روہنگیا کادرد

ہم شنگھائی جانے کے لیے کنیکٹنگ فلائٹ میں تهے،ہمیں سترہ گهنٹےابوظہبی ائیرپورٹ پہ ہی رکنا تها،ناشتہ کرنے اور سستانے کے لیے پریمئیرلاؤنج  میں چلے گئے،مختلف رنگ و نسل کے لوگ لاؤنج میں آجارہے تهے،کها پی رہے تهے اور دهیمی آواز میں مختلف زبانوں میں گپیں لگا رہے تهےاچانک لاؤنج میں بهونچال سا آگیا،کهانے کے کاؤنٹر اور واش روم کےسامنے لائنیں لگ گئیں،دهیمی آواز کی گپیں شور میں بدل گئیں- یہ ایشین دکهائی دیتے مردوزن کا گروہ تها جن کے گلے میں حج کارڈز تهے اور ایک اجنبی زبان بول رہے تهے، اور بنگالی جینیٹورئیل سٹاف کے قابوسے باہر تهے،میل فی میل واش روم کی تفریق ختم کردینا چاہتے تهے-واش روم کی لائن میں لگے ہوئے میں نے ایک عازم حج سے پوچها آپ لوگ کہاں سے ہیں-انہوں نے میری ہی جتنی ٹوٹی پهوٹی انگریزی میں بتایا کہ وہ برمی ہیں،اور ان میں کچھ آسٹریلیا رہتے ہیں-

میں نے فوراً  روہنگیاز کا پوچها،میرے لیے حیرت رہی کے وہ اتنی خوفناک کہانیاں نہیں سنارہے تهے جتنی سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں بلکہ وہ کچھ زیادہ بتانے سے قاصرتهے، اور ان کا انداز بڑا ہلکا پھلکا سا تھا- اگر مجھ سے کوئی ہمارے ملک میں برپا دہشت گردی کی بابت پوچھتا تو میں پوچھنے والے کی آنکھ میں کم ازکم ایک آنسو ضرورلے آتا- لیکن وہاں مکمل سکون تھا-

ان کے چہرے مہرے سے ہرگز نہیں لگ رہا تها کہ ان کے پیچھے  ان کے برادران اسلام بہیمانہ قتل و غارت گری کاشکار ہیں اور یہ انہیں انتہائی دکھ کے عالم میں کسی مجبوری کے تحت   حج  پر روانہ ہونا پڑرہا ہے- میں حیران تھا  کہ   پاکستان کے حلق سے تو غم کی وجہ سے پانی کا گھونٹ بھی نہیں اتر رہا اور رو رو کر انہوں نے سوشل میڈیا پر خون کے آنسوؤں کی نہریں بہارکھی ہیں- کچھ تو یہ چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان کل کی اترتی  آج ہی میانمار میں اترکر روہنگیا مسلم کی جان بخشی کرائیں- ہمیں نجانے کیوں اپنے اردگرد ہوتی بربریت نظر نہیں آتی اور ہم سرحد پھلانگ کر دنیا کے ہرملک کا قبلہ درست کرنے کی خواہش کی آگ میں جلتے رہتے ہیں-

برمیز اور روہنگیاز کے حوالے سے یہ ہے میرا فسٹ ہینڈ اکاؤنٹ- اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کی خبریں ہیں- سوشل میڈیا ہمیشہ کی طرح سستے جذبات کا بیوپاری بنا ہی نظر آتا ہے- ایسی دلدوز تصاویر دکھائی جاتی ہیں کہ کمزور دل کا آدمی موت کے کنارے سے واپس آتا ہے- بین الاقوامی میڈیا روہنگیاز کو مظلوم تو بتاتا ہے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ روہنگیاز مکمل نہتے نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی چیک پوسٹوں پہ حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں-

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روہنگیاز پہ انسانی تاریخ کا بدترین ظلم ہورہا ہے- سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس سارے جھگڑے میں پاکستان کیا کردار ادا کرسکتا ہے- کیا پاکستان کے لیے ممکن ہے وہاں افواج اتارکر روہنگیاز کی جان خلاصی کر سکے- میرا خیال ہے ایسا سوچنا بھی دنیا کے ناممکن ترین کاموں میں سے ایک ہے- ہم نے کشمیر کی بازیابی کا جھنڈا اٹھایا تھا اور اس جھنڈے تلے سارے اسٹریٹیجک گروہوں کو جمع کیا ، کشمیر آج بھی جبر کے پنجے میں ہے اور سارے تزویراتی گروہ پلٹ کر ہم پر ہی وار کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں-

گرم پانیوں کے تحفظ کی قسم بھی ہم نے ہی کھائی تھی ،اس قسم کے بطن سے ملا فضل اللہ نے  جنم لیا اور ہمیں آرمی پبلک سکول پہ آنسو بہا کر ضربِ عضب سے ہوتے ہوئے اور ردالفساد کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا پڑرہا ہے-لوگ نجانے کیوں چونتیس مسلمان ممالک پہ مبنی اسلامی ملٹری اتحاد کو بھی آوازیں دے رہے ہیں-کیا نہیں جانتے کہ یہ فوجی اتحاد اقوام متحدہ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھے گا اور مسلم ممالک کو دہشت گرد تنظیموں سے بچائے گا- اب بتائیے روہنگیاز  کون  ہیں؟ برما کی حکومت دہشت گرد تنظیم ہے؟ یا مسلمانوں کا یہ فوجی اتحاد اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کسی ملک میں فوجیں اتار سکتا ہے؟ برما پہ چڑھائی کرسکتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

برما کی بین الاقوامی شہرت یافتہ سیاست دان آنگ سان سوچی امن کے نوبل انعام  کا تمغہ سجائے ہوئے   ہے اور ایشیاء کی نیلسن منڈیلا بھی   اور آنگ سان سوچی کی روہنگیاز پہ طاری جبر کی رات پہ خاموشی تمغہِ امن اور آنگ سان   کی شخصیت پہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے-ہمیں حقائق نہیں چھپانے چاہییں ، باون اسلامی ممالک کو بیس لاکھ روہنگیاز تقسیم کرلینے چاہییں ، انہیں پناہ دی جائے، امن اور روزگار دیاجائے-یہ بھی اپنی جگہ مقامِ حیرت ہے کہ مغربی میڈیا نہ صرف روہنگیاز کے لیے آواز اٹھا رہا ہے بلکہ آنگ سان سوکی پہ ہونے والی تنقید اور نوبل انعام کی واپسی کے مطالبوں کو بھی خبروں کا حصہ بنا رہا ہے- یوں ہم منہ بھر کر مغربی میڈیا کو نہ دجالی میڈیا کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سازش سازش کا راگ الاپ سکتے ہیں-

Facebook Comments

امجد خلیل عابد
ایک نالائق آدمی اپنا تعارف کیا لکھ سکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply