یا تو ہم مذہب کے نام پر بےوقوف جلدی بن جاتے ہیں یا ہمارا جذبہ ایمان جاگ جاتا ہے اور اگر نہیں جاگتی تو صرف اور صرف ہمارے سوچنے کی صلاحیت کیونکہ ہم لوگ صرف پیدا ہی ا س لیے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی باتیں سُن کر جذباتی ہوں اور کسی کو بھی کافر کہہ کراُسے موت کے گھاٹ اتار دیں ۔
جمہوری نظام میں احتجاج کرنا سب کا حق ہے اس حق کا استعمال 2013 اور 2014 میں طاہرالقادری صاحب نے کیا اس میں بھی ان کے مرید سڑکوں پر نکلے اور مذہب کارڈ کا خوب استعمال کیا گیا، کسی کو کافر ،کسی کو مرتد اور کسی کو گستاخ رسول بنایا گیا۔
2018 میں خادم رضوی صاحب اپنے مریدوں کو لے کر سڑکوں پر نکلے اور حکومتِ وقت کو للکارا ،اور فتوے پیش کیے ،جس کے بعد پیش آنے والے حالات نے انہیں دوباہ کوئی دھرنہ اور احتجاج کرنے قابل نہیں چھوڑا۔
گو اب مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ بھی بہترین مذہب کارڈ ہے۔۔۔ ان کو فائدہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ مدارس کے طلبہ ہوں گے، جن معصوم بچوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ ا ن کو دھرنوں میں کیوں لایا گیا ہے، پچھلے دھرنوں میں بریلوی مسلک کا پاور شو تھا ،اب مولانا دیوبند مسلک کا پاور شو کروائیں گے، لیکن بہت سے دیوبند مسلک کے علماء ان دھرنوں کے مخالف بھی ہیں۔
بات صرف سمجھنے کی یہ ہے کہ ہم کب ان دھرنوں سے نکلیں گے اور ملک کے لیے کام کریں گے ۔ایک دوسرے پر الزام لگا کر غریب عوام کو اکسایا جارہا ہے۔مذہب کارڈ سے کب ہماری جان چھوٹے گی؟۔۔ کب تک ہم دوسرے کو کافر کہہ کر خود سچے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے رہیں گے؟؟
کراچی کا نوجوان صحافی جو حق و سچ کی تلاش میں سرگرداں ہیں
Facebook Comments
ماشاءاللہ تحریر اچھی ہے ، الفاظ کا چناو بھی بہترین رہا ، لیکن جس چیز کی کمی رہی وہ یہ ہے کہ شروع ہوتے ہی ختم ہوگئی ، تحریر میں تھوڑی تہمید باندھ کر اسکو دلچسپ بنائیں ۔
شکریہ