اُردو، ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔عزیز خان

ٹی وی   پر دیکھا اور سُنا کہ  css کے امتحان کا نتیجہ گیا ہے۔ کُل 23403 افراد نے درخوستیں جمع کروئیں، 14521 لوگوں امتحان میں شریک ہوئے اور جو نتیجہ آیا وہ 2.56فیصد ہے یعنی صرف 372 افراد اس امتحان میں بمشکل پاس ہو سکے۔

یہ وہ امتحان ہے جس میں کامیاب ہو کر نوجوان ہمارے مُلک کے بیروکریٹس بنتے ہیں اور یہ  وہ نوری مخلوق  ہوتے ہیں جن کا احتساب ممکن نہیں ہے۔

اگر مقابلے کا یہ امتحان اُردو میں ہوتا تو شاید بہتر نوجوان سامنے آتے ،انگریزی کو قابلیت کا معیار سمجھنا درست نہیں ہے۔ہمارے مُلک کا تعلیمی نظام بھی عجیب ہے، غریب آدمی کے بچوں کا الگ ،امیر کے بچوں کا الگ۔۔۔۔دولت مند اور صاحب اختیار کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں اور غریب آدمی کے بچوں کے لیے سکول کی چھت بھی میسر نہیں ہوتی، کچرے اور درختوں کے نیچے بیٹھے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔

اچھے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اُردو میں طالبعلموں  کے نمبر ہمیشہ کم آتے ہیں ،کیونکہ گھر میں بھی بچوں سے انگریزی میں ہی بات کی جاتی ہے۔

ایک عزیز کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو ماں اپنے چھوٹے بچے سے انگریزی میں بات کرتی تھیں، والد اُردو میں اور نانی سرائیکی میں، بچے کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کونسی زبان بولے۔

مقابلے کے امتحان میں بھی بڑے بڑے لوگوں یا افسران کے بچے ہی کامیاب ہوتے ہیں ،اگر غلطی سے کوئی غریب ذہین لڑکا کامیاب ہو جائے تو اُسے بھی یہ لوگ گھر داماد بنا لیتے ہیں کیونکہ اُسے انگریزی آتی ہے۔

بہاولپور میں ایک پرائمری پاس SHO ہوا کرتے تھے ،ایک دن محر رتھانہ نے انگریزی میں لکھی ایک چٹھی اُن کے سامنے رکھی تو موصوف نے چٹھی پر اُردو میں لکھا۔۔۔
” چٹھی انگریزی  میں ہے ،بہت ضروری ہے ،تمام تفتیشی مطلع ہوں، محرر تکمیل ریکارڈ کرے”۔

محرر تھانہ نے یہ انگریزی لیٹر تفتیشی افسران کو بُلا کر دستخط کے لیے اُن کے سامنے رکھا تو ایک تفتیشی Asi جو کُچھ پڑھا لکھا تھا بولا یہ جو انگریزی چٹھی ہے دراصل ایس ایچ او صاحب کے نام شوکاز نوٹس ہے جو غلط تفتیش پر ایس پی ضلع نے اُسے دیا اور سات دن میں جواب مانگا ہے ہمارے لیے کوئی حُکم نہیں  ہے۔

نواز شریف کے بارے میں پانامہ کے انگریزی میں لکھے فیصلے پر بھی کُچھ یہی حال ہوا، مٹھائیاں بانٹی گئیں، مگر جب کسی نے فیصلہ پڑھ کر سُنایا تو پھر سمجھ آئی کہ یہ تو اُن کی خلاف ہے۔۔ فلمسٹار  مِیرا  کی انگریزی کی بھی بڑی کہانیاں ہیں، اُنہوں نے انگریزی کے ساتھ انگریز کو بھی شکست دینے کی ٹھان رکھی ہے، وہ اب کہاں تک کامیاب ہوئی ہیں یہ تو وقت بتائے گا یا اُن کی انگریزی سُننے والے۔
پتہ نہیں انگریزی کو ہم نے کیوں سر پر سوار کیا ہوا ہے جس کو انگریزی نہیں آتی سمجھا یہی جاتا ہے کہ وہ ترقی کر ہی نہیں سکتا۔

سُپریم کورٹ کے حُکم کے مطابق عدالتی زبان اُردو ہے مگر وہاں بھی بہت کم دیکھا گیا ہے کہ فیصلے اُردو میں ہوں، تمام فیصلے انگریزی میں لکھے اور بولے جاتے ہیں، کسی بھی جج یا وکیل کی قابلیت کا اندازہ اُس کے انگریزی بولنے سے لگایا جا سکتا ہے اور عدالت میں انگریزی میں بحث سُننے کے بعد لاکھوں روپے فیس دینے والا سائل کیس ہارنے کے بعد بھی خوش ہوتا ہے کہ اُس کا وکیل انگریزی میں  بولا ہے۔

ہمارے کچھ صدور اور وزراء اعظم کی بھی انگریزی کمزور رہی ،مگر اُنہوں نے بھی اُمید کا دامن نہیں چھوڑا ،پرچی کے ذریعے اپنی تقاریر سے عوام کے دلوں کو گرماتے رہے اور کبھی شرمندگی محسوس نہ کی ۔

ہم نے چین کے حکمرانوں کو ہمیشہ چینی بولتے دیکھا،انہوں نے 70 سال میں اپنے مُلک کو وہاں پُہنچا دیا جہاں ہمارے حکمران 73 سال میں نہ پہنچا سکے۔سعودی اور امارات کے حکمران اور لوگ اپنی زبان عربی کو ہر زبان پر ترجیح دیتے ہیں مگر ہم پاکستانی انگریزی کو اُردو پر ترجیح دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کا بڑا چرچا ہے مگر وہ تقریر اگر اُردو میں کرتے تو بھی اس کا وہی اثر ہونا تھا جو اب ہوا ہے اُن مُلکوں پر ۔۔مودی نے بھی ہندی میں تقریر کی، حالانکہ ہندوستان میں بھی کثرت سے انگریزی بولی جاتی ہے۔

ایرانی صدر کے ساتھ کی گئی پریس بریفنگ میں عمران خان انگریزی میں اور ایرانی صدر فارسی میں بات کرتے نظر آئے۔آخر ہم گھبراتے کیوں ہیں اُردو بولنے سے، آج ہم نے اُردو کو لاوارث کر دیا ،نہ وہ ہمارے عدالتی نظام میں نظر آرہی ہے نہ حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی ہو رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے شک دنیا میں ترقی کرنے کے لیے انگریزی بولنا اور لکھنا ضروری ہو گا مگر اُردو میں لکھنا پڑھنا جُرم تو نہیں ہے جو آج کل ہم سب نے سمجھ لیا ہے۔اگر ہمارے نصاب میں   سائنس سبجیکٹ انگریزی کی بجائے اُردو میں ہوں تو طالب علم اُسے بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔جس طرح تعلیمی اداروں میں اُردو کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے وہ دن دور نہیں  جب اُردو ہمیں صرف لائبریری کی کتابوں میں ملے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اُردو، ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔عزیز خان

  1. بہت اعلئ
    بے شک ملک کا نظام تعلیم اردو میں ھو اور اس کے ساتھ کوئی بھی ایک غیر ملکی زبان پڑھائی جائے
    اردو زبان کی ترویج کے لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی انگریزی میں ھی ھوا ھوگا

Leave a Reply