دیوالی روشنی کا تیوہار۔۔۔شاہد کمال

اس دنیا کے دیگر ممالک میں جو چیزیں بھارت کو سب سے منفرد اور نمایاں شناخت عطا کرتی ہیں وہ یہاں کے مختلف مذاہب ومسالک کے رنگا رنگ تیوہار ہیں۔یہاں پر منایا جانے والا ہر تیوہار اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ بھارت کی تہذیب و ثقافت کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔چونکہ یہاں کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والے تمام مذاہب کی بنیادی ثقافت میں خالص ہندوستانیت رچی بسی ہوئی ہے۔جس کی جھلک یہاں کے تیوہاروں میں نمایاں طور پردیکھی جاسکتی ہے۔اس عظیم بھارت میں منائے جانے والے کچھ تیوہار اپنی انفرادیت کے لئے ساری دنیا میں بہت مشہور ہیں ۔ جیسے عید، بقرہ عید،محرم،ہولی،دسہرا،رکشا بندھن،جنم آشٹمی،اور دیوالی۔

دیوالی جسے ہم روشنی کا تیوہار کہتے ہیں،اصل میں اس مہان بھارت کی ہزاروں سالہ تہذیب کی دیومالائی اساطیر کی ایک قدیم روایت ہے ۔ یہ تیوہارشمشی و قمری ہندی کلینڈر کے مطابق ’’کارتک ‘‘ کے مہینے ، اور ’’اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات میں منایا جاتا ہے۔’’گریگورین‘‘ کلینڈر کے مطابق یہ تیوہاراکتوبر یا نومبر کے مہینے کی درمیانی تاریخوں میں پڑتا ہے۔

مصنف:شاہد کمال

سناتن دھرم سے تعلق رکھنے والے افراد کے نزدیک اس تیوہار کی بڑی اہمیت ہے۔اس لئے پوری دنیا میں جہاں بھی سناتن دھرم سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں وہ آج بھی اس تیوہار کو بڑے عقیدت واحترام کے ساتھ مناتے ہیں۔روشنی کے اس تیوہار پر گفتگو کرنے کے ساتھ میں ’’دیوالی سے پہلے اور بعد میں ادا کی جانے والی کچھ اہم رسومات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ۔دیوالی سے دودن پہلے ’’دھن تیرس‘‘ کی ایک رسم بہت مشہور ہے۔ خاص کر اس دن لوگ سونے چاندی سے بنے ہوئے مختلف قسم کے زیورات اور برتنوں کی خریدی کرتے ہیں ۔لیکن جو سونے اور چاندی سے بنے ہوئے زیورات وظروف کو خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے ،وہ روز مرہ کے استعمال میں آنے والی گھریلو اشیا چاہے وہ تانبے ،پیتل یا کسی اور دھات کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا پیالہ ہی کیوں نہ ہو اس کو خریدکر اپنے گھر لاتے ہیں۔اس عمل کو اس رسم کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔دیوالی کے دوسرے دن ادا کی جانے والی رسم کو ’’جم گھٹ‘‘ کہتے ہیں اس دن خاص طور سے لوگ اپنے گھروں میں سبزی پوری،پنیر ،اور کھیر جیسی کھانے والی چیزیں بناتے ہیں جسے ’’پکا کھانا‘‘ کہا جاتا ہے۔دیوالی کے تیسرے دن جو رسم ادا کی جاتی ہے اسے ’’بھیا دوج‘‘ کہتے ہیں اسے ’’یم دُتیا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔ اس پاکیزہ رسم کی ادائیگی کے لئے بہنیں اپنے بھائیوں کی لمبی عمر کے لئے ’’برت‘‘ رکھتی ہیں ،جس میں ایک خاص قسم عبادت کی جاتی ہے۔
لیکن ان تمام رسومات میں دیوالی کے روز ادا کی جانے والی کچھ رسمیں خاص ہیں جس کے بغیر دیوالی کا تصور ممکن نہیں۔روشنی کے اس تیوہار میں خاص کر لوگ اپنے گھروں کی مرمت ،صاف صفائی ، رنگ و روغن سے تزئین کاری کرتے ہیں، اور شام ہوتے ہی مٹی سے بنے ہوئے دیے قطار در قطار روشن کئے جاتے ہیں اور دیگر اقسام کی روشنیوں سے بھی اپنے گھروں ،دوکانوں ،بازاروں ،چوراہوں اورچوباروں کو سجاتے ہیں ، اور اپنی مذہبی عبادت گاہوں میں بھی چراغاں کرتے ہیں۔ایک طرف آتش بازی کرتے ہوئی نوجوانوں کا گروہ اور دوسری طرف پھلجھڑیاں چھڑاتے ہوئے بچوں کی ٹولیاں ،دیوالی کی ان خوشیوں کے دوشیزگی کے جوبن میں اور اضافہ کردیتے ہیں۔

خاص کر اپنے اپنے خانوادے کے لوگ ایک دوسرے کو تحفے اور تحائف بھی دیتے ہیں اور لوگوں میں  مٹھائیاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ روشنی کے اس تیوہار کے ہر لمحے کو یادگار بنانے کے لئے اپنی بے پناہ خوشی اور شادمانی کا اظہار بڑے پرُجوش اور پُرتپاک انداز میں کرتے ہیں۔ لوگ اپنی مذہبی عبادت گاہوں اور گھروں میں دولت و خوشحالی کی دیوی لکشمی اور گنیش جی کی پوجا بھی کرتے ہیں۔لکشمی اور گنیش کی جن مورتیوں کی پوجا دیوالی کے دن کی جاتی ہے ، ان مورتیوں کی خریداری خاص طور پر ’’دھن تیرس‘‘ کے دن ہی کی جاتی ہے،اس پوجا میں استعمال ہونے والی اشیا میں خاص کر خریف کی فصل یعنی دھان سے تیار کی گئی ’’کھیل‘‘ چیوڑے‘‘ کے ساتھ شکر کے بنے ہوئے بتاشے ،گڑ کے سے بنے ہوئے ’’گٹے‘‘ گھر کی بنی یا بازار سے خریدی ہوئی مٹھائیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
روشنی کے  اس تیوہار کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔سناتن دھرم میں مختلف ’’پنتھ‘‘ سے تعلق رکھنے والے اپنے الگ الگ عقائد کی بنیاد پر اس تیوہار کو مناتے ہیں۔ہندو مت میں یہ مانیتا ہے کہ جب شری رام جی چودہ سال کا بن واس ختم کرکے اپنے راج محل واپس آئے تو ایودھیا واسیوں نے پوری ایودھیا نگری کو دیپوں سے روشن کرکے ان کا استقبال کیا اور خوشیاں منائیں۔بعض ہندو مانیتائیں یہ بھی ہیں کہ ہندوستان میں رونما ہونے والے عظیم رزمیہ مہابھارت کے اہم کردار ’’پانڈؤں‘‘ کے ’’بارہ سال بن باس ‘‘اور ایک سال کے ’’اگیات واس‘‘ سے لوٹنے کے بعد دیوالی کا جشن مناکر لوگوں نے اپنی آستھا اور عقیدت کا اظہار کیا۔
جین دھرم میں بھی اس دیوالی کی بڑی اہمیت ہے ،جین دھرم کی مقدس کتاب’’کلپ سوتر‘‘ جسے آچاریہ ’’بھدرباہو‘‘ نے تیسری صدی قمری میں لکھی ،ان کے تحریر کے مطابق’’ کارتک چتردشی ‘‘کے دن ’’پاواپوری‘‘ نامی جگہ پر جین دھرم کے پیشوا ’’مہاویر کو‘‘ نروان‘‘ حاصل ہوا ،اس لئے ان کی یاد میں دیوالی کے اس ’’مہا پرو ‘‘ کو بڑی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکھ مت کے حساب سے جب ’’گروہرگوندسنگھ جی‘‘، ’’نورالدین جہانگیر‘‘کی قید گوالیر سے کچھ ہندو راجاؤں کو آزاد کراکے ’’امرتسر‘‘ واپس آئے توسکھ قوم کے بہت سے لوگ ’’بندی چھور دیوس‘‘ کے نام سے دیوالی کا یہ تیوہار آج بڑے عقیدت واحترام کے ساتھ مناتے ہیں۔لیکن روشنی کے اس تیوہار کی اپنی ایک روحانی حیثیت بھی ہے ، چونکہ یہ تیوہار اندھیرے پر روشنی ،جھوٹ پر سچائی،نادانی پر عقل اورناامیدی پر امید کی فتح کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اسے روشنی کا تیہوار اس لئے کہا جاتا ہے ،چونکہ روشنی سچائی،حق گوئی،بیباکی ،عدل و انصاف، خوشی،سرخوشی اور زندگی کی ایک زندہ علامت کا نام ہے۔روشنی کے بغیر ہمارے مہذب سماج میں کسی اخلاقی اور انسانی قدروں کی توقع محض ایک لایعنی تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔تمام بھارت واسیوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک اس عظیم بھارت کی عظمتوں کی اس پراچیر پر آستھا اور عقیدت کا یہ دیا روشن رہے گاتب تک ہمیں بھارت کے گورو شالی اتحاس کی یاد دلاتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply