڑی کر لے گا۔
چلیے اس قصے کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں روک دیتے ہیں۔من کہ مسمّی منیر نسیم کی معطلی اور بحالی کا معاملہ ہم نے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔علی اشرف سے میرا رابطہ کوئی سال بھر سے منقطع تھا۔لین دین پر کوئی چھوٹی سی بدمزگی ہوگئی تھی۔مجھے کسی نے بتایا کہ مزار کے متولی موسی کے فلانی طوائف سے بہت اچھے مراسم ہیں۔موسی کے پارٹی میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم صاحبہ اکثر دعا مانگنے اس مزار پرIncognito رات گئے آتی ہیں۔صاحب مزار سے انہیں بہت گہری عقیدت ہے۔خاکسار کچھ عرصے کے لیے تھانہ نپئیر پر بھی ڈیوٹی دے چکا تھا۔طوائف جیناں سے ملاقات ہوئی تو اس کے اپنے مسائل تھے۔اس کا بھائی لیاری میں کسی میانوالی کے سودی کاروبار کرنے والے سے الجھ پڑا تھا۔وہ اسے مارنے کے درپے تھے۔اصل رقم تو پچاس ہزار ہی تھی مگر دو لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد بھی وہ مزید رقم مانگتے تھے۔







خاکسار نے بہت سمجھاکہ علی اشرف سے رابطہ کرکے اس معاملے کو سلجھادے۔وہ میانوالی والوں میں بہت معتبر سمجھا جاتا تھا۔ملاقات کے لیے مزار کو بہتر ہی سمجھا گیا۔علی اشرف کے سمجھانے پر میانوالی والا سود خور مان گیا اور اصل زر یعنی پچاس ہزار میں معاملہ نمٹ گیا۔پچیس ہزار ہم دونوں دوستوں نے اور اتنے ہی جیناں نے ادا کیے تو موسی کی مداخلت پر سی ایم ہاؤس سے فون آیا اور خاکسار کو بحال کرکے تھانہ کلاکوٹ میں تقرری کردی گئی۔یہ وہی علاقہ تھا جہاں علی اشرف کی راج دھانی تھی۔
میری بحالی کو پورے تین ماہ ہوچلے تھے کہ علی اشرف نے بتایا کہ اس کے ملازم سلیمان کا علاقے میں رہنے ولے میانوالی کے چند لڑکوں سے جھگڑا ہوگیا ہے۔میرا مشورہ یہ تھا کہ وہ اس جھگڑے سے پرے ہی رہے تو بہتر ہے۔وہ ایک کاروباری آدمی ہے۔علاقے کے مزاج سے بخوبی واقف ہے۔یہ سب لوگ کراچی ضرور آگئے ہیں مگر ان کا دل اور دماغ اب بھی اپنے علاقے کی رسم و رواج کی قیود سے آزاد نہیں ہوا۔یہ کم بخت سب چاہتے ہیں کہ کراچی ان کے میانوالی ۔بونیر، چیچہ وطنی اور کھپرو جیسا ہوجائے یہ ٹس سے مس ہوکر کراچی جیسے نہ ہوں۔ خاکسار بھلے سے سرگودھا کا ڈھگا ہے مگر جانتا ہے کہ کراچی میں رہنے کے آداب ہیں۔اللہ بخشے ہمارے ایس ایچ او جعفر نقوی مرحوم کہا کرتے تھے۔۔۔
جیناں صاحب نے کراچی کو جب دار الحکومت بنایا تو ان سے بڑی غلطی ہوئی۔ بیس صوبے بنادیتے۔ عربی کو قومی زبان اور کراچی میں داخلے کا ورک پرمٹ صرف میٹرک پاس کو ملے گا۔
چار دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ سلیمان کو لڑکی کے رشتہ دار لڑکوں نے قتل کردیا ہے۔وہ موٹر سائیکل پر سوار کہیں جارہا تھا کہ پیچھے سے جیپ نے ایسی ٹکر ماری کہ کافی دور تک اسے روندتی ہوئی چلی گئی۔چار لڑکے اس جیپ میں سوار تھے۔
بات یہاں سے شروع ہوئی کہ لڑکی کے ایک قریبی رشتہ دار لڑکے گلریز نے سلیمان کو کہا ہے کہ رفیقہ اس سے سیٹ ہے۔وہ اس سے کنارہ کرلے۔سلیمان جسے لیار ی میں رہ کر یہ احساس کچھ زیادہ ہی شدت سے ہوگیا تھا کہ اس کا شمار علاقے کے خوبرو ترین مردوں میں ہوتا ہے۔اس نے گل ریز کو کہا کہ ایسا کرتے ہیں رفیقہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس کا دل ہم دونوں میں سے کس کی جانب مائل
ہے۔دوسرا فریق اس کے جواب کے بعد خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا۔گلریز کہنے لگا کہ ہماری طرف کی لڑکی دوسری قوم کے مردسے پیار تو کیا وہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔سلیمان نے یہ طعنہ سن کر اسے گھٹیا جواب دیا کہ رفیقہ تو اس کے پیار میں پاگل ہے ہی، وہ ذرا اپنی بہن ندا کی خبر لے،کیوں کہ وہ بھی اس پر جان نچھاور کرتی ہے۔ممکن ہے لڑکا پرانی دوستی کے چکر میں یہ طعنہ برداشت کرلیتا مگر رفیقہ کا ایک تایا ہیبت خان اس وقت وہاں موجود تھا۔اس نے یہ بات سنی تو اس کو پرانا میانوالی یاد آگیا۔اسی نے لڑکے کو طیش دلایا۔ ہاتھا پائی ہوگئی مگر اس تکا فضیحتی میں تایا بھی دھکالگنے سے زمین پر گرگیا اور اس کی وجہ سے اشتعال پھیل گیا۔سلیمان کے پاس کسی دوست کی موٹر سائیکل تھی وہ ماڑی پور روڈ پر نکل گیا۔ یہ لڑکے جمع ہوئے اور جب یہ ایک جگہ رُکا ہوا تھا اس کے پاس پہنچ گئے۔انہیں دیکھ کر سلیمان آگے بڑھ گیا مگر لڑکوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ انہوں نے سلیمان کو جیپ سے روند ڈالا۔
سلیمان کی موت سے زرینہ پریشان ہوگئی۔ مقتول سلیمان کے پختون بڑوں نے فیصلہ کیا کہ پولیس کو اس کیس سے دور ہی رکھا جائے گا۔وہ خود ہی بدلہ لیں گے۔جن لڑکوں نے قتل عمد کی اس واردات میں حصہ لیا،ان سب کو جواباً قتل کیا جائے گا۔تدفین کے لیے سلیمان کی لاش شبلان لے جائی گی۔
میانوالی والوں کی جانب سے جرگے کی پیشکش ہوئی۔میں نے تو علی اشرف کو کہا کہ وہ اس جرگے سے کنارہ کشی اختیار کرے مگر مقتول کے لواحقین کا اس کی شمولیت پر اصرار تھا۔ مقتول چونکہ اس کا ملازم تھا لہذا انہیں یقین تھا کہ اس کی شمولیت شاید دونوں پارٹیوں کے درمیان مخاصمت کی فضا کم کردے گی۔مقتول سلیمان کے گروپ نے دو زیادتیاں یہ کیں کہ ایک تو جرگے کی کاروائی کے دوران ہی واردات میں شامل قاتل پارٹی کے ایک لڑکے کے چھوٹے بھائی کواغوا کرلیا۔دوسرے کہیں سے ایک میلا مقامی بدمعاش رہنما شاہ میر کو بھی شامل کرلیا جس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی تھا۔علی اشرف نے محسوس کیا کہ دونوں جانب سے اس ناپسندیدہ شخص کی شمولیت سے بد اعتمادی کو فروغ ملا۔
لواحقین بمشکل راضی نامے پر متفق ہوئے مگر ان کی جانب سے شرائط کافی کڑی تجویز کی گئیں۔ ان کا ایک مطالبہ تو یہ تھا کہ میانوالی والوں کی تین لڑکیاں بطور مائترے مقتول کے لواحقین کے حوالے کریں گے جن کی شادی وہ اپنی مرضی سے کریں گے۔میانوالی کسی طور اپنی شرم غیر قوم کے افراد کے حوالے کرنے پر رضامند نہ تھے۔مائترے میں مانگی جانے والی لڑکیوں میں رفیقہ بھی شامل تھی جس کا سلیمان سے چکر تھا اور جس کی وجہ سے فساد برپا ہوا۔اس کے علاوہ ایک کروڑ روپے بھی مانگے گئے۔پچاس لاکھ وہ غنڈہ سیاست دان خود گھٹکانے کے موڈ میں تھا۔۔
تھانے کی طرف سے تفتیش مجھ اے ایس آئی منیر نسیم کو تفویض ہوئی۔ عام طور پر قتل کی تفتیش سب انسپکٹر لیول کے پولیس افسر کو دی جاتی ہے مگر ایک تو ہمارے ہاں سب انسپکٹر صاحبان لا ء اینڈ آرڈر کی وجہ سے کبھی رینجرر تو کبھی آئی جی آفس کی خدمت میں ہلکان رہتے تھے۔ دوسرے گانٹھ کے پورے یہ گھاگ افسر بخوبی جانتے کہ جو محنت اور توجہ وہ اس کیس پر لگائیں گے وہ ان کے لیے کچھ زیادہ بار آور ثابت نہ ہوگی کیوں کہ اس کا نتیجہ بالآخر کمپرومائز یعنی راضی نامہ نکلے گا اس سے کہیں زیادہ منافع بخش کام تو یہ ہے کہ وہ گینگ وار والوں کا ایک آدھا کنسائنمنٹ مقام مقصود تک آر پار کرادیں۔




ایس ایچ او صاحب کو علم تھا کہ خاکسار کے مراسم علی اشرف سے بہت گہرے ہیں۔مجھ ہیچ مدانی (حقیر) کو تفتیش کی سپردگی کے وقت اس افسر عالی مقام کی واحد ہدایت یہ تھی کہ قاتل پارٹی سے رقم اینٹھنی ہے۔مقدمہ کی کاروائی کچی رکھنی ہے۔کیوں کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ جرگہ ہی کرے گا،عدالت نہیں۔
رقم اینٹھنے کے لیے میں نے علی اشرف کو مشورہ دیا کہ وہ شارٹ ہوجائے۔جرگے کے معاملات سے ذرا لا تعلق رہے۔ مقامی بدمعاش رہنما شاہ میر جو مقتول پارٹی کی جانب سے آرہا تھا،اس کا
مطالبہ ہے کہ جرگے کے فیصلے میں ملنے والی رقم میں سے پچاس لاکھ روپے اسے ادا کیے جائیں۔میانوالی والوں کی قاتل پارٹی کا جو لڑکا اغوا ہوا تھا۔مجھے لگا کہ اس میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔لیاری سے آگے نکلیں تو ماڑی پور روڈ کراس کرتے ہی سائٹ کا علاقہ آتا ہے۔یہاں شاہ میر کا کافی ہولڈ تھا۔ خاکسار نے اس قتل کو بقول چینیوں کے، ایک جلتا ہوا گھر سمجھ کر لوٹنے کی مکمل منصوبہ بندی کی ۔اس سیاسی بستہ بے کے بدمعاش شاہ میر کو پیغام دیا کہ پیچھے ہی دھوبی گھاٹ ہے۔یہاں ان کی مخالف پارٹی کا ایسا زور ہے کہ لیاری والے بھی کان پکڑتے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ یہ گھات لگا کر ایک دن اس کو ٹپکادیں اور شہر میں لسانی فسادات کی نئی رو چل پڑے۔
اسے اس مہاجروں کی پارٹی کی انتقام پسندی اور اپنے لڑکوں پر کنٹرول کا بخوبی اندازہ تھا۔منشیات اور اسلحے کے کام جوئے کے دو اڈّّوں اور ایک منی بس اسٹینڈکے لیے ان علاقوں میں جہاں یہ مہاجر لڑکے حاوی تھے۔ وہ ا پنی مجرمانہ سرگر میوں کے لئے ا ن کی مناسب معاوضے پر مدد لیتا رہتا تھا۔جب اسے علاقے سے دور رہنے کا پیغام ملا تو بات خود ہی سامنے آگئی کہ وہ پچاس نہ سہی کم از کم پچیس لاکھ کا تو حقدار ہے کیوں کہ مقتول پارٹی محض اس کی وجہ سے ابھی تک قاتل لڑکوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا رہی۔ورنہ ان کا منصوبہ تو دس بارہ لڑکوں کو ڈھیر کرنے کا ہے۔خاکسار نے بہت آہستگی سے اسے یہ باور کرایا کہ یہ باجوڑ یا انگور اڈہ نہیں کراچی ہے۔یہ نہ ہو کہ میانوالی والے اس کی یہ بات سن کر اسے اغوا کرکے کسی ڈرم میں بند کر اوپر سے سیمنٹ بھرکر سیل کردیں۔اپنے کسی فش ٹرالر پر اسے لاد کر یہ ڈرم کراچی کے جزیرے شمش آباد سے آگے بیچ سمندر میں ایسے ڈبودیں کہ قیامت کے دن اس کی اینٹری میدان حشر میں تلاش بسیار کے بعد سب سے آخر میں ہو۔بزدل تھا،ڈر گیا۔


میں نے ہی علی اشرف کو بتایا کہ ہماری ٹیم کا ایک سپاہی کنڈیاں،میانوالی کا ہے۔ وہ خبر نکال کر لایا ہے کہ قاتل پارٹی کے لوگوں میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ایک تو رقم بہت زیادہ مانگی جارہی ہے۔دوسرے رشتہ یا مائترہ بھی تین لڑکیوں کا مانگ رہے ہیں۔بہتر یہ ہو گا کہ رقم آدھی ہوجائے اور مائترہ بھی رفیقہ کو چھوڑ کر دو بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کا ہو اور شادی بھی ان کی منظوری سے کی جائے۔تین کنواریاں اور ایک کروڑ زیادہ ہے۔
ان کے دماغ میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اس معاملے کے چند اہم پہلو ،پولیس اور عدالت، جرگے کے لیے لازم ہوگا کہ وہ فیصلہ صادر کرتے وقت ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔
خاکسار یعنی من کہ مسمی منیر نسیم نے اس دوران قاتل پارٹی پر دباؤ بڑھائے رکھا کہ آئی جی صاحب پر مقتول پارٹی کی پختون قومیت والی مشہور سیاسی جماعت اور پھل اور ٹرانسپورٹ انجمنوں کا بہت دباؤ ہے کہ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور پولیس شیشہ(آئس لیاری سے شہر بھر میں سپلائی کیا جانے والا میتھامیفاٹامائن کا نشہ جسے کرسٹل،میتھ،شابو کہتے ہیں اور جسے تمباکو۔ سونگھ کر یا سرنج کے ذریعے لیے جاتا ہے) چڑھا کر سو رہی ہے۔
میں نے سوچا کہ قاتل پارٹی کے ہوش اڑانے اور ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک جھوٹی موٹی خبر اخبار میں ڈال دیتے ہیں۔میڈیا اور چینل والوں سے ایک آدھ فون ڈی آئی جی صاحب کے دفتر کھڑکا دیتے ہیں مگر ایس۔ ایچ۔ او صاحب کہنے لگے پہلے ہی کیک چھوٹا ہے۔ مقتول پارٹی بھی اوپر سے ایک کروڑ کا منہ کھول کر بیٹھی ہے۔ڈی آئی جی آفس والے بھی ہیجڑوں کی طرح تالی پیٹتے نیگ بٹورنے آجائیں گے۔




سچ ہے پولیس اور فوج میں کندھے پر چاند، ستارے اور لہراتی تلواریں سجتی ہیں تب ہی مال بنانے اوردنیا داری کی صحیح سمجھ آتی ہے۔ ابا جی کا قول یاد آگیا کہ فوج اور پولیس میں عقل کا تعلق رینک سے ہے علم اور تجربے سے نہیں۔ اب مجھ ایک ستارہ ،ٹلا طیارہ، رنڈیوں اور مزار کے متولیوں سے تعیناتی کی بھیک مانگنے والے۔ اے۔ایس۔ آئی منیر نسیم کو کیا خبر کہ ڈی آئی جی آفس والے اور یہ میڈیا والے بھی کتنے بڑے پیدا گیر ہیں۔یہ تو آپ کو یاد ہے نا کہ خاکسار کا تعلق ٹُلّا برادری سے ہے۔ ہم چھج دو آبہ کے جٹوں کی ایک شاخ ہیں۔
آج کل ٹی وی چینلوں پرجو ایک وارننگ آتی ہے کہ بچے اور کمزور دل کے افراد اس ویڈیو کلپ کے مناظر کی وجہ سے یا تو چینل بدل لیں،یا ٹی وی بند کردیں تو میری درخواست ہے کہ اب اس کہانی میں ایک مقتل سجنے کو ہے لہذا جی دار قارئین اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ کمزور دل افراد اس کہانی کو یہاں چھوڑ کر ساحر لودھی کا کوئی چھچھورا پروگرام یا شبیر تو دیکھے گا یااس پولیسٹر جیمز بونڈ کا کریمنل موسٹ وانٹنک پروگرام دیکھ کر اپنے خون کی تحریک کو مناسب انداز میں گرم رکھ سکتے ہیں۔ جان لیں کہ زندگی کے بارے میں جو کچھ میڈیا دکھاتا ہے زندگی اس سے بہت ہی گھناؤنی، بے رحم اور سفاک ہے۔
زرینہ بھائی کے بعد شبلان سے تدفین کے بعد واپس آگئی تو اس کے ساتھ اس کا ایک ماموں درمان خان بھی تھا۔ علی اشرف کو لگا کہ یہ ماموں اس کے بھائی سلیمان سے مرنے سے پہلے حاصل شدہ بریفنگز کی بنیاد پر آیا تھا۔زرینہ کو علاقے میں اٹھنے بیٹھنے والے اپنے مقتول بھائی سلیمان اور خود علی اشرف کی وجہ سے گینگ کی کاروائیوں اور لمبی رقموں کا بہت پتہ تھا۔درمان خان کے افغانستان اور بلوچستان کے منشیات کے اسلحہ کے اسمگلروں سے تعلقات تھے۔اسی وجہ سے اسے ہمارے علاقے کی مشہور لیاری گینگ نے کھلے ہاتھوں سے خوش آمدید کہا۔
زرینہ کی شبلان سے واپسی کے کچھ دن بعد میری علی اشرف سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ افسردہ اور بے لطف دکھائی دیا کریدنے پر اس نے بتایا کہ زرینہ اور درمان کے تعلقات ماموں بھانجی سے زیادہ ہیں۔میں نے علی اشرف سے پوچھا کہ اس نے خود اس طرح کی کوئی حرکت دیکھی تو وہ کہنے لگا کہ یہ کوئی ورلڈ کپ فٹ بال کا فائنل تو ہے نہیں کی اسے دنیا کا میڈیا براہ راست نشر کرے۔ نہ ہی ٹوئیٹر اور فیس بک پر اسے ایسے کوئی اشارے ملے۔ نہ واٹس ایپ پر ان کا کوئی ایم ایم ایس یا ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے۔ اسے البتہ یہ سو فیصد یقین ہے کہ ایسا ہی کوئی چکر ہے کیوں کہ ایک تو اب زرینہ اسے بہت کم قریب آنے دیتی ہے۔سال بھر سے اوپر ہونے آیا اس نے گھر کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا۔



ایک دن اچانک زرینہ کی مہربانی کے بادل ٹوٹ کر برسے۔اس کی ضد تھی علی اشرف اسے نئے گھر کے لیے ایک فرج خرید دے ۔پرانا کرایہ معاف کردے۔پیار اور سپردگی کے ایسے ہی لمحات تھے کہ اس نے علی اشرف کو کہا ہم پختون اپنے پختونوں میں ایسے ہی خوش رہتے ہیں جیسے پھول گلستان اور مچھلی دریا میں رہتی ہے۔تمہارا پیار ہم کو انڈہ برگر جیسا لگتا ہے جب کہ ہم کو ہمیشہ سے نان، پیاز،افغانی تکہ اور چپلی کباب پسند ہے۔
علی اشرف نے اس لمحات سپردگی میں تھوڑے کو بہت سمجھا اور زرینہ کو بہت خوش اسلوبی سے جانے دیا۔وہ شاہ میر کی داشتہ بن کر ضیا کالونی سائٹ کے علاقے میں شفٹ ہو گئی۔
جرگے کی بیٹھک میں دونوں طرف کے بڑے بیٹھے مگر شاہ میر کو جب بلانے پر ضد کی گئی تو کسی نے بتایا کہ پولیس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اس علاقے میں اُسے یہاں آنے سے منع کردیا ہے کیوں کہ یہ قدم شہر کے امن و امان کے تناظر میں بہتر سمجھا گیا۔علی اشرف نے بتایا کہ اب اس کی جگہ درمان خان نمائندگی کرے گا۔جرگے کی یہ بیٹھکیں طویل ہوگئیں۔ روزانہ قاتل پارٹی کی جانب سے مطالبات میں کانٹ چھانٹ کی جاتی تھی تو مقتول پارٹی کی جانب سے اغواء، بدلے اور قتل کی دھمکیوں کا از سر ِنو اجرا ہوجاتا تھا۔
اس دوران قتل و غارت گری کی ایک اور اہم واردات ہوئی۔ہمارے لیاری کے ارد گرد جو بڑے تجارتی علاقے تھے وہاں ایک مذہبی جماعت اور ایک سیاسی جماعت میں اکثر بہت تناؤ رہتا تھا۔معاملہ بھتے کا تھا۔نظریات کا کوئی تصادم نہ تھا۔ ان پارٹیوں کے بارے میں خفیہ اداروں میں یہ تاثر عام تھا کہ دونوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا۔ان سے ان کا چاہنے والا یہ بات کرتا تو وہ کہتے تھے کہ الذوالفقار،شاہ بندر اور طیارے کے اغوا کے ہم پر تو کوئی الزام نہ تھے۔سکھوں کی لسٹیں ہم نے تو راجیو گاندھی کو نہیں دیں تھیں۔ ہماری شوگر ملوں میں تو بھارتی جاسوس ملازم نہیں ہوتے تھے۔مودی اور اس کے سو سے زائد ساتھیوں کو نواسی کی شادی پر بغیر ویزہ ہم نے تو پاکستان نہیں بلایا تھا۔ ان جماعتوں کے بڑے یہ جوابی بیانیہ دیتے رہتے تھے کہ ملک کی اہم خفیہ ایجنسیوں میں سپاہی اللہ دتہ قسم کے کارندے جو تھڑوں پر بیٹھ کر رپورٹیں بنادیتے ہیں وہ ان کے نیم خواندہ بڑے افسرانگریزی کا تڑکا لگا کرکے اسلام آباد اور پنڈی بھیج دیتے ہیں۔پنجاب میں ان کو یہ سب کچھ نہیں دکھائی دیتا۔


لیاری گینگ والوں سے اسی مذہبی جماعت نے اسلحے کے چھ کریٹس خریدے،مختلف قسم کا اسلحہ۔ٹینس کے گیند جیسے بم جنہیں ایوان کہتے ہیں،نائن ایم ایم کے پستول اور بلٹ پروف جیکٹیں۔
درمان خان کو فہرست دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہ پہاڑوں کی گوریلا جنگ کے اسلحے کے استعمال کے تناظر میں کراچی کی دہشت گردی کو دیکھ رہا تھا۔نائن ایم ایم کا پستول اور ایوان بم اس کو بہت زنانہ ہتھیار لگے۔
اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ لڑکوں کے کرکٹ بیگ میں پڑے یہ بم بادی النظر میں سرخ ٹیپ سے بندھی گیند لگتے تھے اور نائن۔ایم۔ایم پستول اب کراچی کے ٹارگیٹ کلرز اور مسلح ڈکیتی کرنے والوں کا من پسند ہتھیار یعنی Weapon of Choice تھا۔
سودے کی ترسیل میں کسی اور سیاسی دہشت گرد گروپ نے مال بھی لوٹا اور لڑکے جو سودا لے کر اپنے علاقے کی طرف جارہے تھے ان کو مار بھی دیا گیا۔عام حالت میں یہ کوئی فکر کی بات نہ تھی مگر
گینگ والوں کو سودا خریدنے والوں کی شکایت موصول ہوئی کہ اسلحہ کی لوٹ مار اور ان کے تین لڑکوں کی ہلاکت میں اس امر کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ مخبری لیاری کے اندر ان کے کسی کارندے نے ہی کی ہو تو انہوں نے سندھ پولیس کی طرح اسے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا۔
مافیا والے اس معاملے میں بہت حساس اور فکر مند رہتے ہیں۔ یہ ان کی بقا سے براہ راست جڑا مسئلہ ہوتا ہے ۔انہوں نے بہت آہستگی سے گینگ کے اسلحہ فروخت کرنے والے آپریشن کی نگرانی کرنے والے اپنے خفیہ ایجنسی کے دوستوں کے ذریعے پتہ چلایا کہ درمان خان کے سیل فون سے اسلحہ کی ترسیل کے وقت کس کس کو فون ہوئے تھے۔درمان خان کی دھوکہ دہی کی اطلاع گینگ والوں نے جماعت کو دی۔وہ اس دھوکہ دہی کی تلافی کے طور پر ایوان بم کا ایک کریٹ اور بیس نائن ایم ایم پستول دینے پر راضی ہوگئے تھے۔ درمان خان کا کام انہی مذہبی جماعت والے لڑکوں نے ضیا کالونی میں اس وقت اتارا جب وہ جمعہ کی مسجد پڑھ کر باہر نکل رہا تھا۔زرینہ سج دھج کر اس کے لیے بیٹھی تھی۔وہ اسے نو پلیکس سینما فیز ایٹ میں فلم دکھانے لے جانے والا تھا،مگر فلم سے پہلے لطف و کرم کے دیگر سلسلے دراز ہونے تھے کہ اب تک زرینہ نے میک اپ تو کررکھا تھا مگر کپڑے نہیں تبدیل کیے تھے۔
درمان خان کی موت کا شبہ بھی میاں والی گروپ کی طرف گیا۔جس کے نتیجے میں سر شام ہی ان کے دو لڑکے اغوا ہوگئے۔بہت آہستگی سے مقتول پارٹی کو سمجھایا گیا کہ اس میں قاتل گروپ کا کوئی قصور نہ تھا۔درمان خان کو مذہبی جماعت والوں نے مخبری اور اپنے لڑکوں کے قتل میں معاونت کے الزام میں مارا تھا۔مزید مذاکرات کے نتیجے میں یہ بات جب مقتول پارٹی تک پہنچی تو وہ جان گئے کہ درمان خان کا مسئلہ گینگ وار سے منسلک تھا۔سلیمان کے قتل سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔اس بات کے عام ہوتے ہی مغوی لڑکے بنِا کوئی آزار اٹھا ئے واپس آگئے۔
سلیمان کے قتل سے جڑی مخاصمت اور باہمی دشمنی کے معاملات نمٹانے کے لیے،حالات جلد نارمل کرنے کے لیے،جرگہ از سر نو گرم ہوا۔یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔مقتول پارٹی خود بھی ذرا ڈھل مل تھی ان کا درمان خان بھی مارا گیا۔زرینہ ایک دفعہ پھر لاش کے ساتھ شبلان گئی ہوئی تھی۔ اس قتل کا معاملہ سلیمان کے قتل سے بہت جداگانہ نوعیت کا تھا۔ان کی قوم کے افراد جانتے تھے کہ درمان خان نے غداری کا ثبوت دیا اور کراچی کی مافیا،سیاسی جماعتوں سب کا منترہ ایک ہی ہے کہ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔
دوسری طرف تھانہ کلاکوٹ کے موجودہ ایس ایچ او مظفر گڑھ کے سہیل جلبانی صاحب تھے، انہیں اس بات کا خدشہ ہوچلا تھا کہ بدین سے یہاں ایک پولیس افسر کراچی رینج میں آیا تھا۔سال بھر سے وہ ہوم منسٹر صاحب کے ساتھ سکیورٹی ڈیوٹی میں شامل تھا۔اسی وجہ سے ہمارے علاقے کی طاقتور ترین حکومتی گینگ کے بڑوں سے رابطے میں آگیا تھا اور کوئی دن جاتے ہیں کہ وہ کلاکوٹ تھانے کا ایس ایچ او لگ جائے گا۔
خاکسار ہی نے جلبانی انسپکٹر کو یہ ترکیب سجھائی کہ وہ علاقے کی گینگ کے کسی اہم فرد کے ذریعے کے پی کے کسی اہم فرد سے رابطہ کریں جو اپنی ہم زبان مقتول پارٹی پر دباؤ ڈالے کہ وہ ہماری طے کردہ شرائط مان لیں۔ گینگ اپنی جانب سے علاقے کے جس معزز یا پولیس افسر کا نام بتائے اسے مقتول پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے اس معاملے کی نگرانی سونپ دیں۔گینگ کا سودا شاہ میر کی وجہ سے خراب ہوا۔اس نے پرائے جھگڑے میں جو دو پارٹیوں کا تھا۔جس کا ہمارے لیاری کے علاقے سے کوئی تعلق بھی نہ تھا ان کے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر بلاوجہ کی چراند (معاملہ کا بگڑ جانا) کردی۔ اس وجہ سے کراچی کی دو بڑی پارٹیوں کی ٹھوں ٹھاں میں ہمارا بھی رول بن گیا۔

خاکسار کا منصوبہ تھا کہ ایک دفعہ یہ کلئیرنس خیبر پختون خوا سے آگئی تو وہ علی اشرف کو آگے کردے گا۔رقم اور لڑکیاں دونوں ہی علی اشرف کے ذریعے ہاتھ آجائیں گے۔دو دن کے بعد ایس ایچ او صاحب نے مجھے وہاں گینگ والوں کے پاس بھجوادیا۔ان کے پاس کرم ایجنسی کے کچھ معززین بیٹھے تھے انہوں نے کہا اگر ایک کروڑ روپے میں جرگہ نمٹ جائے تو اچھا ہے۔شکر ہے گینگ والے سمجھدار تھے انہوں نے کہا تیس لاکھ اس میں پولیس کا ہوگا۔پچاس لاکھ مقتول کی بہن کو ملے گا اور دس لاکھ شاہ میر اور دس لاکھ دعوت کا۔شرائط اس کمرے سے باہر کہیں نہیں جائیں گی۔قاتل پارٹی سے پولیس کا مقرر کردہ نمائندہ جو بھی شرائط طے کرے گا اسے مقتول پارٹی کی جانب سے فائنل مطالبات سمجھا جائے گا۔



تمام معاملات تین سے چار دن میں طے ہوں گے۔ پچاس لاکھ کی رقم شاہ میر یا اگر زرینہ اصرار کرے تو علی اشرف کے ذریعے اسے ادا کی جائے گی۔
خاکسار نے جب علی اشرف کو مقتول پارٹی کی جانب سے ایس ایچ اوسہیل جلبانی کی منظوری سے نمائندہ مقرر کیا تو ظالم نے رفیقہ اور ارم کے سنے ہوئے سراپے ایسے بیان کیے کہ اہم اہل درد کو چکوالیوں نے لوٹ لیا۔ہم نے طے کیا کہ میں ارم کو اور علی اشرف رفیقہ کو بیوی بنالے گا۔ایک کروڑ روپے کے ساتھ اب ارم اور رفیقہ کی بات بھی ڈال دی گئی۔تابش خان کی بیوی مرچکی تھی ارم اس کی بیٹی تھی اور رفیقہ کی بیوہ ماں بمشکل رضامند ہوئی مگر وہ تین لاکھ روپے نقد اور اپنی بیٹی کی شادی اپنے مخالف غیر ذات کے کسی غریب لڑکے سے بیاہنے کی بجائے میرے دوست علی اشرف سے جو سدوال کازمین دار تھا،بیاہنے پر راضی ہوگئی تو ہم نے ہیڈکانسٹیبل منان کی مدد سے اسی طرح رفیقہ کو نکالا جس طرح سپر ہائی وے سے نوراں کو غائب کیا تھا۔
وہی ایمبولنس، لیاری جنرل ہسپتال وہ درد کی شکایت لے کر ماں کے معالجے کے لیے ساتھ گئی تھی۔اندر کھڑی ایمبولنس میں وہ ماں سے گلے لگ کر سوار ہوئی اور یہ جا وہ جا،تین دن بعد وہ عبدالمنان کے سرجانی والے گھر پر علی اشرف کی بیوی بن گئی۔علی اشرف اسے کراچی سے سکھر ریل میں وہاں سے اسلام آباد ہوائی جہاز میں اور سدوال کرائے کی ٹیکسی میں لے گیا۔ہفتے بھر بعد وہ جب واپس کراچی آیا تو اعلان یہ ہوا کہ اس کے تایا کا گاؤں کوٹ عیسی میں انتقال ہوگیا تھا۔اس لیے وہ گاؤں گیا تھا۔چہلم پر شاید وہ واپس جائے۔
مقتول پارٹی کو جس طرح علی اشرف نے جی جان سے منایا اور جتنی جاں فشانی سے وہ واپس زرینہ کو لاکر اپنے ایک گودام کے عیش کدے میں اس ڈھیلے ڈھالے انتظام کے تحت دوبارہ بسایا کہ وہ بہ یک وقت شاہ میر اور اس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ مکسڈ ڈبل کھیلتی تھی۔
چکوال سے آٹھ کلومیٹر دور سدوال میں رفیقہ سے علی اشرف نے محبت کے کئی سومنات سر کیے۔لطف و حجاب کے کئی سنہرے بت اپنی ضرب وحشت سے توڑ ڈالے۔ وہ اور رفیقہ جب رات کے درمیاں پہر میں عریاں اور بے جھجک ایک دوسرے کو دستیاب ہوتے تو علی اشرف کو بستر میں ایسا لگتا تھا کہ دیہاتی کوکھ سے جنم لینے والی مگر شہر کی بے باک فضا میں پلنے بڑھنے والی اسم بامسمی(اپنے نام جیسی)رفیقہ ایسا چکن پیٹیز ہے جسے وہ املی اور پودینے کے ساتھ کھارہا ہے۔ بکری کی ایک ایسی تندوری ٹانگ ہے جسے وہ ساٹھ سال پرانی Macallan کمپنی کی وہسکی کے ساتھ وہ لالیک کرسٹل ڈی کینٹر بوتل سے جرعہ جرعہ کرکے پی رہا ہے یا وہ ایسا بیکڈ الاسکا (وہ کیک جس پر آئس کریم انڈیل کر اس کے ساتھ انڈہ پھینٹ کر چینی،لیموں،یا کسی اور فروٹ کا Meringue(میرانگ) پھیلادیا جاتا ہے ) ہے جس پر وہ گرما گرم دیسی گھی سے بنی ہوئی سوئیاں انڈیل کر اس کا بکلاوا بنا کر گھٹکائے چلا جاتا ہے۔
اولیں رفاقت کی طغیانی ء سرور میں ماہانہ وقفہ آیا تو وہ اپنی نوراں سے ملنے چلا گیا جو کوٹ عیسی شاہ میں آباد تھی۔علی اشرف کا خیال تھا کہ ساڑھے تین گھنٹے اور پونے دو سو کلومیٹرکی مسافت گاؤں کی عورت کے لیے بہت ہوتی ہے اسے سوتن رفیقہ کی آمد کی اطلاع نہ ہوگی۔اسے اطلاع تو فوراً ہی مل گئی تھی۔اس دن علی اشرف کا کزن کامل حسین سدوال میں تھا۔ نوراں میں کامل حسین کو اپنی بیوی کی موت کے بعد ہی دل چسپی ہوچلی تھی۔اسی نے علی اشرف کی زمینداری سدوال میں سنبھال رکھی تھی۔نوراں اپنے دو بچوں کے ساتھ کامل حسین کی دو بیٹیوں کو بھی پال پوس رہی تھی۔
علی اشرف کا خیال تھا کہ نوراں کراچی میں اس کے غیر ازدواجی معمولات و تعلقات سے بے خبر ہوگی۔ایسا نہیں تھا۔ایزی لوڈ کی وجہ سے نوراں نے اپنا ایک جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کرلیا تھا۔زرینہ سے لے کر حرم سرا کی دیگر بستر زادیوں کے بارے میں وہ بڑی با خبر تھی۔ذہین عورت تھی۔جانتی تھی کہ جس دن اسے کراچی سے یہاں کوٹ عیسی لاکر بسایا اس کی شادی کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوگیا تھا۔کراچی میں پڑوسنیں اسے کہتی تھیں کہ پانچ سال بعد میاں بیوی بھائی بہن بن جاتے ہیں۔وہ اپنے جسم کے نشیب و فراز، دلفریب گولائیوں اور چمکتی چکناہٹ پر نگاہ ڈالتی تو اسے یاد پڑتا تھا کہ کم از کم اس کے دس سال قیام کے دوران علی اشرف نے اسے بستر یا باہر بہن نہیں سمجھا۔قیمتی رکھیل کی طرح ہی برتا۔معاملہ اس وقت بگڑا جب یہاں رفیقہ آگئی۔
چالاک عورت نے فیصلہ کیا کہ علی اشرف کو مارنے سے زمین مل جائے گی اور رفیقہ کو مارنے سے سوتن سے چھٹکارا ہوجائے گا۔۔وہ اور کامل بہت دن تک مختلف منصوبے بناتے رہے کہ کیا رفیقہ کو مارنے کا کوئی فائدہ ہے۔کم سن ہونے کے ناطے بس ایک خوف دامن گیر رہتا تھا کہیں اس کی ماں جائداد میں حصہ نہ مانگ لے مگر یہاں سدوال اور چکوال میں میاں والی والوں کو کسی دفتر میں رسائی نہ تھی۔وراثت کا معاملہ بھی کمزور تھا کہ علی اشرف کو اسے لائے ہوئے بمشکل تین ماہ ہوئے تھے۔بہتر ہوگا کہ اس کو زندہ چھوڑ دیا جائے۔وہ بھاگ جائے گی۔بلکہ ممکن ہوا تو وہ اور کامل اسے خود اس کی ماں کے پاس کراچی چھوڑ آٗئیں گے۔
علی اشرف کو رجھانے کا نیا سوانگ رچایا گیا۔نوراں نے کامل کو سمجھا کر دوری اختیار کی۔میلہ آنے کو تھا۔علی اشرف کو اب دو بدن میسر تھے۔موبائیل پر دیکھی پورن موویز کی جزئیات پر عمل درآمد کا بھر پور موقع ملا۔دن میلے کا تھا،کھانے اور دیگر تام جھام،نوارں نے ڈھول بھی بجایا اور علی اشرف کو سامنے کھڑکی میں بٹھا کر دیگر عورتوں کے سامنے ناچی بھی۔رات کے پہلے پہر جب تینوں ادھ موئے تھے رفیقہ کو بے ہوش کیا گیا۔علی اشرف کا کام دودھ میں ملے اس زہر نے پہلے ہی پورا کردیا تھا جو وصال کے بعد ایک ہی سانس میں گھٹکا گیا۔برہنہ رفیقہ کو وہ اپنے سینے سے چپکائے بہت دیر سوئی رہی پھر اسے ایک طرف کرکے کلوروفارم والا رومال منہ پر رکھ کر بے ہوش کردیا۔ وہی سامنے کمرے سے نکل کر یہ رومال لایا تھا ۔کلورو فارم بھی کامل لایا تھا اور علی اشرف کے منہ پر تکیہ رکھ کر بھی اسی نے دبایا۔

ارم اب بھی میری بیوی ہے۔میری ترقی ہوگئی ہے۔رفیقہ کی شادی البتہ منان سے ہوگئی۔وہ ان دنوں دوبارہ حاملہ ہے۔ایک بچہ بھی ہے۔مجھے شک ہے یہ میرے دوست علی اشرف کی نشانی ہے۔
ختم شُد!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں