اکتوبر کا مہینہ اورپاکستان کے فوجی طالع آزما۔۔۔آصف جیلانی

اکتوبر کا مہینہ پاکستان کے لئے بڑا کڑا مہینہ رہا ہے۔قیام پاکستان کے صرف چار ماہ بعد 16اکتوبر 1951کو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان قتل کر دیے گئے اور 24اکتوبر 1954کو گورنر جنرل غلام محمد ملک نے پہلی دستور ساز اسمبلی جوان کے لئے درد سر بن گئی تھی،برطرف کردی۔ یہ سن 58کے اکتوبر کا ساتواں دن تھا جب جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے ملک کے اقتدار پر شب خون مارا اور ملک میں فوجی طالع آزماؤں کا راستہ کھول دیا جس کے ہر لمحہ خطرہ کے خوف سے ملک کے عوام کو اب تک نجات نہیں مل سکی ہے۔ ایوب خان کے گیارہ سالہ فوجی حکمرانی کے بعد ملک نے دو کڑے فوجی ادوار دیکھے جس کے بعد 12اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے طاقت کے بل پر ملک کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ان چار فوجی طالع آزماوں کا مقصد ایک لیکن اقتدار پر قبضہ کے طریق کار مختلف تھے۔

ایوب خان کی منفرد حیثیت تھی، وہ فوج کے سربراہ ہوتے ہوئے کابینہ میں وزیر دفاع بھی تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے اور فوج کی حمایت کی خاطر کمانڈر انچیف ایوب خان کو کابینہ میں شامل کیا تھا۔ ایوب خان نے سیاسی عدم استحکام کا سہارا لیا جو صد ر اسکندر مرزا نے دو سال کے دوران یکے بعد دیگرے چار وزرا اعظم کو برطرف کر کے پیدا کیا تھا۔اسکندر مرزا کا مقصد در اصل آئندہ عام انتخابات میں اپنی نئی سیاسی جماعت ریپلیکن کو برسر اقتدار لانا اور دوسری معیاد کے لئے صدر منتخب ہونا تھا۔اسی منصوبہ کے تحت اسکندر مرزا نے آنا ً فاناً  سر فیروز خان نون کی حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا نافذ کرنے اور آئین کو منسوخ کر کے ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اسکندر مرزا یہ بھول گئے کہ انہوں نے اس آئین کو منسوخ کردیا جس کے تحت وہ اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کی اس فاش غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارشل لا کے تحت اسکندر مرزا کو صدر کے عہدہ سے برطرف کر دیا کیوں کہ ایک نیام میں دو تلواروں کا رہنا ممکن نہ تھا۔ اسکندر مرزا نے پہلے تو ایوب خان کو وزیر اعظم کے عہدہ کی پیش کش کی اور جب ایوب خان نے انکار کیا تو بری فوج اور بحری فوج کے افسر وں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کی سازش بھانپ لی اور 26اور 27اکتوبر کی درمیانی شب کو ایک فوج کے ایک دستہ کے ساتھ اپنے چار جرنیلوں کو ایوان صدر بھیجا جہاں انہوں نے اسکندر مرزا کو سوتے سے اٹھایا اور انہیں طیارہ میں بٹھا کر لندن ملک بدر کردیا۔

کالم نگار:آصف جیلانی

اسکندر مرزا نے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ایوب خان کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر مقر ر کر دیا تھا۔ اسکندر مرزا کی ملک بدری کے بعد ایوب خان نے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کے عہدہ پر مقرر کر دیا۔ یہ اقدام تعجب خیز تھا کیونکہ فیلڈ مارشل کے عہدہ کے لئے ایک جنگ جیتنا لازمی ہوتا ہے جب کہ ایوب خان نے ایک جنگ بھی نہیں جیتی تھی۔ بہرحال 1960میں ایوب خان نے انتخابی کالج کی بنیاد پر ریفرینڈم کرایا جس کے تحت وہ پانچ سال کے لئے صدر کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔
یہ بھی ایک روایت ہے کہ پاکستان میں ہر فوجی دور نہایت سنگین مسایل اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے بنیادی جمہوریتوں کے نظریہ کے ذریعہ جموریت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی مہم شروع کی جسے عوام نے قبول نہیں کیا۔ ایوب خان کا دور صحافت کی آزادی کے لئے مہلک ثابت ہوا اور اسی زمانہ سے میڈیا کو بیڑیوں میں جکڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایوب خان کے اعلی مشیروں، الطاف گوہر اور ایف آر خان کے مشورہ پر پاکستان کے اخبارات پر تسلط کا سلسلہ پاکستان ٹائمز اور امروز کو حکومت کی تحویل میں لینے سے شروع ہوا اور دوسرے اخبارات کو حکومت کی بیڑیوں میں جکڑنے کے لئے پریس ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا۔

ایوب خان کے دور میں ملک کو دو جدا یونٹوں میں تقسیم کیا گیا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان جس میں سارے صوبے زبردستی ضم کر دیئے گئے۔ یوں ملک میں دو یونٹوں کے قیام کا مقصد در اصل ملک کو دو لخت کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اسی زمانہ میں یہ حقیقت آشکار ہوگئی تھی کہ فوج، مشرقی پاکستان کی 51  فی صد کی اکثریت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھی اور فوج اور دوسرے سرکاری اداروں میں 50فی صد حصہ دینے کے لئے آمادہ نہیں تھی۔

ایوب خان کے بعد یحییٰ  خان کو اقتدار کے حصول کے لئے کوئی زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی کیونکہ وہ ایوب خان کے زمانہ ہی میں فوج کے سربراہ کے عہدہ پر فائز ہو چکے تھے۔ ایوب خان نے جب اپنے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی لہر ابھرتے دیکھی تو انہوں نے مستعفی ہو کر راہ فرار اختیار کی اور اقتدار یحییٰ  خان کے حوالے کر دیا۔

یحییٰ خان کا دو سالہ دور پاکستان کی تاریخ میں بیحد مختصر لیکں سیاہ ترین دور قرار دیا جائے گا۔بلا شبہ دسمبر 1970 کے عام انتخابات منصفانہ تھے لیکن ان انتخابات میں عوام نے جو فیصلہ دیا تھا اسے سراسر مسترد کردیا گیا نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت بھڑک اٹھی جسے فوج کی طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان نے اس صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور بنگلہ دیش کی تحریک کی حمایت کے لئے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی مدد کی اور آخر کار مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور ملک دو لخت ہوگیا۔ پاکستان اتنے سنگین المیہ سے گزر گیا لیکن کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ کسی کے خلاف ملک کے ٹوٹنے کے الزام میں مقدمہ نہیں چلا اور نہ کسی کوفوجی شکست کا مورد الزام ٹھہرا کر سزا دی گئی۔

جولائی 1973 میں لندن میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ملک جب دو لخت ہوا تو اس وقت ملک کے صدر اور فوج کے سربراہ یحییٰ خان تھے۔ اتنے بڑے المیہ کی ذمہ داری پر آپ نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ کیوں نہیں چلایا ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے صاف صاف الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ یحییٰ خان کے خلاف کوئی مقدمہ اور کوئی کاروائی نہ کی جائے کیونکہ انہوں نے چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات استوار کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا اور امریکا ان کا احسان مند ہے۔ اگست 1980میں اپنے انتقال تک یحییٰ خان راولپنڈی میں اپنے گھر میں برائے نام نظر بند رہے۔

تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیا نے، ۷۷ کے عام انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک کے نتیجہ میں اور تحریک میں شامل نو جماعتوں کے اتحاد اور بھٹو کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ بھٹو کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد انہوں نے نوے روز کے اندر اندر عام انتخابات کرانے کا پیمان کیا تھا لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہے اور جب مایوس عوام نے جنرل ضیا کا وعدہ پورا نہ ہونے پر فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کی راہ اختیار کی تو اسے طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی گئی۔

بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے جنرل ضیا کے اقدام کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جنرل ضیا کے اقدام کو قانونی قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد جنرل ضیا نے بے دھڑک صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔

اپریل 1978میں احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی کی پھانسی کے بعد ملک میں جب عام انتخابات کے مطالبہ نے زور پکڑا تو جنرل ضیا نے صدر کے عہدہ پر برقرار رہنے کے لئے 1984میں ایک ریفرنڈم کرایا لیکن صرف دس فی صدی ووٹر نے اس میں حصہ لیا اور یوں یہ ریفرنڈم کامیاب نہیں رہا اس کے بعد جنرل ضیا نے غیر جماعتی بنیاد پر انتخاب کرائے اور پارلیمنٹ مجلس شوری کہلائی گئی۔ اس دور میں اسلامی مملکت کے قیام کے لیے بعض سخت قوانین  کے نفاذ کی کوشش کی گئی جس میں کامیابی نہ ہوئی۔ بیشتر صحافیوں کو شکایت ہے کہ اس دور میں ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک رو ا رکھا گیا۔

جنرل ضیا کے دور کا کارنامہ افغانستان میں سویت تسلط کے خلاف جہادیوں کی جنگ اور اس میں کامیابی قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کے معترضین  کی دلیل ہے کہ افغانستان سے سویت یونین کی پسپائی کے سلسلہ میں امریکا اور مغربی طاقتوں کے مقصد میں تو کامیابی ہوئی لیکن اس کے نتیجہ میں پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوئے انہیں قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلحہ کی فراوانی، منشیات کی تجارت میں بے پناہ اضافہ اور ٹرانسپورٹ اور جائیدادوں پر افغانوں کے قبضہ سے جو مسایل پیدا ہوئے ان کو جنرل ضیا کے دور سے وابستہ کیا جاتاہے۔

جنرل مشرف کا اقتدار پر قبضہ کا پس منظر، ذاتی نوعیت کا ہے۔ کولمبو سے وطن واپس آتے ہوئے پرواز کے دوران انہیں جب علم ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں فوج کے سربراہ کے عہدہ سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے نواز شریف کے اس اقدام کو ناکام بنانے کے لیے وطن واپسی سے پہلے ہی اپنے معتمد جرنیلوں کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کاروائی کرنے کی ہدایت کر دی تھی۔ 12 اکتوبر کو وطن واپس آتے ہی جنرل مشرف نے نواز شریف کو جنہوں نے ایک سال قبل اکتوبر 1998میں فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا برطرف کر کے انہیں گرفتار کر لیا اور انہیں سعودی عرب جلا وطن کر دیا۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی اور آئین کو معطل کر کے خود ملک کے چیف ایگزیٹو کا عہدہ سنبھال لیا جس کے بعد لوگوں کی جلد جمہوریت کے جانب روانگی کی امید ختم ہوگئی۔ جنرل مشرف نے آئین میں ترمیم کی اور ججوں کے حلف میں تبدیلی کر کے فوج سے وفاداری کی شق شامل کی۔ پھر 2001میں خود صد ر کا عہدہ سنبھال لیا۔

جنرل مشرف کا دور، 9/11کے بعد دھشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں بھر پور ساتھ دینے اور افغانستان میں امریک کی جنگ میں حصہ لینے کے اقدام کی وجہ سے یاد رہے گا جس کے نتیجہ میں پاکستان کے چوبیس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے اور پاکستان کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہی نہیں اس کے بعد خود پاکستان کو بڑے پیمانہ پر دہشت گردی کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا۔ 2002 میں جنرل مشرف متنازعہ ریفرینڈ میں پانچ سال کے لئے صدر مقرر ہوئے۔

جنرل مشرف نے 2007 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف بڑے پیمانہ پر وکلا کی تحریک شروع ہوئی اس سے گھبرا کر جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی اور آئین معطل کر دیا متعدد ججوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ لیکن وکلا کی تحریک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور آخر کا ر جنرل مشرف کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ 2008کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد جنرل مشرف کے زوال کے نمایاں اشار ے نظر آنے شروع ہو گئے اور پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے اشتراک سے جنرل مشرف کے مواخذے کی تحریک تیز تر ہوگئی جس کے نتیجہ میں جنرل مشرف کو صدر کے عہدہ سے مستعفی ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا اور یوں ان کا نو سالہ دور ختم ہوا اور وہ لندن منتقل ہو گے۔ جہاں انہوں نے اپنی پارٹی قایم کی اور 2013میں وطن واپس آکر سیاست میں قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن عدالت نے انہیں نا اہل قرار دے دیا۔ 2014میں نواز شریف کی حکومت نے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ دایر کیا لیکن ان کے دبئی فرار ہونے کی وجہ سے اس مقدمہ کی سماعت مکمل نہیں ہو سکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہر حال یہ ذکر تھا اکتوبر کے مہینہ کا جو پاکستان میں فوجی طالع آزماوں کے عروج اور زوال سے عبارت ہے۔ یہ مہینہ بھی اکتوبر کا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اسلام آباد یلغار کی خبریں ہیں۔ خدا خیر کرے۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply