“کاش ایریل شیرون تم سب (فلسطینی) کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیتا” ـ
2017 کی لبنانی فلم “توہین” (The Insult) بظاہر دو عام افراد کے درمیان تصادم کی کہانی ہے ـ اپنی اپنی اناؤں کے اسیر دو عام افراد ـ مگر بظاہر کیونکہ جب ہدایت کار عام نظر آنے والے حالات و واقعات کے پسِ منظر کو دکھاتا ہے، آتشی تاریخ کی راکھ کریدتا ہے، تب کھلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ـ یہ دو مختلف شناختوں و پسِ منظر کے حامل دو ایسے افراد کی کہانی ہے جو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں حالانکہ وہ پہلے کبھی نہیں ملے ـ
ٹونی ہانا؛ دارلحکومت بیروت کا ایک مڈل کلاس مسیحی جو ایک مسیحی شدت پسند جماعت کا پرجوش حامی ہے ـ وہ معروف شدت پسند لبنانی عیسائی رہنما بشیر جمیل کا پرستار ہے ـ بشیر جمیل جو کہا کرتا تھا فلسطینی مہاجرین کو لبنان بدر کیا جائے، انھیں تمام عرب ممالک کے درمیان تقسیم کیا جائے ـ ٹونی ہانا ہر وقت بشیر جمیل کی تقاریر سنتا اور فلسطینیوں سے بے حد نفرت کرتا ایک غصیلا کردار ہے ـ
یاسر سلامہ؛ ایک عمر رسیدہ مسلمان فلسطینی مہاجر ـ وہ بیروت میں ایک تعمیراتی کمپنی کا ملازم ہے ـ جبری مہاجرت کی تلخی اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے ـ وہ سمجھتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں نے محض فلسطینی ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی میں زہر گھول رکھا ہے ـ وہ نفرت سے بھرا ایک ٹائم بم ہے ـ
یہ دونوں کردار ایک دن ٹکرا جاتے ہیں ـ معمولی توتکار ہوتی ہے اور پھر اندر کی نفرت انگڑائی لے کر اس توتکار کو انا کا مسئلہ بنا دیتی ہے ـ معاملہ عدالت پہنچتا ہے ـ مقامی مسیحی اور فلسطینی مہاجر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں ـ اب بات دو افراد کی نہیں رہتی ـ سماجی تضادات، شناخت کا بحران اور مشرقِ وسطی کی سیاسی ثقافت بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے ـ قومی وقار اور گروہی تفاخر داؤ پر لگ جاتے ہیں ـ میڈیا کوریج دو طرفہ نفرت کو بڑھاوا دیتی ہیں ـ نتیجے میں بیروت بدترین فسادات کا عینی شاہد بن جاتا ہے ـ
عدالت میں جرح جاری ہے ـ کیا فلسطینی مہاجرین کا اپنی مظلومیت اور قربانی کو ڈھال بنا کر میزبان لبنانی مسیحیوں کی توہین کرنا جائز ہے؟ ـ کیا مسیحی محض شناخت کو بنیاد بنا کر کسی مہاجر کی دل آزاری کا حق رکھتے ہیں؟ ـ فلم کا درمیانی حصہ ان سوالات کا جواب ڈھونڈھنے ہی والا ہوتا ہے کہ کہانی یوٹرن لے کر ماضی کا رخ کرتی ہے ـ “ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنا چاہیے” مشہور مقولہ ہے لیکن کیا واقعی ماضی کو دفن کرنا آسان ہے؟ـ ماضی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن کر حال پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے منفی و مثبت اثرات سے ہی مستقبل کی راہیں نکلتی ہیں ـ
ٹونی ہانا صرف ایک رائٹ ونگ مسیحی نہیں ہے بلکہ وہ 1975 کی خونی خانہ جنگی کا متاثر ہے ـ وہ اپنے ہی وطن میں مہاجر ہے ـ اس کا بچپن تلخیوں سے عبارت ہے ـ وہ بھول نہیں پاتا کہ اس کے آبائی قصبے پر لیفٹ ونگ کے مسلح افراد نے حملہ کر کے قتلِ عام کیا، اس کے والد کو آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر بیروت بھاگنے پر مجبور کیا ـ اہم بات یہ اس حملے میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے آزادی پسند بھی شامل تھے ـ
یاسر سلامہ بھی صرف ایک فلسطینی مہاجر نہیں ـ اس کی زندگی ہجرت در ہجرت کا مرکب ہے ـ وہ اسرائیلی وحشت کے باعث اردن گیا ـ پھر 1970 کا سانحہ پیش آیا جب اردنی فوج اور پاکستان کے جنرل ضیاالحق نے فلسطینی مہاجروں پر آتش و آہن برسائے ـ یاسر جان بچانے بیروت بھاگ آیا ـ بیروت جہاں 80 کی دہائی میں ایریل شیرون عذاب بن کر اترا ـ
سرمایہ داریت اور سامراجیت نے مشرقِ وسطی کو اتنے چرکے لگائے ہیں کہ طبقاتی و قومی سوال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو چکا ہے ـ مظلوم، مظلوم کے خلاف صف آرا ہے ـ “The Insult” دو عام افراد کی ذاتی انا کی کہانی ہرگز نہیں ہے ـ یہ فلم کی صورت مختلف سماجی گروہوں پر تاریخ کے جبر کا غیر فلمی تجزیہ ہے ـ اس کے اثرات کا ایک غیر فلمی جائزہ ـ
اسکرین پلے تعریف کا مستحق ہے ہی لیکن کمال اس کی ہدایت کاری میں ہے ـ فلم کا بیشتر حصہ عدالتی کارروائی پر مشتمل ہے ـ ایک چھوٹے سے عدالتی کمرے میں مشرقِ وسطی کی خونچکاں تاریخ اور اس کا تجزیہ متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا ہے ـ
ٹونی ہانا اور یاسر سلامہ کو اللہ ڈنو چانڈیو اور اشتیاق دہلوی بھی سمجھا جا سکتا ہے ـ ان کو جیئند بلوچ اور افضل آرائیں کی جگہ رکھ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے ـ یہ اسفندیار وزیر اور شجاعت اعوان بھی ہو سکتے ہیں ـ فرق صرف اتنا ہے ہم اس قدر گہری فلمیں بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں