شاعرہ،ناول نگار اور کہانی نویس امرتا پریتم۔۔۔آفتاب احمد‎

معاشرے کی ساخت دیکھیں تو ہمیں ہر چیز دو حصوں میں بنٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جیسے دن رات، اچھا- برا، سیاہ – سفید وغیرہ۔ سب سے اہم حصہ عورت اور مرد ہیں، جو سماج کے ہر حصے سے متاثر ہیں اور ہر ایک پہلو کو متاثر کرتے ہیں۔ گھر باہر جہاں تک بھی نظر جاتی ہے، ہم عورت مرد کے تنازعہ / تنقید سے مختلف ہو کر سوچ پانا بہت حد تک ناممكن ہے۔ عورت سے تفریق کو تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس سے تھوڑا ہٹ کر سوچیں تو سماج کی کئی پرتیں ایسی دکھائی دیتی ہیں، جہاں عورت نے اپنے ساتھ ہوئے تفرقے کو اپنی منزل کے کے راستے کا روڑآ نہیں آنے دیا۔ تاریخ کے صفحات کےہاشئے پر ہی سہی، پر کچھ الفاظ ایسے ملتے ہیں جہاں عورت ایک مثال بن کر ابھری ہے۔ایسی ہی ایک مثال تھیں امرتا پریتم ،جو پنجابی زبان کی پہلی شاعرہ ،ادیبہ ،ناول نگار ،کہانی نویس تھیں۔

ایسا لگتا ہے تاریخ نے اپنےا وارق پلٹے ہوں ، گھڑی کی سوئیاں تھم گئی ہوں ، ماضی کے دریچے پرت در پرت کھل رہے ہوں۔ وقت، امرتا کے لازوال استعارے کی طرح حیران و پریشان کہیں میرے کمرے میں ہی اٹک گیا ہو۔۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کی کہانی عورت کی کہانی نہیں بنتی لیکن، نسوانیت جب خود اپنی کہانی کے لئے اوزار ڈھونڈتی ہے اور انہیں اپنی راہ بنانے میں استعمال کرتی ہے، تو سماج کی کہانی کی نشاندہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امرتا پریتم کی کہانی کو معاشرے کی کہانی کے صفحات پر پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی شادی کم عمر میں ہوئی۔ یہ واقعہ بھی انہیں زندگی کی رفتار میں روڑا نہیں بن پایا۔ مخالفت کے باوجود ان کا پہلا شاعری- مجموعہ “امرت لہریں” تب شائع ہوا جب وہ محض سولہ سال کی تھیں۔

بچپن میں ایک بار، محبت کے موضوع پر ایک نظم لکھی تووالد نے ان کوخوب ڈانٹا اور الرٹ کیا کی یہ ان کا راستہ نہیں۔ تب ان کو کیا پتہ تھا کی محبت کے قصے کہنا اور محبت میں رہنا ہی ان کا راستہ ہوگا۔ امرتا پریتم کو اس راہ سے کوئی ڈگا نہیں سکا۔ 1936 سے 1960 تک، وہ اپنے شوہر پریتم سنگھ کے ساتھ رہتے ہوئے بھی کبھی گھریلو ڈھانچے میں نہیں ڈھل پائیں۔

ساحر لدھیانوی، دونوں کی پہلی ملاقات 1944ءکے ایک مشاعرے میں ہوئی۔ امرتا کے مطابق اس روز ہونے والی بارش نے محبت کی پہلی آبیاری کی،پھر سگریٹ نوشی بھی ساحر کے چھوڑے ہوئے سگریٹ پی کےشروع کی۔ امرتا پریتم نے ساحر سے منہ موڑا،تو آرٹسٹ امروز کو اپنا جیون ساتھی بنایا۔

انکا ناول ’ پِنجر‘ اسی تقسیم کی خونچکاں داستان کا ایک باب ہے۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں سے اُن کی گہری شناسائی اور سچّی دوستی تھی، اور اُن کی کم و پیش تمام تحریریں شاہ مکھی ( اُردو رسم الخط کی پنجابی) میں مُنتقل ہو چُکی ہیں۔ وہ اِس بات کی خواہاں تھیں کہ دونوں جانب کے پنجابی ادب کو شہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو دونوں جانب کا ادب میسر آ سکے۔

بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتوں تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔

شہرہ آفاق نظم ” اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول”کی خالق شاعرہ امرتا پریتم اگست 1919ء میں گورونانک پورہ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔انکی 1936 ء میں پہلی کتاب “امرت لہراں”چھپی ۔

ایک زمانہ تھا کہ امرتا پریتم کی نظم کا یہ مصرعہ “اج آکھاں وارث شاہ نوں زبان زد خاص و عام تھا۔ اس مصرعے کی گونج ہم آج بھی سنتے ہیں۔یہ گونج اہل پنجاب کے دلوں کی پکار بن کر ابھری تھی۔اس نظم میں کیا ہے ؟ ایک عورت کی پکار اور چیخ، ایک للکار اور بین۔ اس نظم میں پنجاب کی دہائی ہے ، اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج ہے ۔یہاں وارث شاہ وارث شاہ نہیں، اور نہ ہی پکارنے والی امرتا پرتیم ہے ، یہاں پنجاب ہے ، دہائی دیتا ہوا، جلتا ہوا اور خون کے آنسو روتا ہوا۔ پنجاب کے وسنیکوں کے دل کی دھڑکن ہے ۔ امرتا پنجاب کے واسیوں کے دل کی صدا بن کر دبستان شعر میں ابھری اور برصغیر کے ادبی منظر نامے پر چھا گئی۔

امرتا کی درد مندی اور تڑپ اس کی شاعری اور نثر دونوں ہی کا طرہ امتیاز رہی۔ اس درد مندی نے اس کی راست گوئی، دلیری اور محبت پسندی کے رویوں سے تقویت حاصل کی تھی۔ یہ تینوں عناصر اس کے مجموعی فنی رویے کے اجزائے ترکیبی تھے ۔ امرتا پریتم راست گو ہے اور وہ سچ کو بیان کرنے کی خواہش ہی نہیں، طاقت بھی رکھتی ہے ۔ یہ سچ اُتّم اور کھراسچ ہے ۔ یہ ایسا شدید ہے کہ پڑھنے والوں کو ان کی روح تک میں بھگو دیتا ہے ۔ اسے تقویت ملتی ہے امرتا پریتم کی دلیرانہ طبیعت سے جب کہ یہ دونوں عناصر اس کے فراواں اور بے پناہ جذبہ محبت سے مل کر ایک نیا رنگ تخلیق دیتے ہیں۔ ایسا رنگ جس سے لازوال ادب تخلیق ہوتا ہے،جیسا کہ امرتا کا ادب ہے ۔ محبت اس کے ہاں اپنی تمام تر جولانیوں سمیت ظاہر ہوتی ہے ۔

یہ اتنی شدید اور دیوانگی کی ہوتی ہے جو سب کچھ بہا کر لیجاتی ہے ۔یہ محض ایک نشہ نہیں ہے بلکہ ایک جنون ہے جو آپے سے باہر اوربے قابو ہے ۔

امرتا نے اپنے افسانوں میں خواتین کے حقوق اوراُن کی آزادی کے بارے میں لکھا اورمعاشرتی ناانصافی ،جبر ،استحصال کے بارے میں اپنی کہانیوں میں خصوصی ذکر کیا ۔امرتا پریتم کا اصل نام امرت کور ہے۔اُن کے والد کا نام گیانی کرتار سنگھ تھا ۔وہ ایک شاعر تھے اور ایک ادبی رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ امرتا پریتم نے علمی ادبی ماحول میں تربیت پائی اور شاعری کے فن کی پیچیدگیاں اپنے والد سے سیکھیں۔14برس کی عمر میں ہی گیانی کا امتحان پاس کیا ۔لاہور میں رہتے ہوئے انگریزی بھی پڑھ لی ۔آل انڈیا ریڈیو لاہور میں ملازمت اختیار کر لی۔ اُنھوں نے چھوٹی ہی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ اُن کی عمر جب بارہ برس کی تھی، تو ماں کی ممتا سے محروم ہو گئیں۔16برس کی عمر میں اُن کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’امرت لہراں‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کو بہت پسند کیا گیا ۔

رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔

امرتا پریتم کو پاکستان اور اس کے باشندوں سے بڑا پیار تھا۔ وہ بابا فرید، بابا بُلھے شاہ اور وارث شاہ، شاہ حسین جیسے صوفی دانشوروں کا بڑا احترام کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امرتا پریتم کے کمرہ میں ان عظیم ہستیوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ جب کوئی پہلوانوں کے شہر سے ان کی مزاج پرسی کے لیے جاتا تو ضرور پوچھتی کہ گوجرانوالہ کے دال بازار، ٹھاکر سنگھ گیٹ، آرئیناں والی گلی اور گھنٹہ گھر کا کیا حال ہے۔

چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔

پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 2006 میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔

لیکن تقسیم پنجاب کے وقت ہونے والے خونی واقعات نے امرتا پریتم کے دل ودماغ پر قبضہ جمائے رکھا ، خون کی بہنے والی ندیاں پار کرتے ہوئے اس نے خواتین اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار جس طرح سنی اور جس طرح سپرد قلم کی، اِس نے انہیں صدی کی عظیم اور شہرہ آفاق افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نگار بنا دیا۔

امرتا پریتم نے سو سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ کاغذ اور کینوس،خاموشی سے پہلے،ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان،کچے ریشم کی لڑکی،رنگ کا پتہ،چک نمبر چھتیس،ایک تھی سارا،من مرزا تن صاحباں،لال دھاگے کا رشتہ،لفظوں کے سائے،درویشوں کی مہندی،حجرے کی مٹی،چراغوں کی رات، پنجر، کورے کاغذ ،انچاس دن ،ساگراور سپیاں ،ناگ منی ،دل کی گلیاں ،تیراہوں سورج ، نویں رت ،چنی ہوئی کویتائیں ، رسیدی ٹکٹ (آپ بیتی) وغیرہ۔

آخری کتاب، میں تمہیں پھر ملوں گی، نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر 9 سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔ امرتا پریتم بھارتی ایوان کی رکن بھی رہی ،دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 ء میں انہیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے اعتراف پر اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

امریتا نے صرف تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، بلکہ تاریخ کا جبر اور ظلم بھی برداشت کیا۔ تاریخ کو لاش کی طرح دیکھا اور اس تاریخ کے چلتے پھرتے انسانوں کو لاشوں کی صورت میں دیکھا۔ امریتا اس تاریخ کا حصہ بنی، جس نے 1947ء میں لاکھوں انسانوں کو بغیر کسی گناہ کے مار دیا۔ مرنے والوں کے بارے میں منٹو نے کہا تھا۔ “یہ مت کہو کہ ایک لاکھ مسلمان اور ایک لاکھ ہندو مارے گئے۔ یہ کہو دو لاکھ انسان مارے گئے”۔

تقسیم ہند کا قتل عام دیکھتے دیکھتے دلی جا بسی۔ اس انوکھی اور لاڈلی لڑکی کی شادی سولہ سال کی عمر میں پریتم سنگھ سے کردی گئی۔ شادی کے بعد امریتم کور امریتا پریتم بن گئی۔ اب شادی ہوگئی، جس میں امریتا کی مرضی شامل نہیں تھی۔ محبت کے بغیر شادی نے امریتا کو لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دے دیا۔ شادی شدہ تھی، لیکن محبت کر بیٹھی اور وہ بھی اردو ادب کے ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار سے۔ ایسی بے پناہ محبت کی کہ غم اور درد میں اضافہ ہوگیا۔ اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔

یہ 1960 کا زمانہ تھا۔ پریتم سنگھ سے ان کے دو بچے تھے۔ دو بچے تھے تو کیا ہوا، کہتی تھی، محبت تو وہ اس شاعر سے کرتی ہیں، جس کے لئے شوہر سے طلاق لی ہے۔ مرتے دم تک امریتا نے اس شاعر سے محبت نبھائی اور خوب نبھائی۔ کہا جاتا ہے کہ امریتا کو یک طرفہ محبت تھی، لیکن اس شاعر نے بالی وڈ کے لئے جتنے بھی نغمے لکھے، ان تمام نغموں میں امریتا کا عکس تھا۔ وہ شاعر بھی ان سے محبت کرتا تھا۔ اس شاعر نے کسی اور خاتون سے بھی دل لگایا، اس وجہ سے امریتا کا دل ٹوٹا اور ایسا ٹوٹا کہ امریتا دنیا کی عظیم ادبی شخصیت بن گئیں۔

تقسیم کے بعد امریتا پاکستان سے دلی چلی گئیں تو دل پاکستان میں اس عظیم شاعر کے سپرد کر کے آئیں جسے دنیا ساحر لدھیانوی کہتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد امریتا دلی میں براڈ کاسٹر بن گئی، پنجابی میں شاہکار نظمیں، کہانیاں لکھنا شروع کر دیں، اتنی خوبصورت اور حسین شاعرہ تھی کہ نوجوان ان سے ملنے کے لئے ٹرپتے رہتے تھے۔

کئی ایوارڈ سمیٹے، 1986ء سے 1992ء تک بھارتی راجیہ سبھا کی رکن رہی۔ امریتا جب لاہور میں رہتی تھی تو پنجابی ادب میں ان کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ لاہور میں بھی بہت مقبول تھی۔ ان کے نام کے لاہور کے علاوہ پاکستان کے ان علاقوں میں بھی چرچے تھے جہاں پنجابی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔

لاہور کے پاس پریت نگر نام کا ایک علاقہ تھا۔ امریتا کسی تقریب میں یہاں گئی اور محبت کر بیٹھی۔ شاید اس گاؤں میں انہوں نے ساحر کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ امریتا کہتی ہیں کہ ساحر کے لفظوں میں جادو تھا یا اس کی خاموش نظروں کا اثر کہ انہیں ساحر سے عشق ہو گیا۔ لاہور میں جب بھی ان سے ملتا تھا۔ خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا، اور آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتا، اور پھر ایک نیا سگریٹ سلگا دیتا۔

جب وہ چلا جاتا تو سگریٹ کے ٹکڑے وہاں اس کے گھر میں رہ جاتے، وہ ان سگریٹ کے ٹکڑوں کو سنبھال کر الماری میں رکھ دیتی تھی۔ پھر اکیلے میں ایک ایک ٹکڑے کو ہاتھ لگاتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا، جیسے وہ ساحر کے ہاتھ کو چھو رہی ہو۔ ساحر اور امریتا کا مسئلہ یہ تھا کہ دونوں ذاتی زندگی کے بوجھ میں دبے تھے۔ ساحر نے ایک نظم لکھی تھی اور فریم کرا کر امریتا کو بھجوا دی تھی۔ اس نظم کا نام تھا تاج محل۔ امریتا نے مرتے دم تک وہ نظم سینے سے لگا کر رکھی۔ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر۔۔۔ ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق۔۔۔وہ ایک شہرہ آفاق افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نگار تھیں۔

پنجابی زبان کی صدی کی شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا،امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامہ میگزین محفل نے امرتا پریتم پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ 1948 ء سے1959ء تک آل انڈیا ریڈیو میں بطور پنجابی اناؤنسر کام کیا۔مئی 1966 ء سے 2001 ء تک پنجابی رسالے ، ناگ منی، کی ادارت کی ذمہ داری سرانجام دیتی رہی ہیں۔

امرتا کی درد مندی اور تڑپ اس کی شاعری اور نثر دونوں ہی کا طرہ امتیاز رہی۔ اس درد مندی نے اس کی راست گوئی، دلیری اور محبت پسندی کے رویوں سے تقویت حاصل کی تھی۔ یہ تینوں عناصر اس کے مجموعی فنی رویے کے اجزائے ترکیبی تھے۔ امرتا پریتم راست گو ہے اور وہ سچ کو بیان کرنے کی خواہش ہی نہیں، طاقت بھی رکھتی ہے۔ یہ سچ اُتّم اور کھراسچ ہے۔ یہ ایسا شدید ہے کہ پڑھنے والوں کو ان کی روح تک میں بھگو دیتا ہے۔ اسے تقویت ملتی ہے امرتا پریتم کی دلیرانہ طبیعت سے۔ جب کہ یہ دونوں عناصر اس کے فراواں اور بے پناہ جذبہ محبت سے مل کر ایک نیا رنگ تخلیق دیتے ہیں۔ ایسا رنگ جس سے لازوال ادب تخلیق ہوتا ہے۔ جیسا کہ امرتا کا ادب ہے۔

محبت اس کے ہاں اپنی تمام تر جولانیوں سمیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اتنی شدید اور وشال ہے کہ خود اسی کو بہائے لے جاتی ہے۔ یہ محض ایک نشہ نہیں ہے بلکہ ایک جنون ہے جو بے قابو ہے۔ اور اسے بے کل کیے ہوئے ہے۔ اسی جذبے سے بھیگے ہوئے تھے امروز اور ساحر بھی۔ اور شاید انہیں ایسا بنانے والی بھی جیسے کہ وہ اب ہیں، امرتا ہی تھی۔ آج ہم جس امروز کو جانتے ہیں اور جس ساحر سے واقف ہیں وہ اس مصور امروز اور شاعر ساحر سے مختلف ہیں جیسے کہ یہ پہلے تھے اور جو یہ اب بھی اپنی ذات کے ایک ثانوی اور کم اہم پہلو کے طورپر موجود ہیں۔

امرتا کا شماربرصغیر پاک و ہند کے صفِ اول کے پنجابی شعراء اورادیبوں میں ہوتا ہےاوران کے قارئین کی تعداد بلاشبہ کروڑں میں ہے جو بذاتِ خود ایک اعزاز ہے جو کہ کم ہی کسی مصنف کو نصیب ہوتا ہے‘ امرتا پریتم صاف گو اور بے باک شخصیت کی مالک تھیں اورانہوں نے برصغیرپاک و ہند کے اس مشکل معاشرے میں اپنی جگہ بنائی جب بالخصوص متوسط طبقے سے تعلق رکھ کسی خاتون کے لیے ایسا مقام حاصل کرلینا جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔

امرتا کے ہاں محبت ایک تخلیقی جذبہ ہے۔ اسی جذبے کی طاقت سے وہ اپنی دنیا کو اپنی مرضی کے کرداروں سے سجاتی ہے۔ جب کہ ان کرداور ں میں ساحر اور امروز کے ساتھ ساتھ خود اس کا اپنا کردار بھی شامل ہے۔ امرتا ان دونوں کرداروں کی بیک وقت محبوبہ اور عاشق ہے۔ یوں اس نے ان دو کرداروں کے ساتھ ساتھ خود اپنا کردار بھی اپنی طبیعت اور ضرورت کے مطابق تخلیق کیا۔

ساحر لدھیانوی کے ساتھ ان کی محبت کے چرچے ہر جگہ ہوتے ہیں اور اس معاشرے میں شادی شدہ عورت کسی اور سے محبت کرے، یہ کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ امرتا پریتم کی بے حد مضبوط شخصیت نے کبھی بھی کسی بات، تنقید کو اپنی شخصیت پر اثرانداز ہونے نہیں دیا۔ ادب کے ساتھ ان رشتہ اور مظبوط ہوتا گیا۔ساحر لدھیانوی کے ساتھ ان کا معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل تھوڑی بہت ان کی کتاب رسیدی ٹکٹ میں موجود ہے۔ ادبی سفر میں، انہوں نے 28 ناول، متعدد شاعری- مجموعہ، مختصر مجموعہ اور کئی منفرد اصناف کا استعمال کرتے ہوئے کئی کتابیں لکھیں

امرتا پریتم نے ثابت کیا کہ کہ عورت کی ہمت اور حوصلے کو کوئی بھی سزا توڑ نہیں سکتی۔ روایتی راستے ہی منزل تک نہیں لے جاتے، منزل ان راستوں سے ہو کر بھی ملتی ہے جن پر کبھی کوئی چلا ہی نہیں۔ جو راستے باہر سے دیکھنے میں حالات کے برعکس نظر آتے ہیں، حقیقت میں وہ نظروں کا دھوکہ ہوتے ہیں۔

امرتا ایک باغی عورت تھی ، یہ بغاوت بچپن سے ہی اس کے مزاج کا حصہ تھی- اس نے گھر میں آنے والے (مسلمان)مہمانوں کے لیے الگ برتن رکھنے پر بغاوت کی ، باپ کے حفاظتی قلعے کو توڑنے کے لیے اور اپنے خیالی محبوب (راجن) کے لیے بغاوت کی،اور پھر یہ سلسلہ آخری سانس تک چلتا رہا-

امرتا پریتم کا ادبی سفر لگ بھگ 6 دہائیوں پر محیط ہے۔ اس دوران میں وہ ایک کے بعد ایک ادبی معرکہ مارتی رہی اور عالمی اور قومی سطح پر اعزازات حاصل کرتی رہی۔ پنجر،سنیہڑے اور رسیدی ٹکٹ، ایک سے بڑھ کر ایک شاہ پارہ ا س نے تخلیق کیا اور خاص و عام سے داد وصول کی۔

وہ مظلوم عورت کی مضبوط ترجمان بنیں، اپنے قلم کے ذریعے امن اور محبت کا بھی پیغام دیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی امرتا کے چاہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو ایسے الفاظ دیئے، جنہوں نے سننے اور پڑھنے والے کو اپنے سحر سے نکلنے نہ دیا۔

امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔

امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت ظلم و جبر سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی ہو ئی نظرآتی ہے ۔

امرتا نے وارث شاہ کودہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ، اے دکھی انسایت کے ہمدرد تو نے پنجاب کی ایک بیٹی کے المیے پر پوری داستانِ غم رقم کر دی تھی، آج تو ہیر جیسی لاکھوں دُخترانِ پنجاب آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہیں۔

امریتا نے تقسیم ہند کے دوران مرنے والے انسانوں کے درد کو اپنی ایک لازوال اور شاہکار پنجابی نظم میں بیان کیا تھا۔

امرتا پریتم کی سب سے شہرہ آفاق نظم ‘اج آکھاں وارث شاہ نوں’ ہے، اس میں انہوں نے تقسیم ہند کے دوران ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھا ہے۔ کچھ اشعار ذیل میں درج ہیں۔

شاہ مکھی متن

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول

تے اج کتابے عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین

اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا

تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا

جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ

رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ

دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیئاں چون

پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون

اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور

Advertisements
julia rana solicitors

اج کتھوں لے آئیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply