درمیاں فہم محبت۔۔۔(3)ماریہ خان خٹک

درمیاں فہم محبت۔۔۔ماریہ خان خٹک/قسط2

تم جانتی ہو شانزے جب ہم پانی بھر کر جاتے ہیں تو کیسے گھور گھور کر دیکھتا ہے وہ مجھے ۔
عریزے نے آئینے کے سامنے گھوم کر اپنا زاویہ عکس بدل کر دیکھا۔۔۔۔اور ہاتھ سے بالوں کو درست کرتے ہوئے اپنے چہرے کا بغور جائزہ لینے لگی ۔
میں نے چائے کا گھونٹ لیا اور محض مسکرانے پہ اکتفا کیا ۔۔۔
اس نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا تو یکدم مڑ کر حیرانگی سے بولی۔۔ آپ کو غصہ نہیں آتا اس لفنگے پر ؟
میرے چہرے پہ مسکان برقرار دیکھ کر وہ میرے قریب آکر بیڈ پربیٹھ گئی  تھی، جیسے میری طرف سے کچھ سننے کی منتظر ہو ۔
میں نے کپ رکھا اور پیارسے کہا ۔۔
عریزے اس میں غصہ کرنے کی بات کہاں سے آگئی  پیاری،
اگر راہ چلتے ہوئے کوئی  تمہیں گھورتا ہے تو میں ہرگز اس لفنگے کو برا بھلا نہیں کہوں گی۔۔۔۔۔
کیا کیا ۔۔۔۔کیا؟
وہ اٹھ کر بیڈ کی دوسری طرف سے گھوم کر میرے پاس آئی  ۔۔۔ کیوں نہیں کہیں گی؟
میں نے اس کے بالوں کو ماتھے پر سے سنوار کر کہا ، عریزے تم بہت حسین ہو شہزادیوں کی طرح ۔۔۔
اب جنہوں نے پریاں نہ دیکھی ہوں تمہیں تو دیکھیں گے ناں ۔۔۔شانزے خوبصورت تو تم بھی بہت ہو؟
پھر تمہیں نہیں تکتے وہ ؟
وہ اپنی سنانے پہ مُصر تھی۔۔۔
نہیں عریزے ! کچھ حُسن پھولوں سے نکھرے ہوتے ہیں اور کچھ حُسن چاندنی سے روشن ۔۔۔
پھولوں کا حُسن متوجہ کرتا ہے۔
پھولوں کی خوشبو اور نزاکت مقناطیس کی طرح کھینچتی ہے نظر کو۔پھر جہاں کسی شرارتی بچے کا دل للچائے،تو وہ کوشش کرتا ہے کہ پھول تک پہنچ کر اسے توڑ ڈالے۔کچھ دیر اسے بالوں میں لگائے ،خوشبو سونگھے،کالر میں لگائے یا ہاتھوں میں لیکر کھیلے۔۔۔چند گھنٹوں بعد جب اس کا دل بھر جاتا ہے تو اسے اس پھول کو پانے کی تڑپ بھول جاتی ہے ۔وہ بھول جاتا ہے کہ اس پھول کے لئے اس نے کانٹے کا درد بھی سہا تھا ۔
پھول کی خوشبو برقرار ہے لیکن کشش ختم ہوکر مرجھا جاتی ہے ،وہ اُسے پھینک کر اپنے کھیل میں پھر سے مگن ہوجاتا ہے۔پھر جب کوئی نیا پھول پسند آئے تو اسے پہلا پھول یاد ہی نہیں رہتا۔۔اس لئے پھولوں سا حُسن خود مسخ ہوکر رہ جاتا ہے مسل دیا جاتا ہے کچل دیا جاتا ہے۔۔۔
اور چاندنی سا حسن ۔۔۔؟
چاندنی سا حسن اپنے نور سے اندھیروں میں صحیح و غلط کی پہچان بڑی وضاحت کے ساتھ دکھاتا ہے۔سب اس چاندنی کے حسن کو سراہتے ہیں اور حاصل بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن۔۔۔
لیکن وہ جانتے ہیں کہ چاندنی کا غرور ان کی حیثیت سے بہت زیادہ ہے ۔
اس کا نور بہت واضح ہے لیکن اس نور کی روشنی میں سمتوں کے تعین سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کرسکتے ۔۔۔کیونکہ وہ ان کی پہنچ سے دور ہے۔وہ اسے پانے کی آرزو ہی کرسکتے ہیں،خواب ہی دیکھ سکتے ہیں بس۔انہیں معلوم ہے چاندنی کا حُسن بھی چار دن کا ہے ،لیکن کوئ ی اسے مسل نہیں سکتا ،کچل نہیں سکتا ،کوئی  اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔
وہ بڑے غور سے میری باتیں سن رہی تھی ۔اس کی نظریں نیچی  تھیں ۔
وہ بے خیالی میں دوپٹے کے کنارے لگی بیل پر سے دھاگوں کو ایک ایک کرکے کھینچ رہی تھی ۔
میں نے کچھ توقف کیا ۔۔۔
خاموشی دیکھ کر اس نے بڑی بڑی آنکھیں سوالیہ انداز سے اوپر اٹھائیں ۔۔۔میں نے اس کی ٹھوڑی کو انگلی سے اوپر کرکے اس کا چہرہ اپنی طرف اٹھایا اور بات کو جاری رکھا۔تم پھولوں سی نزاکت رکھتی ہو ۔۔۔اور گھر سے باہر شریر لوگوں کا اک جہاں آباد ہے۔کچھ تو کانٹوں کے ڈر سے صرف دور ہی سے دیکھتے ہیں،لیکن مجھے ڈر ہے شر جب انا میں ڈھلے گا تو اندر کی بھوک آگ بن کر بھڑک اٹھے گی ۔یہ آگ کے شعلے رفتہ رفتہ سب کچھ ختم کردیتے ہیں حُسن کو بھی، حپسن والوں کو بھی۔۔۔اگر اس کی خوشبوئیں قید نہ کرسکو تو چاندنی کی طرح شرارتی بچوں کی پہنچ سے دور رہا کرو۔
خود اپنی حفاظت کرو گلی کے نکڑ پہ کھڑے لڑکوں کو آوارہ لچا لفنگا جیسے لقب دینے سے تم محفوظ ہرگز نہیں ہو سکتیں۔۔۔ہاں تمہارے اخلاق میں بال ضرور آسکتا ہے ۔
خود کو سمیٹو، اس سے پہلے کہ کوئی  تار تار کرکے نوچ ڈالے۔۔۔

شانزے بچے یہ دیکھو اس دوا پہ میعاد تو ختم نہیں ہوگئی  ؟
امی جی (ساس صاحبہ ) ہاتھ میں دوا کی شیشی لیکر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھنے لگیں۔۔۔۔ارے عریزے تم ابھی تک ادھر ہی ہو، گئی نہیں ابھی تک۔۔۔ امی نے سوال کیا،
مم ۔۔مم۔۔میں بس جا ہی رہی تھی شانزے نے بٹھادیا۔عریزہ نے بمشکل اپنی بات مکمل کی۔
نہیں امی ابھی اس کی میعاد باقی ہے۔میں نے دوا پہ لکھی تاریخ دیکھ کر کہا ۔۔
چلو ٹھیک ہے ،کہہ کر امی کمرے سے نکلیں تو عریزے پھر سے آئینے میں دیکھنے لگی اور آنکھ کے بالکل نیچے نکلے ہوئے مہاسے کو چھیڑنے لگی ۔
عریزے جاؤ تمہیں دیر ہورہی ہوگی۔
آئینے کے سامنے وقت ضائع مت کرو اور یاد سے استری لے آنا مجھے بھی کپڑے پریس کرنے ہیں ۔
دیکھنے دو ناں مجھے اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔ وہ گھوم کر بولی
مجھے بہت اچھا لگتا ہے بڑے سے آئینے میں خود کو دیکھتے رہنا، پتہ نہیں کب میری شادی ہوگی تو مجھے بھی ایسے بڑے سے آئینے کے سامنے  بیٹھنے پر   کوئی روکے ٹوکے گا نہیں ۔۔
پاگل لڑکی تو کیا تم آئینے کے لئے شادی کروگی؟
نہ چاہتے ہوئے بھی پتہ نہیں کیوں میری ہنسی چھوٹ گئی ۔
جس پہ وہ اپنی بات پہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگی ۔۔۔

اڑاؤ مذاق ۔۔۔ویسے بھی میں استری لینے آئی  تھی ۔
جارہی ہوں دیکھتی رہو اپنے آئینے میں خود کو، میرے دیکھنے سے بل آتا ہے ناں ۔اس نے استری اٹھائی  اور کمرے سے نکلتے ہوئے منہ بناتے ہوئے بولتی چلی گئی  ۔

اے بھوری بلی ۔۔۔ ناراض مت ہو ،ورنہ میں نے بھی کپڑے بھیج دینے ہیں، تیرے گھر استری کیلئے۔میں نے پیچھے سے آواز دی تو ریورس موڈ پہ پیچھے ہوکر کہنے لگی لالا ہی کے سوٹ ہیں دوچار باقی دونوں تو اتنے نخرے نہیں کرتے ہیں۔تمہیں دینے ہیں تو دیدو میں کردوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لالا دیکھو ناں، کتنی اچھی طرح کپڑے استری ہوتے ہیں اس سے، آپ بھی کراچی جاکر ایسی ہی استری لیکر آنا شانزے کے بھائی  نے لیکر دی تھی۔۔۔۔عریزے نے لالا کو کپڑے دکھاتے ہوئے کہا

زبردست ۔۔۔۔گُلے یہ لو تمہارا انعام ۔۔۔لالا نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر عریزے کو دیا ۔
بڑے بھائی  بھی بالکل باپ کا روپ ہوتے ہیں ۔
والد کی وفات کے بعد سے یہی باپ کی جگہ لے چکا تھا اور چھوٹے سبھی بہن بھائیوں کے ناز اٹھاتا اپنے شوق و ذوق کو بھلا کر وہ اپنی خوشیوں کو اب چھوٹے بہن بھائیوں کی خوشیوں میں تلاش کرتا۔اسے بچپن سے اچھے اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا ۔صفائی  ستھرائی اور نفاست اس کی پہچان تھی ۔
یہی وجہ تھی کہ عریزہ لالا کے کپڑے باقی گھر والوں کی نسبت بہت دل سے اچھی طرح پریس کرتی ۔نہ صرف پریس کرتی بلکہ احسان جتاکر انعام بھی وصول کرتی ۔
لالا بس یہ سو روپے ؟؟ عریزے نے منہ بسور کر کہا ۔۔۔
گلے مجھے کراچی پہنچنے دو پھر جو چاہو مانگ لینا ۔۔۔۔لالا نے اس کے ہاتھ سے سوٹ لیا اور نہانے چلاگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرتا اور ننھے پنچھی نئے نئے پر نکالتے گئے اور ہر وقت اڑان بھرنے کو پر تولتے رہتے۔ان پنچھیوں کے نئے پَر عریزہ کے لالا کو حوصلہ دیتے کہ بس اب کچھ وقت ہے جب یہ اُڑنے قابل ہوجائیں گے  تو اپنے اپنے دانے کی تلاش کیلئے نکل کر ضرور اس کے کندھوں کا بوجھ ہلکا ہوگا۔
بڑی بہن کی شادی کزن سے کردی تھی، نشئ تھا پر بس گئی  تھی اپنے گھر میں، جیسی تیسی   زندگی تھی گزر رہی تھی ۔
بھائی  ایک پڑھ رہا تھا اور دوسرے کی شادی اس دفعہ کی مونگ پھلی کی فصل اٹھانے کے بعد کرنے کا ارادہ تھا، لڑکی خاندان ہی میں موجود تھی ۔
عریزے ابھی بہت کمسن تھی اور والد کے انتقال کے بعد تو سبھی کیلئے خوشی کا باعث بننے کی واحد وجہ تھی جس کی نوک جھونک اور  لاڈ کے یکسر مختلف انداز گھر کی رونقیں بحال کیے ہوئے تھے۔
وہ بےحد حسین تھی شاید اسے خود بھی اندازہ نہیں کہ خوبصورتی بھی کبھی کبھی انسان کی اپنی دشمن بن جاتی ہے۔
ایک حسن ہو اور دوسری غربت پھر اس پہ رہی سہی کسر جب باپ کے سائے سے محرومی ہو اور باپ کی جگہ کا بھائی  صرف چند سال کے فرق پہ ہو تو لوگ ایسی  حسین پریوں کو مال ِ غنیمت سمجھنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیان رکھنا مالِ غنیمت سمجھ کر جانور نہ کھا جائیں ۔۔۔
رات میں بھی اک چکر لگا لیا کرنا کبھی کبھی ۔
لالا نے کھیت کی زمین بنائی  ،بیج ڈالا، کھاد ڈال کر سیراب کردی تھی ،اب خود سے چھوٹے کو ہدایات دیے  جارہا تھا ۔دوسرا پانی 20 دن بعد لگانا ہے ۔اور ساتھ میں چھوٹی چھوٹی گھاس پھونس مہینے تک نکالتے رہنا وقفے وقفے سے ورنہ پھلی کی جڑوں کی بڑھوتری رک جائے گی اور جانتے ہو نا جڑیں جتنی پھیلیں گی ،دانہ اتنا ہی اچھا ہوگا اور اچھی قیمت پہ جائے گا ۔
پانچ چھ مہینے بعد میں آکر سنبھال  لوں گا۔۔۔لالا نے تیاری تو پہلے ہی کرلی تھی سو کراچی جاپہنچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھوٹے جیسے تیسے گھر سنبھال رہے تھے۔ بڑا بیٹا پھر بڑا ہوتا ہے خاص کر اس ماں کے لئے جو بیوگی کے بوجھ سے لدی تو پہلے ہی تھی ۔پھر بڑے بیٹے سے جدا ئی فطری محبت کے جذبے پہ کاری ضرب تھی۔
پہلی اولاد سے ویسے ہی بہت محبت ہوتی ہے۔کیونکہ جتنے لاڈ ناز اور خواب پہلی اولاد کے لئے دیکھے جاتے ہیں وہ کسی اور کے نصیب میں آہی نہیں سکتے ۔
کوئی  شریکِ  غم نہ تھا جسے وہ بتاتی کہ اس کا بیٹا اتنی سی عمر میں وہ باتیں بھی سوچتا ہے جو اس کی ماں کوبھی سوچنے کی ضرورت نہ ہوتی اگر شریک سفر نے بیچ راہ میں ہار نہ مانی ہوتی ۔۔۔
وقت سے بہت پہلے بڑا بن گیا تھا اس کا بیٹا ۔۔۔اور شاید بوڑھے بزرگوں کی طرح سوچنے لگا تھا ۔اس کی شرارتیں، اس کی شوخیاں،اس کی دوستیاں گم ہوگئیں تھیں کہیں ۔آنسو ٹپ ٹپ کرکے گرتے جارہے تھے اور وہ بت سی ساکت مرحوم شوہر کی قبر پہ لگے کتبے کو دیکھے جارہی تھی۔
چاہتی تھی کہ بتائے اسے کہ وہ لوگ کتنی مشکلات میں جی رہے ہیں اس کےبنا ۔
لیکن  دنیا کا اصول  ہے کہ اپنا وقت پورا کرکے ہی جانا پڑتا ہے ۔اور اس وقت کی اپنی اپنی مدت مقرر ہے ۔اسے بیماری،تندرستی، جوانی یا بڑھاپے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ،بس جب جہاں مدت پوری ہوئی  سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے جانا ہے ۔
امی ۔۔۔۔امی۔۔۔عریزے نے ماں کو ہلایا جو ساکت سی بیٹھی روئے جارہی تھی۔
ایک تو آپ بھی ناں ابا کو قبر میں بھی سکون سے نہیں سونے دیتیں ۔۔۔۔
کیا سوچیں گے ابا ۔۔
خدانخواستہ آپ کا اتنا رونا اگر ان سے بر داشت نہ ہوا اور آپ کو بھی اپنے پاس بلالیا تو ؟
عریزے مسکرا کر بولی ۔۔۔
امی ہمارا تو خیال کیجیے ذرا۔
اور آپ تو شکر کیجیے کہ آپ کے پاس ہمارے جیسے بچے ہیں ۔
ہائے میں بیوہ ہوگئی  تو میرے پاس تو بچے بھی نہیں ہیں۔
عریزے کھی کھی کرکے منہ پر دوپٹہ رکھ کر بین کرنے کی صورت بولتے ہوئے ہنسنے لگی۔۔۔۔
چپ کر بے شرم لڑکی موقع محل دیکھ کر منہ کھولا کر۔
اس کی امی ڈانٹتے ہوئے بولیں۔قبرستان میں ہنستے نہیں ہیں۔
امی مجھے بتائیں میں ہنسوں تو کہاں؟
گھر میں نہ ہنسو ۔۔۔ ہمسائے میں چچی چچا کیا کہیں گے۔
رستے میں نہ ہنسو۔۔۔۔لوگ سمجھیں گے ہمیں دیکھ کر ہنسی۔
باجی کے گھر نہ ہنسا کر ۔۔۔۔ باجی کے جوان دیور ہیں اچھا نہیں لگتا۔
کھیت میں نہ ہنسو ۔۔۔درخت ہیں سبزہ ہے جنات عاشق ہوجائیں گے۔
اب قبرستان میں کیا یہ مرے ہوئے بھوت عاشق ہونگے مجھ پہ،یہاں  تو ہونے دیں ناں
کچھ نہیں ہوگا یہاں میرے بابا ہیں ناں ۔۔۔
اس نے بازؤوں کو مکمل پھیلا کر قبر کو ان میں سمانا چاہا سر کو قبر پہ رکھ کر اپنا چہرہ قبر کی مٹی پہ رکھ دیا ۔۔۔
اور سرگوشیاں کرتی رہی ،شکایتیں کرتی رہی۔
چہرہ اٹھایا تو اس کے داہنی رخسار پہ مٹی ہی مٹی تھی جبکہ بایاں گال سورج کی براہ راست شعاعوں سے انگارے کی مانند سرخ ہورہا تھا ۔
اس کی سبزی مائل بھوری آنکھوں کا رنگ سورج کی تیز روشنی میں مزید واضح ہوگیا تھا اور آنکھوں میں پانی گویا جھیل سی آنکھوں کو سمندر کرگیا تھا۔۔
وہ رو رہی تھی بالکل برستی بارش کی طرح۔۔۔اس کے چہرے میں ایک ساتھ کئی  رنگوں کی قوس قزاح اُتر آئی  تھی۔۔۔
شاید دھوپ میں بارش ہورہی تھی ۔۔۔۔
نہیں نہیں
شاید
بارش تھی بن بادل کے ۔۔۔
یا بارش میں سورج چمک رہا تھا ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ماریہ خان خٹک
میرا نام ماریہ خان ہے خٹک برادری سے تعلق ہے ۔کراچی کی رہائشی ہوں ۔تعلیم ،بچپن اور دوستوں کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں دوڑتی رہی ہوں ۔ کتابوں کے عشق اور مطالعے کی راہداری کو عبور کرنے کی چاہ میں خود قلم اٹھانے کی لگن ہے ۔طالب دعا ہوں اللہ تعالی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply