انت۔۔۔اسرار احمد

میں ایک نظر میں ہی اسے پہچان گیا تھا۔۔حالانکہ میں نے اسے کئی برس بعد دیکھا تھا اور اسکے حلیے میں بھی کافی تبدیلیاں آچکی  تھی۔بڑھی ہوئی داڑھی،خمیدہ کمر،نحیف و نزار ایسا کہ جیسے صدیوں سے بیمار ہو۔کسی دوسری جگہ اپنے شہر کے کسی بھی شخص کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے،لیکن اس کے معاملے میں یہ بات ندارد تھی۔۔۔۔اور میں اسے سلام کیے بغیر ہی وہاں سے چل دیا،وہ بھی اپنی ہی دنیا میں گم  دیوار سے کمر ٹکائے آسمان کو گھور رہا تھا۔

میں بچپن سے ہی سنتا آیا تھا کہ وہ بہت ہی بُرا شخص ہے،ہر شخص ہی اسے لعنت ملامت کرتا تھااور آخر  کیوں نا کرتا، کونسی بُرائی تھی جو اس میں نہیں تھی۔کوئی اس سے بات کرنا تو درکنار اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔

مجھے یاد ہے چند برس پہلے اسے کسی جان لیوا بیماری نے گھیرا تو لوگوں نے اللہ کی طرف سے اس پر عذاب سے تشبیہ دی۔

ہر ایک کو قوی یقین تھا کہ اسکا انجام بہت بھیانک ہوگا۔۔۔۔اور وہ اسی بیماری کی حالت میں ایسا غائب ہوا کہ پھر کبھی نظر ہی نہ  آیا۔لوگوں نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ خس کم جہاں پاک۔۔۔

اچھا ہی ہوا کہ چلا گیا ورنہ اس پر جو عذاب نازل ہونے والا تھا،شاید ہم بھی اسکی لپیٹ میں آجاتے۔لوگ اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔

کئی برس بعد اسے زندہ دیکھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی تھی۔۔لیکن میں چند لمحوں بعد ہی اسے بھول چکا تھا۔اس کے بعد وہ بھی مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔

سردیوں کے دن تھے،میں ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں گیا تو دیکھا وہ مسجد کے صحن میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا،چہرے اور بازوؤں سے رستا پانی تصدیق کر رہا تھا کہ وہ وضو کر چکا ہے۔۔اسے مسجد میں دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا اور نو سو چوہے والی مثل یاد آئی تو میں من ہی من میں خوب ہنسا۔

نماز کا ٹائم ہوچکا تھا لیکن امام صاحب کا دور دور تک  نام و نشان نہیں تھا،اتنے میں امام صاحب کا چھوٹا لڑکا آیا تو اس کی بابت معلوم ہوا کہ وہ کسی کام کے سلسلہ میں شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔۔۔

اتنے میں ایک شخص اس کے پاس آ کر بولا۔۔بابا جی آج آپ ہی نماز پڑھا دیں وقت نکلا جا رہا ہے

اب یہ نوبت بھی آنی تھی۔۔۔میں ہولے سے بڑ بڑایا۔۔۔

مم۔۔۔میں۔۔۔کک۔۔۔کیسے۔۔۔۔ وہ ہکلایا

آئیں تو سہی اس شخص نے اُسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔۔۔

میرا دل چاہا کہ میں اس شخص کو ایسا کرنے سے روکوں لیکن جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے مجھے  ایسا کرنے سے روک دیا

اتنے میں صفیں سیدھی ہوئیں اور تکبیر شروع ہو گئی۔۔۔۔

وہ شخص بھی اپنی دھن کا پکا نکلا۔۔۔۔اس نے اسکے انکار کے باوجود اسے مصلے پر لا کھڑا کیا۔۔۔

اللہ اکبر۔۔۔۔۔اس کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔۔۔

اسے سجدے میں گئے کافی دیر ہوگئی تھی اور وہ سر اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔

جب کافی دیر ہوگئی تو نماز توڑنا پڑ گئی۔۔۔۔

وہ ابھی تک سجدے میں ہی تھا۔۔۔

بابا جی ۔۔۔۔۔۔!س کے پیچھے کھڑے نمازی نے آگے بڑھ کر اس کا کندھا ہلایا تو وہ وہیں  ڈھے  سا گیا۔۔۔نبض چیک کی تو وہ ساکت تھی۔

بابا جی تو  انتقال کر گئے ہیں،مسجد میں ایک شور سا اٹھا۔سب نمازی ان کے اردگرد اکھٹے ہو گئے۔اللہ ہمیں بھی ایسی موت عطا کرے۔۔بے شک خدا ایسی موت صرف اپنے نیک بندوں کو ہی دیتا ہے۔۔ یقیناً یہ اللہ کا کوئی ولی ہے۔ہر ایک رشک بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔

میں اپنی جگہ ساکت سا ہو کر رہ گیا۔۔۔اور چاہ کر بھی اس کے پاس نہیں جا پا رہا تھا جیسے کسی نے میرے پاؤں جکڑ لیے ہوں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تم دیکھنا اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔۔میرے کانوں میں ماضی کی کچھ مانوس آوازیں گونجیں۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply