کانچ کی ہمت۔۔۔رمشا تبسم

عورت کمزور نہیں ہے۔عورت ہر لحاظ سے ایک مکمل انسان ہے۔میں مہمل بخاری ایک لڑکی ہوں اور لڑکی ہونے پر مجھے فخر ہے۔عورت زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے کا حوصلہ, ہمت اور ہنر رکھتی ہے۔خدا نے سب کو ایک جیسا پیدا کیا ہے۔اور اب یہ ہم پر ہے کہ خود کو کمزور سمجھ کر ہمدردیاں سمیٹنی ہیں یا پھر کچھ کر کے دنیا میں لوہا منوانا ہے۔

تقریر کے دوران مہمل کی آواز کا اتار چڑھاؤ ،اس کی تقریر کو بہت خوبصورت بنا رہا تھا۔ہال وقتاً فوقتاً تالیوں سے گونج اٹھتا۔
“ہم بیٹی کے روپ میں رحمت, ماں کے روپ میں جنت بنا کر بھیجی گئی  ہیں۔ہمیں خود کو زحمت بننے سے روکنا ہے اور اپنی تعلیم اور ہنر سے اپنی شخصیت کو ثابت کرنا ہے۔ہمیں مردوں سے مقابلہ نہیں کرنا. نہ ہی ان کو نیچا دکھانا ہے بلکہ ہمیں باپ ,بھائی , شوہر اور بیٹے کے روپ میں موجود مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے ان کو خود پر فخر کرنے کا موقع دینا ہے۔ہم کسی مرد کو کمتر ثابت کر کے نہیں بلکہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر پہچان پائیں گی۔لہذا ہمت کریے  , آگے بڑھیے  اور کر دکھائیے۔اس نعرے کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں۔۔
پاکستان زندہ باد۔۔

ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔مہمل اسٹیج کی سیڑھیاں اتر کر نیچے ہال میں لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ہر کوئی اس کو کامیاب تقریر پر مبارکباد دے رہا تھا۔خواتین کے لئے منعقد کی گئی  اس تقریر میں مہمل کو خاص طور پر کالج انتظامیہ کی طرف سے تقریب کے اختتام پر تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔
پروگرام ختم ہو چکا تھا۔مہمل گھر جانے کے لئے ہال سے نکل رہی تھی۔
“مہمل سنو۔رکو ذرا”۔کسی کی آواز پر مہمل کے قدم رک گئے
“جی احسن ۔۔کیسے ہیں آپ؟”مہمل نے پیچھے دیکھا اورجواب دیا
“میں ٹھیک ہوں۔رش بہت تھا اس لئے بات نہیں ہوئی۔تم نے بہت اچھی تقریر کی مہمل۔مزہ آ گیا”۔ وہ ہاتھ میں پہنی گھڑی کو ٹھیک کرتے ہوئے بول رہا تھا۔
“بہت شکریہ احسن۔بس اللہ کا کرم ہے”۔ وہ مسکرا کر بولی
“چلو مہمل میں تمہیں گھر چھوڑ دوں۔اگر برا نہ مانو تو”. احسن سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے فخریہ انداز میں بول رہا تھا،
“نہیں۔بہت شکریہ میں چلی جاؤں گی۔برا نہیں مانا ،ہاں یہ بات آپ کو کرنی نہیں چاہیے تھی” وہ تھوڑا سنجیدگی سے مخاطب ہوئی۔
” اچھا۔۔وہ۔۔شام ہو گئی ہے تم اتنی دیر سے کیسے جاؤں گی۔مسئلہ نہ ہو جائے کوئی۔اسی بہانے تم سے چار باتیں بھی ہو جائیں گی۔کبھی موقع نہیں ملا تم سے بات کا ہم دس مہینے ہو گئے ہیں ایک کلاس میں ہیں اور اب تک ایک دوسرے کو نہیں جانتے” ۔وہ اپنی کار کی چابی انگلیوں میں گھما کر بول رہا تھا۔
“نہیں مسئلہ نہیں ہوتا۔میں دھیان رکھ سکتی ہوں۔کون سا پہلی بار جانا ہے ۔ہمارا ملک ہے ہمارے لوگ۔ایسی پریشانی نہیں۔ہاں آپ کے ساتھ جانے میں بہت پریشانی ہو سکتی ہے۔مجھے کسی انجان کے ساتھ آنے جانے کی اجاذت نہیں۔میں روز خود ہی آتی جاتی ہوں اور مجھ میں اتنا کانفیڈینس ہے کہ  کالج سے گھر اور گھر سے کالج آسانی سے چلی جاتی ہوں۔۔ رہی جاننے کی بات تو اتنا کافی ہے کہ آپ کو میرا نام آتا ہے اور مجھے آپ کا۔آپ نے پوچھا بہت شکریہ۔ اب اجازت دیجیے” ۔ وہ اب کافی سنجیدگی سے اور پر اعتماد طریقے سے بول رہی تھی۔اور احسن کے پاس خدا حافظ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔
وہ گیٹ کی طرف چل پڑی۔باہر رش تھا تھوڑا دور جا کر اس کو رکشہ مل گیا۔اور وہ سوار ہو گئی۔۔
وہ باہر دیکھ رہی تھی ۔جب اس کی نظر رکشے  میں لگے شیشے  پر پڑی۔جس میں سے ڈرائیور بار بار مہمل کو دیکھ رہا تھا۔
مہمل نے دوپٹہ درست  کیا،اور نظریں پھیر کر پھر باہر دیکھنے لگی۔مہمل کی اب بار بار نظر جب شیشے پر پڑتی وہ ڈرائیور اسی طرح اسکو غور سے دیکھتا ہوا کبھی مونچھو کو تاؤ  دیتا اور کبھی مسکرا دیتا۔
مہمل صرف جلد از  جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔اس کو یہ گندی نظریں  اب مزید  برداشت نہیں ہو رہی تھیں۔اسکا دل عجیب سا محسوس کر رہا تھا۔
“بھائی یہاں سے دائیں طرف مڑ جائیں”۔مہمل رکشہ ڈرائیور سے مخاطب ہوئی۔
ڈرائیور شیشے میں دیکھ کر مسکرایا اور دائیں طرف مڑ گیا۔
“بس یہاں روک دیں گلی کے کونے پر”۔مہمل نے گھر کے قریب جانے کی بجائے گلی میں رکشہ والے کو رکنے کے لئے کہا ۔
رکشے  والے نے ایک گاڑی کے  قریب رکشہ روکا ۔اور رکشہ بند نہیں کیا۔رکشے کا شور اب بھی بدستور جاری تھا۔
“کتنے پیسے بھائی؟”مہمل نے جلدی سے پوچھا
“بھائی۔۔ہمم۔۔۔۔ 250 روپے”۔ڈرائیور  نے کافی ناگواری سے جواب دیا
مہمل نے پیسے نکالے اور پیسے پکڑانے کےلئے ہاتھ آگے کیا ۔ڈرائیور نے مہمل کا ہاتھ پکڑ کر ایک دم کھینچا۔مہمل اس چیز کے لئے تیار نہ تھی لہذا ایک دم اسکی طرف رکشے میں کھینچ گئی ۔
اور فوراًً ہاتھ چھڑا کر پیچھے ہوئی، ڈرائیور کے چہرے پر فاتحانہ شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی ۔ مہمل فوراً گھر کی طرف بھاگی۔ رکشے والا رکشہ لے کر فوراً نکل گیا۔
مہمل بھاگتے ہوئے زمین پر گر گئی۔ شاید  کسی کی غلط نظریں یا حرکت اس کو اب کبھی اس کی نظر میں اٹھنے نہیں دیں گی۔وہ زمین سے اٹھ کر  فوراً  گھر کی طرف تیزی سے بھاگی۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔
مہمل کی ماما نے دروازہ کھولا۔
مہمل ماں کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگی۔
“ماما کل سے آپ بھائی سے کہنا مجھے لینے آئیں” وہ روتے ہوئے ماں سے مخاطب تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک غلط نظر ایک غلط سوچ اور ایک گندا شخص کسی بہت پُر اعتماد شخص کی شخصیت کو بہت آسانی سے ریزہ ریزہ کرجاتا ہے۔اور وہ شخصیت اگر کسی لڑکی کی ہو تو بہت آسانی سے اعتماد خاک میں مل جاتا ہے۔لڑکیوں کو جس اعتماد کو اکٹھا کرنے میں عمر لگ جاتی ہے معاشرے میں چھوٹی اور گندی سوچ رکھنے والے کردار اس اعتماد کو لمحہ بھر میں خاک میں ملا دیتے ہیں۔پھر اسی اعتماد کی بحالی اکثر ہی ناقابل واپسی ہوا کرتی ہے۔عورت کی ہمت کانچ سی ہوتی ہے جو اکثر ایک بری نظر یا حرکت سے چور چور ہو جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply