پاکستانیت خطرے میں ۔۔۔۔۔۔۔وسیم یوسف

مائیکل دو ہفتوں کی ٹریننگ دینے یورپ سے آیا ہوا ہے آج دن کے کھانے پر ہلکی گپ شپ ہوئی ،میں نے استفسار کیا کہ انکے ہاں سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر کن چیزوں میں زیادہ دلچسپی لی جاتی ہے؟ وہ کہنے لگا زیادہ تر رابطوں یا کمیونٹی کے کاموں کے لیے یا پھر خرید و فروخت کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے اور شام کے اوقات میں ٹیلی ویژن مزاح، ڈاکومنٹری یا پھر خبروں کے لیے دیکھا جاتا ہے اس نے تھوڑی کے بعد یہی سوال مجھ سے کر دیا ۔۔۔ میں نے بولنے سے پہلے ہی راہ فرار اختیار کر لی۔۔۔۔
آخر بتاتا بھی تو کیا؟

یہی کہ ہمارے سوشل میڈیا پر دن بھر سیاسی پوسٹوں کی بھرمار ہوتی ہے یہ عمل صبح صادق سے شروع ہوکر رات کے آخری پہر تک جاری رہتا ہے، مختلف جماعتوں کے حامی ایک دوسرے پر گالیوں سے آلود ہ تیر چلاتےہیں، شام کو فریقین ایک دوسرےکی کردار کشی کرنے کیلئے واہیات قسم کے ٹرینڈز چلاتے ہیں پھر اپنے قائدین کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں، اردو اور انگریزی میں ان کی شان میں وہ قصیدے پڑھے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ اور مخالفت میں ایسے ایسے القابات کہ  شیطان بھی شرما جائے۔ ٹیلی ویژن چینل سیاسی تھیٹرز پیش کرتے ہیں، جو تین چار گھنٹے تک جاری رہتے ہیں۔
پاکستانیوں کو کچھ آتا ہو یا نہ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو سیاسی سمجھ بوجھ میں مات نہیں دی جاسکتی، ٹیلی ویژن پر بیٹھے مہنگے اینکر اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ فریقین کے بیچ تناؤبرقرار رکھا جا سکےتاکہ سامعین محظوظ ہو سکیں، ریٹنگ بڑھتی رہے اور ساتھ ساتھ مالکان کی کمائی بھی۔

ہمارے ہاں زیادہ تر افراد کسی نہ کسی پارٹی پہ مر مٹتے ہیں مگر صرف پاکستان سے منسلک لوگ شاید تعداد میں بہت کم ہیں ۔ایک جماعت والے دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سر توڑ کوششیں  کرتے ہیں یوں حکومتی تعمیری اقدامات بھی مخالف جماعتوں کی بے جا تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور اسی طرح حکومت کے غلط اقدامات کو حامیوں کی بھرپور حمایت ملتی ہے ۔

اس دھرتی میں بسنے والوں کی ذہنی زرخیزی میں کوئی شک و شبہ نہیں مگر مسئلہ اتنا سا ہے کہ عام آدمی ہو یا کوئی ادارہ اپنے کام کا اسے پتا ہو یا نہ ہو، دوسروں کے کام کا ماہر ہوتا ہے،”اپنے کام سے کام رکھیں” والے اصول سے اتنی ہی ناراضگی ہے جتنی امریکہ سے ،بہرحال اپنے اکثر اصولوں پر اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک کوئی عہدہ اور مال ہاتھ نہ لگ جائے پھر چاہے قدکاٹھ والا سیاستدان  ہو ،تاجر ہو یا مولوی صاحب، ایک ہی حمام کے ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملک خداداد میں ان سب کے علاوہ ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جن کی سیاسی وابستگی اور اخلاقی پستی اتنی آگے نہیں بڑھتی کہ ان کےاندرکا ایمان اورپاکستان خطرے میں پڑ جائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply