پچاس روپے۔۔رمشا تبسّم

پھٹے اور میلے کپڑوں میں وہ دکان کے پاس رکا۔سائیکل سے اتر کر اُس کو سٹینڈ پر کھڑا کر کے اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے۔گندے میلے دس دس کے کچھ نوٹ جو دن بھر کی اس کی محنت کی کمائی تھی۔گننا شروع کیے ، تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جو اس کی ڈھلتی عمر اور غربت کی پریشانی کے باعث چہرے کی مرجھائی اور جھریوں والی جلد پر تھوڑی پُرکشش لگ رہی تھی۔۔نوٹ گنتے گنتے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتی گئی ۔۔اور غربت چہرے کی جھریوں سے جھانکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔اس نے سائیکل پکڑی اور پیدل ہی لے کر چل پڑا۔اس نے کئی بار پیچھے مُڑ کر حسرت اور افسردگی سے دکان کو دیکھا۔
گھر کا ٹوٹا ہوا دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے ہی کھول دیا گیا۔اور ایک ہنستا چہرہ گندے اور میلے پردے کے پیچھے سے نکل کر حاضر ہوا۔۔۔۔
“ابا تُو آ گیا۔کب سے انتظار تھا۔ادھر لا سائیکل میں اندر کرتی ہوں”۔اور سترہ سالہ ربیعہ سائیکل باپ کے ہاتھ سے لے کر اندر کی طرف آگئی ۔
سائیکل پر لٹکے شاپر دیکھنے کے بعد وہ مایوسی سے بولی۔
“ابا تو آج بھی نہیں لایا نا؟”۔
اب ندیم رضا کے چہرے پر پھیلی اداسی مزید پھیلتے ہوئے اسکی آواز میں شامل ہو رہی تھی اور اس نے مشکل سے بولنا شروع کیا۔۔
“میری بچی لے آؤں گا۔آج وقت نہیں ملا اور میرا وہاں سے گزر بھی نہیں ہوا۔جلد لے آؤں گا”۔ندیم کی آنکھیں اداس, آواز میں اور الفاظوں میں بے یقینی اور چہرے پر مایوسی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ یہ کہہ کر لڑکھڑاتے قدموں سے اندر کی جانب روانہ ہوا۔ ربیعہ سبزی کا تھیلا سائیکل سے اتار کر ،باپ کے پیچھے چلتی اندر آگئی۔۔
“کوئی بات نہیں وہ نادان ہے۔کچھ بھی فرمائش کر دیتی ہے۔تم اس کو اتنا سنجیدہ نہ لیا کرو۔سوکھی روٹیاں اور ردی اخبار خریدنے اور بیچنے والے ہم جیسے غریب اکثر ہی فرمائشوں کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔وہ ابھی بچی ہے سیکھ جائے گی کہ غریب کی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے رات کی روٹی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے” شمیم نے ہمیشہ کی طرح شوہر کو افسردہ دیکھ کر حوصلہ دینے کی کوشش کی۔
“نہیں۔۔شمیم ،معمولی خواہش ہے۔وہ بھی پوری نہیں کر پاتا اسکی تو میرا کلیجہ کٹتا ہے۔ایک ہی اولاد ہے ہماری وہ بھی ذرا ذرا سی خوشیوں کے لئے ترستی ہے۔بس چھوڑ سبزی لایا ہوں پکا لے۔مہنگائی اتنی ہو گئی ہے،90روپے کی سبزی آئی ہے جس سے ہم بمشکل ہی دو وقت روٹی کھا سکتے ہیں، کبھی آٹا کم ہونے کی وجہ سے اور کبھی سالن ہی کم پکتا ہے۔ابھی بھی تم کہتی ہو۔۔۔ ہماری بچی فرمائشوں کا گلہ گھونٹنا نہیں جانتی”۔ اسکے آنسو اس کے حلق میں اتر رہے تھے۔
رات کھانا کھانے کے بعد وہ ساتھ چارپائی پر لیٹی ربیعہ کو بار بار دیکھ رہا تھا۔کچھ بے رنگ آنسو اسکی جھریوں پر سفر کرتے ہوئے تکیے میں جذب ہو کر اسکے حوصلے اور غربت کا بھرم رکھ رہے تھے۔
دوسرے روز شام کو واپسی پر وہ دکان کے پاس رُکا۔سائیکل اسی طرح اسٹینڈ پر لگائی جیسے ہمیشہ ہی وہ لگاتا تھا۔جیب سے پیسے نکالے۔اس بار اسکے چہرے پر ہمیشہ کی طرح پیسے گنتے وقت مسکراہٹ نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا ہمیشہ کی طرح پیسے کم ہی ہونگے۔اس نے کچھ نوٹ الگ کیے اور دوکاندار کو دیتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا۔اس نے سودا لیا۔ اس کو خوشی تھی اور اب کی بار وہ سائیکل پر بیٹھ کر تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
ہمیشہ کی طرح ربیعہ نے دروازہ پہلے ہی کھول دیا اور باپ کو خوش آمدید کہتے ہی سائیکل پکڑ لی۔اس بار ربیعہ نے اپنی فرمائش کے بارے میں دریافت نہیں کیا ،وہ اب باپ کے چہرے پر اداسی, مایوسی اور خالی ہاتھ آنے سے شرمندگی کے بدلتے رنگ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سائیکل سے کالا سبزی کا تھیلا اتار کر اندر کی طرف روانہ ہونے ہی لگی تھی جب ندیم نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔
اور ایک شاپر اسکے ہاتھ میں رکھ دیا۔ربیعہ جان گئی تھی اس میں کیا ہے۔
“آج تو لے آیا”۔اس نے باپ کو خوشی سے گلے لگایا اور ندیم نے اس کا ماتھا چوما۔
“اماں دیکھ آج گھر میں سبزی بھی آئی ہے اور ساتھ میرے لئے دہی بھلے بھی”۔وہ سبزی کا شاپر ماں کے ہاتھ میں دے کر اندر کی طرف بھاگ گئی ۔ شمیم شوہر کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر خوش تھی اس نے سبزی کا تھیلا کھولا اور پھر حیرت سے دیکھتی رہی۔
“یہ کیا ہے تھیلے میں سوکھی روٹیاں چھپائی ہوئی ہیں؟” شمیم حیرت سے چلائی
ندیم نے آگے بڑھ کر فوراً اس سے چپ ہونے کو کہا۔”خدا کے لئے شمیم چپ ہو جاؤ۔وہ سن لے گی اسکے چہرے پر جو ابھی خوشی دیکھی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔نہ جانے کتنے عرصے بعد وہ دل سے خوش ہے۔صرف پچاس روپے شمیم ،کئی دنوں سے میں پچاس روپے کی فرمائش پوری نہیں کر پا رہا تھا اور آج صرف پچاس روپے کے دہی بھلوں سے میری بیٹی کے چہرے پر خوشیوں کے پچاس رنگ بکھر گئے ہیں”
“مگر۔ہم آج کیا پکائیں اور کھائیں گے؟” شمیم نے افسردگی سے پوچھا۔
“ایک رات بھوکے رہ لیں گے تو قیامت نہیں آجائے گی۔تم نے تو کئی بہاروں میں میرے ساتھ خزاں سی زندگی جی ہے ۔اب ایک رات اور جی لو” ندیم نے شمیم کا ہاتھ پکڑا اور بوسہ دیا۔ “تم میری دُکھ سُکھ کی ساتھی ہو۔ایک رات کی اور بھوک سہی”۔شمیم شوہر کی محبت اور بیٹی کی خوشی کے آگے خاموشی ہونے کو تیار تھی۔
“اور ہاں شمیم یہ لو کچھ روپے بس یہی ہیں۔صبح کچھ ناشتے کا انتظام کر لینا تاکہ ربیعہ کو شک نہ ہو کہ ہم نے رات کچھ نہیں کھایا”۔۔۔
رات ندیم نے ساتھ چارپائی پر سوئی ربیعہ کو مسکراتے ہوئے اور پُرسکون دل کے ساتھ دیکھا۔آج اس کا دل مطمئن تھا وہ کئی دن سے بیٹی کی دہی بھلے کھانے کی خواہش پوری کرنے کی کوشش میں تھا اور ہر بار پیسے اتنے ہی ہوتے کہ یا تو دو وقت کا کھانا پک جائے یا دہی بھلے آ جائیں۔یہ پہلی رات تھی کہ ندیم کے چہرے پر غربت کی جھریوں نے افسوس کے آنسوؤں کا بوجھ نہیں اٹھایا اور اسکا تکیہ پیاسا رہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پچاس روپے۔۔رمشا تبسّم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم !
    اک غریب باپ یہی کہہ سکتا ہے کہ۔۔۔۔۔
    میری خو شی ، میرا سکوں وہ پچاس کا نوٹ ہے
    جو میری بیٹی کے
    لبوں پہ ہنسی لا سکے
    آنکھوں سے نمی ہٹا سکے۔۔۔
    خواہش کو تکمیل دے
    دل کو خوشی عطا کرے۔۔۔۔۔?
    اک دل کو چھو جانے والی ۔۔۔۔تحریر ۔۔۔ جو آگاہی کے بہت سے در وا کر گئی۔۔۔۔ یقینا اس تحریر کا اثر پڑھنے والے پر دیرپا رہے گا ۔۔۔۔ آپ کی رمشا جی ۔۔۔ تہہ دل شکر گزار ہو ں کہ آپ اپنی تحریر سے ہمیں نیکی کی ترغیب دیتی رہتی ہیں اللہ تعالیآپ کو اس کار خیر کا اجر عطا کرے ۔۔۔۔آمین

Leave a Reply to Uzma A G Cancel reply