سیندک کا آنکھوں دیکھا حال ۔ قسط 2۔۔۔۔رشید بلوچ
ہماری 12 رکنی ٹیم 800 فٹ تک کھودی گئی کھائی کے اندر موجود تھی۔ یہ گول نما کھائی تھی جس میں اب بھی مائننگ کا کام بڑی مشینری کے ذریعے جاری تھا۔ ہمارے دوست چائنیز اور مقامی ماہرین سے مائننگ سے متعلق معلومات لینے جت گئے۔ کچھ دوستوں نے کیمرے آن کر کے بڑ بڑانے کا سلسلہ شروع کر دیا تاکہ لی جانے والی معلومات اپنے ناظرین تک پہنچائی جا سکے۔ یوں سمجھ لیں تمام ساتھی ٹولیوں میں بٹ چکے تھے۔
کچھ لمحے گزرنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مائیک اور کیمرے کی جگہ موبائل فون نے لینا شروع کر دی۔ ہر کوئی پوز بنا کر سلیفی لینے میں مگن ہوگیا۔ بھلا ہم بھی کسی سے کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ ہم نے بھی جیب ٹٹول کر موبائل فون نکال لیا۔ اپنے بندر جیسے منہ کے مختلف زاویے بنا کر تصویریں بنا ڈالیں۔ 3 سے 4گھنٹے کھائی میں گزارنے کے بعد ہم گاڑیوں میں بیٹھ کر اسپرنگ کی مانند گول چکر کاٹ کر یہاں سے نکل گئے۔ سیندک کے مقام پر اس طرح کے 2 مزید کنویں کھودے گئے ہیں، تینوں پر بیک وقت کام جاری ہے۔
ایم سی سی کمپنی کی موجودہ این او سی 2022 تک ختم ہو جائے گی۔ انھیں مزید کام کرنے کے لیے از سر نو این او سی درکار ہے۔ کمپنی انتظامیہ نے کہا کہ انھوں نے بلوچستان حکومت کو نئے این او سی کے لیے 3 درخواستیں دی ہیں لیکن تاحال انھیں بلوچستان حکومت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ جب کہ کمپنی مزید مائننگ کرنے کی شدید خواہش مند ہے۔ کمپنی کو حکومت کی جانب سے کانٹریکٹ پر 3 یا 4 سال کے لیے این اوسی جاری کی جاتی ہے۔ آخری بار 2017 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے ایم سی سی کو 5سال کا این او سی دیا تھا۔
اس سے قبل ایم سی سی نے 2013 کو این او سی کے لیے بلوچستان حکومت کو درخواست دی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے ڈھائی سالہ دور حکومت میں کمپنی کو این او سی جاری نہیں کیا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت ختم ہونے بعد نئے آنے والے وزیراعلیٰ نے این او سی جاری کر دیا۔
میں نے سیندک واپسی پر ڈاکٹر مالک بلوچ سے رابطہ کیا اور ان سے این او سی جاری نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔ مسلسل رابطہ و گفت و شنید کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنا ریکارڈ ٹٹول کر مجھے ایک لیٹر وٹس ایپ کے ذریعے ارسال کیا جس میں بلوچستان حکومت نے سیندک سے متعلق اپنے اتحادی نواز حکومت کو لیٹر لکھا تھا۔ اِدھر میں لیٹر کے متن میں جائے بغیر آگے بڑھتا ہوں۔
میں گذشتہ اقساط میں لکھ چکا ہوں کہ سیندک مائننگ کی آمدنی میں 50 فیصد حصہ کمپنی اور 50 فیصد حصہ مرکزی حکومت کو ملنے کا معاہدہ طے ہو چکا ، جب کہ بلوچستان کو مرکز اپنے 50 فیصدی حصہ سے میں سے 2 فیصد حصہ دے رہا ہے۔ یعنی کہ آمدنی کے کل حجم میں سے بلوچستان کے حصے میں 1 فیصد آتا ہے۔ 2 فیصد کے حساب سے سیندک سے بلوچستان کو سالانہ 70 کروڑ کی رائلٹی ملتی ہے۔ ان تمام ادوار میں کل ملا کر اب تک بلوچستان کو 490 کروڑ کی رائلٹی مل چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں آغازِ حقوق بلوچستان کے نام پر ایک پیکج کا آغاز کیا گیا تھا، جس کا مقصد بلوچستان کے احساسِ محرومی کا ازالہ کرنا تھا۔ آغازِ حقوق بلوچستان پیکج میں چند ایک عارضی نوکریوں کے علاوہ اس میں سیندک رائلٹی کو 2 فیصد کو بڑھا کر 5 فیصد کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی ہی حکومت میں 18ویں ترمیم لائی گئی۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو اپنے وسائل، آمدنی اور بعض وفاقی محکمہ جات کو صوبوں کے حوالے کر کے انھیں با اختیار بنانا شامل تھا۔ 18ویں ترمیم کے تحت سیندک کی آمدنی کا حصہ5 فیصد سے بڑھ کار 30 فیصد کر دیا گیا۔
ایک بار اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر صاحب سے اتفاقی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بلوچستان اور بلوچوں پر اپنے احسانات کا لمبا چوڑا یوٹیلٹی بل نکال کر گنوانا شروع کر دیا۔ ازراہِ تکلف میں سامع بنا رہا۔ ان کی لسٹ میں سیند ک رائلٹی بڑھانے کا احسان بھی شامل تھا۔ میں نے ان صاحب کے حضور ایک ہی جملہ پیش کیا، آپ کی طرح ہمارے لیے بھی بھٹو زندہ ہے لیکن ہمارے لیے بھٹو زندہ ہے کا معیار قدرے مختلف ہے۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ سے میں نے پوچھا کہ آپ کے دورِ حکومت 18ویں نافذ ہوئی تھی، سیندک رائلٹی بھی 30 فیصد تک بڑھ گئی تو پھر آپ نے (MCC) کو این او سی کیوں نہیں دی؟
ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے روایتی انداز میں کہا، “نا واجہ مارا کدی ام 30 فیصد نہ رستءَ۔”
مطلب یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو سیندک رائلٹی کی مد میں نہ پیپلز پارٹی نے 30 فیصد دینے پر عمل کیا اور نہ مسلم لیگ ن نے۔ حالاں کہ ن لیگ 5 سال تک نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی قریبی اتحادی رہی اور تادم تحریر یہ دونوں جماعتیں ن لیگ کی اتحادی مانی جاتی ہیں۔ شائد ہماری سیا سی جماعتوں کے آئین میں ثبت شدہ حق لینے کا دم خم معدوم ہو چکا ہے یا اتحادی حکمران اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں کو بغل بچہ بنا کر، نپل منہ میں ٹھونس دیتے ہیں تاکہ بچے کو بھوک لگنے کی صورت میں بہلایا جا سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں