• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یورپ نے پاپائیت (ملائیت) سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا۔۔ غیور شاہ ترمذی

یورپ نے پاپائیت (ملائیت) سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا۔۔ غیور شاہ ترمذی

انگلینڈ کے بادشاہ ہنری ہشتم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے روم کی پاپائیت (ملائیت) کو دفن کرکے یورپ کی بیداری اور ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا- ہنری ہشتم ٹیوڈر کے شاہی خاندان میں 28 جون 1491 میں پیدا ہُوا اور محض سترہ / اٹھارہ سال کی عُمر میں 21 اپریل 1509ء میں انگلینڈ کا بادشاہ بنا۔ ہنری چھ فٹ دو انچ کا طویل قامت اور خُوبصورت نوجوان تھا۔ ہنری اپنے اقتدار کے شروع شروع میں کھیلوں کو پسند کرنے والا بالخصوص ٹینس کھیلنے والا، موسیقی کا شوقین بلکہ خُود بھی موسیقار تھا اور کئی طرح کی دُھنیں اور میوزک انسٹرومینٹس بجا لیتا تھا- ادب، آرٹ اور مذہب میں دلچسپی رکھنے والا، دعوتیں دینے کا شوقین اور خُوش مزاج بادشاہ تھا۔ اگرچہ اپنی جوانی کے دِنوں میں ہنری کو اگر کِسی سازش کی بھنک پڑجاتی تھی تو وُہ زیادہ تحقیق کے چکروں میں پڑے بغیر بندے کا سر قلم کرادیتا تھا، ظاہر ہے اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ انسان وُہ کام بھی کر گُزرتا ہے جو عام حالات میں کبھی نہ کرے۔

ہنری کی پہلی شادی کیتھرائین آف ایراگون سے 11 جون 1509 میں ہُوئی۔ دونوں اپنی شادی میں خوش تھے۔ یہ شادی تقریباً چوبیس سال قائم رہی۔ اس سے قبل کیتھرائین آف ایراگون کی شادی ہنری کے بڑے بھائی پرنس آف ویلز آرتھر سے 1501 میں ہوئی اور 1502 میں آرتھر کے مرنے کے بعد کیتھرائین کی نسبت ہنری سے منسوب کر دی گئی تھی۔ کیتھرائن سے ہنری کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ہنری دی ڈیوک آف کورن ویل تھا لیکن یہ بچہ اپنی پیدائش کے کچھ دنوں کے بعد چل بسا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام میری اول تھا۔ یہ بعد ازاں تاریخ میں ”بلڈی میری“ کے نام سے مشہور ہُوئی۔ اس کی وجوہات خالصتاً مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی قتل و غارت گری تھی جو اس نے پروٹیسٹنٹ کو قتل کر کے کی- کیتھرائن آف ایراگون میری اوّل کے بعد ہنری کو کوئی جانشین (بیٹا) نہ دے سکی اور ہنری کا خیال یہ تھا کہ ٹیوڈر خاندان کی انگلستان کے تخت پر بادشاہت کو ایک مرد ہی بہتر طور پر سنبھال سکتا تھا اسی لیے وہ بیٹے کی پیدائیش کا شدت سے منتظر تھا۔

بیٹے کی خواہش رکھنے کے اس تمام عرصے میں بادشاہ سلامت ہنری ہشتم اپنی ملکہ کیتھرین سے بیزار ہو چکا تھا جس کی دریں اثناء وجہ اُس کا دل ایک بے حد حسین لڑکی پر آنا تھا- اور ایسا اکثر ہو جاتا تھا کیونکہ موصوف کافی عاشق مزاج تھے- اِس مرتبہ کا عشق مگر کچھ مختلف تھا، لڑکی کا نام این بولین تھا اور اِس کی بڑی بہن اِس سے پہلے بادشاہ کی گرل فرینڈ رہ چکی تھی۔ این کی عمر اُس وقت بیس سال تھی اور وہ کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی- وہ فرانس میں انگلستان کے سفیر کی بیٹی تھی اور یوں امور سلطنت کے ادب و آداب سے بخوبی واقف تھی- اس کے رکھ رکھاؤ، ناز و انداز، گفتگو اور نشست و برخاست پر ہنری فریفتہ ہو گیا- این بولین نے ہنری کے ساتھ کئی سال دوستی تو قائم رکھی لیکن اس سے آگے کے تعلقات بنانے کی شرط صرف اس سے شادی کی صُورت میں رکھی- ادھر ہنری کے دل میں بھی این سے شادی کر کے سلطنت کا وارث پیدا کرنا اب اُس کی واحد آرزو بن چکی تھی- مگر اس میں ایک رکاوٹ تھی، بادشاہ کی پہلی بیوی، کیتھرین جو اسپین کے ایک طاقتور شاہی خاندان کی بیٹی تھی اور جس کی اپنی بہنیں یورپ کے مُختلف شاہی خاندانوں میں بیاہی ہوئی تھیں- ہنری کوئی بھی بہانہ بنا کر اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا تھا-

دوسری طرف کیتھرین چونکہ ہنری کے بڑے بھائی کی بیوہ تھی اور بعد میں اس کی زوجیت میں آئی اس لئے ہنری کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ اُس نے بھائی کی بیوہ سے شادی کر کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے- یہ حرکت چونکہ بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے لہٰذا خدا اسے بیٹے سے نہیں نواز رہا- عین ممکن ہے یہ تاویل ہی ہو مگر بادشاہ نے اپنے خاص مشیر کارڈینل ٹامس وولسے کے مشورہ پر اسے ہی اپنا سفیر بنالیا اور یہی کیس بنا کر کلیسائے روم کے سامنے بھیجا- ٹامس وولسے کے ذریعہ ہنری نے درخواست کی کہ کیتھرین سے اُس کی شادی منسوخ کی جائے تاکہ وہ این بولین سے شادی کر سکے۔ یہ معاملہ بہت نازک تھا- کلیسا نے ہی تو پہلے ہنری کو آؤٹ آف دی وے جا کر اجازت دی تھی کہ وہ اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کر سکتا ہے اور اب ہنری چاہتا تھا کہ اس شادی کو منسوخ کر کے دوسری شادی کی اجازت دی جائے، یہ ممکن نہیں تھا- کارڈینل ٹامس ناکام لوٹ آیا اور ہنری کے غصے کا نشانہ بن گیا ٹامس نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا سب سے پیارا محل ہیمٹپن کورٹ بھی ہنری کو دے دیا اور کُچھ ہی عرصے بعد کسمپرسی کی حالت میں مرا۔

پوپ آف روم کا ہنری کو انکار اور ہنری کا غصے میں مشتعل ہونا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے انگلش تاریخ کا رخ موڑ دیا کیونکہ یہیں سے بادشاہ اور کلیسا کے درمیان تناؤ شروع ہوا جو بڑھتا ہوا اِس نہج پر پہنچ گیا جہاں ہنری ہشتم نے فیصلہ کیا کہ کلیسائے روم کا اختیار ختم کر دیا جائے۔ ہنری نے رومن کیتھولک چرچ سے بغاوت کردی اور چرچ آف انگلینڈ کو رومن کیتھولک چرچ سے الگ کردیا اور خود اس چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بن گیا- نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ چرچ بادشاہ کے زیر نگیں ریاست کا ایک دینی ادارہ بن گیا جبکہ بادشاہ زمین پر خدا کا نائب مانا گیا۔کلیسائے روم کی اتھارٹی ختم ہو گئی ، آرک بشپ آف کینٹ بری چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بن گیا-بعد میں آرک بشپ نے ہنری ہشتم کی کیتھرین سے شادی کو ختم کرنے کا پروانہ جاری کیا اور سات سالہ دوستی کے بعد این بولین سے جنوری 1533ء میں شادی کرلی-

اس واقعہ کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے کہ انگلستان سے کلیسائے روم کا اختیار ختم کرنے کا سہرا اسی بادشاہ کے سر ہے- مشہور زمانہ یورلی Reformation کی تحریک کی شروعات اسی بادشاہ نے کیں- برطانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز اس کے بعد ہوا۔ انگلستان کے تمام بڑے سائنسدان، ماہر فلکیات، کیمیا دان، ریاضی دان، فلسفی جنہوں نے انگلستان کی ترقی کی بنیاد رکھی اس دور کے بعد کی پیداوار ہیں- شاید ہی کوئی نمایاں نام ہو جو ہمیں 1500ء سے پہلے نظر آجائے- یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس نے انگلستان کو بعد میں عروج پر پہنچایا اور پھر اسی انگلستان کی پیروی دیگر یورپی اور مغربی اقوام نے بھی کی

انگلستان سے کلیسائے روم کا اختیار ختم کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہنری ہشتم غیر مذہبی ہو گیا تھا، وہ رومن کیتھولک ہی رہا، فرق صرف یہ پڑا کہ اُس نے پاپائے اعظم اور رومن چرچ کا مطلق اختیار ختم کر دیا، چرچ آف انگلینڈ بادشاہ کے تابع ہو گیا- نتیجہ یہ نکلا کہ سوچنے اور سوال اٹھانے کی آزادی ہو گئی، سائنسی سوچ اور تنقیدی شعور پروان چڑھنے لگا، کائنات اور انسان کے متعلق معاملات پر نت نئی تحقیق شروع ہو گئی مگر یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا اور نہ ہی ایک بادشاہ کی وجہ سے ہوا، مختلف لوگو ں نے یورپ میں انہی خطوط پر جدو جہد کی جس کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوا۔ دراصل یہ reformationکی تحریک تھی جس نے انگلستان کو علیحدہ موٹر وے پر ڈال دیا اور وہ باقی دنیا سے آگے نکل گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ترقی کرنے کے لئے سائنسی سوچ، تنقیدی شعور، تحقیق اور سوال اٹھانے کی آزادی وہ بنیادی اجزا ہیں جن کے بغیر ترقی ممکن نہی- یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی ملک میں یہ آزادیاں موجود ہوں اور وہ پھر بھی ترقی نہ کر سکے مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک میں یہ بنیادی اجزا ہی نہ ہوں اور وہ دنیا کی سپر پاور بن جائے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں اور علم کا مطلب اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا ہے- جب تک ہم یہ اعتراف نہیں کر لیتے کہ ہم کائنات کے اسرار سے واقفیت نہیں رکھتے اور صدق دل سے ان اسرار کا کھوج لگانے کے لئے کوششیں نہیں کرتے , اس وقت تک ہم ترقی کروانےکے لئے لازمی طور پر درکار سائنسدان اور فلسفی پیدا نہیں کر سکتے۔آج یورپ جس مقام پر کھڑا ہے- اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا, اس کم علمی کو گھٹانے کے لئے مسلسل محنت کی اور پھردنیا نے یہ دیکھ لیا کہ یورپ اور امریکہ نے بےمثال ترقی بھی کی-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply