ہم سوچ کے آزاد پنچھی۔۔۔رابعہ الرَبّاء

ہم آوارہ کچھ ہواؤں کی طرح
ہم نرم برف گالوں جیسے
ہم رقصاں دھند لہروں کی طرح
ہم اڑتے اکتوبر نومبر کے زرد پتے
کبھی سڑکوں کبھی باغوں کبھی کوچوں میں ہر سو۔۔
کبھی کسی کے صحن، کبھی کسی کے لان
تو۔۔
کبھی کسی کی چھت پہ سردی اوڑھ  کے سو جانے والے
ہم آزاد پنچھی سوچ کے

ہم آباد کسی من کی موج کے
ہمیں کوئی  کیسے روک سکے
کہ
ہم فطرت کی کوکھ میں پل کے آئے ہیں
جس میں روح آسمان سے اتر کر آتی ہے
دھرتی اپنا خون پلاتی ہے
جسم اپنا رستہ بناتا ہے
سب کچھ خود ہی ہو جاتا ہے
ہم فطرت کی کوکھ کے پل کے آنے والے
خود کو خدا سمجھ جب لیتے ہیں
خدا خود تب آ بھی جاتا ہے
اور اپنا رنگ دکھاتا ہے
تب
ہم بے بس فطرت کے مارے لوگ
بے چین ہوئے جب پھرتے ہیں
طوفان رستہ بناتے ہیں
ہم کو نگل بھی جاتے ہیں
کبھی جب اوب جائیں تو کسی ساحل پہ پھینک بھی جاتے ہیں
کہ
ہم خود جب خدا بناتے ہیں
بد بو دار ہو جاتے ہیں
لوگوں کو  ہم سے گھن بھی آتی ہے
فطرت بھی منہ چڑاتی ہے
پرندے بھی اُڑ سے جاتے ہیں
روح بھی رستہ بناتی ہے
جسم بھی مُکر سا جاتا ہے
آنکھیں بھی کھو سی جاتی ہیں
ہچکی پھر ایک ہی آتی ہے
سب کچھ ساتھ لے جاتی ہے
ہم آزاد سوچ کے پنچھی

Advertisements
julia rana solicitors

تب سمجھ یہ پاتے ہیں
ہم آزاد فطرت کے لوگ
ہم آزاد پنچھی جیسے
ہم آزاد ہواؤں کے باسی
کسی برف
کسی بارش
کسی کیف
سے بھیگ جانے والے
ہم اب آزاد ہوئے ہیں
یا
تب آزاد تھے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply