ایک سیکولر، کم علم ہوسکتا ہے پر منافق نہیں۔۔۔سلیم جاوید

لبرل اور سیکولر میں بڑا فرق ہے-لبرل، کہتا ہے کہ ہم اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں آزاد ہیں-مجھے آپ سے اور آپکو مجھ سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے-کھالے،پی لے،موج اُڑا لے۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست-

سیکولرمگر یہ کہتا ہے،آؤ، ایک مہذب معاشرے کو وجود میں لانے کےلئے، ہم مکالمہ کریں-اگر ایک دوسرے کی دلیل سے مطمئن نہ ہوسکے تب بھی ایسا پرامن راستہ نکالیں گے جس میں بقائےباہمی سے زندگی گزار سکیں-

ایک سیکولر آدمی، امن کا داعی ہوتا ہے،پس اپنی سوسائٹی سے بیگانہ نہیں رہ سکتا- سیکولرازم اور جمہوریت، آپس میں لازم و ملزوم ہیں-

تجزیے، کسی وقوعے سے جنم لیتے ہیں-ایک سیکولر، کسی وقوعے پر اپنے تاثرات دینے سے پہلے، مقدوربھر، ہر زاویئے سے اسکا جائزہ لیتا ہے-اس تحقیق میں، کم علمی یا بھول چوک تو ہوسکتی ہے مگر منافقت نہیں-اس لئے کہ سیکولر آدمی، معاشرے کے کسی طبقے سے تعصب رکھتا ہے نہ کسی سے ناانصافی برداشت کرتا ہے-

مگر،پختونخوا کے  سکولوں میں بچوں کے قتل عام کے ضمن میں سیکولرازم کے داعی چند لکھاریوں نے،خود ہی جج بن کر، پہلے قاتل نامزد کیے، پھر اس بنیاد پر   ملّاؤں کی مذمت میں مرصع بیانئے لکھ کر،ملفوف انداز میں اسلام کو خونخواری کی علت قرار دینے کی کوشش کی-

ملاّ، برہمن ہیں یا شودر، تعداد میں کم ہیں یا زیادہ۔مگر ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ضرور ہے- اپنی ذاتی رائے رکھنا اور بات ہے مگر کسی طبقہ کی تذلیل کرنا، چاہے وہ احمدی ہی کیوں نہ ہوں،کم از کم میرے سیکولرازم سے تو بعید ہے-

تجزیہ کرنے اور نتیجہ نکالنے سے پہلے دوبنیادی معلومات اکٹھی کریں-قاتلوں کی شناخت اور بربریت کی وجوہات-

ایک سیکولر کو کیسے تجزیہ کرنا چاہیے؟ اس پر اپنا موقف واضح کرنے میں آرمی سکول پشاورکے سانحے کی مثال لیتا ہوں-

جب قاتل و مقتول دنیا میں نہ رہے ،اور فوج نے فوراً چند سہولت کار پکڑ لئے جنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ ٹی ٹی پی کی کارروائی  ہے،تو کوئی  وجہ نہیں بنتی کہ فوج کی اس خبر پہ اعتبار نہ کیا جائے-

مہذب ملکوں میں سرکاری، بالخصوص فوجی ایجنسیاں ہی تو بتاتی ہیں کہ قاتل کون تھے؟ شومئی  قسمت کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت، اپنی ایجنسی کی اطلاع کو قابل اعتماد نہیں سمجھتی-اس لئے کہ اس محکمہ کا ٹریک ریکارڈ مشکوک ہے-ماضی یہ ہے کہ بنگال میں 90 ہزار فوج ہتھیار ڈال رہی تھی اور یہ محکمہ، ہماری فتح کی ریلیز جاری کر رہا تھا-حال یہ ہے کہ بیان حلفی تھا” پاکستانی ائیرپورٹ، امیریکیوں کو نہیں دیے گئے” اور بعد میں پتہ چلا،بغیر کسی لکھے معاہدے کے، زبانی ہی حوالے کر دیے گئے تھے-

لوگ اس پہ یقین نہیں کرتے کہ نظریاتی سہولت کار، ڈاکٹر عاصم جیسوں سے بھی کمزور دل ہونگے-ڈاکٹر عاصم کو چھ ماہ تحویل میں رکھ کر ایجنسیاں کچھ نہ اگلوا سکیں،مگر سہولت کار،دوسرے روز ہی سب راز اُگل دیتے ہیں-

لہذا، جنرل باجوہ کے انکشافات کو ایک طرف رکھیں  اور ممکنہ قاتلوں کی دلائل کے ساتھ ایک فہرست بنائیں-

پہلا نام تو دشمن ملک کی ایجنسی کا ہوگا جس کے اسباب ظاہر ہیں-

دوسرا نام، ٹی ٹی پی کا ہے-پاکستانی طالبان، کوئی  خیالی وجود نہیں ہے بلکہ ان کی دہشت وبربریت کی تفصیلی داستانیں، ابھی اہل پاکستان کو پوری طرح معلوم نہیں ہیں-بحرین پولیس میں محسود قبائل کافی تعداد میں بھرتی ہیں-2007 میں خاکسار وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ یہاں طالبان کا چندہ (یا بھتہ) جمع کیا جاتا ہے اور ایک آدمی نے لیت و لعل سے کام لیا تو اسکے اہل خانہ کو بیت اللہ محسود نے اٹھوا لیا اور پھر اس نے وہاں جاکر معافی تلافی کی-مہمند ایجنسی میں ولی خان نامی سفاک طالبان لیڈر کے قصے سنیں تو آپکو آرمی سکول کا سانحہ بھول جائے-مگر ایک بہت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قبائلی، جب طالبان کی درندگی کی باتیں سناتے ہیں تو دبے لفظوں میں آرمی اور طالبان کے گٹھ جوڑ کے بھی کئی  واقعات سناتے ہیں-

ممکنہ قاتلوں میں تیسرا نام،ایم کیو ایم بھی ہوسکتا ہے کہ بربریت،انکی پہچان بن چکی ہے-کبھی فوجی ایجنسیوں نے ہی ہمیں بتایا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگ بوری بند لاشوں میں ملوث ہیں اور انکے عقوبت خانوں میں مخالفین کے بدن میں ڈرل سے سوراخ کئے جاتے ہیں-صولت مرزا جیسوں کی گواہی کےبعد، ان وحشیوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے ایجنسیوں کو عوامی دباؤ میں لانے کو یہ حرکت کی ہو؟ –

ایک نام پیپلز پارٹی کا بھی ہوسکتا ہے کہ اسکی تاریخ بھی ایسے کاموں سے مبرا نہیں-انہوں نے پی آئی  اے  کا جہازاغوا کرکے اور معصوم مسافر کو قتل کرکے، اس ملک میں پہلی دہشت گردی کا اعزاز حاصل کیا- یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ زرداری ٹولے کی طالبان سے رسم و راہ تھی-خود زردای کی فوج کو دھمکی بھی ریکارڈ پر ہے-افواہ تو یہ بھی ہے کہ بےنظیر کو مروانے میں اسکا ہاتھ ہے-عزیز بلوچ،  پیپلز پارٹی کا سرکردہ راہنما ہے-بھتہ نہ دینے پر،400 معصوم لوگوں کی جان لینے کا اقرار کرچکا ہے اور اس خونخواری میں، بقول اسکے،” انسانیت نواز” پیپلز پارٹی کے بڑوں کی آشیر باد حاصل رہی-آج عزیربلوچ کی وجہ سے، انکے گرد گھیرا تنگ ہورہا تو وہ لوگ جو مال بنانے کے لئے، معصوموں کی جان لیناکھیل سمجھتے تھے، کہیں انہوں نے تو ایجنسیوں کو گمراہ کرنے ،یہ قتل عام نہیں کیا؟ –

پھر اپنی فہرست میں، فوج کو بھی مشتبہ کے طور پر رکھنا ہوگا کہ بربریت میں خود فوج کا ماضی بھی داغدار ہے- جنرل ٹکا خان نے بنگال میں قتلِ عام سمے کہا تھا کہ مجھے بنگال کی زمین چاہیئے، بنگالی نہیں-ممکن تو یہ بھی ہے کہ کسی نے یہ جملہ دہرایا ہو کہ ہمیں پختونخواہ کی زمین چاہیئے، پختون نہیں-ڈھاکہ یونیورسٹی اور لال مسجد کے طلباء کو قتل کرنے والا ادارہ، کیونکر مشکوک نہیں ہوسکتا؟-

آپ خود کو سیکولر سمجھتے ہیں تو آپکو سب مشکوک کرداروں پر نگاہ رکھنی ہوگی-اگر وقوعہ کے ذمہ داران کی فہرست میں آپکو طالبان کے علاوہ کوئی  نہیں سوجھتا تو یا آپ متعصب اور منافق ہیں یا پھر آپکا ذہن کمزور ہے-ہر دو صورت میں ۔صرف اردودانی اور لفاظی کے زور پر،آپکو تجزئے جیسا سنجیدہ کام نہیں کرنا چاہیے-

میں نے مندرجہ بالا زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد یہ رائے بنائی  ہے کہ یہ دہشتگردی، ٹی ٹی پی نے کی ہے-ہوسکتا ہے میرا تجزیہ غلط ہو مگر میں نے ممکنہ قاتلوں کی ساری فہرست آپکے سامنے رکھ دی ہے- میرا خیال ہے ایک سیکولر کا یہی انداز ہونا چاہیے- خیر،آگے چلیں ، اب نام پتہ چل گیا تو انکی حقیقت معلوم کی جائے-اسکے بعد سوال ہوگا کہ انہوں نے کیوں یہ کام کیا؟-

صورتحال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی والوں کو بھی صرف جنرل باجوہ صاحب جانتے ہیں کیونکہ یہ پاکستانی طالبان، ہر کارروائی  کے بعد، جنرل صاحب کو ہی فون کرکے اسکی ذمہ داری قبولتے ہیں-ہم بیچارے تو ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ کرنل تارڑ کو کرنل امام کیوں کہتے تھے؟-

خیر،کرنل امام کو تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن مشرف دور میں،لاپتہ افراد کے حق میں مظاہرے کرنے والا سفید ریش، خواجہ خالد تو سب کو یاد ہوگا-ہم نے ٹی وی پر، اس نیک بزرگ کو، پولیس کی لاٹھیاں کھاتے دیکھا-پھر پتہ چلا کہ کرنل امام کے ساتھ خواجہ خالد بھی وزیرستان میں مارے گئے اور دونوں حضرات، ہماری ایجنسیوں کے ملازم تھے-کہیں ایسا نہ ہو کہ دس سال بعد ہمیں پتہ چلے کہ مولوی برقعہ پوش،در اصل میجر عبدالعزیزصاحب تھے؟اب آپ یہ نہ کہیں کہ وہ مدت دراز سے جمعہ کے خطبے دیتا ہے-لارنس آف عریبیا، انگریز ہوکر، عربوں کی امامت کرسکتا ہے تو ہماری ایجنسیاں بھی اتنی گئی  گزری نہیں-خیر سے فلموں میں ادکاری سے لیکر، گائیکی و نغمہ نگاری تک،نامور پروفیشنلز کو مات دیتے ہیں-

جب ریاست حقائق چھپاتی ہے تو پھر عوامی ذہن سازی میں، سینہ گزٹ خبریں دخیل ہوا کرتی ہے-افواہ تو یہ بھی ہے کہ جب افغان مجاہد راہنماؤں کا اسلام آباد آنا ضروری ہوگیا تو لال مسجد کے پہلو میں یتیم لڑکیوں کا باپردہ مردسہ بنایا گیا جسکے زیر زمین راستے، آبپارہ میں نکلتے تھے-شنید یہ بھی ہے کہ خود بیت اللہ محسود ،آپریشن سے دو ماہ پہلے اسلام آباد آیا تھا اور لال مسجد کے مولوی کے ہجرے سے ہوکر، آبپارہ سے لنڈے کے کپڑے خریدنے گیا تھا-خیر، جب اس مدرسے کی ضرورت نہ رہی تو اسکے انہدام کو دنیا کے میڈیا سے چھپانے کےلئے،”کثیر المقاصد” اہداف پہ مشتمل ایک حساس آپریشن کیا گیا-

بہرکیف، مجھے سیکولر ہونے کا دعوی ہے تو اس طرح سنی سنائی  باتوں پہ اپنے بیانئے تشکیل نہیں دیا کرتا- لیکن فرض کریں، واقعی مولویوں کا ایک گروپ اس خونریزی میں ملوث ہو، تب بھی پوری ایک کمیونٹی کو رگیدنا، کونسا سیکولرازم ہے؟ –

حیرت ہے کہ جنرل ضیاء کو گالیاں دیتے ہوئے، اسکے ادارے کو گالی نہیں دی جاتی حالانکہ پورا ادارہ اسکی پشت پہ کھڑا تھا( اور اب بھی ہے) مگر لال مسجد یا سانحہ پشاورکے جنونی کو بنیاد بناکر، ہرمولوی کو گالی دی جاتی ہے-اگر آپ سیکولر ہیں توکسی طبقے پر تبصرہ کرتے وقت، گھوڑے، گدھے کا فرق کیوں نہیں روا رکھتے؟ کیا اسکا سبب، فقط لاعلمی ہے یا منافقت ہے؟-

میں نہیں کہتا کہ مذہبی لوگوں کو ایسی خونریزی میں استعمال نہیں کیا جاسکتا -میرا سوال یہ ہے کہ آپ پورے طبقہ کو اس سے کیونکر جوڑتے ہیں؟اگر آپ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ مذہبی طبقہ، دہشتگردی کی کارروائیوں کی مذمت نہیں کرتا تو معاف کیجئے، آپ پھر منافق یا لاعلم ہی ہوسکتے ہیں-

اگر مولوی عبدالعزیز جیسے لوگوں نے،اسلام کے نام پر بچوں کو مروایا تو مشرف نے بھی کارگل میں ہزاروں جوانوں کو، وطن کے نام پر،بلا وجہ قتل کروایا- مولوی عبدالعزیز سے علماء کی اکثریت نے براءت کا اعلان کیا جبکہ مشرف کے ایڈونچر سے بھی 99 فیصد فوج لاعلم تھی-(مشرف سے اختلاف کرنے والے افسروں کی کتابیں مارکیٹ میں ہیں)- فرق یہ ہے کہ سنجیدہ علماء، مولوی برقعہ پوش سے اسکے ایڈونچر کے دوران ہی برات کا اعلان کرتے تھے جنکہ مشرف کے دوست، اسکی ریٹائرمنٹ کے بعد، اس سے اپنا اختلاف بیان کرتے ہیں-

برسبیل تذکرہ، ملّاؤں کے خلاف لکھے متعصبانہ تجزیوں میں، گھوم گھام کے بات ملّا عمر پہ ضرور لائی  جاتی ہے-اس خاکسار کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہوا کا رخ دیکھ کر نہیں لکھتا-چنانچہ،ملّا عمر کے عروج میں انکا نقاد تھا تو اب انکا حمایتی ہوں-

وہ طالبان جن سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے، وہ افغانستان نامی ہمارے پڑوسی ملک میں ملّا عمرکے زیرامارت حکومت کیا کرتے تھے-(یاد رہے کہ افغانستان ،ایک خود مختار ملک ہے،ہماری باجگذار ریاست نہیں)-افغانستان کے علاوہ، ایران بھی ہمارا پڑوسی ملک ہے- مہذب دنیا، ہمکو اجازت نہیں دیتی کہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل دیں اورپھر یہ تو ہمارے پڑوسی ممالک تھے-لیکن اگر دوسرے ملک پہ تبصرہ کرنا ضروری ہے تو صرف ایک پر کیوں؟ ایران اور افغانستان دونوں پر کیوں نہیں؟

ہمیں افغانستان میں،ملاّ عمر کی سوچ اور طرز حکومت سے اختلاف تھا-اسی طرح، ہمیں ایران میں،امام خمینی کی سوچ اور طرز حکومت سے بھی اختلاف تھا-طالبان ووٹ کے ذریعے برسراقتدار نہیں آئے تھے اور نہ ہی خمینی صاحب-

طالبان اپنے تئیں،پوری دنیا کے کفارکے دشمن تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی کو نام لیکر گالی نہیں دی-امام خمینی نے تہران کے چوک پر ایک بڑا بل بورڈ لگوایا تھا ،جس پر جنرل ضیاء، صدام اور ملک فہد کی تصاویر لگی تھیں اور نیچے “سگانِ امریکہ” یعنی امریکہ کے کتے لکھا تھا-آپ نے کبھی اس رویئے کوبھی زیرِ بحث لایا؟ نہیں تو کیوں؟-

امام خمینی کے برسراقتدار آتے ہی، پاکستان میں مفتی جعفر حسین کی قیادت میں” تحریک نفاذ فقہ جعفریہ” رجسٹر کی گئی -کیا طالبان نے،پاکستان میں کبھی” تحریک نفاذ فقہ طالبانی” بنائ؟ تسلیم کہ طالبانی فقہ والے یہاں پہلے سے موجود تھے تو خمینی صاحب کے فقہ والے بھی روز اول سے یہاں موجود تھے اور بمشکل 10 فیصد ہونے کے باجود، ہر سال، پورا ملک، دو دن کےلئے انکا یرغمال بنا دیا جاتا تھا(اور ہے)-اگر میں سیکولرہوں تو مجھے کسی کے فردی عقائد سے کام نہیں مگر سوسائٹی کو ڈسٹرب کرنے والے افعال کو زیر بحث لانا، میری ذمہ داری ہے یا نہیں؟-

موازنے ہی کے لئے سہی، کبھی اس پہلو کو بھی آپ نے موضوع بنایا ہے؟ نہیں تو کیوں؟-

اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ پاکستان میں طالبانی سوچ کے حامل افراد پائے جاتے ہیں، تو اس میں کونسی انہونی ہے؟-روس، نہ ہمارا ہمسایہ ہے، نہ اس سے مذہبی یا نسلی تعلق ہے-مگر کیا روس کے نظریاتی حمایتی، جنکو “سرخے ” کہا جاتا تھا،ہمارے ملک میں ایک معتدبہ تعداد میں موجود نہ تھے؟-

بات نظریاتی ہم آہنگی کی نہیں ہے مگر اولیت اس ملک کے امن کو ہونی چاہیے-

بجا کہ پاکستان میں کچھ لوگوں نے بزور، ایرانی یا افغانی نظریات نافذ کرنے کی کوشش کی ہے-مگرایسی ہی کوشش ، روسی نظریات کی خاطر،چند نامور لوگ بھی تو کرچکے ہیں- ہمارے فوجی ذرائع نے ہمیں ” پنڈی سازش کیس “کی کہانی سنائی  تھی جسکے مطابق، فیض احمد فیض جیسے لوگ بھی اپنے نظریات کی خاطر پاکستان میں بغاوت کرانا چاہتے تھے-آج فوج کے نامزد غداروں کو گالیاں دینے والوں کو چاہیئے کہ اسی کلیے کے تحت، فیض صاحب کو بھی اس سعادت سے محروم نہ رکھیں-

سیکولرازم کے علمبرادروں سے درخواست ہے کہ باچہ خان اور مودودی، یا طالبان اورجمہوریت کا بیانیہ لکھنے سے پہلے خود سیکولرزم کا بیانیہ واضح کیجئے کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ اسکے کیا اصول و ضوابط ہیں؟-

جاتے جاتے، ایک بات عرض کرتا جاؤں-آپ عوام میں “طالبانی ذہن” مضبوط ہونے سے شاکی ہیں تو اسکا بڑا سبب خود پاکستان کے نام نہاد سیکولرز کا ہاتھ ہے-

عافیہ صدیقی، امریکی شہری ہے مگر گرفتار آپکے ملک سے ہوئی ہے-ممکن ہے کہ عافیہ صدیقی نے کوئی  بہت بڑا جرم کیا ہو،مگر عدالت میں بہرحال، اس پہ یہ چارج شیٹ پیش کی گئی  کہ اس نے ایک امیریکی میرین پررائفل تانی تھی-

اس رائفل تاننے کے جرم پر، امریکی عدالت نے اسکو 80 سال قید کی سزا دی-(وہ لوگ متوجہ ہوں جنکواسلام میں وحشیانہ سزائیں نظر آتی ہیں)-

اب،پاکستان کے مشہور مولوی بھی معلوم ہیں جیسے مولانا فضل رحمان اور مشہور سیکولر بھی معلوم ہیں جیسے حسن نثار-پاکستان کی معتدل عوام، مولانا کو تو دہشت گردی کی ببانگِ دہل مذمت کرتے دیکھتے ہیں پر حسن نثارصاحب کو عافیہ کی سزا کی مذمت کرتے نہیں دیکھتے- اسی رویئے کی بنا پر، عوام، میڈیا کو متعصب جان کر، سینہ گزٹ خبروں اور تجزیوں کا شکار بنتے ہیں اور بقول آپکے طالبانی ذہنیت کا شکار ہوتے ہیں-

آپکو گلہ ہے کہ مولوی، دہشتگردی کی مذمت تو کرتے ہیں مگر” چونکہ چنانچہ” بھی ساتھ لگاتے ہیں-آپ طالبان مخالفین سے پوچھئے کہ عافیہ صدیقی کی سزا بارے آپکا کیا رد عمل ہے؟- یقین کیجئے کہ وہ بھی اگر مذمت کریں گے تو “اگر مگر” ضرور لگا ئیں گے-پس ، کوئ آدمی اپنا پورا موقف بیان کرنا چاہے تو اسے “اگر مگر” کی پالیسی نہیں کہا جاتا-

برسبیل تذکرہ، حسن نثار صاحب اکثر ایک تجزیہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام، مولویوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتے-اسکی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ عوام انکو ووٹ نہیں دیتے-یہ انکا ایک اور غلط تجزیہ ہے-عوام کا علماء سے بڑا گہرا رشتہ ہے-ووٹ وہ اسلئے نہیں دیتے کہ وہ علماء کوحکومت چلانے کا اہل نہیں سمجھتے-کوئی آدمی، اپنے بیٹے کو سست یا ناتجربہ کار سمجھتا ہے اوراس بنا پر، اپنی دکان حوالے نہیں کرتا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکا رشتہ ختم ہوگیا-

عرض یہ کرنا تھی کہ مولوی، اس ملک کا بہت بڑا طبقہ ہے جو عوام پہ ڈایئرکٹ اثر انداز ہوتا ہے-ایک سیکولر ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کی رائے پر تنقید کریں مگر اسکا مضحکہ نہ اڑائیں،پھر اس تنقید میں امن عامہ خراب نہیں ہونا چاہیئے اور بلادلیل کسی طبقے کی تذلیل نہیں ہونا چاہیئے-

Advertisements
julia rana solicitors

چونکہ ہم نئے نئے سیکولر بنے ہیں تو ہم کو یہی سیکولرازم سمجھ میں آیا ہے-سیکولرزم کے علاّموں اور مقتداؤں سے درخواست ہے کہ اگریہ غلط ہے تو آپ سمجھا دیں کہ اصل سیکولرزم کیا ہوتا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply