میں تم پر مرنا چاہتی ہوں۔۔۔رمشا تبسم

میری جان!
تم نے کبھی درختوں پر
ہوا کے زور دار تھپڑ کھا کر
درخت سے جڑے رہنے والے پتوں کے زخم دیکھے ہیں؟
تم نے دیکھا ہے لہو پتوں کا؟
تم نے دیکھے ہیں آنسو پتوں کے؟
تم نے دیکھا ہے ماتم پتوں کا؟
مگر جانتے تو ہو گے ہی
پتوں پر ہوا مسلسل ضرب لگاتی ہے
پتوں کو ٹہنیوں سے الگ کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہتی ہے
مگر جانِ جگر پھر بھی !
وہ نازک پتے
وہ ٹہنیوں پر باریکی سے جڑے پتے
وہ ٹہنیوں پر جڑے رہنے کی حسرت لئے ہوئے پتے
تم نے جھڑتے تو دیکھے ہی ہوں  گے
انہیں بکھرتا تو دیکھا ہی ہو گا
پاؤں کے نیچے آکر ریزہ ریزہ ہوتے تو دیکھا ہی ہو گا
گر کر بکھر کر ہوا کے ساتھ پھر سے
انہی درختوں کے گرد گھومتے تو دیکھا ہی ہو گا
بالکل
اسی طرح میں
تمہارے سخت لہجے
بے درد رویوں
بیگانگی کی نظر
بےمروتی کے تھپڑ
نفرت کی ضربیں
بے رخی کے نشتر
سہنے کے باوجود بھی
تمہارے مسکن سے جڑے رہنے کی حسرت رکھتی ہوں
تمہارے قدموں میں گر کر بھی
خوابوں کو ریزہ ریزہ کر کہ بھی
آنسوؤں سے تمہارے قدموں کو غسل دے کر بھی
تمہاری ذات سے الگ ہو کر بھی
میں تمہارے گرد اذیت سہتے سہتے بھی
پل پل تمہارا طواف کرنا چاہتی ہوں
زمانے کی نظر میں
بدنام زمانہ ہو کر بھی
الزاموں سے زخمی ہو کر بھی
کردار سے خالی ہو کر بھی
میں تمہارے مسکن سے جڑے رہنا چاہتی ہوں
تمہاری ذات کے محور میں
ہر دم جینا چاہتی ہوں
ہاں میری جان !
میں تم پر مرنا چاہتی ہوں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں تم پر مرنا چاہتی ہوں۔۔۔رمشا تبسم

Leave a Reply to Silent Killer Cancel reply