گوگی گارڈن۔ایک پریم کتھا(8)۔۔۔۔۔ڈاکٹر کاشف رضا

آج منگل کا دن تھا۔ فارما کے پیپر میں نو دن رہتے تھے۔ طیبہ سے سلیبس کور ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ آج وہ بہت دکھی دکھی لگ رہی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ پری چہرہ گڑیا آج ننھی مُنی چڑیل لگ رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ آخری بار پچھلے prof کے پاس ہونے والے دن نہائی تھی۔ پری زاد چہرہ گریس آلود ہوا پڑا تھا۔ اس کے لباس پہ مٹی کی غالباً دو تین تہیں چڑھ چکی تھیں۔ حتیٰ کہ آج اس کی ماما نے بھی کہہ دیا۔۔
“بیٹا! اب نہا بھی لو ! عرصہ ہوا تمہیں نہائے ہوئے۔ اب بس بھی کرو۔
بیٹا! مجھ سے یہ تمہاری نوکدار موچھیں مزید دیکھی نہیں جاتیں۔”

طیبہ یہ سن کر دل مسوس کر رہ گئی۔ وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس کا دل کرنے لگا ابھی ابھی قینچی ڈھونڈ کے تازہ اُگی ہوئی مونچھوں کو تراش دے۔ وہ بہت دکھیاری ہورہی تھی۔ اسے اپنے آپ پہ  رونا آرہا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک خیال کودا۔ طیبہ کے چہرے پر نورانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے فوراً اپنے حنان کو ٹیکسٹ کیا۔۔

“جانو!”

یہ ٹیکسٹ کر کے وہ انتظار کرنے لگی۔ عموماً   حنان 03. سیکنڈز میں ریپلائی کرتا تھا۔ اور آج ظہر کے وقت طیبہ نے ٹیکسٹ کیا اور عصر کے وقت حنان کا ریپلائی آیا۔

جی جی جانو”

طیبہ موبائل سے چپکی ہوئی تھی۔ اسے ایک لمحے کے لیے بھول گیا کہ حنان نے بھی فارما کا پیپر دینا ہے۔

“کہاں busy تھے نواب صاحب؟”

طیبہ کے ٹیکسٹ آگ کے گولوں کی طرح حنان کے موبائل پر برسنے لگے۔ حنان نے اسے صفائیاں دیں، اسے بتایا کہ وہ لائبریری پڑھنے گیا تھا اور موبائل روم میں تھا۔

“جانو! لائبریری بیٹھے بیٹھے مجھے ایسے ہی اچانک خیال آیا کہ ہوسکتا ہے میری طیبہ کا ٹیکسٹ آیاہو۔ جانو! پھر میں وہیں سے بھاگم بھاگ روم  میں پہنچا۔

روم پہنچا تو دیکھا واقعی میں آپ کا ٹیکسٹ آیا ہوا تھا۔ یہ دیکھتے ہی میرا خوشی سے کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

مجھے آپ کی اور اپنی محبت پہ  یقین ہوگیا۔ ایسی ہوتی ہے سچی محبت۔۔۔
اور تو اور میں سڑک پر بھاگتے ہوئے  Wagon R  کے نیچے رگڑے جانے سے بھی بال بال بچا۔ ”

طیبہ یہاں پگھل جاتی تھی۔ اس کے غصے پہ  اس کی بے مثال محبت قابو پا چکی تھی۔

“اوہ مِیلا بی بی۔ ”

دونوں آدھا گھنٹہ ایک دوسرے کو دھڑکتے دل، گلابی دل، سبز دل، آنکھوں میں سے نکلتے ہوئے دل، رقص کرتے ہوئے دل، سیاہ دل، گہرے سرخ دل اور آپس میں ملتے ہوئے دو دل والی Emojis بھیجتے  رہے۔ان کے دل ودماغ سرشار ہو چکے تھے۔

“کھانے پہ چلیں آج حنان؟ بہت دل کر رہا میرا “۔۔۔

طیبہ نے جیسے حنان کے دل کی بات کردی۔ حنان نے فوراً  ہاں میں ہاں ملائی۔ دونوں نے ساڑھے چھے بجے کا وقت مقرر کیا۔ طے یہ ہوا کہ طیبہ Careem کراکے آئے گی اور حنان کو ہاسٹل گیٹ سے پِک کر لے گی اور پھر وہاں سے دونوں شاہجہاں گرِل (Shahjahan Grill) روانہ ہو جائیں گے۔ طیبہ ہمیشہ وہیں جانے کی ضد کرتی تھی کیونکہ وہاں کے ویٹرز اس کے اردگرد منڈلاتے  رہتے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر بہت سرور محسوس ہوتا تھا۔

آخرکار، طیبہ نے نہ نہانے کی بھی قسم توڑ دی۔ وہ مکمل اہتمام کے ساتھ نہائی، اچھی طرح سے تیار ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ آئینے کے  سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے  سے گریس بھی ختم ہوچکی تھی اور اس کی مونچھیں بھی جا چکی تھیں۔ اس نے ایسے ہی شیشے کے سامنے کھڑے کھڑے اپنے آپ کو ایک فلائنگ کِس دی۔

سات بجے وہ ہاسٹل کے گیٹ پر پہنچی۔ حنان کو ٹیکسٹ کیا۔

“طیبہ! Careem اندر لے آؤ ، میرے ہال کے سامنے۔۔۔ یہیں سے چلتے ہیں،” حنان چاہتا تھا کہ طیبہ اس کے لیے اس کے ہال کے گیٹ تک آئے تاکہ پھر وہ دوستوں کے سامنے خوشگوار اور فرشتہ صفت شوخیاں پھیلا سکے۔

“نہیں جانو! مجھے وہاں تک آنا اچھا نہیں لگتا۔ آپ آجاؤ  گیٹ پر۔۔جلدی سے”

حنان نے کچھ دیر منتیں کیں پر طیبہ نہ آئی۔ اسے غصہ آرہا تھا۔ غصے اور فرسٹریشن کو چھپاتے ہوئے حنان مین گیٹ پر پہنچا اور دونوں ہنسی خوشی چل دیئے۔

آج Careem کا کرایہ بھی طیبہ کو دینا پڑا۔ شاہ جہاں گرل کی Entrance پر موجود دو گارڈز کے چاک وچوبند دستے نے انہیں سلامی دی۔ طیبہ کو محسوس ہوا جیسے وہ شہزادی کیٹ میڈلٹن ہو اور اس کا حنان شہزادہ ولیم !
طیبہ اور جنان ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ حنان خلافت عثمانیہ کا گمشدہ شہزادہ لگ رہا تھا۔

پھندنوں کی ٹوپی والا شہزادہ حنان ، خلافت عثمانیہ کا آخری چشم و چراغ !

طیبہ دل میں یہی فقرہ دہرا رہی تھی۔

دونوں اندر داخل ہوتے ہی سیڑھیوں سے ہوتے  ہوئے اوپر والے فلور  پر داہنے ہاتھ فیملی سائیڈ کی  طرف جا  کر ایک ٹیبل پہ  بیٹھ گئے۔ طیبہ کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ حنان کو شاہجہاں گرل کے چپے چپے کا علم تھا۔

طیبہ نے حنان کو غور سےدیکھا۔ حنان نے مسکرا کر پھندنوں والی ٹوپی سر پہ  سجا لی۔ اس کی پھندنوں والی ٹوپی میلی لگ رہی تھی۔ طیبہ کا دل کر رہا تھا وہیں پر واشنگ مشین منگوا کر اپنے حنان کی ٹوپی دھو دے۔ حنان کی داڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی ۔اس میں بہت سےارا کاٹھ کباڑ نظر آرہا تھا۔ وہ امامِ مسجد سے زیادہ تحریک طالبان کا کمانڈر لگ رہا تھا۔

حنان نے ویٹر کو اشارہ کیا، ویٹر نے فوراً اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے ان کی ٹیبل کے گرد ایک جالی کھڑی کردی۔ حنان کبھی نہیں چاہتا تھا کہ کوئی غیر مرد اس کی طیبہ کو دیکھے۔ اپنی باقی تینوں گرل فرینڈز کے لیے بھی وہ اتنا ہی حساس تھا۔ اس لیے ویٹر اس کا اشارہ فوراً سمجھتے تھے اور تعمیل کرتے تھے۔

حنان جب بھی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ جاتا، ایک ہی ٹیبل سلیکٹ کرتا تھا۔ اس سے اسے عجیب طرح کا اطمینان اور سکون ملتا تھا۔ وہ سب میں برابری کا قائل تھا۔ ویٹرز آج بھی ایک قطار میں کھڑے ہو کر اِس فرشتہ صفت انسان کودیکھ رہے تھے جو اپنی گرل فرینڈز کے درمیان حد درجہ توازن قائم رکھے ہوئے تھا۔ رشک سے ان کی آنکھوں میں نمی آرہی تھی۔

آج تو حنان نے حد ہی کردی، اس نے کھانا بھی وہی آرڈر کیا جو اس نے تین ہفتے پہلے طیبہ کی دوست انعم کے ساتھ آرڈر کیا تھا۔

کھانا لایا گیا۔ طیبہ اور حنان  آدابِ شکر بجا لائے اور فوراً  دودھ کی طرح سفید اور تاروں کی طرح چمکتے ہوئے نورانی ہاتھوں سے نوالے تیزی سے حلق سے اتارنے لگے۔ آج ان کی کھانا کھانے کی رفتار ساڑھے چھ  گنا بڑھی ہوئی تھی کیونکہ واپس جا کر فارما بھی تو پڑھنی تھی !

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

ڈاکٹر کاشف رضا
کاشف رضا نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ وہ اپنی شستہ زبان،عام فہم موضوعات اور انوکھے جملوں سے تحریر میں بے پایاں اثر رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں خصوصاً نئی نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply