جنوبی پنجاب مسیحائی کا منتظر ہے۔۔۔عمران علی

پاکستان میں طبقاتی نظام روز اول سے ہی عام آدمی کے لیے مسلسل استحصال کا باعث بنا رہا ہے ، برصغیر انگریز کے سامراج سے تو آزاد ہوگیا مگر یہ خطہ مغربی آقاؤں سے نجات کے بعد مقامی وڈیروں، آقاؤں اور تمن داروں کی لپیٹ میں ایسا ا آیا کہ عام آدمی کے لیے آقاؤں کا صرف رنگ بدلا مگر ان کے اطوار اور طرز عمل گورے صاحب سے زیادہ کالے رہے۔

72سالوں سے پاکستانی عوام صا رف اور صرف  امیدوں پر ہی   جی رہی ہے،سیاست دانوں نے عوام الناس کو ایسے ایسے خواب دکھائے کہ بھولی عوام کو ہر نئے چہرے میں اپنا نجات دہندہ اور خیر خواہ نظر آیا، ملک پاکستان میں قدرت کے عطاء کردہ تمام بہترین وسائل موجود ہونے کے باوجود معاشی ترقی کی دگرگوں صورت حال کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ملک پاکستان پر برسر اقتدار رہنے والے حکمرانوں کی عدم دلچسپی نے ہمیں کس نہج پر لاکھڑا کیا ہے، لیکن اگر پورے پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کوئی علاقہ ہوا  ہے تو وہ جنوبی پنجاب ہے۔

دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے لیکن جنوبی پنجاب کے لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں، ہر دور حکومت میں جنوبی پنجاب کی ترقی صرف اور صرف نعروں تک ہی محدود رہی، پورے جنوبی پنجاب میں 4 میڈیکل کالج، 4 اعلیٰ تعلیم کی جامعات 4 ٹیچنگ ہسپتال موجود ہیں، امراض دل کا واحد ہسپتال ملتان میں ہے، جس میں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اس قدر اضافہ ہورہا ہے کہ، مریضوں کو آپریشن کے لیے چھ چھ ماہ تک کا ٹائم دیا جاتا ہے، اسی دوران کئی شدید بیمار مریض تو خالقِ حقیقی سے  جاملتے ہیں۔

یہ وہ چند سہولیات ہیں جو کہ جنوبی پنجاب میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، جنوبی پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے مسائل میں ، ہیپاٹائٹس سی ، پیٹ اور جلد کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

ان تمام مسائل کے ساتھ سب سے بڑا اور بدترین مسئلہ شاہرات کی تشویشناک حالت زار ہے، ملتان، میانوالی روڈ تو مشہور ہی قاتل روڈ کے نام سے ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی  حادثہ ہونا معمول ہے، اب تک ہزاروں افراد ایم ایم روڈ کے حادثات کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں، لوگوں کو یہاں موٹر وے نہیں چاہیے صرف سادہ ون وے روڈ کا مطالبہ ہے یہ لاکھوں قیمتی جانوں کا سوال ہے ،

موجودہ حکومت نے اپنی انتخابی مہم میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، جس پر کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے جناب عثمان بزدار صاحب کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا ،تو یہاں کے باسیوں میں ایک امید کی کرن جاگی کہ شاید اب کی بار علاقے کی تقدیر بدل جائے، یہاں کے لوگوں کی سُنی جائے، بنیادی سہولیات بہتر ہو پائیں، انفراسٹرکچر میں بہتری آئے مگر فی الحال بات دعوؤں سے آگے جاتی نظر نہیں آئی، بہت سے جنوبی پنجاب کے ضلعوں میں اہم انتظامی سیٹوں پر افسران تعینات ہی نہیں ہیں، ایک ایک افسر کے پاس دو دو سیٹوں کا چارج ہے آئے روز افسران کے تبادلے ہونا ایک معمول بن چکا ہے، تبادلوں  کی ایسی برق رفتاری تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتی ،ہمارے پسماندہ علاقوں میں ویسے بھی افسران کا دل نہیں لگتا، جس سے یقینی طور پر عوام الناس کو ہی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن جنوبی پنجاب کے لوگ کیا کریں۔۔
“کسے وکیل کریں،
کس سے منصفی چاہیں”

یہاں کے لوگوں نے تو ہر بار مسیحائی کی امید پر اپنے نمائندے منتخب کیے، کتنی عجیب بات ہے کہ یہاں کی عوام کے ووٹوں پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی صدر، وزیراعظم، سپیکر، سینٹ، گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ تک کے عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود اپنے علاقے کے لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے سے معذور ہوں تو پھر اس عوام کے دکھوں کا مداوا  کون کرے گا، کیا بلند ایوانوں کی چکاچوند  میں آپ کو اپنے اہلیان علاقہ کی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں، ناامیدی کفر ہے لیکن پھر  بھی کچھ تو عملی اقدامات ہوتے نظر آئیں تو کچھ تو ازالہ ہو گا، جنوبی پنجاب کے غیور عوام حقیقتاً مسیحائی کے منتظر ہیں، ارباب اختیار سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور صاحبانِ اقتدار کو اس بار جنوبی پنجاب کی تمام تر محرومیوں کا مکمل ازالہ کرنا ہوگا، کیونکہ ہر 5 سال بعد انتخابی عمل تو ہونا ہی ہے،
اور اب عوام بہت با شعور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی بابت بھرپور سوال کرتی ہے، جتنا مؤثر عوامی فلاح کا کام کیا ہوا ہوگا عوام میں مقبولیت اسی حساب سے ہوگی، حکومت کو چاہیے کہ جنوبی پنجاب میں ہنگامی بنیادوں پر روڈ نیٹ ورک کی تعمیرات و مرمت کا کام شروع کیا جائے، جن اضلاع کے صحت کے مسائل گھمبیر ہیں وہاں پر ٹیچنگ لیول پر  ہسپتالوں کی تعمیر کی جائے، اس خطے میں ملتان کے قریبی اضلاع میں کوئی زیادہ سیریس مریض آجائے تو اسے اکثر و بیشتر ملتان نشتر ریفر کردیا جاتا ہے کیونکہ اکثر ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنیادی دوائیوں کی عدم دستیابی کا شکار ہیں ، اس علاقے میں انڈسٹریل زون بنائے جائیں، یہاں کے نوجوانوں میں تعلیم کا رجحان بے تحاشا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

انکی تعلیمی تشنگی کو پورا کرنے کے لیے اعلیٰ میعار کی یونیورسٹیوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے، نوکریوں کی مد میں جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کے لیے کوٹہ مخصوص کیا جائے اور سب سے بڑھ کر موجودہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا کر اپنا اہم ترین وعدہ بھی پورا کرے ، یہ تمام اقدامات ناممکن نہیں ہیں، ان پر عملدرآمد کرکے نا صرف یہاں کے بسنے والوں کی تکالیف کا مداوہ بھی ہوگا بلکہ مجموعی قومی ترقی کے اہداف کا حصول بھی کافی حد تک ممکن ہو سکے گا۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”جنوبی پنجاب مسیحائی کا منتظر ہے۔۔۔عمران علی

Leave a Reply