ہماری فوج اور ہماری معیشت۔۔۔مہرساجدشاد

پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت سے دنیا کی بہت اہم ریاست ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے خطے میں واقع یہ اسلامی جمہوریہ واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے۔ اس کے ایک طرف بھارت واقع ہے جو دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے اور پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان سے دوستانہ ہمسائیگی قائم کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف افغانستان ہے جو مسلم ملک ہے لیکن اس نے پاکستان کے ساتھ کبھی ہم آہنگی نہیں رکھی، افغان روس جنگ میں پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجریں کا بوجھ دہائیوں تک اٹھایا اور آج بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ ہیں، اس کے علاوہ افغانستان کی زیادہ تر تجارت پاکستانی سمندری راستے سے ہوتی ہے اور اسے ٹرانزٹ ٹریڈ کی بہت بڑی سہولت بھی حاصل ہے لیکن افغان حکومتوں نے کبھی پاکستان کیساتھ سازگار تعلقات نہیں رکھے بلکہ اکثر بھارت کیساتھ مل کر پاکستان کیلئے ہر سطح پر ہر طرح کی مشکلات ہی کھڑی کی ہیں۔

پاکستان کی سرحد ایران سے بھی ملتی ہی، اس کے ساتھ تعلقات ایک لمبا عرصہ نہایت اچھے رہے پھر افغان روس جنگ میں جب پاکستان نے امریکہ کی  ایما پر جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا اور امریکہ نے بعد ازاں ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائیں تو پاکستان نے امریکی پابندیوں کو تسلیم کیا، یہ وجوہات پاک ایران تعلقات میں تمام تر خوشگواریت کو دھکیل کر دور لے گئیں ۔

ہمارا ایک ہمسایہ  ملک  چین ہے، جو اس وقت دنیا میں اپنی اقتصادی پالیسیوں اور تجارتی اقدامات کے باعث بہت مقبول ہے ،اسے دنیا بھر میں تجارت کیلئے تیز ترین اور آسان راستہ پاکستان کی صورت میں ہی میسر ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں شاہراہ ریشم اور حال میں اقتصادی راہداری کا منصوبہ سامنے آیا ۔

ایسے حالات میں جب ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل شرانگیزیاں کر رہا ہے، بین الاقوامی بارڈر پر سخت کشیدگی کی صورت حال ہے، افغان بارڈر پر مسلح جتھے حملہ آور ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اسمگلنگ کیلئے ہمہ وقت تیار گروہ سرگرم ہیں، انکے ایجنٹ بلوچستان میں اور ملک کے دیگر علاقوں میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں میں لگے ہوئے ہیں ،ہماری مسلح افواج اور حساس اداروں کو ہر جگہ ،ہر سطح پر ان دشمنوں کا سامنا ہے۔

رینجرز بنیادی طور پر زمانہ امن میں سرحدوں کی امین ہوتی ہے یہ ہماری آنکھیں ہیں ہر خطرے کو دور سے بھانپ لینا اور بروقت اس سے  آگاہ کرنا اس کا کام ہے، اسی طرح ملک میں امن و امان کا مسئلہ بن جائے ،کوئی شورش ہو جائے تو رینجرز کا کام امن کے قیام میں حکومت وقت کی معاونت کرنا ہوتا ہے، حکومت کبھی بھی رینجرز کو انکے بنیادی کام یعنی سرحد سے دور نہیں رکھ سکتی۔ اسی طرح حساس اداروں کا کام ملک میں پھیلنے والی بدامنی کی وجوہات ڈھونڈنا، ملک کی سلامتی کیخلاف سازشوں اور دشمن کے جاسوسی نیٹ ورک کو پکڑنا اور ان پر کڑی نظر رکھنا ہی انکا پیشہ ورانہ کام ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات کے موقع پر ہنگامی حالات میں افواج کا منظم ادارہ حکومت کی معاونت میں عوام کو امداد کی فراہمی اور بحالی کے کام میں مدد فراہم کرتا ہے۔

آج ریاست پاکستان جن حالات سے دوچار ہے ان کا تقاضا ہے کہ یہ تمام ادارے اور رینجرز اپنا کام بھرپور پیشہ ورانہ معیار کے مطابق کریں تاکہ پاکستان کی مسلح افواج دفاع پاکستان کی ذمہ داری بطریق احسن انجام دے سکے۔

چین کی حکومت نے 1998 میں فیصلہ کیا کہ ہم چونکہ اقتصادی قوت بننے کی طرف گامزن ہیں ایسے میں ہمیں غیر ضروری جھگڑوں سے اجتناب برتنا ہے ہر جارحیت سے اپنے حساس اداروں کی پیشہ ورانہ کارکردگی کی وجہ سے بچنا ہےاور اگر کہیں یہ جارحیت درپیش ہو جائے تو اس کا پوری پیشہ ورانہ مہارت سے جواب دینا ہے، اس مقصد کیلئے ہمیں اپنی افواج کی تمام تر مالی ضروریات کو  پورا کرنا ہے، مسلح افواج کو اپنی ضروریات کیلئے مالی سرگرمیوں کے چکر میں پڑنے سے بچانا ہے، لہذا انہوں نے بیس سال کا ہدف مقرر کیا تاکہ افواج اپنی مالی امور کی تمام سرگرمیاں ختم کر سکیں۔ آج اس عالمی اقتصادی قوت چین کی مسلح افواج خالص پیشہ ور افواج ہیں جو ہر طرح کی مالی سرگرمیوں سے پاک ہیں۔

ریاست پاکستان کو بھی اپنے محفوظ اور روشن مستقبل کیلئے ایسی ہی پیشہ ور فوج کی ضرورت ہے جو ہر طرح کی مالی سرگرمیوں سے الگ اپنے کام میں مشغول ہو اور ریاست پاکستان اسکی تمام تر ضروریات پوری کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت بیس سے زائد اہم ترین شعبہ جات کی سربراہی اور انتظامی دیکھ بھال کا  براہ ِ راست ذمہ پیشہ ور سویلین لوگوں کی بجائے مسلح افواج اٹھائے ہوئے ہے، یہ تمام ذمہ داریاں فوری طور پر چھوڑنا ہوں گی تاکہ سویلین حکومتیں اپنا بوجھ خود اٹھائیں ۔ ہماری افواج 50 ارب ڈالر سالانہ سے زائد کی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہے، یہ ادارے مسلح افواج ،ان کے  غازی، شہید اور انکے خاندانوں کی دیکھ بھال اور کفالت کیلئے آہستہ آہستہ بنتے چلے گئے جو آمدن پر ٹیکس سے مستثنی ہیں، فوری طور پر یہ سارے کاروبار قومی سلامتی کونسل کے حوالے کر دینا چاہئیں اور پھر آہستہ  آہستہ حکومت ان اداروں کی نجکاری کر دے، جبکہ مسلح افواج کی تمام تر دفاعی ضروریات حکومت کی ذمہ داری ہیں، مسلح افواج کے تمام شہید غازی اور انکے خاندان ریاست پاکستان کے شہری ہیں انکے بنیادی حقوق کا تحفظ اور انکی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں سے لاتعلق، مالی کاروباری سرگرمیوں سے پاک مسلح افواج ہی تمام تر خطرات اور چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر ریاست پاکستان کو کامیاب فلاحی اقتصادی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
پاکستان زندہ باد
پاک افواج پائندہ باد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply