مسئلہ کشمیر دھرنے کی نذر۔۔۔۔ذیشان نور خلجی

جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ کسی حد تک یہ بات سچ بھی ہو، لیکن اب کہ گردش ایام کی کچھ ایسی عادت سی پڑ گئی ہے کہ بقول مرزا غالب
مشکلیں  مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں۔۔
لیکن آج مسئلہ کشمیر جس نہج پہ پہنچ چکا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اور شاید یہ دور فیصلہ کن بھی ہوتا اگر ہم اپنوں کو پہچان لیتے جو کہ ہمیشہ سے نشیمن پہ بجلیاں گراتے آئے ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر، جب کہ دہلی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم ہے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کسی طور ماننے کو تیار نہیں، بلکہ اسے اپنا داخلی معاملہ ثابت کرنے پہ تلی ہوئی ہے۔اور کرفیو لگے بھی قریب قریب تین ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ گو اب وادی میں زندگی کی کچھ رمک نظر آ رہی ہے، لیکن کشیدگی ہنوز برقرار ہے۔

آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو لے کر بھارت میں بھی بہت سی آوازیں بلند ہوئیں تھیں۔جن میں بھارت کی بانی جماعت کانگریس کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی، سابق وزیر ششی تھرور سمیت کئی ایک اہم سیاسی شخصیات شامل رہیں۔ انڈین ایکسپریس نے بھی مودی سرکار کی پالیسیوں کی بھرپور مذمت میں بیانیہ جاری کیا تھا۔
بھارتی حکومت کے اس جارحانہ اقدام پہ پاکستانی ریاست کے تمام اہم ادارے فوج، میڈیا اور عدلیہ ایک پیج پہ نظر آئے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بھی تمام اختلافات کو بھلا کر ایک صف میں کھڑی ہوئیں۔پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنی خارجہ پالیسی کو کشمیر کاز پہ فوکس کیا، اور عالمی برادری میں حمایت حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی۔اور تب انڈیا کو بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ عالمی سفارتی محاذ پہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم سے کہیں بہتر پوزیشن لئے ہوئے ہے۔
مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں پاکستانی وزیراعظم ایک عالمی راہنما کے طور پر سامنے آئے۔
قطعی نظر اس کے، کہ عمران خان میں ایک قومی سیاسی راہنما والی خصوصیات بالکل مفقود ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس نزع کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بارہا ثالثی کی پیشکش کی، اور کئی امریکی سینیٹرز بھی مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کے حق میں کھڑے نظر آئے۔چینی وزیراعظم سمیت کئی اہم ملکوں کے سربراہان نے بھی پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے موقف کے حوالے سے تائید و حمایت کی۔

تو ایسے وقت میں، جب کہ ماضی کی نسبت کہیں بہتر طور پہ، پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کی حمایت حاصل کر چکا تھا۔ اور جنرل اسمبلی کے فلور پہ وزیراعظم کی کامیاب تقریر کے بعد جب ہر محب وطن پاکستانی یہ سوچ رہا تھا کہ اب فیصلے کا وقت کہیں قریب ہی آیا چاہتا ہے۔
تو مولانا فضل الرحمن کو جانے کیا سوجھی کہ اکتوبر میں مارچ کا نعرہ لگا دیا۔ اور تمام حکومتی و سیاسی مشینری کی توجہ کشمیر سے ہٹا کر اپنی جانب کروالی۔ اور میڈیا کے کیمروں کا فوکس بھی بارڈر فورسز سے ہوتا ہوا مولانا کی ملیشیا فورس پہ آ کے ٹھہر گیا۔اور جب مولانا سے ان کے موقف کے بارے پوچھا گیا کہ انہیں آخر کیا بات اکتوبر میں مارچ منانے پہ مجبور کر رہی ہے، تو وہ سوائے گگو گھوڑے کی گوں گوں کے کوئی شافعی جواب نہ دے سکے۔پھر جب موجودہ حکومت نے اپنی فطرت کے خلاف مفاہمت کی پالیسی اپناتے ہوئے مولانا کو مذاکرات کی میز پہ بیٹھنے کی دعوت دی تو بھی انہوں نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ اب سب مذاکرات اکتیس اکتوبر کو دھرنے کے موقع پہ ہی ہوں گے۔حالانکہ مولانا کا ماضی گواہ ہے کہ حضرت سیاست کے ہر نزاعی مسئلہ کو مفاہمت اور مصلحت کے نام پہ بہت عمدگی سے حل کرنا جانتے ہیں اور اپنی اسی موقع شناس طبیعت کی بدولت عشروں سے ہر بننے والی حکومت سے اپنا حصہ وصول کرتے رہے ہیں۔

اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ذہن میں بار ہا یہ اندیشہ آتا تھا، کہ مسئلہ کشمیر کی اس گرما گرم فضا میں، مولانا نے جس ڈرامائی انداز سے انٹری دی ہے، کیا اس کے پیچھے کچھ ایسے عوامل تو کار فرما نہیں کہ جو پاکستان کو داخلی انتشار میں الجھا کے دراصل اس کی توجہ کشمیر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ برسوں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہ چکے ہیں اور وہ ایک عام سیاستدان کی نسبت کہیں بہتر طور پہ اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ ایسے نازک دور میں سیاسی انتشار پھیلانے سے مسئلہ کشمیر کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور کل میڈیا پہ وائرل ہوئی ایک ویڈیو نے میرے اندیشے پہ مہر ثبت کردی۔ جس میں مولانا فضل الرحمن انڈین سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے ساتھ خوشگوار موڈ میں، ملاقات کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔اور اگر ہم گمان رکھیں کہ اجیت دوول والی ویڈیو پرانی یا جعلی ہےتو بھی   مولانا کا ماضی حب الوطنی کے حوالے سے کچھ اتنا اچھا نہیں رہا۔ ان کے ابا جی کا بہت مشہور و معروف قول ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں رہے۔یاد رہے اس بیان کے بعد مولانا کے ابا حضور اس ‘گناہ’ پاکستان کے ایک صوبے کے وزیراعلی بھی رہ چکے ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی عوام کے علم میں ہے کہ مولانا موصوف قائداعظم سے متعلق کیسی سوچ رکھتے ہیں۔
اور اگر بہت زیادہ حسن ظن رکھتے ہوئے مولانا کو محب وطن مان بھی لیا جائے تو ان کی پھیلائی گئی سیاسی انارکی کی بدولت کشمیر کاز کو جو نقصان پہنچا ہے، کیا اس کا فائدہ ملک دشمن قوتوں کو نہیں ہوا؟
تو ہم میں سے ایسے لوگ، جو کہ مولانا فضل الرحمن کے مسلکی اعتبار سے حامی ہیں۔۔
واضح رہے میرے مخاطب ان کے چند معدودے سیاسی حامی نہیں، کیونکہ ان کی سیاسی قوت کا اندازہ حالیہ الیکشن میں آ شکار ہو چکا ہے۔
تو ان کے مسلکی حامیوں کو مولانا کا ساتھ دینے سے پہلے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ان کا ساتھ دیتے ہوئے کہیں وہ لاعلمی میں، پس پردہ موجود بیرونی قوتوں اور ملک دشمن عناصر کا ساتھ دینے تو نہیں جا رہے۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply