ریاست یا سوتیلی ماں ۔۔۔ایم اے صبور ملک

کسی سیاسی یا مذہبی نظریے پر قائم کسی گروہ یا ملت کا ایک منظم گروہ جس کے قبضے میں مستقل و متعین علاقہ ہو ریاست کہلاتی ہے،یہ ریاست کی مختصر ترین تعریف ہے،ایک ریاست میں شامل مختلف اکائیاں جو ایک مرکز یا وفاق کے زیر انتظام ہوں،اور کافی حد تک اپنے اندرونی معاملات میں خودمختار ہوں،جیسے بھارت کی ریاستیں یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ،علم سیاسیات کی رُو سے ریاست اپنے شہریوں کے لئے ایک ماں کی سی حیثیت رکھتی ہے،جو شہریوں کو ان کے تما م بنیادی انسانی حقوق کی یکساں فراہمی،امن و امان،علاج معالجے،روزگار اور ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی پا بند ہوتی ہے،ریاست کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت چلایا جاتا ہے اور اس کے لئے ریاست کے شہری جن نمائندوں کو چنتے ہیں وہ ایک ایسی دستاویز تشکیل دیتے ہیں،جو آئین کہلاتاہے،تما م ریاستی ادارے،منتخب عوامی نمائندے اور شہری اس آئین کے مطابق ریاستی معاملات چلاتے ہیں،ریاست کی تعریف کے بعد ذیلی طور پر فلاحی ریاست،جمہوری ریاست،آمرانہ ریاست اورفاشسٹ ریاست جیسی ریاستیں آتی ہیں،ان میں سب سے فائدہ مند اور اپنے شہریوں کے لئے مفید صرف فلاحی ریاست ہوتی ہے۔

دیناکی معلوم تاریخ میں سب سے پہلی فلاحی ریاست مدینہ میں دوسرے خلیفہ راشد شاہکاررسالت جناب عمر فاروق ؓ نے قائم کی،جس کے بنیادی اُصولوں پر انگلستان کی ریاست کی تشکیل کی گئی،یعنی اپنے شہریوں کے لئے ماں کا سا کردار ادا کرنا،انڈونیشیا سے لے کر افریقہ تک حتی کہ خطہ عرب کے کسی مسلم ملک میں بھی فلاحی ریاست موجود نہیں۔کہیں خاندانی بادشاہت تو کہیں نیم جمہوریت،پاکستان کا شمار بھی ان مسلم ممالک میں ہوتا ہے جہاں نیم جمہوری نظام قائم ہے،پی ٹی آئی کی حکومت جس ریاست مدینہ کا نام لے کر اقتدار میں آئی،عملاً14ماہ کی کارکردگی اس کے بالکل برعکس ہے،عمران خان کا ہر وعدہ ایک ایک کرکے  جھوٹا ثابت ہو رہا ہے،ہر معاملے میں یوٹرن،جتنی یہ حکومت 14ماہ میں بدنام ہوچکی ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔

ابھی گزشتہ روز ایک اور یوٹرن لیا گیا،ایک کروڑ نوکریوں کے نام پر قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اب فواد چوہدری نے ارشاد فر ما دیا کہ حکومت کی جانب نوکری کے لئے مت دیکھیں،کوئی ایک سرکاری ادارہ ان سے نہیں چل رہا،ہسپتال یہ نہیں چلا سکتے،سکول کالج ان سے نہیں چلتے،قومی ادارے یہ چلانے میں ناکام ہیں،تاجربرادری ان سے نا خوش،ڈاکٹرز ان سے نالاں،ڈینگی تک تو کنڑول نہیں ہو رہا،ریلوے کا حشر سب کے سامنے ہے،ڈالرکی قیمت ان سے قابو میں نہیں آرہی،ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 6.2مہنگائی 13فیصداور شرح ترقی 2.4رہے گی،ملکی معیشت سست روی کاشکا رہے،اور ان تمام اعشاریوں میں مستقبل قریب میں اضافے کا امکان ہے،یعنی بیروزگاری اور مہنگائی مزیدبڑھے گی،وزیر اعظم جو کہ اپنے دھرنوں اور تقریروں میں ہروقت نواز شریف اور زرداری پر تنقید کیا کرتے تھے آج اپنی حکومت کی ناکامی پر ان کو چپ کا دورہ پڑ چکا ہے،کم ازکم وہ فواد چوہدری سے یہ ہی پوچھ لیتے کہ بھائی ہم تو ایک کروڑنوکریاں دینے کا وعدہ دے کر آئے تھے، تم نے یہ کیا کہہ دیا کہ کوئی نوکری نہیں اور 400سرکاری ادارے بھی بند کرنے پر تُل گئے ہو،کیوں ہماری نیّاڈبونے کے چکر میں ہو؟

پاکستان  کی جو حالت تبدیلی والوں   نے گزشتہ 14ماہ میں کردی ہے اگر یہ مزید 46ماہ رہے تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ،14ماہ کی مہنگائی،بیروزگاری،کاروبار کی تباہی،ناکام خا رجہ پالیسی،صنعتوں کی بندش جاری رہی تو ایک ایٹمی ریاست کو دنیا کی ناکام ترین ریاست کا درجہ ملنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی آئی کی حکومت ماسوائے بڑھکوں،خواب وخیال اور شیخ چلی کے خیالی پلاؤ کے اور کچھ نہیں کر رہی،ایک دن وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں دوسرے دن کوئی وزیر آکر اسکے برعکس بیان دے دیتا ہے،عمران خان کے وعدوں کا جوحشر ان کے وزراء اور خود ان کے اپنے ہاتھوں ہو رہا ہے اس سے مستقبل میں کوئی اُمید رکھنا پاگل پن ہی ہوسکتا ہے،کوئی ہوش مند اب ا ن کی بات پر یقین رکھنے کو تیار نہیں،رہا جے یو آئی کا آزادی مارچ، تو کل تک جو حکومت اوراسکے وزراء اسکا مذاق اُڑارہے تھے آج بقول وزیر اعظم فضل الرحمن سے مذکرات پر آگئے ہیں،لیکن فضل الرحمن ماسوائے عمران خان کے استعفے کے کوئی بات کرنے کوتیار نہیں،موجودہ معاشی صورت حال اور آزادی مارچ کے تناظر میں دیکھا جائے اور لگ یہی رہا ہے کہ حکومت کے لئے مشکلا ت کا آغاز ہو ا چاہتا ہے،کانٹوں کی جو فصل عمران خان نے 2014کے دھر نے کے دوران بوئی تھی،آج وہ پک کر تیار ہو چکی ہے اور قوم جو پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے اگر وہ آزادی مارچ میں نکل آئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے،ہسپتال نہیں چلا سکتی،ریلوے نہیں چلاسکتی،نوکری نہیں دے سکتی،کشمیرکا مسئلہ نہیں حل کرسکتی،ڈالر کی قیمت کم نہیں کرسکتی،غریب کو وظائف نہیں دے سکتی،انصاف فراہم نہیں کرسکتی،مہنگائی کم نہیں کرسکتی،خود مختار نہیں،میڈیا کے مسائل حل نہیں کرسکتی،لائبریریاں اور تعلیمی ادارے نہیں چلا سکتی،عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم ہونے کے باوجود پاکستان میں پٹرول،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت کم نہیں کرسکتی تو ایسی حکومت گھر کیوں نہیں چلی جاتی،یہ ریاست ہے یا کوئی سوتیلی ماں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply