• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غلط فیصلوں کے نتیجہ میں لیاری کے بعد اب لاڑکانہ کے الیکشن میں بھی شکست۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

غلط فیصلوں کے نتیجہ میں لیاری کے بعد اب لاڑکانہ کے الیکشن میں بھی شکست۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

چیئر پرسن پیپلز پارٹی جناب آصف زارداری صاحب کو خبر پہنچا دینی چاہیے کہ پیپلز پارٹی کے مضبوط ترین گڑھ لیاری میں بلاول بھٹو کی شکست کے بعد بھٹو خاندان کے آبائی حلقہ لاڑکانہ میں بھی پیپلز پارٹی کا امیدوار صوبائی اسمبلی شکست کھا چکا ہے۔ اگرچہ یہ شکست جی ڈی اے+ پی ٹی آئی+ جے یو آئی(ایف) کے مشترکہ امیدوارسردار معظم علی خان عباسی نے 31557 ووٹ لے کر بلاول ہاؤس کراچی کے مینجر لیول کے عہدہ دار جمیل سومرو کے 26032 ووٹوں کو تمام کے تمام 138 پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری نتائج میں دی ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ لاڑکانہ کا حلقہ این اے۔200 اور اس کے نیچے صوبائی حلقے پی ایس 10 اور پی ایس 11 میں مخالف امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب کیوں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ نیز یہ بھی سوچنا ہو گا کہ جہاں سے پیپلز پارٹی جیت بھی رہی ہے وہاں سے مخالف امیدوار کی ہار کا مارجن مسلسل کم کیوں ہورہا ہے۔ راقم کو تو پیپلز پارٹی کا یہ الزام بھی تسلیم کر لینے میں تعامل ہے کہ نیب اور مقامی الیکشن کمیشن نے یہ الیکشن پی پی پی سے چھین لیا کیونکہ ہماری 72 سالہ قومی تاریخ میں ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ ہر الیکشن ہارنے کے بعد ہم نے ہمیشہ دھاندلی اور بیرونی مداخلت کا ہی الزام لگایا ہے۔

راقم ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے یہاں الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوتی یا ہماری مقتدرہ انتخابی انجینئرنگ نہیں کرتی۔ ایسا ہوتا ہے اور تقریباً ہر الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کسی نہ کسی حد تک اپنی درفنطنی چلاتی ہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عوامی لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کو ان کے گڑھ اور مقبول عام حلقوں میں اس طرح کی بتدریج شکست کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں جب لیاری کراچی کے حلقہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے بلاول بھٹو کو اس طرح شکست ہوئی کہ وہ تیسرے نمبر پر رہے تو راقم بھی تمام تجزیہ نگاروں کی طرح انگشت بداندام رہ گیا۔ اپنی گزشتہ کراچی یاترا کے دوران راقم نے خصوصی طور پر لیاری کا چکر لگایا اور وہاں اپنے کچھ دوست احباب سے ملاقات کی جن میں آل پاکستان بلوچ یونین رجسٹرڈ کے صدر اور لیاری یونین کونسل کے چئیرمین سردار عبدالغفور بلوچ بھی شامل ہیں جو سردار عبدالرحمن خاں بلوچ (المعروف رحمن ڈکیت) کے بڑے بھائی ہیں۔ لیاری میں پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی حلقہ میں شکست کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر دھاندلی تھی ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے لیاری یونین کونسل کے چیئرمین کی سیٹ کے لئے ان کے مقابلے میں صرف 25% ووٹ لینے والا شکور شاد تحریک انصاف میں شامل ہو کرقومی اسمبلی حلقہ این اے 246سے 52750 ووٹ لے اور بلاول بھٹو صرف 39325ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

سردار عبدالغفور بلوچ کے مؤقف کے برعکس علاقے سے منسلک دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ لیاری سے پی پی پی کا ہارنا حیران کن اس لئے نہیں ہے کہ لیاری کی عوام نے پی پی پی کو چھوڑا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پی پی پی کی قیادت نے بہت پہلے ہی لیاری سے ہاتھ اٹھا لیا تھاـ۔ اسی طرح لاڑکانہ کے اس حلقہ میں بھی یہی ہوا ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد 14 مہینوں تک بلاول بھٹو زارداری نے کوئی ایسا میکانزم ہی نہیں بنایا کہ وہاں کے لوگوں سے رابطوں کا کچھ تسلسل بن سکے۔ الیکشن جیتنے کے بعد جس طرح لیاری کے عوام کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا جاتا تھا, ٹھیک اسی طرح لاڑکانہ کی مقامی قیادت نے ووٹروں کے ساتھ رابطے چھوڑ دئیے۔ سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ آج کے اس دور میں ماضی کی طرح لوگ ان پر اور ان کی پارٹی پر اندھا اعتماد نہیں کریں گے اور سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنے کو اہمیت دیں گے۔ وہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے کہ جب لوگ جذباتی وابستگیوں کی بنیاد پر نسل در نسل ایک ہی پارٹی یا ایک ہی لیڈر کو ووٹ دیتے رہتے تھے۔ یہ سنہ 2019ء ہے جس میں میڈیا, سوشل میڈیا اور تعلیم نے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ سیاسی قائدین سوچیں تو صحیح کہ ابھی تو تعلیم بھی پوری طرح لوگوں تک نہیں پہنچی اور سوشل میڈیا بھی مکمل غیر جانبدار نہیں ہے تو لوگوں کا شعور کتنا بلند چکا ہے اور جیسے جیسے تعلیم مزید عام ہوتی جائے گی تو یہ شعور مزید بلندیوں تک پہنچ جائے گا۔

عبدالغفور بلوچ – صدر آل پاکستان بلوچ ایسوسی ایشن (رجسٹرڈ) لیاری

لیاری الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف نے اگرچہ سیٹ جیتی تھی مگر بلاول بھٹو اس میں دوسری پوزیشن پر نہیں بلکہ تیسری پوزیشن پر رہے تھے۔ اس حلقہ سے دوسری پوزیشن تحریک لبیک کے امیدوار احمد بخش نے 42 ہزار 345 ووٹ لے کر حاصل کی تھی۔ گزشتہ انتجابات میں لیاری سے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینے والوں میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی۔ جن کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں کام صرف مذہبی جماعتیں کرتی ہیں, پانی کی فراہمی کو چند علاقوں میں یقینی بنانے میں انہیں کا ہاتھ ہےـ باقیوں کو کئی بار آزمایا ہےـ, اب انہیں بھی آزمائیں گے۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے علاوہ پیپلزپارٹی نےصوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر بھی تحریک لبیک (پی ایس 107) اور ایم ایم اے (پی ایس 108) کے امیدواروں سے ہاری تھیں۔ لاڑکانہ کی اس نشست میں بھی پیپلز پارٹی کے مدمقابل جو اتحاد بنا اس میں مذہبی جماعتیں شامل تھیں جن میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام بھی شامل تھی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جب ایسا اتحاد تشکیل پا رہا تھا تو پیپلز پارٹی قیادت کیا کر رہی تھی۔ مقامی اور ضلعی تنظیموں نے مذہبی جماعتوں سے روابط کیوں نہیں کیے اور مذہبی ووٹوں کے حصول کے لئے کوششیں کیوں نہیں کیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بلاول بھٹو زارداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کے خلاف ہیں لیکن پیپلز پارٹی ماضی میں بھی تو مختلف حلقوں میں مقامی سطح اور صوبائی و قومی سطحوں پر مذہبی جماعتوں سے انتخابی اتحاد کرتی رہی ہے۔ ویسے بھی معتدل مزاج سیاسی قوتوں مثلاً جمعیت علمائے اسلام, جماعت اسلامی, مجلس وحدت المسلمین جیسی جماعتوں سے انتخابات کے دوران سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے میں کیا حرج ہے۔ بلکہ زیادہ بہتر یہی ہے کہ سیاسی مزاج رکھنے والی ایسی جماعتوں کو اپنے ساتھ انتخابی دھارے میں رکھ کر کالعدم اورمتشدد جماعتوں کو پیغام دیا جائے کہ ملکی سیاست اور جمہوریت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

لیاری کے انتخابات 2018ء کے دوران بلاول بھٹو زارداری کو لیاری کی نشست سے انتخابات لڑوانے کا فیصلہ بھی بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں درست نہیں تھا۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت تک بھی بلاول بھٹو خود بھی اس نشست سے لڑنے کے لئے راضی نہیں تھےمگر انہیں یہ کہہ کر منایا گیا کہ یہ ان کی آبائی نشست ہے جس کو کسی اور کے لئے نہیں چھوڑ سکتے۔ لیاری سے پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ اگر بلاول بھٹو کی جگہ لیاری سے آصفہ بھٹو انتخابات لڑتیں تو یہاں کے نتائج بہتر ہوتے۔ لاڑکانہ کی اس نشست پر بھی 2018ء میں نثار کھوڑو کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تو انہوں نے اس نشست پر اپنی بیٹی ندا کھوڑو کو کھڑا کردیا۔ معظم علی خان اس وقت 32178 ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے جبکہ مدمقابل ندا کھوڑو 21811 ووٹ لیکر شکست کھاگیئں۔

انہوں نے معظم علی خان کی کامیابی کو چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے معظم علی خان عباسی کی کامیابی کو کالعدم قرار دے ڈالا۔ اس فیصلہ کے بعد کل کے ضمنی انتخاب میں ندا کھوڑو پھر نجانے کیوں نامزد نہ کی گئیں؟ ۔ دوسری طرف ضمنی الیکشن میں جی ڈی اے، پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف کا اتحاد قائم رہا امیدوار پھر معظم علی خان عباسی ہی تھے۔ پیپلز پارٹی نے لیاری کی غلطی دہراتے ہوئے عرصہ دراز سے کراچی بلاول ہاؤس میں مینجرل پوسٹ پر کام کرنے والے جمیل سومرو کو لاڑکانہ درآمد کرکے اپنا امیدوار بنایا۔ یہ فیصلہ اندرون خانہ خود نثار کھوڑو کو بھی قبول نہیں تھا اور نہ ہی پی پی پی ضلع لاڑکانہ کے سابق ضلعی عہدے داران سمیت بہت سارے عہداران اور کارکنان کو قبول تھا لیکن جب چیئرمین بلاول بھٹو جمیل سومرو کو یہ الیکشن لڑوانے پر بضد تھے تو کون کھل کر مخالفت کرسکتا تھا۔ لیاری میں بھی پی پی پی کے سابق کارکن اور پی ایس 108 سے آزاد امیدوار حبیب حسن کافی ووٹ لے گئے تھے جبکہ لازکانہ کے اس ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کی سابقہ ڈپٹی اسپیکر بیگم عباسی کے بیٹے حاجی منور عباسی بطور آزاد امیدوار کھڑے تھے جنہیں پیپلز پارٹی کے باغی اراکین صفدر عباسی, ناہید خاں وغیرہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس طرح کے معاملات بھی انتخابی نتائج پر اثر ڈالنے اور ووٹروں کو کنفیوژ کرنے کی وجہ بنتے ہیں جس کے تدارک کے لئے پیپلز پارٹی لیاری کی طرح لاڑکانہ میں بھی ناکام رہی۔

سردار معظم عباسی لاڑکانہ سیٹ کے فاتح

بلاول بھٹو سمیت پارٹی کے سب ہی لوگ اس ضمنی الیکشن میں سرگرم تھے اور جمیل سومرو کو کامیاب کروانے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ مگر ایک بڑی حقیقت جو یہ سب لیڈر بھول گئے کہ باہر کا درآمد کردہ امیدوار کبھی بھی مقامی مسائل کو نہیں جان پاتا تو انہیں حل کیسے کرتا۔ پی ایس۔11 لاڑکانہ کا یہ حلقہ گزشتہ کئی سالوں سے سیوریج، سینی ٹیشن اور ڈرینج کے شدید ترین مسئلے کا شکار رہا۔ ان سالوں میں اس حلقے میں ترقیاتی کام انتہائی ناقص ہوئے۔ اس حلقے میں پارٹی کے کارکنوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ رہا کہ یہاں پر ان کی بات سُننے والا کوئی نہیں تھا۔ ان حالات میں یہاں موزوں ترین امیدوار وہی ہو سکتا تھا جو مقامی ہوتا اور مقامی مسائل کو سمجھ سکتا۔ مثال کے طور پر سابق جنرل سیکرٹری پی پی پی تعلقہ لاڑکانہ خیر محمد شیخ کو ٹکٹ نہ ملنے پر شیخ برادری کی جو پی پی پی کی حامی تھی تقسیم ہوئی اور یہ تقسیم آج تک باقی ہے۔ اگر خیر محمد شیخ کو یا ان کی مرضی کے امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا تو وہ نہ صرف اس حلقہ کے مسائل کو حل کروانے کی اہلیت رکھتا بلکہ وہ ناراض برادریوں کو بھی اکٹھا کر سکتا تھا۔ ویسے بھی. اس حلقے میں کئی برادریوں کے سندھ حکومت سے شکوے شکایات زیادہ تھے جیسے کلہوڑو برادری اپنے سرپنچوں کے ساتھ 2018ء میں بھی معظم علی کی حمایت کررہی تھی اور اب ضمنی الیکشن میں بھی وہ اسی کی حمایت پر کھڑی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرف آخر کے طور پر عرض ہے کہ لاڑکانہ کے اس ضمنی انتجاب میں سردار معظم علی خان عباسی کوئی پہلی دفعہ الیکشن نہیں لڑ رہے تھے بلکہ وہ 2013ء میں بھی قومی اسمبلی کی نشست پر لاڑکانہ عوامی اتحاد کے طور پر پہلی بار الیکشن میدان میں اترے تھے اور 28000 سے زائد ووٹ لئے تھے اگرچہ وہ ایاز سومرو سے ہار گئے تھے جن کے ووٹ 50 ہزار سے زائد تھے- قومی اسمبلی کی اس نشست پر اتنے ووٹ لینے کے بعد بھی اس اتحاد نے لاڑکانہ کی 20 یونین کونسلوں میں سے چار پر بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی- مگر اس دوران پیپلز پارٹی کی تنظیم اور قیادت ووٹروں اور عاشقوں کے مزاج میں اس تبدیلی کو پڑھ ہی نہیں سکی- سردار معظم علی خاں عباسی پیپلز پارٹی کے لئے انجان نہیں تھے- یہ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بیگم اشرف عباسی مرحومہ کے پوتے ہیں اور سابق سینیٹر صفدر عباسی اور سابق صوبائی وزیر حاجی منور کے سگے بھتیجے ہیں- صفدر عباسی تو بےنظیر بھٹو شہید کے دور میں ان کے معاون خصوصی بھی رہے تھے اور ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بعض اوقات شہید بےنظیر بھٹو کے لئے بعض تقاریر بھی لکھا کرتے تھے- ان کی شادی بےنظیر بھٹو کی سیکریٹری ناہید خاں سے بھی ہوئی- یہ خاندان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کا عاشق خاندان رہا ہے اور آج ان کے مقابلہ میں الیکشن لڑ کر جیت رہا ہے- لاڑکانہ والوں کی طرح لیاری والے بھی بھٹو کے جیالے اور پیپلز پارٹی کے عاشق تھے۔ پیپلز پارٹی نے ان عاشقوں کے ساتھ وہی کیا جو تاریخ میں ہوتا آیا ہے مگر پارٹی بھول گئی کہ جب عاشق پلٹتا ہے تو معشوق کہیں کا نہیں رہتا۔ لاڑکانہ بھی بھٹو خاندان کا آبائی حلقہ رہا ہے- یہاں کے لوگ بھٹو شہید, ان کے خاندان اور پارٹی سے عشق کرتے ہیں- لیاری کی طرح لاڑکانہ کے کئی عاشق بھی ناراض ہوچکے ہیں اور جو باقی بچے ہوئے ہیں وہ بھی مایوسی سے ناراضگی کی طرف پلٹ رہے ہیں- جیسا کہ لیاری کی سیٹیں ہارنے کے بعد ماسوائے پیپلز پارٹی کے کسی کو اس نتیجے پر نہ صدمہ ہوا تھا نہ حیرت کیونکہ یہ تو پچھلے پانچ برس سے لیاری کی ہر دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ ’ظالمو لیاری جا رہا ہے:۔بالکل ٹھیک اسی طرح لاڑکانہ کی دیواروں پر بھی الوداع الوداع پیپلز پارٹی لکھا ہوا ہے جسے پڑھنے کے لئے دیدہ بیناء کی اشد ترین ضرورت ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply