ہم آوارہ کچھ ہواؤں کی طرح
ہم نرم برف گالوں جیسے
ہم رقصاں دھند لہروں کی طرح
ہم اڑتے اکتوبر نومبر کے زرد پتے
کبھی سڑکوں کبھی باغوں کبھی کوچوں میں ہر سو۔۔
کبھی کسی کے صحن، کبھی کسی کے لان
تو۔۔
کبھی کسی کی چھت پہ سردی اوڑھ کے سو جانے والے
ہم آزاد پنچھی سوچ کے
ہم آباد کسی من کی موج کے
ہمیں کوئی کیسے روک سکے
کہ
ہم فطرت کی کوکھ میں پل کے آئے ہیں
جس میں روح آسمان سے اتر کر آتی ہے
دھرتی اپنا خون پلاتی ہے
جسم اپنا رستہ بناتا ہے
سب کچھ خود ہی ہو جاتا ہے
ہم فطرت کی کوکھ کے پل کے آنے والے
خود کو خدا سمجھ جب لیتے ہیں
خدا خود تب آ بھی جاتا ہے
اور اپنا رنگ دکھاتا ہے
تب
ہم بے بس فطرت کے مارے لوگ
بے چین ہوئے جب پھرتے ہیں
طوفان رستہ بناتے ہیں
ہم کو نگل بھی جاتے ہیں
کبھی جب اوب جائیں تو کسی ساحل پہ پھینک بھی جاتے ہیں
کہ
ہم خود جب خدا بناتے ہیں
بد بو دار ہو جاتے ہیں
لوگوں کو ہم سے گھن بھی آتی ہے
فطرت بھی منہ چڑاتی ہے
پرندے بھی اُڑ سے جاتے ہیں
روح بھی رستہ بناتی ہے
جسم بھی مُکر سا جاتا ہے
آنکھیں بھی کھو سی جاتی ہیں
ہچکی پھر ایک ہی آتی ہے
سب کچھ ساتھ لے جاتی ہے
ہم آزاد سوچ کے پنچھی
تب سمجھ یہ پاتے ہیں
ہم آزاد فطرت کے لوگ
ہم آزاد پنچھی جیسے
ہم آزاد ہواؤں کے باسی
کسی برف
کسی بارش
کسی کیف
سے بھیگ جانے والے
ہم اب آزاد ہوئے ہیں
یا
تب آزاد تھے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں