قیامتِ صغریٰ۔۔۔۔۔چوہدری وقار احمد بگا

شام کا وقت تھا دفتر میں دنیا سے بے نیاز ہو کر اپنے کام میں مصروف اکیلا بیٹھا تھا۔اس لمحے ذہن کے کسی کونے میں بھی موت یا قیامت کا خیال تک نہ تھا،غفلت میں ڈوبہ دنیاوی کاموں میں مگن تھا کہ اچانک زمین لرزی، بے ساختہ منہ سے کلمہ کا ورد جاری ہو ا کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات سے الارم بجنا شروع ہو گئے، جن سے لگ رہا تھا کہ بس ابھی کوئی دھماکہ ہو گا, سرپہ موجود بظاہر حفاظتی چھت گر جائے گی اورسب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔چند لمحے (ایسے لمحے جن میں ایک سیکنڈ بھی قیامت کی گھڑیاں محسوس ہوتاہے)کرسی پر بیٹھا کلمہ پڑھتا رہا کہ ابھی زلزلہ رک جائے گا مگر مزید ایک دو سیکنڈ بعد اٹھ کر باہر آ گیا۔ایک لمحے کے ہزارحصے ہوتے ہیں یہ 24 ستمبر 2019 شام 4 بج کر 13 منٹ پر ہی محسوس ہوا ،جب 5.8 شدت کا زلزلہ آیا۔چونکہ 2005   کا  قیامت خیز زلزلہ دیکھ چکا تھا لہذا سوچا دوبارہ دفتر کے  اندر جا کر سوشل میڈیا اور گوگل سے زلزلے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے،جیسے ہی برقی آلات کو دوبارہ چلایا اور انٹرنیٹ پر سرچ کرنا شروع کیا تو ایک اور شدید جھٹکا محسوس کیا ج و پہلے سے تو کم مگر اپنی نوعیت کا ایک شدید زلزلہ تھا۔دوبارہ جھٹکے کے بعد بجلی خراب ہو گئی تو اسلام گڑھ بازار کا رُخ کیا۔ہر شخص کا رنگ اُڑا ہوا اور جیسے ہر کسی کو کوئی انجانی فکر کھائے جا رہی  تھی۔خود کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ کس سے بات کی جائے اور کہاں جایا جائے،اسی سوچ میں تھا کہ اسلام آباد ہیڈ آفس سے کال موصول ہوئی کہ چند لمحوں میں خبر نامہ میں لائیور آنے کیلئے تیار رہیں اور نقصان کے متعلق بتائیں۔

خیر سوشل میڈیا سے جاتلاں میں تباہی کی خبریں موصول ہوئیں تو جاتلاں کے صحافی دوستوں سے معلومات لے کر ٹی وی پر شیئر تو کر دیں جس کے مطابق زلزلے کا مرکز ضلع جہلم سے10 کلو میٹر دور میرپور کا علاقہ تھا۔مرکز اور میرپور نیوسٹی کے درمیان 5 کلومیٹر کا فاصلہ تھا فالٹ لائن کا راستہ میرپور نیو سٹی،جاتلاں،سمال شریف،کیکریاں، میرپور کے سیکٹر D1 سے ہوتا ہوا کھاڑک کی طرف تھا۔فالٹ لائن کے اوپر آنے والے علاقوں کی سڑکیں،کچی بستیاں اور اونچی عمارتیں سب ملیا  میٹ ہو گئیں جبکہ باقی شہر کی تقریباً ہر تیسری عمارت میں شدید دڑاڑیں پڑ گئیں جن سے وہ عمارتیں تسلی بخش طور پر رہائش کے قابل نہیں رہیں۔اسکے بعد 24 گھنٹے آفٹرشاکس آتے رہے اور ہر شخص کے چہرے پر موت کا خوف منڈلانے لگا۔26 ستمبر کو دن 12 بج کر 1 منٹ پر 4.5 شدت کا ایک اور جھٹکا آیا جس کے بعد تادم ِ تحریر مختلف چھوٹے بڑے زلزلے کے جھٹکے آ رہے ہیں اور متاثرہ علاقہ فالٹ لائن کے اوپر ہونے کی وجہ سے کبھی بھی کسی مزید بڑے جھٹکے کا شکار ہو سکتا ہے۔

زلزلے سے شدید متاثرہ علاقہ جاتلاں اور ملحقہ گاؤں کیکریاں،جنیال نگیال،ڈھوک چک دولت،جوڑیاں،مغل پورا اور سمال شریف وغیر ہ میں ملک بھر کی NGO’s ریاستی انتظامیہ اور پاکستان آرمی کے نوجوان چند ہی گھنٹوں میں پہنچ گئے مگر نیوسٹی،کھاڑک اور شہر کے دیگر حصوں میں امدادی ٹیمیں بہت کم پہنچ سکیں۔بہر حال زلزلے  کے چند ہی لمحوں  بعد وزیراعظم راجہ فاروق حیدر جو کہ لاہور کے دورے پر تھے ،دورہ مختصر کر کے میرپور کیلئے روانہ ہو گئے،میرپور آمد پر تمام ضلعی انتظامیہ ان کے پروٹوکول میں مصروف ہو گئی،اس کے بعد اگلے تین دن یکے بعد دیگر مشیر اطاعت فردوس عاشق اعوان،وزیرمملکت علی محمد خان، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، اور امریکہ سے واپسی پر وزیراعظم عمران خان بھی پہلی فرصت میں میرپور پہنچ گئے،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی متاثرہ علاقے کا دورہ دوسرے دن ہی کیا۔میرپور جسے منی لندن کہا جاتا تھا اسی میرپور کا قصبہ جاتلاں تقریباََتباہ ہو چکا تھا۔وہاں VIPs کے دوروں سے متاثرین کی دلجوعی تو نہ ہوئی مگر امدادی ٹیموں کو آمدو رفت اور نقل و حرکت میں شدید ترین مشکلات پیش آئیں۔

تمام بڑی شخصیات کی طرح آس پاس کے علاقوں کے شہریوں کے متاثرہ علاقوں میں دورے تو نیک نیتی پر تھے مگر ان دوروں کا متاثرین کو کوئی خاطر خواہ فائدہ تو نہ ہوا مگر اس قدر سیرسپاٹے کرنے والے کے رش نے امدادی ٹیموں کو خوب پریشان کیا۔پاکستان آرمی کے نوجوانوں نے حقیقی معنوں میں متاثرین کی مدد کی اور ہر جگہ آرمی کے اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا اطلاعات کے مطابق MS ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہسپتال میرپور کے دفتر کے باہر اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر بھی ایک ایک عدد آرمی اہلکار تعینات تھا جسکی ڈیوٹی آفیسران کو بغیر ضروری کام دفتر میں نہ بیٹھنے دینا تھا۔ڈپٹی کمشنر راجہ قیصر اورنگزیب جو کہ ”دبنگ ڈی سی” کہلواتے تھے زلزلہ متاثرین اور اعلی شخصیات کے پروٹوکول میں مصروف رہے اور اسی مصروفیت میں آرمی اہلکاروں سے نہ بننے کے باعث میرپور کے ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے فارغ ہو گئے،سوشل میڈیا جہاں معلومات کا اہم ذریعہ ثابت ہوا وہیں چند عناصر نے غلط معلومات پھیلا کر عوام کو شدید ذہنی کوفت سے گزارا جسکے نتیجے میں انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر خوف و ہراس پھیلانے والے صحافی کو تھانے کی یاترا کروا ئی جسکے بعد سوشل میڈیا پر افواہوں کا کسی حد تک سدباب ہو سکا، بہرحال انتظامیہ نے جیسے تیسے کر کے ریلیف کے کام کو جاری رکھا اور متاثرین کو حوصلہ دیتے رہے۔

زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ڈویژنل ہیڈ کواٹر پہنچنے پر تمام ڈاکٹرز اور دیگر عملہ ہسپتال پہنچ گیا،ایمرجنسی کے باہر گدے لگا کر عارضی طور پر طبی امداد جاری رکھی جوکہ ایک قابل ستائش عمل تھا،مگر بدقسمتی سے قدرتی آفت میں 40افراد جاں بحق ہو گئے اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔زخمی افراد میں سے اکثریت کو طبعی امداد کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ شدید زخمیوں کیلئے بعدازاں ہسپتال کی نئی بلڈنگ کو فعال کر دیا گیا جہاں زخمیوں کو منتقل کر دیا گیا۔

محکمہ پولیس کے ملازمین بھی اپنی اپنی ڈیوٹیز پر  حاضر رہے اور تمام شاہراہوں کو کھولنے،امن وامان برقرار رکھنے میں مصروف رہے جبکہ محکمہ برقیات کے ضلع بھر کے ملازمین کو ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ علاقے میں بھیج دیا گیا جنہوں نے تین گھنٹوں میں ہی متاثرہ 80فیصد علاقے کی بجلی بحال کر دی۔

تمام متعلقہ محکمے،ضلعی انتظامیہ،پاکستان آرمی اور امدادی ٹیموں میں بھی جہاں چند فلاحی ادارے حقیقی معنوں میں متاثرین کی مدد کر رہے تھے وہیں فوٹو سیشن کیلئے آئی NGOs چاولوں کے شاپر اور پانی کی بوتلیں تھما کر یا چھوٹے چھوٹے خشک اشیاء کے بیگ ہوا میں متاثرین کی طرف اچھال کر متاثرین کی تذلیل میں مصروف رہیں،اس سارے سلسلے میں ایک اہم چیز جو دیکھنے کو ملی اور احباب نے بتایا کہ حقیقی متاثرین جو اپنا سب کچھ قدرتی آفت میں گنوا بیٹھے تھے انہیں امدادی ٹرکوں سے لپکنے میں کوئی دلچسپی یا ہمت نہ تھی اور جہاں کہیں امدادی سامان تقسیم ہوتا متاثرین دور کھڑے رہتے جبکہ پیشہ ور بھکاری اور جگاڑیوں نے متاثرین کے مال پر خوب ہاتھ صاف کیے،متاثرین کا مال چھیننے اور چوری کرنے والوں میں بھکاریوں کے ساتھ چند شرفاء اور سرکاری ملازم بھی تھے جو شاید چند ہی گھنٹوں میں موت کے خوف کو پھر سے بھلا بیٹھے۔بعدازاں چند مقامات سے پولیس نے متاثرین کا مال برآمد بھی کیا مگر پکڑے جانے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔

حکومت پاکستان کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان غیر سنجیدہ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر درگت بنوانے کے بعد متاثرہ علاقے کے دورے پر آئیں اور پھر متاثرہ خاندانوں میں امدادی چیک بھی تقسیم کرنے بھی میرپور پہنچی۔ شہداکے ورثاء  کو انتظامیہ کی بنائی گئی لسٹوں کے مطابق آزادکشمیر اور پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے پانچ،پانچ لاکھ روپے دئیے جب کہ تباہ شدہ مکانات کے مالکان کو دو دو لاکھ دیئے گئے اور وعدے کیے گئے کہ مرحلہ وار مزید امداد دی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

المشہور میرپور کے لوگ امیر ہیں اور اکثر بیرون ممالک ہونے کی وجہ سے شہر منی لندن کہلاتا ہے۔تباہ شدہ مکانات میں دس دس کروڑ کی کوٹھیوں سے لے کر تین،چار لاکھ کی مالیت کے مکان شامل ہیں مگر سسٹم کی ستم ظریفی کہہ لیجئے یا پھر ارباب اختیار کی بدنیتی عوام چیختی رہی کہ سروے گاؤں کے کھڑپینچوں کے ذریعے نہ کیا جائے انتظامیہ خود سروے کرے تا کہ پسند و نا پسند کی بنیاد پر نوازشات کا سدباب کیا جا سکے مگر کسی کی نہ  سنی گئی اور دو،تین لاکھ یا پانچ دس لاکھ دے کر فوٹو سیشن کیا گیا اور وعدے کر دئیے گئے۔حضرت عمر کے دور میں جب زلزلہ آیا تو انہوں نے زمین پر درا مارا اور کہا زمین تُو کیوں کانپتی ہے،کیا عمر نے تجھ  پر انصاف نہیں کیا۔ 14سو سال گزر گئے آج تک مدینہ کی سر زمین پر زلزلہ نہیں آیا۔اور ہم زلزلے  کے چند منٹوں بعد پھر دوسرے  کا حق مارنے کیلئے بیتاب ہو جاتے ہیں،تحصیل میرپور کو زلزلےکے باعث آفت زدہ علاقہ قرار دینے کے بعد چند ہی دنوں میں زمین بوس مکانوں کے سامنے خمیوں میں رہنے والوں کو بجلی کے بل تھما دیتے ہیں،یہ ہے ہمارا  انصاف۔14سوسال گزر گئے مگر مدینہ کی سرزمین پر آج تک زلزلہ نہیں آیا اگر ہم آج ہی اپنا محاسبہ کریں تو خدا کا کرم ہے جس نے ہمیں اس قدر ظلم و جبر کرنے کے باوجود اپنی زمین پر سلامت رکھا ہوا ہے۔متاثرین زلزلہ کی امداد کیلئے آنے والے سامان کو دیکھ کر یہاں کئی انسان درندے بنے اورمتاثرین کے مال پر ہاتھ مارے گئے تو آفٹر شاکس آئے، جب دنیا کا لالچ لوگوں کے دلوں سے نہ نکلا تو خدا کی زمین پھر کانپتی رہی۔خیمے چور پٹواری تو گرفتار کر لیا گیا مگر خیموں کے حقداروں کے ساتھ چند افراد کے سوا کوئی مخلص نظر نہ آیا۔کسی کو فوٹو سیشن کا شوق چڑھا اور کسی نے کہا معاوضہ اتنا ہی کافی ہے،بڑی بڑی کوٹھایاں نہ بناتے تو نہ تباہ ہوتیں۔جب تک ہم اپنے ضمیر کو جگاتے نہیں یہ زلزلے آتے رہیں گے کیوں کہ یہاں خدا خوفی ختم ہو چکی اور انصاف صرف پسند و نا پسند کی بنیاد پر ہے مگر اب جو زلزلہ آئے گا وہ کوئی اشارہ یا جھٹکا نہیں بلکہ ایک قیامت ہو گا جو سب کچھ فنا کر دے گا پھر کوئی زندہ بچ سکے گا اور نہ کسی میں دنیاوی ہوس و لالچ باقی رہے گا لہذا اس آخری زلزلے کے آنے تک خدا کی مہلت کو قبول کیجئے اور اپنے اعمال کو درست کیجئے انصاف کے نظام کو غریب کی دسترس میں لائیے تاکہ کل روز قیامت شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply