ہو فکر اگر خام، تو آزادئ اظہار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ۔۔۔۔
غالباً اقبال کا یہ شعر ہمارے یونیورسٹی کے ایف۔ ایم 104 (ٹھیک سے یاد نہیں) کے داخلی دروازے پہ ایک سٹکر نوٹ کے طور پر چسپاں تھا۔ جب پہلی دفعہ یہ شعر پڑھا تھا تو میں حقیقتاً جھوم جھوم اٹھی تھی, کہ ایسا مبنی بر حقیقت اور اتنی بڑی حقیقت کو اتنے مختصر اور جامع پیرائے میں بیان کرتے اشعار کہنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ خیر یہ کوئی 14,15 سال پرانی بات ہے، جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی تھی۔ پھر فوراً بعد شادی ہو گئی، پھر بچے، گھرداری کی مصروفیت ،لیکن یہ شعر میری یادداشت سے محو نہیں ہو سکا۔
تقریباً چار سال پہلے میں نے سوشل میڈیا پہ اپنا اکاؤنٹ بنایا اور یہ شعر اپنے مکمل مفہوم کے ساتھ ایک حقیقت بن کر میرے سامنے موجود تھا۔ ایک طوفانِ بدتمیزی تھا جو سوشل میڈیا پہ ہر سو برپا تھا۔
سوشل میڈیا کی شکل میں جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس تھما دی گئی ہے۔ جس کسی کو چھ کلمے بھی پورے نہیں آتے ہوں گے، صفتِ ایمانِ مفصل اور مجمل میں فرق بھی معلوم نہیں ہو گا۔ منہ اٹھا کے کبھی انبیائے کرام کی مقدس ہستیوں پہ گستاخانہ جراءت مندی کے ساتھ بیہودہ اور بے سروپا سوالات اٹھانا شروع کردیتا ہے، کبھی کفّار کیلئے جنت کی حلّت و حرمت کو پینترے بدل بدل کر عوام النّاس کو گمراہ کرنے کے شیطانی ہتھکنڈے استعمال کرتے لوگ نظر آتے ہیں۔ کبھی کچھ نہ ملے تو علمائے کرام کو نشانہء دشنام بنا لیتے ہیں۔ کبھی نہایت “معصومیت” کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی احکامات یا مقدس ہستیوں کے متعلق معلومات اور معمولات کو بد نیّتی سے توڑ مروڑ کر اس طرح کے سوالات لے کے سامنے آتے ہیں، جن سے ان کی بد نیّتی اور بد طینتی واضح نظر آتی ہے۔اور کبھی نعوذ باللّٰہ ذاتِ باری تعالیٰ پہ ہی انگلی اٹھانے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے لوگ بھی عام نظر آتے ہیں۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسے لوگ جو بزعمِ خود آزادیء اظہار کے کسی ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے اسی حق کو کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ آپ اللّٰہ کو ربِّ کائنات نہیں مانتے، بھاڑ میں جائیے، یقین مانیں آپ اس کی ربوبیت کا انکار کر کے اس کی عظیم الشان کائنات میں سے ایک تنکے کے برابر اس کی ذات میں یا اس کی صفات میں کسی قسم کی کمی یا بیشی کا باعث نہیں بن سکتے۔ آپ کافروں کو جنت کا حقدار سمجھتے ہیں، ہزار دفعہ سمجھیے۔ ربّ کائنات آپ کا انجام بروزِ حشر انہی کے ساتھ فرمائے، سب مل کے بولیں آمین۔۔ آپ مسلمانوں کو ایک گھٹیا قوم اور کفار کو نہایت اعلیٰ قوم سمجھتے ہیں، ضرور سمجھیے، اور فی الفور اس گھٹیا اور ارزل قوم سے لا تعلق ہو جائیے۔ اور اپنی پسند کے کسی اعلیٰ درجے کے یہودی، عیسائی یا لادین حلقے کا حصہ بن جائیے۔ یقین مانیے امتِ مسلمہ ہرگز آپ کو واپسی کی دعوت نہیں دے گی۔ آپ اسلامی احکامات کو ناقابلِ عمل سمجھتے ہیں، بالکل سمجھتے رہیے۔۔ کہ ایں سعادت بزورِ بازو نیست، تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔۔ لیکن کم از کم ہر دوسرے روز ایک ہی طرح کی فتنہ پرور باتیں، ایک ہی طرح کا شر انگیز پروپیگنڈہ، ایک ہی طرح کے زہر میں بجھے بے سروپا سوالات لے کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان ڈگمگانے کا باعث نہ بنیے۔ اپنی قلبی اور ذہنی غلاظت اپنے تک محدود رکھیے تاکہ آپ کی یاوہ گوئی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے جمہور کی دل آزاری نہ ہو۔ اپنی زندگی پہ آپ کا مکمل اختیار ہے۔ جو جی میں آئے وہ کیجیے۔ لیکن دوسروں کی ہمہ وقت دل آزاری کا حق کسی کو بھی، کسی بھی صورت نہیں دیا جا سکتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں