بچہ کیوں رو رہا ہے؟۔۔۔روبینہ فیصل/حصہ اوّل

دوبئی سے پاکستان کی فلائٹ تھی۔ دن تھا 14ستمبر سال تھا 2019۔۔میں درمیان والی سیٹوں میں سے ایک کونے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔میرے ساتھ والی تین سیٹوں پر تین لڑکے بیٹھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اتنی غیر آرام دہ سیٹ ملنے پر میں دل ہی دل میں بورڈنگ پاس بنانے والےکو  کو س رہی تھی۔ ساتھ کوئی خاتون ہوں یا سیٹ سِرے سے بالکل خالی ہی ہو تو انسان ذرا ریلکس ہو کر سفر کاٹ لیتا ہے مگر یہاں ساتھ بیٹھا ضرورت سے زیادہ صحت مند لڑکا اپنی ہزار نیک نیتی کے باوجود اپنے جسم کے پھیلاؤ کو اپنی سیٹ تک محدود کر نے میں ناکام تھا اس پر سونے پہ سہاگہ اس کی لاپرواہی تھی جس کی وجہ سے وہ ہر ایک منٹ کے بعد بڑی مستقل مزاجی سے اپنی کہنی کو میری کہنی سے ایسے ٹکراتا تھا کہ میں چونک کر اسے دیکھنے پر مجبور ہو جاتی تھی کہ شاید جان بوجھ کر کر رہا ہے مگر چہرے پر ازلی اطمینان اور بھولا  پن دیکھ کر مجھے اپنی آلودہ سوچ پر افسوس ہوتا ۔۔۔وہ تو بس اپنے آپ کو چھوٹی سی سیٹ میں ایڈجسٹ کر نے کی لامتناہی تگ و دود میں لگا ہوا تھا۔ اس کے حجم کے پھیلاؤ سے خود کو دور رکھنے کے لئے میں نے ٹانگیں سیٹ سے باہر کی طرف پھیلا دیں کہ اس سے اچھا حفاظتی قدم اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا مگر یہ کیا ابھی آنکھیں بند کیے، سکون سے،جہاز کے اڑنے کا انتظار کرتے دو پل بھی نہیں گزرے تھے کہ لگا کوئی میرے گوڈے ہی اتار لئے جا رہا ہے،وار بہت کاری تھا کیونکہ میں کم از کم ایک فٹ تو ضرور سیٹ پر ہی اچھل گئی تھی، اس افتاد کے بعد آنکھیں تو کھلنی ہی تھیں، مگر حملہ آور بغیر معذرت کیے، شان ِ بے نیازی سے آگے کو نکل چکا تھا، اس لئے کھلی آنکھوں سے بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ ظالم مرد تھا یا عورت کیونکہ سر پر صافہ سا بندھا ہی نظر آیا۔۔

دبئی سے پاکستان کی فلائیٹ، ہمیشہ ہی ایک مختلف تجربہ ہو تا ہے۔۔ ٹریکٹر چلاتے چلاتے لوگ، لسی پینے والے، او ر بالکل سادے سے معصوم سے، ماں باپ بھی بچوں کو ملنے دبئی آجا رہے ہو تے ہیں، ان کا یہ جہاز کا پہلا پہلا سفر ہو تا ہے مگر ان کی معصوم حرکتیں دیکھ کر مزہ جہاز میں موجود سب سواریوں کو آرہا ہو تا ہے ۔۔ خیر اپنے پاؤں کا یہ انجام دیکھ کر میں شش و پنج میں پڑی ہو ئی تھی کہ ان کا مستقبل کیا ہو نا چاہیے۔ اب تو ہر طرف سے قید، مقدر لگ رہی تھی۔۔سیٹ دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا محاورہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے سے کہیں زیادہ عملی اور جا مع محسوس ہوا اور پھر جب میں نے خود کو موجودہ حالات میں ڈھال لیا توایک دم محسوس ہوا کہ بات صرف پاؤ ں کی یا کہنی کی تنگی کی نہیں ،ساتھ والی سیٹوں پر کچھ بے ہنگم سا شور بھی برپا ہے اور وہ کسی بچے کے مسلسل رونے کی وجہ سے ہے۔

پی آئی اے کے بارے میں تو تجربہ یہی کہتا ہے کہ اس کی فلائیٹ میں ضرور ایک آدھ بے چین بچہ ایسا ہو تا ہے جس کے پھیپھڑے بہت مضبوط اور ارادے مضبوط تر ہو تے ہیں، جو نہ خود سوتا ہے اور نہ جہاز میں کسی اور ذی روح کوسونے دیتا ہے۔ رونے کی آواز مسلسل تھی ایک بھی سیکنڈ کے وقفے کے بغیر، غیر معمولی جو بات تھی وہ یہ تھی کہ بچے کو چپ کروانے والی آواز کوئی نہیں تھی، ورنہ بچے تو روتے ہی ہیں، مائیں انہیں چپ کروانے کے جو جتن کر رہی ہو تی ہیں وہ کوشش زیادہ توجہ طلب ہو جاتی ہے، مگر یہاں بچے کو چپ کروانے والی ایک بھی آواز نہ تھی۔دھیان دیا تو معلوم پڑا کہ ہمسایہ سیٹ پر جو تین والی تھی مگر وہاں صرف ایک خاتون ایک بچہ گود میں لئے بیٹھی تھی، وہی بچہ جو نان سٹاپ رونے کا شغل فرما رہا تھا۔۔ مزید غور کیا تو اس اسرار سے بھی پردہ اٹھا کہ بچہ تو رو رہا ہے مگر ماں چپ کیوں نہیں کروا رہی۔ماں اس سے بھی زیادہ ضروری کام کر رہی تھی۔ اور وہ یہ تھا کہ ماں کے کانوں سے فون لگا ہوا تھا اور وہ فون اس وقت بچے کے منہ کے پاس لے کر آتی تھی، جب بچہ روتے روتے کہتا تھا ” ڈیڈی پاس جانا ہے۔۔ آں آں ڈیڈی پاس جانا ہے۔۔” تو ماں بچے کو چپ کروانے، بچے کے سکون یا اہل ِجہاز والوں کے سکون کا خیال کر نے کی بجائے اس بات پر مکمل طور پر فوکسڈ تھی کہ فون کے دوسری طرف موجود باپ کو بچے کے بے آرام ہو نے،باپ کو یاد کر نے اور اس سب کے بدلے پیدا ہونے والی ماں کی مصیبت کا اچھی طرح احساس ہو جائے۔۔”آپ کو یاد کر رہا ہے آپ کو یاد کر رہا ہے”۔۔ اس بات کی تسبیح سنتے سنتے جہاز اڑنے لگا۔۔” اب فون بند ہو جائے۔۔ اور وہ بچے کو چپ کروانے کی طرف بھی دھیان دے دے۔۔ شاید۔۔”

یہ” شاید” میرے پاکستان کے پورے پندرہ دن کے قیام کے دوران میرے ساتھ ہی رہا۔۔ بہت جگہ مجھے لگا شاید مسئلے کا حل نکالنے پرتوجہ دی جائے ،بجائے اس کے کہ رونا دھونا سب سنیں۔۔ اتنا رونا، اتنا شور، اتنی دہائی۔۔ ریڑھی والا گلے سڑے پھل مہنگے داموں بیچ کر، باآواز بلند چیختا ہے۔۔ ہور پاؤ عمران خان نوں ووٹ۔۔ بڑا بزنس مین، ٹیکس نہ دینے کی عادت میں مبتلا ہے، ٹیکس نوٹس پا کر کہتا ہے کہ میں نے جو ٹیکس ہی دینا ہے تو میں کیوں نہ دبئی یا بنگلہ دیش ہی میں بزنس کر لوں مجھے کیا ضرورت ہے پاکستان میں بزنس کرنے کی۔ اور وہ مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکال کر پھیپھڑوں کے پورے زور سے چلاتا ہوا، عمران خان کو گالیاں دیتا ملک سے باہر جانے کو ترجیح  دیتا ہے۔ اس کی دہائی سب سن رہے ہیں۔۔ وہ مسئلے کو حل کر نے کا سوچنے کی بجائے، دنیا کو صرف رونا سنانے پر فوکسڈ ہے۔۔

بڑے بڑے میڈیا مالکان کو حکومتی اشتہار چھوٹے چھوٹے ملنے لگ گئے ہیں تو وہ رو رہے ہیں کہ
; “لاؤ ان کو وہ جو کھاتے تھے تو ہمیں بھی تو ساتھ ہی کھلاتے تھے”۔
خبر کو درست رکھنے پر زور نہیں، زور ہے تو اس بات پر کہ پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر دنیا کو یہ بات باور کر وائی جائے کہ “ہور پاؤ عمران خان نوں ووٹ۔۔”

ایک صحافی خاتون تو یہاں تک کہنے لگیں کہ” میڈیا پر اتنی سختی ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی ایک لفظ نہیں بول سکتا۔۔۔”
سچ؟۔۔۔ میں تو اس” رونے” کو سن کر خوشی سے جھوم ہی اٹھی۔مارے خوشی کے میں ان سے پوچھ بیٹھی تو جو سارے کے سارے صحافیوں کے انبوہ کے انبوہ، دن رات عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیا وہ کسی اور سیارے کے چینل ہیں یا وہ لوگ صحافی نہیں ہیں؟

رونا جائز ہے تو ضرور روئیں مگر خدارا! رونے کو اتنا ناجائز نہ بنائیں کہ رونا رونا نہیں بلکہ پرو پیگنڈہ لگنے لگے اور عام انسان اصل مسئلے کو سمجھنے اور اس کے حل کو ڈھونڈنے کی بجائے، اس بات میں ہی اپنی توانائی اور ذہانت ضائع کر دے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔۔؟

لاہور،پاکستان، جا کر مجھے یہ احساس ہوا کہ کوئی بزنس مین ہے یا سیاست دان، صحافی ہے یا بیور کریٹ،سب کا ایک ہی فوکس ہے اور وہ ہے کہ۔۔لو اور ڈالو عمران خان کو ووٹ۔۔” ساتھ میں حسب ِ ضرورت اور حسب شخصیت عمران کو کبھی تگڑی، کبھی ماڑی گالی سے نوازا جاتا ہے۔

یوں نہیں کہ عمران خان اپنے سارے وعدے وفا کر چکا یا کر رہا ہے، یوں بھی نہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی آچکی یا آرہی ہے۔۔ یہ سب حقیقت ہے۔۔ پاکستان کی تاریخ اور اس کی سیاست کو سمجھنے والے نہ پہلے کسی خوش گمانی کا شکار تھے نہ اب کسی بدگمانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔۔ تاش کے پتے آگے پیچھے کرنے والے ہاتھ وہی ہیں۔۔ ان ہاتھوں کو وقتا فوقتا مضبوط کرنے والے سیاست دان بھی وہی ہیں۔۔ میاں شریف آئے تو ساتھ اس مشرف،جس نے انہیں ہتھکڑی لگا کر ملک بدر ہو نے پر مجبور کیا تھا ،کی وہ ٹیم بھی لانے پر مجبور ہو ئے جنہیں لوٹا کہہ کر فرش پر رکھ کر ٹھڈوں سے تواضع کر نے کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔۔۔۔۔ تو اگر کچھ مشرف کی باقیات تبدیلی کا نعرہ مارنے والوں کے ساتھ آگئی ہیں تو سوچیں اس “مسئلہ ” کی جڑ کیا ہے اور اگر جڑ کا پتہ ہے تو اس کا علاج کریں نہ کہ بچے کا رونا، بس ابا سن لے باقی اسے چپ کیسے کروانا ہے اس پر مغز ماری نہ کی جائے۔۔یہ ماں کا تعیش اور تساہل اور باپ کو نفسیاتی طور پر چت کر نے کا حربہ بچے کو عمر بھر کا رونا اور ارد گرد کے لوگوں کو بے سکونی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

تبدیلی آئی یا نہیں، وعدے جھوٹے نکلے یا سچے؟ اس کا فیصلہ کرنے کو پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔۔ مگر ایک بات تو کنفرمڈ ہے کہ لاہور میں، لاہوریوں میں، پاکستان میں، پاکستانیوں میں۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔۔ کھلے لفظوں میں پاکستان میں آج ایسی کوئی برائی، کوئی لعنت، کوئی بے ایمانی، کوئی دھوکہ دہی، کوئی جھوٹ، کوئی مہنگائی، کوئی ذلالت، ایسی نہیں دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔۔ جب ساری غلاظتیں پہلے جیسی ہی ہیں تو عمران کا نیا قصور کیا ہے جس کے لئے سب یوں لال پیلے ہو رہے ہیں۔۔لال پیلے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمران وہاں وہاں ضرب لگا رہا ہے جہاں جہاں سے یہ بدعتیں پھوٹ رہی تھیں۔۔ اس کے کام طریقہ سُست اور اس معیار کا نہیں جس کا ہونا چاہیے تھا، مگر وہ جو کام کر رہا ہے وہ غلط نہیں۔۔۔وہ غلط ہو تا تو پاکستان کے دشمن اس کے خلاف اتنے منظم اور شدید طریقے سے زہر نہ اگلتے کہ پاکستان سے محبت کرنے والے بھی اسی بہاؤ میں بہتے جا رہے ہیں اور چھابڑی والا بھی اپنی کرپشن چھپانے کے لئے سادگی میں اسی جواز میں اپنا دفاع ڈھونڈ لیتا ہے جو وقت کے کاریگر اسے مہیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”بچہ کیوں رو رہا ہے؟۔۔۔روبینہ فیصل/حصہ اوّل

  1. عمران خان پر تنقید ان کے ایک ہی موضوع پر انتہائی متصادم پوزیشن لینے کی وجہ سے ہوتی ہے، مثال کے طور پر خان صاحب الیکٹیبلز، مہنگائی، کرپشن پر انتہائی متضاد پوزیشنز لے چکے ہیں جس کو وہ خود یہ کہ کر جسٹیفائی کرتے ہیں کہ یو ٹرن اچھی چیز ہوتی ہے. آپ جس طرح اپنے ممدوح سیاست دان کی نااہلی کو معاشرے میں پھیلی کرپٹ عادات سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہی ہیں وہ قابل دید ہے. میں اپنی تنخواہ کا بارہ فی صد ٹیکس دینے کے بعد ہر چیز کی خریداری پر سترہ فی صد جی ایس ٹی دیتا ہوں، اس کے بدلے میں نہ سرکاری سہولیات جس میں تعلیم، صحت اور سیکورٹی شامل ہیں یہ سب پرائیویٹ ارینج کرتا ہوں تو آپ کیا توقع رکھتی ہیں؟ کہ آپ کے ممدوح کے گوبر کو حلوہ کہوں؟ ایسی کون سی ضرب ہے جو مراعت یافتہ طبقات پر لگ رہی ہے؟ عمران خان ایک نااہل اور غبی شخص ہے جو اپنی ذات کے رومانس میں مبتلا ہے، اس کے بائے پولر بیانات کو اس کی ذہنی کمزوری سمجھا جاسکتا ہے مگر وزیر اعظم کی پوزیشن کے لیے ایسا نمونہ کوئی اچھی مثال نہیں. آپ جس ملک سے پاکستان کی برائیوں کا معائنہ کرنے آئیں تھیں، اگر وہاں آپکو تعلیم، صحت اور سیکورٹی پر اپنا پیسہ خرچ کرنا پڑے تو آپ دو دن بعد پاکستان ہونگی. اور ہاں اس سے ملتا جلتا بلکہ تھوڑا بہتر حال نوازشریف کے دور میں بھی تھا مگر اس کو بھی ہم برا بھلا کہتے تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ اسے مسیحا کہ کر نصب نہیں کیا گیا تھا نہ آپ جیسے عبداللہ دیوانے ہمیں یہ بتاتے تھے کہ اس کا کوئی قصور نہیں ہم ہی اصل پاپی ہیں.

Leave a Reply to بابر Cancel reply